سیلاب کے بعد | اداریہ

Dec 2012
By M.T.

پانچ سو ہلاک۔ تین ہزار زخمی۔ پچاس لاکھ متاثر۔

یہ اعداد و شمارشاید حقیقت سے کم ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں غریبوں کا شمار نہیں ہوتا ، وہ مربھی جائیں تو شایدریاست نوٹس نہ کرے۔ اس سال کے سیلاب پر بہت تھوڑالکھا گیا ہے ۔ شاید اس لئے کہ کچھ جانیں دوسروں کی نسبت کم قیمتی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں پتہ تک نہیں کہ کل کتنے لوگ مرے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تین ماہ بعد بھی متاثرین امداد کی امید لگائے بیٹھے ہیں ۔ اور شاید اس سال ہماری خاموشی اور گزشتہ سال کی پانچ سو سیلابی ہلاکتوں پرہماری خاموشی یہ بتلاتی ہے کہ ۲۰۱۳ میں پھر سیلاب آئیں گے ۔ اگر ہم اب بھی بات نہ کر سکیں کہ مسلسل تین سال سیلاب کیوں آئے  تو اگلی مرتبہ ہم ان کو روک کیسے سکتے ہیں؟

پس اس سکوت کو توڑنے کی ہماری یہ کوشش ۔

تنقید نے سیلاب کے تین مہینے بعد چھ لکھاریوں کو کچھ لکھنے کا کہا۔ ماجد اختر کہتے ہیں کہ ہمیں سیلابوں کے سماجی پہلو پر توجہ دینی پڑے گی۔ سیلاب محض زیادہ بارشوں کی وجہ سے نہیں ہوتے بلکہ اس میں انسانی ہاتھ بھی ہے۔ مشتاق گاڈی لکھتے ہیں کہ لاکھوں کے ڈوببنے میں ہماری آبپاشی اور انہاری سرکار کی بنائی ہوئی کنالوں کا قصور ہے۔ دانش مصطفٰی کا کہنا ہے کہ طبقہ اہم ہے۔ سماجی قوت سے یہ طے ہوتاہے کہ کون ڈوبے گا اور کتنا۔ احسن کمال نے ریلیف کے ساتھ جڑی ہوئی جلد بازی پر تنقید کی ہے۔ یہ جلد بازی ریلیف کو طویل مدتی تعمیرِنو پر ترجیح دینے کا سبب بنتی ہے۔ عثمان قاضی کے مطابق پاکستانیوں کے مقابلے میں انگریز حکمران پلاننگ کے حوالے سے بہتر تھے۔ اور عون ساہی سیلاب کے کچھ ہفتے بعد جنوبی پنجاب سے رپورٹ دیتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ فوج، سیاسی جماعتوں اور اسلامی گروہوں نے امدادی کاروائیوں سے اپنی تشہیر کا کام لیا ہے۔ تنقید نے وفاقی وزیربرائے سائنس اور ٹیکنالوجی اور بلوچستان کے متاثرہ علاقوں نصیر آباد اور جعفرآباد سے منتخب ممبر نیشنل اسمبلی، جناب میر چنگیز خان جمالی سے بھی گفتگو کی تاکہ صورتحال کا  پتہ لگے۔ اور تنقید ایک ہفتہ جنوبی پنجاب میں گزار کے آئی۔ اس دورہ کی تصویریں دیکھیں۔

ہمارے لکھاری مل کر یہ تاثر دیتے ہیں کہ سیلاب ایسا سانحہ ہے جسے نظر انداز کیا جارہاہے۔ امید ہے کہ ہماری یہ کوشش اس مسئلہ پرگفتگو کا آغاز ہو گی۔

(ماہوش احمد اور مدیحہ طاہر (دسمبر ٢٠١٢ –

ہم اردو ترجمہ اور دوسری مدد  کے لئے فضل رب  لند،  احسن کمال، خالد باجوہ، عمیر رشید، سجاد حسین چنگیزی اور عثمان قاضی کے مشکور ہیں۔ 

Pages: 1 2

Tags: ,

5 Responses to سیلاب کے بعد | اداریہ

  1. Usman Qazi on Dec 2012 at 2:02 AM

    آپ کے خوب صورت برقیاتی رسالے کے نام کی مناسبت سے کچھ “تنقید” پیش ہے. حالیہ شمارے میں شامل مضامین کے نفس مضمون کے حوالے سے بہت سی آراء پائی جا سکتی ہیں. مگر میں اپنی تکنیکی جہالت کے پیش نظر صرف ترجمے کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا. در اصل ہم پسماندہ ممالک کے باسی، ترقیاتی قرضوں اور امداد کے ساتھ ساتھ ترقیاتی تصورات بھی امداد یا قرض دہندہ ممالک یا اداروں سے ہی حاصل کرتے ہیں. اس لئے اس شعبے میں، جسے محترم احسن کمال نے “ڈولپمنٹ انڈسٹریل کامپلیکس” کا بلیغ نام دیا ہے، تمام تر اصطلاحات بھی انگریزی کی ہیں. جیسا کہ محترم کمال صاحب کے تجزیے کے مطابق اس “انڈسٹری” کے ثمرات ایک مخصوص طبقے میں محدود ہے، اسی طرح اس سے متعلق گفتگو اور بحث مباحثہ بھی کم و بیش اسی طبقے کے ارکان کے درمیان ہوتا ہے. چونکہ اس گفتگو میں معاشرے کے دیگر اکثر لوگ جو کم و بیش انگریزی سے نابلد ہیں، حصے دار نہیں، چنانچہ “ترقی” سے متعلق اصطلاحات کے مقامی زبانوں میں ترجمے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی . بلکہ ایک طرح کا غیر رسمی رواج ہے کہ اگر کسی غریب یا ان پڑھ کو اپنی بات اس “انڈسٹری” کے کارپردازان تک پہنچانی ہو تو اسے بھی ان اصطلاحات کو انگریزی میں ادا کرنا سیکھنا پڑتا ہے. پاکستان کے کچھ علاقوں پر اس انڈسٹری کی نظر کرم بوجوہ زیادہ رہی ہے. وہاں کے دیہاتی کم پڑھے لکھے لوگ بھی اب “ولنر ایبلٹی” ، “پارٹی سی پیشن”، “ریلیف”، ریکوری” قسم کے انگریزی الفاظ کا بے تکان استعمال کرتے پاے جاتے ہیں. میری ناقص راے میں “تنقید” اور اس سے وابستہ دوستوں کو با قاعدہ ایک منصوبے کے تحت “ترقی” سے متعلق اصطلاحات کے کم سے کم اردو معیاری متبادلات پر کام کرنا چاہئے. اگرچہ اس سے اس شعبے میں موجود بد عنوانی اور جبر پر اس سے کوئی فوری اثر نہیں پڑے گا مگر ہم جیسے انگریزی دان “ترقیاتی اشرافیہ” کے گنے چنے ارکان کی اجارہ داری کچھ نہ کچھ ضرور کم ہو گی.

    • A.K. on Dec 2012 at 1:31 AM

      قاضی صاحب، بجا فرمایا آپ نے. میں جب اپنےہی لکھے انگریزی مضمون کا اردو ترجمہ کرنے بیٹھا تو ہاتھ پاؤں پھول گۓ. اس میں کچھ قصور تو اپنی نا اہلی کا ہے، مگرہم انگریزی زبان کی سامراجیت کا بھی شکار ہیں. ان اصطلاحات کا اردو اور دیگر مقامی زبانوں میں ترجمہ ضروری ہے. گزارش ہے کہ آپ اپنے اس تنقیدی نکتہ پر مفصل مضمون تحریر کر کے گفتگو کا باقاعدہ آغاز کریں تاکہ بات آگے بڑھ سکے. احسن

  2. […] Editors intro below the fold: English | اردو […]

  3. Nepolean on Jan 2013 at 6:53 PM

    That’s an astute answer to a tricky quseiton

  4. […] کا شمارہ ۲: سیلاب کے بعد […]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *