ایشیا ٹائپ نسخ یا نستعلیق فونٹ میں پڑھنے کے لیے ان ہدایات پر عمل کریں۔
مترجم: حافظ صوفی
١٦ دسمبر ٢٠١٤کے ایکسپریس ٹریبیون میں چھپنے والے ایک اداریہ کا آغاز کچھ یوں ہے۔ ’’پاکستان میں دولت اسلامیہ کی موجودگی اور تنظیمی حیثیت کے بارے میں پریشان کن یا گمراہ کن افواہیں گردش کر رہی ہیں۔ حکومتی وزیروں کا ریکارڈ پر بیان موجود ہے کہ ملک میں دولت اسلامیہ کا کوئی وجود نہیں۔ لیکن کئی جگہوں سے دولت اسلامیہ کے حق میں وال چاکنگ اور چھپے ہوئے مواد ملنے کی اطلاعات ہیں۔‘‘ اداریہ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ ’’ملک میں کئی مقامات پر سالوں مذہبی منافرت کو پروان چڑھایا گیا ہے جو دولت اسلامیہ کے پنپنے کا زرخیز میدان ثابت ہو سکتی ہیں۔‘‘ اور پھر دو مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ ایک تو لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز جن کا کہنا ہے کہ وہ دولت اسلامیہ کی بہت عزت کرتے ہیں۔ اور دوسری مثال جامعہ حفصہ کی کچھ طالبات ہیں جنہوں نے دولت اسلامیہ کی تعریف میں ایک ویڈیو بنائی ہے۔
مذہبی شدت پسندوں کے حامیوں کے نام لینا قابل تحسین ہے۔ اگرچہ اس معاملے میں دونوں مثالوں کا تعلق ایک ہی ادارہ (لال مسجد اسلام آباد ) سے تھا۔ پھر بھی پاکستانی اداریوں اور کالموں میں ایسےگروہوں اور لوگوں کے نام کم ہی لئے جاتے ہیں۔ مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ ایکسپریس ٹریبیون کے مدیران کو انتہا پسندی کے حامی ڈھونڈے کے لئے اپنے آرام دہ دفتروں سے اتنی دور زحمت کرنا پڑی۔ جبکہ انکے اپنے ادارے سے شائع ہونے والے اردو روزنامے ایکسپریس میں دولت اسلامیہ کے دل و جان سے حمایتی لکھاری موجود ہیں۔ جی! آپ نے صحیح پہچانا! عالمی معاشیات کے خود ساختہ ماہر، اسلامی سیاسی تاریخ اور امور روز قیامت پر گہری نظر رکھنے والے مایہ ناز سرکاری افسر جناب اوریا مقبول جان! ملاحظہ کیجئے انکا ١٧ دسمبر ٢٠١٤ کا کالم، تقسیم واضح ہو رہی ہے، جس میں موصوف ہمیشہ کی طرح اک شان بے نیازی سے لکھتے ہیں کہ شام وہ جگہ ہے جہاں ماضی میں اسلام اور کفر کے درمیان بڑی واضح لکیریں کھینچی گئی تھی۔ اس کی بنیاد وہ بناتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت راشدہ کے زمانے میں ہونے والی کچھ تاریخی جنگوں کو جو شام کےعلاقوں میں لڑی گئیں اور مسلمان جن میں فتح یاب ہوئے تھے۔ آگے جا کر دعوی کرتے ہیں: ’’یہ بابرکت سرزمین ایک بار پھر سے شاید آخری بار ایک آخری معرکے میں داخل ہو رہی ہے۔ جو سیدنا امام مہدی کا ہیڈ کوارٹر اور انکا مرکز خلافت ہو گا۔‘‘ جیسا کہ انکا عام طریقه کار ہے اپنی بات میں وزن ڈالنے کے لئے وہ دو احادیث کا حوالہ دیتے ہیں ۔ پہلی حدیث کے مطابق سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (مسلم ) کہ ’’قیامت سے پہلے یہ واقعہ ضرور ہو کر رہے گا کہ اہل روم اہل اسلام سے حلب کے آس پاس جنگ کریں۔‘‘ دوسری حدیث (ابو دا ؤ د) جس کا حوالہ اوریا جان نےدیا وہ یہ ہے: ’’بہترین شخص وہ ہو گا جو ہجرت کر کے اُس جگہ جائے گا جہاں حضرت ابراہیم نے ہجرت کی تھی (یعنی شام )۔‘‘ دوسرے الفاظ میں جہادی جو دوسرے ممالک سے دولت اسلامیہ جا رہیں ہیں وہ مہدی کی فوج میں (نعوذ باللہ) شامل ہو رہے ہیں۔
کچھ ہی دنوں بعد ٥ دسمبر کے مضمون میں جان صاحب روز قیامت کی بشارتوں کو چھوڑ کر سیاسی تاریخ کو موضوع قلم بناتے ہوئے ہراس مسلمان کے خلوص نیَت پرانگلی اٹھاتے ہیں جوامیرالمومنین ابو بکر البغدادی اور اسکے دولت اسلامیہ کے مجاہدوں پر قتل عام کا الزام دھرتا ہو۔ ویسے تو پورا مضمون ہی پڑھنے کے ’’لائق‘‘ ہے لیکن ذرا اختتامی پیرا پڑھیں اور سر دھنیں۔ ’’سیاسیات کےعلم کے تمام اصولوں کے مطابق دولت اسلامیہ ایک ریاست ہے اور مسلمانوں کے نظم اجتماعی کے دعویداروں کے مطابق بھی ریاست کا درجہ حاصل کر چکی۔ لیکن نہ اقوام متحدہ اسے کبھی مانے گی اور نہ ہی آج کے قومی ریاستوں کے مسلمان حکمران۔ ایران میں ۳۸ سال قبل اسلامی انقلاب آیا تھا اور آج تک قائم ہے۔ سیاسیات کے اصولوں کے مطابق قائم ایرانی ریاست اور اسلام کے نظم اجتماعی کے عین مصادق ١٩٨٨ میں ایک حکم نامہ جاری کیا گیا کہ ایران کی جیلوں میں قید مجاہدین خلق کے جتنے بھی لوگ ہیں وہ ملحد اور منافق اور واجب القتل ہیں۔ ان سے پوچھا جائے کہ وہ اپنے خیالات سے توبہ کرتے ہیں تو ٹھیک ورنہ انہیں قتل کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد جنہوں نے توبہ نہیں کی تھی ان قیدیوں کو پھانسی دے دی گئی تھی۔ ان میں عورتیں اور نوجوان لڑکے بھی شامل تھے۔ یہ سب لوگ کلمہ گومسلمان تھے لیکن اسلام کے نظم اجتماعی کے تصور اور موجودہ سیاسیات میں ریاست کے تصور نے انقلابیوں کو ایسا کرنے کا جائز اختیار دے دیا تھا کہ انھیں ریاست کا باغی قرار دے کر پھانسی پر چڑھا دے۔ کیا اس امت کے مفتیان کرام، ماڈرن مسلم فلاسفر اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں کہ سیاسیات کے اصولوں کے مطابق قائم ریاست اور اسلام کےنظم اجتماعی کے اصولوں پر موجود حکومت کہیں اور کسی جگہ اور کسی بھی فقہ کے تحت اگر قائم ہو جائے تو کیا اسے وہ تمام اختیار حاصل نہیں ہو جاتے جو ایرانی انقلابیوں کو حاصل تھے؟‘‘
ایکسپریس ٹریبیون کے اداریہ سے صرف ایک دن پہلے، اوریا مقبول جان نے فی زماننا جمہوری نظاموں کے خلاف ایک لمبا مضمون (دوسرا حصہ) شائع کیا۔ جس میں انکی دلیل تھی کہ اسلامی ریاست کے سربراہ کو چننے کا حق رائے دہی صرف ’’خاص‘‘ لوگوں کو دیا جانا چاہیے۔ اور ایک دفعہ خلیفہ منتخب ہو جائے تو پھر سب مسلمانوں پر اس کی اتباع لازم ہے۔ لکھتے ہیں کہ ایک منتخب خلیفہ کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا اور حسب سا بق ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے البتہ اس مرتبہ ماخذ نہیں بتایا۔ انکے مطابق رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اسقدر سخت ہدایت ہے کہ ’’اگر دو خلیفوں کی لوگوں میں بیعت ہو جائے تو بعد والے کو قتل کر دو۔‘‘
عین ممکن ہے کہ ایکسپریس انگریزی اور اردو اخباروں کے مشترکہ مالک کی طرف سے سخت ہدایات ہوں کہ جو ایک اخبار میں چھپتا ہے وہ دوسرے اخبار میں لکھنے والے نہ پڑھیں۔ کاروباری لحاظ سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ہر اخبارمحض اپنے مالک اور انکے مشیران کے نشانزدہ قارئین کے لئے چھاپے تا کہ اختلافِ رائے سے منافع اندوزی میں خلل نہ پڑے۔
یہی کاروباری ذہنیت دو اور جڑواں اخباروں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ’’جنگ‘‘ اور’’نوائے وقت‘‘ میں جذباتی اور آگ برساتے کالم ’’دی نیوز‘‘ اور ’’دی نیشن‘‘ میں جگہ نہیں بنا پاتے۔ اسی طرح آخرالذکر انگریزی اخباروں میں چھپنے والی متعدل اور معقولیت پر مبنی آراء برادرانہ اردو اخباروں کو چھو کر بھی نہیں گزرتیں۔ اس کی ایک مثال ’’بابائے اسلامی بم‘‘ عبدا لقدیرخان ہیں جن کے کالم دی نیوز اور جنگ میں چھپتے ہیں۔ انگریزی میں انکی تحریریں دبے لفظوں میں ہوتی ہیں لیکن اردو میں لکھتے ہوئے وہ کوئی لگی لپٹی نہیں رکھتے۔ انہی دو اخباروں کے ایک مقبول کالم نگار جناب انصار عباسی نے تو اور بھی آسان راستہ چنا ہے۔ وہ کچھ موضوعات پرصرف اردو ہی میں لکھتے ہیں۔ ان خاص موضوعات کو انگریزی میں پیش بھی کیا جائے تو نعرے بازی کی آنچ دھیمی رکھی جاتی ہے۔
یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں کہ وہ میڈیا ادارے جن سے یہ انگریزی و اردو اخبار وابستہ ہیں وہ اپنے چینلز پر لاتعداد اردو ٹاک شو کر کے خوب پیسا کما رہے ہیں۔ مجال ہے کہ انھیں اداروں کے تحت انگریزی میں چھپنے والی نسبتاََ معتدل سوچ انکے چینلوں میں بھی جگہ پائے۔ مالکوں کو پتا ہے کہ کیا بکتا ہے اور کس زبان میں بیچنا ہے۔
لیکن شاید میں غلط لوگوں پر دل کی بھڑاس نکال رہا ہوں۔ سچ تو شاید یہ ہے کہ اسلام آباد، لاہور اور کراچی کی ’’انگریزی میڈیم‘‘ شہری آبادی چیزوں کو یونہی دیکھنا چاہتی ہے۔ یہ ’’انگریزی میڈیم‘‘ لوگ کون ہیں؟ یہ وہی لوگ ہیں جو اردو میں کسی سنجیدہ موضوع پر بات شروع کرتے ساتھ ہی انگریزی میں بولنے لگتےہیں۔ یہ لوگ اردو اخبار خرید کر پڑھنا تو درکنار، کبھی اتفاق سے اردو اخباراٹھا لیں تو اسمیں چھپی چیزوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انگریزی اخباروں جتنی اہمیت دینے کی بجائے وہ اردو میں چھپی آراء کو دقیانوسی سوچ قرار دے کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ یہ لکھتے ہوئے میں یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، کوئی سنجیدہ بحث، جو اردو اور انگریزی کالم نگاروں کے مابین ہوئی ہو۔ لیکن کوئی یاد نہیں آتی۔ خدا کرے کہ یہ میری یادداشت کا ہی قصور ہو۔
دوسری طرف اگر آپ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ’’انگریزی میڈیم‘‘ پاکستانی، اردو اخباروں کو لیکر کیا بچکانہ سوچ رکھتے ہیں تو دی فرائڈے ٹائمز کا وہ حصہ ملاحضہ فرمائیں جس کا عنوان ہوتا ہے’’اردو پریس کے شگوفے‘‘۔ ۱۹ دسمبر کے شمارے میں کوئی درجن بھر ’’شگوفے‘‘ شامل کئے گئے ہیں۔ سب سے مختصر والے کا عنوان ہے ’’رنڈوا دوسری شادی کے دن فرار‘‘۔ تفصیل اسکی یہ لکھی ہے۔ ’’روزنامہ نئی بات کے مطابق ایک رنڈوا اور تین بچوں کا باپ اپنی دوسری شادی کے روز نارنگ منڈی سے فرار ہو گیا۔ لاہور سے پکڑے جانے پر اسکا کہنا تھا کہ وہ تو شادی کے بارے میں مذاق کر رہا تھا۔ بس یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ کوئی شخص اسے اپنی بیٹی دینے کا رضامند ہوتا ہے؟ پنچایت نے١٠ لاکھ روپے جرمانہ نہ بھرنے پر رنڈوے کی ٹریکٹر ٹرالی ضبط کر لی۔‘‘
اس بات کو تو چھوڑ دیں کہ ’’نئی بات‘‘ کا شمار ان اخباروں میں ہوتا ہے جو جماعت اسلامی کے روشن خیال اور’’لبرل‘‘ حمائتیوں میں پڑھا جاتاہے۔ لیکن جب ملک کا سیاسی، دانشورانہ اور ثقافتی مستقبل داؤ پر لگا ہو تو کیا ’’نئی بات‘‘ کو ’’فرائڈے ٹائمز‘‘ سے اگر زیادہ نہیں تو مساوی سنجیدگی سے لینا لازم نہیں آتا؟
***
سی ایم نعیم یونیورسٹی آف شکاگو میں اردو زبان اور ادب کے پروفیسر امیراٹس ہیں ۔ آپ اینول آف اردو سٹڈیز اور محفل مجلوں کے بانی مدیر رہ چکے ہیں۔
بھئی کب آ رہا ہے؟ انتظار کرتے کرتے کئی ہفتے ہو گئے. اگر ترجمے میں کوئی مشکل پیش آ رہی ہے تو بلا تکلف رابطہ کیجیے. مجھے مدد کر کے خوشی ہو گی، بطور سماجی ذمہ واری
سی ایم نعیم، اردو اور انگریزی میڈیا کے فرق پر۔ ترجمہ حافظ صوفی!… http://t.co/6rg0ma5Gc1
سی ایم نعیم، اردو اور انگریزی میڈیا کے فرق پر
the inimitable C M Naim on the bipolarity of Pakistan’s English and… http://t.co/6WJPkizdjI
I’m grateful to Hafiz Sufi for putting my essay into Urdu so well. A few typos are regretted. Only one sentence needs to be clarified. I wrote: “In the same two newspapers, Ansar Abbasi, another popular columnist, takes an easier way out by writing on certain subjects only in Urdu, avoiding them in English and in general dampening down his rhetorical flourishes.”
I used “subject” in the sense of “topic” or Urdu “mauzuu'”.
C M Naim sb, thank you for your feedback. We have changed “mazameen” to “mauzuaat” in the said sentence. We apologize for minor typos — we have removed some of these errors. Once again, than you for your support and feedback.
TQ team!
Now it’s my turn to thank you for cheerfully putting in all the suggestions I made. Credit still very much belongs to Mr. Sufi. This issue makes for distinctive reading; I’m sending out the link to my Urdu-reading friends.
Thanks and Urdu is our national language.