روزمرہ سیاست اورمحدود نظریہ انسانیت

 ۷ شمارہ 

مترجم : حافظ صوفی

Artist: Tazeen Qayyum | Lure n Kill

مصور: تزئین قیوم | بہلاؤ اور قتل کرو

اگست ٢٠١٠ میں پاکستان کا  لگ بھگ پانچواں حصہ پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔ برطانیہ جتنے حصے پر سیلاب تھا جس نے کوئی ٢ کروڑ افراد کو متاثر کیا تھا– چھوٹے کسانوں، مزدوروں اور غیر مستقل آمدنی والے لوگوں کا سب سے زیادہ نقصان ہوا۔ یو این کی ایک رپورٹ کے  مطابق مون سون کا یہ سیلاب  حالیہ تاریخ کی بد ترین قدرتی آفت تھا۔ں

   سیلاب کی بعد بہت سے بین الاقوامی ادارے   بشمول یو این اور دوسری  انسانی حقوق کی  تنظیمیں  جیسے آکس فیم ،  کیئر اور اکٹڈ مدد کے لئے آگے آئے-جہاں  ان تنظیموں کا کام قابل تعریف تھا  وہیں ان کی مصروفیت اس جانے پہچانے موقف  کو مضبوط کرتی نظر آئی  کہ قدرتی آفات کے  متاثرین کو” بچانے “کیلیے  بیرونی تکنیکی مداخلت ضروری ہے۔ قدرتی آفات  سے نمٹنےکے “آزمودہ ”  طریقے سیاسی اورسماجی حقائق کو پس پشت ڈالتے ہوۓ غیر سیاسی اور  تکنیکی حل پر زور دیتے ہیں۔ عالمی سطح پر بھی یہ طریقے مقبول ہیں کیوں کہ یہ پرائی حکومتوں میں بہتری کے نام پر مداخلت کا بہانہ مہیا کرتے ہیں  قدرتی آفات کو جب نظریہ انسانیت کی آنکھ سے دیکھا جاۓ تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ آفات   جدیدیت کی طرف ایک لکیر  میں گامزن  معاشروں کے راستے میں شگاف ڈال رہی ہیں۔ جو عالمی برادری کی مداخلت سے ہی پر ہو سکتے ہیں۔ں

مسئلہ یہ ہے کہ آفات کو سمجھنے اور ان سے نمٹنے کے مقامی رسم و رواج اکثر انسانی رفاہ عامہ کے کاموں سے مطابقت نہیں رکھتے۔  متاثرین کے تجربات ایک دوسری کہانی بیان کرتے ہیں جو بہت سے لوگوں نے سنی نہیں ہوتی۔ لیکن ان کہانیوں کو سننے سے  پاکستان  کی ناکام لوگ- -ناکام ریاست والی  شبہیہ  کچھ دھندلی  سی ہو جاتی ہے۔ں

مستقل بے یقینی

٢٠١٠ کے پاکستان میں عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ کام کرتے ہوۓ ان حلقوںمیں ہونے والی محدود گفتگو سے میں بہت مایوس تھا- انہی دنوں کراچی کے پاس ٹھٹہ ڈسٹرکٹ کی میں نے ایک تصویر لی تھی۔

Aijazi_text | Issue 7

سندھ میں اینٹوں کا بٹھہ | فوٹو گرافر: عمر اعجازی

یہ سیلاب میں ڈوبے ایک گاؤں کا منظر ہے جس کی وحشت میں اینٹوں کا بھٹہ مزید اضافہ کر رہا ہے۔ یہ بھٹے پاکستان اور خطے کے بہت سے ممالک میں نسل در نسل غلامی اور جبری مشقت کے استعارے ہیں ۔ ٢٠١٣ کے عالمی غلامی اشاریہ کی مطابق موریطانیہ اور ہیٹی کے بعد ملازمت نما غلامی کی جدید اشکال میں پاکستان کا تیسرا نمبر ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق تقریبا ١٨ لاکھ افراد سے جبری مشقت لی جا رہی ہے۔ کچھ دوسرے غیر سرکاری ذرائع اس تعداد کو بیس لاکھ تک بتاتے ہیں۔ کیون بیل نے اپنی کتاب “ڈسپوزبل پیپل : نیو سلیوری ان گلوبل اکانومی ” میں اندازہ لگایا ہے کہ پاکستان کے دیہات میں کم سے کم ساڑھے سات لاکھ بھٹہ مزدور ہیں۔ انکے مطابق اینٹوں کے بھٹوں میں اضافہ کے عوامل ہندو پاک بٹوارہ ، مشینی طریقه زراعت اور شہروں میں ہونے والی سرمایا دارانہ ترقی ہیں۔ لیکن جبری مشقت کے اسباب کو سمجھنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ ہم دوسرے سماجی پہلوؤں جیسے فصلوں پرموسمی اثرات اور مساوی لیبر قوانین کی غیر موجودگی کو بھی مدنظر رکھیں ۔

ان علاقوں میں انسانی حقوق کے جو کام ہوتے ہیں ان کی توجہ خوراک تک رسائی اور کام کاج کی بحالی تک محدود رہتی ہے۔ بھٹوں کے نظام اور اس میں پلنے والی نسل در نسل غلامی کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھائی جاتی۔ دوسرے الفاظ میں وہ عوامل جنہوں نے لوگوں کو غربت میں دھکیلا ان کے بارے میں بات نہیں ہو پاتی – انسانی حقوق کی تنظیموں کے لئے بھٹوں کا نظام ایک پیچیدہ سیاسی مسئلہ ہے جو ان کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ بہت سالوں بعد جب میں اس علاقہ میں واپس گیا تو سیلاب تو اتر چکا تھا لیکن بھٹہ وہیں کا وہیں کھڑا تھا۔

امدادی تنظیموں کے بارے اس تاثر نے کہ یہ غیر جانبدار اور سیاسی وابستگی سے آزاد ہیں ، انہیں جنگ اور قدرتی آفات کے متاثرین تک بلا روک ٹوک رسائی تو دی ہے لیکن انہیں اس کی ایک قیمت بھی ادا کرنی پڑی ہے۔ یہ قیمت اپنے کردار کو محدود کر کے صرف غیرسیاسی طریقوں سے متاثرین کی مدد کرنے کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ نتیجہ عوام کی زندگی میں خطرات اور بے یقینی کےحالات   برقرار رہتے ہیں ۔

———————————————————————————————————————————

وقف نہیں۔ خیرات نہیں۔ باہری امداد نہیں۔ صرف آپکی مدد درکار ہے۔

چندہ دیجیے

———————————————————————————————————————————

بہت سے محققین کا کام یہ ثابت کرتا ہے کہ قدرتی آفات سیاسی نوعیت رکھتے ہیں – اس لحاظ سے کہ ان میں ہونے والی تباہی معاشرے میں پائی جانے والی طبقاتی ناہمواری اور ساختیاتی تشدد کے ساتھ بڑھ جاتی ہے – ورلڈ بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق ٣.٤ ارب لوگ ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں قدرتی آفات کا خطرہ ہے – اندازہ ہے کہ اس میں ترقی پزیر ممالک کا حصہ ١١ فیصد ہے لیکن قدرتی آفات سے مرنے والوں میں ان ممالک کا حصہ تریپن (٥٣) فیصد بنتا ہے – لہٰذا قدرتی آفات جہاں شدید زمینی / موسمی تبدیلیوں کا شاخسانہ ہوتی ہیں وہیں ان کی جڑیں سماج کی تشکیل ، انسان اور اسکی آب و ہوا سے تعلقات اور تاریخی ساختیاتی نظام میں بھی پائی جاتی ہیں۔

قدرتی آفات کے سیاسی پہلوؤں کو دیکھا جائے تو انسانی حقوق کی غیر سیاسی سرگرمیوں اور انکی افادیت پر ایک سوالیہ نشان نظر آتا ہے۔

ایک عموم مزاحمت

سیلاب کے دو سال بعد ، ٢٠١٢ میں ایک محقق کی حیثیت سے مجھے خیبر پختونخوا کے سیلاب زدہ گاؤں میں واپس جانے کا موقع ملا۔ میں نے رہائشیوں سے پوچھا کہ انکے خیال میں سیلاب نے انھیں اتنی بری طرح متاثر کیوں کیا تھا ؟ عام خیالات کے برعکس ، گنتی کے کچھ افراد نے سیلاب کو الله کا عذاب قرار دے کر بات ختم کرنے کی کوشش کی۔ زیادہ تر جواب دینے والوں نے سیلاب کے اسباب کو سماجی ناہمواری ، نا انصافی اور طاقت ور طبقات کی پہنچ سے نتھی کیا ۔

مثلا رہائشیوں کو معلوم تھا کہ رہنے کیلئے نامناسب جگہ ، بنیادی سہولتوں کی کمی اور بڑے شہروں /قصبوں سے دوری نے انکے لئے سیلاب کی شدت میں اضافہ کیا ۔ انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ قرب و جوار میں سرکاری زمین انکی آبادکاری کے لئے بہترین جگہ ہے۔ انٹرویو میں حصہ لینے والے ایک گروہ نے بتایا:۔

ہمارے گاؤں کے پاس ایک تین سو ایکڑ کا ایک فروٹ فارم ہے – یہ سرکاری زمین ہے جسے فوج بہت عرصے سے چلا رہی ہے۔ انگریزوں نے جانے کے بعد یہ زمین فوج کو دے دی تھی۔ وہ اول درجہ زمین ہے۔ اور ہماری آبادکاری کےلئے بالکل مناسب جگہ ، لیکن اسکے چاروں طرف باڑ لگی ہے ، ہم تو وہاں داخل بھی نہیں ہو سکتے۔

Floods issue

تنقید کا شمارہ ۲: سیلاب کے بعد پڑھیے

لیکن رفاہ عامہ کی تنظیموں کے ایجنڈے میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے آباد کاری شامل ہی نہیں۔ سارا زور اس بات پر تھا کہ متاثرین کی موجودہ رہائشوں کو تھوڑا سے بہتر بنا دیا جائے اور کسی طرح وہ اپنی روزمرہ کی مصروفیات پھر سے شروع کر سکیں۔ متاثرین سیلاب سے کہا گیا کہ وہ اپنے گھروں کی بنیادیں اونچی کریں اور پانی کو روکنے کے لیے ریت کے تھیلوں کی مدد لیں ۔ نظریہ انسانیت کی زبان میں متاثرین کی فلاح کیلئےآبادکاری یا انمیں سرکاری زمین کی تقسیم جیسے کوئی الفاظ نہیں ہیں۔

اسی طرح کچھ اور متاثرین نے نکاسی آب کے ناکافی   نظام کو مقامی حکومت کی مکمل ناکامی قراردیا ۔ نچلے علاقوں کے کچھ دیہات نے شکایت کی کہ حال ہی میں مکمل شدہ اسلام آباد –پشاور موٹر وے نے انکے دیہات کو ڈبو دیا ہے۔ کیونکہ موٹروے کے لئے کچھ حصوں کو بلند کیا گیا تھا جس نے پانی کا قدرتی بہاؤ روک لیا۔

بارش بہت ہوئی ! سوات میں بارش اور طوفان تھا ، پہاڑیوں سے پانی انتہائی رفتار سے نیچے آیا پھر دریائے کابل ابل کر دریائے جندھی میں جا گر ا۔ پانی کے پاس گزرنےکا کوئی راستہ ہی نہیں تھا – اوپر سے نئی موٹروے نے راستہ بلاک کر رکھا تھا – سارا پانی اچھل کے ہمارے گھروں میں آ گیا- ندی کے کنارے بھی ٹوٹ گئے۔

جب پوچھا گیا کہ سیلاب کے دو سال بعد اپنی زندگیاں دوبارہ شروع کرنے میں سب سے رکاوٹ کیا رہی ہے ؟ تو بہت سوں کا جواب ایک ہی تھا کہ روزگار کے مناسب مواقع نہیں مل پا رہے۔ کچھ رہائشی، جو شہد کی مکھیاں پالتے تھے ، نے بتایا کہ ان کا چھوٹے پیمانے کا کاروبار بالکل تباہ ہو گیا ہے۔

اور موجودہ بے یقینی کے نظام میں اسے پھر سے کھڑا کرنا بہت مشکل ہے ۔

اس گاؤں میں روایتی پیشہ شہد کی مکھیاں پالنا ہے – زیادہ تر سامان اور مکھیاں توضائع ہو گئی تھیں – اب آہستہ آہستہ دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہول سیل ڈیلر یہاں آتے ہیں ، شہد دیکھ کر اسکی قیمت لگائی جاتی ہے جو کہ کافی کم ہوتی ہے – آگے وہ سعودیہ اور دوسرے عربی ملکوں کو بھاری قیمت پر بیچتے ہیں ۔ ہمارا مال اتنا کم ہوتا ہے کہ ڈیلروں سے بھاؤ کرنے کی گنجائش نہیں – وہ چار سو روپے کلو ہم سے لے کر مقامی مارکیٹ میں ہزار روپے کلو اور سعودیہ کو چار ہزار کلو میں بیچتے ہیں – لیکن ہم مجبور ہیں انکی لگائی قیمت پر ہی بیچنا پڑتا ہے۔

اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ جہاں شہدکی برآمد ایک منافع بخش کاروبار ہے وہیں فری مارکیٹ کی اچھائیوں سے چھوٹے تاجر مساوی اعتبار سے بہرہ مند نہیں ہو پاتے۔ متاثرین کی شکایت تھی کہ حکومت یا امدادی اداروں نے انکے کام کی مناسب اجرت دلوانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ یہ متاثرہ خاندان سمجھتے ہیں کہ سیلاب نے انکی پہلے سے مشکل زندگی کو اور مشکل بنا دیا ہے۔ انھیں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ قدرتی آفت انہیں غربت اور پسماندگی میں جکڑے رکھنے والی سماجی رکاوٹوں میں ایک اور اضافہ ہے۔

———————————————————————————————————————————

پاکستان کی کہانی سنانے میں ہماری مدد کیجیے۔ پاکستان میں ایک آزاد میڈیا کی تشکیل میں ہماری مدد کیجیے۔

چندہ دیجیے

———————————————————————————————————————————

دلچسپ بات یہ ہے کہ متاثرین نے سیلاب کا مقابلہ   چھوٹے چھوٹے سیاسی اقدامات سے بھی کیا ہے۔ جن دیہات میں میر ا جانا ہوا ہے انمیں زیادہ تر چھوٹے کاشتکاروں (مزارعے ) نے مالکوں کی زمین پر عارضی رہائش رکھی ہوئی تھی۔ عام طور پر مزارعو ں کو مستقل رہائش بنانے کی اجازت نہیں ہوتی اس لئے وہ کچے مکانوں میں رہتے ہیں۔ اس سے انمیں مستقل بےیقینی اورمالک کا ڈر رہتا ہے کہ کب انھیں اٹھا کر پھینک دیا جائے۔ لیکن جوں جوں ان مزارعین سے میری شناسائی بڑھی توں توں وہ مجھ سے اپنی زندگیوں میں بہتری اور مستقل پن لانے کی چھوٹی چھوٹی ترکیبیں بانٹے رہے ۔ جیسےکہ کچھ رہائشیوں نے اپنے گھر کا فرش سیمنٹ اور اینٹوں سے پکا کر کے اس پر گارے کا لیپ کر دیا تھا ۔ یہ ان کی طرف سے زمین پر قبضہ کی ایک چھوٹی سی خفیہ کوشش تھی ۔

ادارہ جاتی سیاست کسی قدرتی آفت(جیسے سیلاب ) کے پناہ گزینوں کی روزمرہ مشکلات اور ان سے نبردآزما ہوتی عوامی مزاحمت کا کماحقہ ادرا ک نہیں کر سکتی۔ علوم انسانیات کی ماہر الانا فرییڈمن نے اپنے ایک مضمون “انسانی حقوق کی صورتحال : فلسطینی مہاجر ین اوران کی سیاست” میں رہنے کی سیاست کی تعریف ان لفظوں میں کی  غیر ادارہ جاتی، روزمرہ کی سیاست۔ اپنے حالات کو بہتر بنانےکیلئے چھوٹے پیمانے پر کی جانے والی کاوشیں “- عوامی سرگرمیاں اور ان کے گرد گھومتی مائیکرو لیول کی سیاست ، متاثرین کی لاچار اور بےزبان مخلوق کے طور پر گھڑی شکل کی نفی کرتی ہیں۔ اسکے علاوہ ان سرگرمیوں سے ثابت ہوتا ہے کہ متاثرین جنکو انسانی حقوق کے ادارے   کمزور اور محتاج سمجھتے ہیں اصل میں اپنی مدد آپ کیلئے خاصی بھاگ دوڑ کرتے ہے ۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد بنائے گئے انسانی ترقی کے نمونےکافی بدل چکے ہیں۔ آجکل سارا زور خطرات میں کمی اور کمزوروں کی مدد پر صرف کیا جاتا ہے۔ اس نظریہ کے مطابق تیسری دنیا کے ممالک کی اکثریت مصیبتوں اور خطرات سے بھرے علاقے ہیں جہاں قدرتی آفات بھی آنے کو تیار رہتی ہیں۔ جدید ادویات اور عالمی برادری کی مدد کے بل بوتے پر مغربی ممالک متاثرہ علاقوں میں اپنی تکنیکی مداخلت کو جائز سمجھتے ہے۔ حقیقت میں یہ مداخلت کبھی غیر جانبدار نہیں ہوتی ، پھر جس غیر سیاسی سماجی اخلاقیات کو یہ جنم دیتی ہے اس سے تو انسانی حقوق کی نوعیت ، افادیت اور مقصدیت پر سوال کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پاکستانی سیلاب کی مثال لیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ انسانی حقوق کے عالمی نظام کے پاس متاثرین کیلئے بمشکل زندہ رہنے کے ٹوٹکوں کے علاوہ وہ تھوڑی بہت امداد تھی جسے لیکر لوگ پھر سے بےیقینی سے بھرے ظالم نظام کے اندر رہنے کا کسی طرح بندوبست کر سکیں۔ یعنی انسانی حقوق کا مقصد بس زندہ بچانا ہے ، سماجی تبدیلی لانا نہیں۔ سیلاب زدگان کی زندگی کو قریب سے دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ استحصال اور قبضہ گیری کا شکار ہوتے ہوۓ بھی وہ اپنے حالات کو سیاسی نظام کا شاخسانہ سمجھتے ہیں ۔ اسی لئے انکی مزاحمت بھی سیاسی رنگ رکھتی ہے جس کا مقصد اپنی زندگیوں میں باعزت  قبل قدر بہتری لانا ہوتا ہے ۔

 

عمر اعجازی یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا میں پی ایچ ڈی کے امیدوار ہے۔ ان کی تحقیق کا موضوع شمالی پاکستان میں آفات کے بعد سماجی بحالی ہے ۔ پڑھائی کی طرف واپس آنے سے پہلے عمر ٢٠١٠ کے مون سون سیلاب میں انسانی حقوق کی تنظیموں کیساتھ کام کر چکے ہیں ۔

Tags: , ,

2 Responses to

روزمرہ سیاست اورمحدود نظریہ انسانیت

  1. […] عمر اعجازی نے سیلاب اور امدادی کاموں میں رکاوٹ کے بارے میں لکھا ہے۔ سونیا قادر سپریم کورٹ کے سٹیل مل کیس   میں دئیے فیصلے کو پڑھتی ہیں اور یہ اخذ کرتی ہیں کہ اگرچہ اس کے نتیجے میں فی الحال نج کاری روکی گئی ہےپھر بھی یہ فیصلہ نیولبرل منطق ظاہر کرتا ہے ۔ سارہ سہیل سندھ میں عورتوں کی جبری مشقت کو نسل پرستی کے تناظر میں دیکھتی ہیں ۔ اگر ان سکالرز نے استبداد کے طریقوں پر بحث کی ہے تو باقیوں نے اس کے خلاف مزاحمت– اور مسائل جو مزاحمتی تحریکوں کو ختم کرنے میں حائل ہوتے ہیں کے بارے میں اپنی رائے پیش کی ہے ۔ عائشہ عمر ہزارہ کے دھرنوں کے دوران   کئے گئے انٹرویو اور نسلی جغرافیہ کی بنیاد پر اپنا تجزیہ پیش کرتی ہیں ،جبکہ کاٹجا میلک کچی آبادیوں کے طویل احتجاجوں کی کہانی سناتی ہیں ۔ نادیہ حسن نے ایک اور طرح کی تحریک کے بارے میں تحقیق کی ہے: پاکستانی امیر خواتین کی جانب سے الھدی جیسی مذہبی تنظیموں کا قیام۔ دو نوجوان سکالر پاکستانی سینما کے بارے ایک مطالعہ پیش کرتے ہیں: رابعہ مرتضی پاکستانی سینما میں یادداشت اور ماں کے بارے، اور حرا ا نبی سینما بارے لوگوں کے تاثر اور خوف پر بحث کرتی ہے۔ عاصم سجاد اختر اپنے مضمون میں طاقت کی سیاست کا جائزہ لیتے ہیں۔ […]

  2. […] عمراعجازینے سیلاب اور امدادی کاموں میں رکاوٹ کے بارے میں لکھا ہے۔سونیاقادرسپریم کورٹ کے سٹیل مل کیس   میں دئیے فیصلے کو پڑھتی ہیں اور یہ اخذ کرتی ہیں کہ اگرچہ اس کے نتیجے میں فی الحال نج کاری روکی گئی ہےپھر بھی یہ فیصلہ نیولبرل منطق ظاہر کرتا ہے۔سارہ سہیلسندھ میں عورتوں کی جبری مشقت کو نسل پرستی کے تناظر میں دیکھتی ہیں۔ اگر ان سکالرز نے استبداد کے طریقوں پر بحث کی ہے تو باقیوں نے اس کے خلاف مزاحمت–اور مسائل جو مزاحمتی تحریکوں کو ختم کرنے میں حائل ہوتے ہیں کے بارے میں اپنی رائے پیش کی ہے۔ عائشہ عمرہزارہ کے دھرنوں کے دوران کئے گئے انٹرویواورنسلی جغرافیہ کی بنیاد پراپنا تجزیہ پیش کرتی ہیں، جبکہکاٹجامیلک کچی آبادیوں کے طویل احتجاجوں کی کہانی سناتی ہیں۔نادیہ حسننے ایک اور طرح کی تحریک کے بارے میں تحقیق کی ہے: پاکستانی امیر خواتین کی جانب سے الھدی جیسی مذہبی تنظیموں کا قیام۔ دو نوجوان سکالر پاکستانی سینما کے بارے ایک مطالعہ پیش کرتے ہیں:رابعہ مرتضیپاکستانی سینما میں یادداشت اور ماں کے بارے،اورحرانبیسینما بارے لوگوں کے تاثراورخوف پر بحث کرتی ہے۔ عاصم سجاداختر اپنے مضمون میں طاقت کی سیاست کا جائزہ لیتے ہیں۔ […]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *