Floods are not (just) natural

Dec 2012

سیلاب (صرف) قدرتی نہیں ہوتے | ماجد اختر

ترجمہ: احسن کمال

English | اردو

سیلابی آفت سماجی بھی ہے اور قدرتی بھی۔ اس کا مقابلہ مکمل طور پر کرنا چاہیے۔

یوں لگتا ہے کہ سیلاب تب آتے ہیں جب قدرت اپنے معمول سے تجاوز کر جائے۔ ایسی صورت میں شاید بہترین ردِعمل یہی ہو کہ جلد از جلد قبل از صدمہ حالاتِ معمول کی جانب لوٹا جائے۔

پاکستانی ریاست کا سیلابوں کے بارے میں یہی رویہ ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این۔ڈی۔ ایم۔اے) کی  دستاویز ، نیشنل مون سون ہنگامی پلان۲۰۱۲، میں اس بات پر زور ہے کہ سیلاب کو  کنٹرول کرنے والے انفراسٹریکچر (بنیادی ڈھانچے) کی مرمت کی جائے اور ہنگامی امداد کی اشیاء جمع کی جائیں۔ بین الاقوامی ڈونر کمیونٹی کا ردِعمل بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ان کا زوراس بات پرہوتا ہے کہ متاثرین تک مالی امداد جلد از جلد پہنچائی جائے تاکہ حالات معمول پر آجائیں۔

اگرچہ یہ نقطۂ نظر مناسب لگتا ہے پراس کی جڑ میں ایک ناقابلِ دفاع مفروضہ ہے۔ وہ یہ کہ قدرت سوسائٹی سے الگ اور جدا ہے اور یہ ایک ایسی قوت ہے جو سوسائٹی پرباہر سے اثر انداز ہوتی ہے۔ لیکن قدرت اور سوسائٹی کوئی الگ الگ چیزیں تو نہیں۔

مثلاََ آپ نہری آپریشن اور دریائے سندھ کی گاد (سلٹ) کے بارے میں سوچیں۔ یہ گاد دھول اور چکنی مٹی سے بنتا ہے جو ہمالیہ کی چٹانوں سے ٹوٹ کر دریائے سندھ میں شامل ہوتی ہے۔ ہر سال اندازاََ 65 کڑوڑٹن گاد دریائے سندھ کے ذریعے پاکستان پہنچتاہے۔ عام حالات میں نہروں کا پانی وقتاََ فوقتاََ اپنے دھانوں سے نکل کرگاد کو سیلابی میدانوں میں اگل دیتا ہے۔ مگر سندھ طاس میں ریاست کی پالیسیوں کے سبب سارے کا سارا گاد نہروں میں بیٹھ جاتا ہےاور نہروں کی نچلی سطح آہستہ آہستہ بلند ہونے لگتی ہے۔ توپہلے کی نسبت کم مقدار پانی بھی سیلاب بن جاتا ہے۔ اس طرح سیلاب آنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

چناچہ بارشوں کا حد سے زیادہ ہوناہی سیلاب آنے کی وجہ نہیں۔ یعنی اس کے پیچھے کوئی ایسی قدرتی قوتیں نہیں جوباہر سے سوسائٹی پر اثر انداز ہوں۔ بلکہ سیلاب آنے میں سماجی نظام کا بھی کردار ہے۔

اسی طرح گاد اقتصادی تعلقات کو بھی تبدیل کرتا ہے۔ گاد بھرنے سے نہری پانی کی ترسیل غیر موئثر ہو جاتی ہے اور اس کا زیادہ نقصان نہروں کے آخری سرے پر موجود کھیتوں کو ہوتا ہے۔ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (یو۔ای۔ٹی) کے ڈاکٹر محمد لطیف کی تحقیق کے مطابق پنجاب میں نہروں کے آخری سرے پر موجود کھیتوں کی پیداوار اب آدھی ہو چکی ہے۔ سیلاب سوسائٹی سے باہر کوئی علیحدٰہ شہ نہیں۔ بلکہ یہ دریائے سندھ کے اردگرد قائم ایک پیچیدہ سماجی تعلقاتی نظام کا حصہ ہیں۔

صفحات: ١  ٢

Pages: 1 2 3 4

Tags: , ,

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *