کتنا برسے کہ زنگ دھل جا ئے

۶ شمارہ

HASHMI_Beware the Buyers. 1999

نیو یارک کا آسمان منظر کو اپنی لپیٹ میں لیے تھا۔ پیچھے سنٹرل پارک کا سبزہ چھت کو تصویر کے فریم کی طرح جکڑے ہوئے تھا۔ عمران قریشی نےخون کے لال آکریلیک رنگ میں سجاوٹی پتوں، پھولوں، اور شاخ و برگ سے فرش کچھ یوں رنگا کہ پاکستان میں جاری تشدد کی یاد دہانی کے ساتھ ہی ماضی کے شاندار مغلیہ باغات کی جھلک بھی نظر آتی تھی۔

قریشی کا یہ فن پارہ 14 مئی سے 3 نومبر ۲۰۱۳ء کو نیویارک میں میٹروپولیٹن میوزیم آف آرٹس میں نمائیش پذیر تھا اور اسے بڑی پذیرائی ملی تھی۔ قریشی مصغّر تصویرسازی کے ماہر ہیں اور ان کے فن پاروں میں سنہرے مغلیہ دور کی تمام نشانیاں موجود ہیں،وہ دور جو آج بھی پاکستانیوں کے دلوں میں زںدہ ہے۔ مغلیہ جمالیات اور پاکستان میں کچھ مماثلت ہے، یعنی اس ملک کے ماضی کا تصور اس بعینہ نقل کی مانند ہے جس کا اصل ہے ہی نہیں۔ ماضی کے اس سنہرے تصورکی بنیاد پر پاکستان کی روداد کچھ یوں ہے… ایک ایسا تباہ حال ملک جو کبھی ترقی کی راہ پر گامزن تھا لیکن پھر تباہی کے گڑھے میں گرپڑا۔  اور پاکستان کے ماضی کی یہ داستان ان لبرل حلقوں میں بہت مقبول ہےجو ۱۹۵۰ اور ۱۹۶۰کی اچھے دنوں کو یاد کرتے ہوئے آہیں بھرتے ہیں۔ قریشی نے پاکستانی مارکسیسی شاعر فیض احمد فیض سے متاثر ہوکر اپنے فن پارے کا عنوان یہ چنا: “And How Many Rains Must Fall Before The Stains Are Washed Clean”، یعنی “کتنے بادل برسیں کہ داغ دھل جائیں”۔ یہ عنوان فیض کی ایک نظم کا مصرعہ ہے جس میں انہوں نے پاکستان کی آزادی پر زبردست تبصرہ کیا ہے۔

یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں

یہ مصرعے قریشی کے فن پارے کی طرح اظہارمایوسی تو ہیں لیکن ناامید نہیں۔ یہ سوچ عہدِ رواں سے جڑ کر مستقبل کی منتظر ہے۔ یہ سوچ انفرادی سطح پرماضی کی یاد دلتی ہے مگر کسی شاندار ماضی کے تصوروتخیل میں مقید نہیں کرتی۔ یہ الفاظ ہم پر یہ حقیقت عیاں کرتے ہیں کہ پاکستان کوترقی کی راہ سے بھٹک جانے والا ملک تصور کرنی والےلبرل حلقے اس ملک کے پیچیدہ سیاسی حقائق کو نظر انداز کیے ہوئے ہیں۔

 ———————————————————————————————————————————

یہ رسالہ قارئین کے چندے سے چلتاہے۔ اس کارِ خیر میں آپ بھی حصہ ڈالیں۔

———————————————————————————————————————————

قریشی بتاتے ہیں کہ یہ فن پارہ اصل میں لاہور میں ان کے گھر کے نزدیک ایک بم دھماکے کےردعمل سے تخلیق ہوا۔ برش کے ٹپکنے والا سرخ رنگ گلی میں بہنے والے لہو بن گیا۔ جب پہلی بار اس فن پارہ کی نمائش شارجہ دوسالیہ کے موقع پر ایک انیسویں صدی کی عمارت کے احاطے میں کی گئی تھی تو بہت سے لوگوں اس تشدد کی اس تصویر کشی پر بطونی اور سخت رردعمل کا اظہار کیا۔  اپنے ایک انٹرویو میں قریشی وضاحت کرتے ہیں کہ شارجہ دوسالیہ عرب سپرنگ کے وقت منعقد ہوئی تھی اور عرب ممالک سے آنے والے لوگوں نے اس کے اصل ماخذ سے بالکل مختلف نتائج اخذ کیے۔ اس سے بھی پہلےقریشی نے اس فن پارے کی نمائش سڈنی آسٹریلیا کی ایک پینل کالونی کے قید خانے میں کی تھی۔ اس کا مقصد ماضی کے تشدد کو یاد کرنا تھا۔ قریشی نے سیاسی تشدد کی عالمگیر نوعیت اور مختلف پس منظر کے لوگوں کی طرف سے اس پر ردعمل کا حوالہ دیا۔ انٹرویو کے دوران تنصیب کے متصل سیاق و سباق کے بارے میرے ایک سوال کے جواب میں قریشی نے چھت بالا تصویر بنانے میں بوسٹن میراتھن والے بم دھماکوں کے اثر کا ذکر کیا۔ بتایا کہ ذرائع ابلاغ میں دوڑ کی “اختتامی لکیر” کا بار بار ذکر سننے کو ملتا تھا۔ تو ایک لکیر وہاں پر لگائی جہاں یہ فن پارہ ختم ہوتا ہے اور مرکزی پارک کا سبزہ شروع ہوتا ہے۔ یہ بوسٹن میراتھن کی اختتامی لائن بن گئی۔

قریشی  نے اس طرح ہیئت ارضی کو بدلنے کے حوالے سے بات کی۔ پاکستان کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ کس طرح ایک واقعے کی غیر موجودگی میں بندہ ناپائیداری اور بے چینی کا عادی ہوجاتا ہے۔ اگرچہ تنصیب کا آغاز پاکستان سے ہوا تھا اسی لئے یہ صرف ایک قسم کے تشدد کو پیش نہیں کرتی۔ قریشی نے بتایا کہ وہ عالمگیرتشدد کو پیش کرنے کی کوشش کر رہیں ہیں جس کی کڑیاں جڑی ہوئی ہیں۔  اس نے بتایا کہ نمائش ختم ہونے کے بعد بہت ای میل موصول ہوئیں جن میں لوگوں نے مختلف وجوہات کی بناء پر اس کام کے ساتھ اپنائیت محسوس کرنے کی کیفیت بیان کی ۔ اس نے 9/11 کو ہلاک ہونے والے ایک شخص کے رشتہ دار کا ذکر کیا جس کے بارے میں اسے یاد تھا کہ فن پارے کا اس پر خاص اثر ہوا تھا۔

میٹ کے چھت بالا باغ کے داخلی راستے میں ایک سکرین پر تعارفی ویڈیو چل رہی تھی جس میں قریشی پتوں کے دوہرے کردار کو بیان کررہے تھے۔ یہ بیانِ تشدد بھی ہیں اور مظہرِ صلاحیتِ تجدید شباب بھی۔ قریشی کہتے ہیں کہ یہ فن پارہ مختلف تشریحات ممکن بناتا ہے۔ “یہ صرف ایک واقعے کے بارے میں نہیں، [اور] صرف اس لئے نہیں کہ میں پاکستانی ہوں [ اور اس لئے] بم دھماکوں کا منظر دکھا رہا ہوں۔ ان فن پاروں کے ساتھ بندہ مختلف سطحوں پر اپنے آپ کو جوڑ سکتا ہے۔ آپ فورا ان کے ساتھ نہیں جڑ جاتے [لیکن] وقت کے ساتھ ان میں جذب ہوجاتے ہیں۔”

تاہم قریشی کی باتیں سننے کے بعد اس منظر کو دیکھ کر اس بے چینی اور بے تابی کی بجائے کچھ اور ہی ذہن میں آتا ہے۔ جیسا کہ قریشی خود کہتا ہے کہ چھت بالا تنصیب کا مقصد کسی ایک خاص قسم کے جذبات کو ابھارنا نہیں ہے۔ اگرچہ اس کا ماخذ پاکستان ہے لیکن یہ دوسرے اقسام کے تشدد کی بھی نمائندگی کرتی ہے۔

لیکن اس سب کے ساتھ ساتھ اس فن پارے اور اس کے ناظروں کے درمیان ایک ناموزونیت بھی تھی۔ یہ واضح تھا کہ بیک وقت کثیر جہتی عوامل نہ صرف کارفرما تھے بلکہ ان کے آپسی ربط کا بھی فقدان تھا جس کی وجہ سے کوئی معنوی اکائی سامنے نہیں آرہی تھی۔ مثال کے طور پر نیویارک ٹائمز میں ایک شخص کا ذکر کیا گیا جوفرش پر منہ کے بل لیٹا بم دھماکہ متاثرہ کی ایکٹنگ کر رہا تھا اور اس کے گھر والے اس کے ساتھی اس کی فوٹو کھینچ رہے تھے۔ تنصیب اور اس کے ناظرین کے درمیان ایک سرسری صارفانہ تعلق نظر آتا تھا۔ فریڈرک جیمسن کہتے ہیں کہ “ہوا یہ ہے کہ جمالیاتی پیداوار عمومی طور پر اشیائی پیداوار میں ضم ہوگئی ہے”۔ جب میں تنصیب دیکھنے گیا تو بیک وقت دو مناظر دیکھنے کو ملے۔ ایک منظر زمین پر بکھرے لہو کا، جو ہزاروں میل دور تشدد کو قریب کردیتا ۔ اور دوسرا منظر اسی چھت پرجاری کاکٹیل پارٹی کا،ایسامنظر جو شاید سرگرمی فکروعمل پرکو روکتا تو نہیں لیکن قطِع تعلقی اور غیر تعامل رویوں کو فروغ ضرور دے رہا تھا۔ اس لئے نہ چاہتے ہوئے بھی قریشی کے متعلقہ (بعداز 9/11 ) تشدد کی دل خراش تصویر کشی مصروف معاشرتی ماحول، تیز رفتار سماج بندی اور دزدیدہ تقویم میں سما گئی۔  قریشی نے بتایا کہ کس طرح شروع میں لوگ رنگے ہوئے لہو پر چلنے سے ہچکچا رہے تھے  لیکن پھر آہستہ آہستہ وہ اس کے عادی ہوتے گئے۔ “عادی” ہونے کا عمل ناگریز ہے اور اسی میں دیرپا تعامل پوشیدہ ہے۔  تاہم یہ متشدد صورتحال میں ایک ضروری افتراق کا پتہ بھی دیتی ہے۔

قریشی کی تنصیبات خاص طور پر اس کے مصغّر نقاش تشدد کو بیچنے کی غرض سے جمالیاتی رنگ نہیں دیتے۔ بلکہ اس کی بجائے اس کے مواد اور بناوٹ—ایک مصغّر نقش میں روایتی وصلی کی بجائے وہ ایک درزی کی دکان سے فوجیوں کی وردی کے کپڑے کو استمعال کرتا ہے—-پر زور دے کر وہ پاکستان میں پیچیدہ حالات کے اندر رہنے کی متنوع حقیقت کی طرف اشارہ دیتا ہے۔ مصور کی نیت سے ہٹ کر نمائش ساختی رکاوٹوں مثلا صارف وار سرمایہ داری جو فن اور باقی چیزوں کیلئے بندشیں باندھ دیتی ہے۔ تاہم سرمایہ داری کے اندر جنس کی یہ خاص فطرت ہے کہ فنکارانہ پیداوار مالیاتی رشتوں کے بہت بعد اپنی جگہ لیتی ہے، فورا نظر نہیں آتی، اور یہ چھت بالا نمائش میں مواد اور سیاق و سباق کے درمیان بے تکے تضاد کی وجہ سے فورا کھل کر سامنے آگئی۔ اس سب کا نچوڑ تو نیویارک کے آسودہ باسیوں کو دیکھ کر نظر آتا تھا جو چھت بالا کے ایک کونے میں بار میں قطار میں لگے لہو رنگ پتوں کے بے ہنگم نمونوں سے آزاد ہونا چاہ رہے تھے۔

قریشی کا فن پاکستان جیسے ملک جہاں سیاسی تجربات جاری ہیں، میں جاری کشمکش سے الجھتا بھی ہے لیکن اس کی آواز بھی بنتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے فن۔۔۔۔ جو جنس اور اس کے صرف پر وجوھ پذیر ہے۔۔۔۔ فنکار کے ارادے اور نیت اور حتی کہ مادی پیداوار سے اوپر نکلتا ہے قریشی کی تنصیب ہمیں اپنے وقت میں تنقیدی فن کی ممکنہ سیاسیت کے بارے میں سوال کرنے پر اکساتی ہے۔ اس کا موجودہ کام بھی تشدد کے اظہار کو جاری رکھے ہوئے ہے لیکن منظر مسلسل بدل رہا ہے۔ اس کی اگلی نمائش 15 مئی کو ہانگ کانگ میں ہوگی۔

 

عمران قریشی قوقی کالج لاہور میں مصغّر نقاشی پڑھاتے ہیں۔ ان کے کام کی انقرادی نقائش روہتاس گیلری، لاہور (2010)، چوکندی آرٹ، کراچی (2010)، کوروی مورا گیلری، لندن (2007)، ماڈرن آرٹ، آکسفورڈ (2010)، لالت کالا اکیدمی، نیو دہلی (2006)، ایڈمٹ ون گیلری، نیویارک (2001)، میٹروپولیٹن میوزیم آف آرٹ، نیویارک (2013) میں ہوچکی ہے۔ ان کا کام فوکوکا ایشین آرٹ میوزیم، فوکوکا، وکٹورین اینڈ البرٹ میوزیم، لندن، کوئینزلینڈ آرٹ گیلرییز اور میوزیمز، برسبین، ہیرس میوزیم، پرسٹن اور قومی فن گیلری، اسلام آباد میں موجود ہیں۔

زہرہ ہاشمی نے کولمبیا یونیورسٹی سے بشریات اور تاریخ پڑھی ہے۔ ان کی دلچسپی برقی ذرائع ابلاغ اور مکانی سیاسیات میں ہے۔ آج کل وہ دی ایکسپریس ٹریبون کی نائب مدیر ہیں۔

 

One Response to

کتنا برسے کہ زنگ دھل جا ئے

  1. […] جال کو اہم گردانتے ہیں۔ اور زہرہ ہاشمی نے پاکستان کے خون ریز ماضی کی کھوج میں جتےعمران قریشی کے کام پر مضمون لکھا […]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *