Mheeda Bharla | Daanish Mustafa

Mar 2013

English | اردو

70ء کی دہائی کے اواخر اور 80ء کے اوائل میں پی ٹی وی پر کچھ زبردست پنجابی ڈرامے دکھائے گئے-  یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستانی اپنے مادّی خوابوں کی تکمیل کے لئے باھر کےچکا چوند اور وعدوں بھرے ساحلوں کو دریافت کر چکے تھے۔ تین دھائیاں گذرنے کے باوجود میری یاد داشت میں ایک ایسا ھی پنجابی ڈرامہ ابھی بھی محفوظ ھے جس میں بے مثال جمیل فخری نے کام کیا تھا۔

مذکورہ ڈرامے میں جمیل فخری نے ایک سادہ لوح دیہاتی، میڈھاباھرلا، کا کردار ادا کیا تھا جسے ایک چرب زبان ایجنٹ ملک سے باھر بھیجنے کے وعدے پر بیوقوف بناتا ھے۔ بیچارہ میڈھا باھرلا کام کرنے والے مالدار لوگوں کے حلقے میں شامل ھونے کی خوشی میں اپنے آپ کو ‘باھرلا’ (باھر والا) کا خطاب دے بیٹھتا ھے۔  میڈھا اپنی ماں کو قائل کرنے کی کوشش کرتا ھے کہ وہ اپنے زیورات بیچ کر اُسے ولایت بھیجنے کے لئے رقم کا انتظام کرے- اس دوران پُرامید مستقبل اور ترقی کا جو خاکہ میدا  کھینچتا ھے، وہ آج کے حساب سے بھی اتنا ھی مطابقت رکھتاھے- شمالی پنجاب کے شیریں لہجے میں میڈھا اپنی ماں سے کہتا ھے، “امّاں، تیں نئی پتا، باہربڑی ودھیا تھاں اے۔ دولتاں ایں دولتاں، گڈیاں ایں گڈیاں۔ ۔۔۔ پھپھم پھام پھپم پھام۔۔۔ (گاڑیوں کے ہارن کی آواز نکالتے ہوئے) ۔۔۔ ھر پاسے پیسہ ھی پیسہ ۔۔۔ چھنن چھنن چھن چھن ۔۔۔”

میڈھاباھرلا اور موجودہ زمانے کے اس کے ھم خیال اشرافیہ میں  ترقی اور پیشرفت کا رشتہ اشیاء، ملکیّت اور انھی کے زیادہ سے زیادہ ھونے سے ہیں۔ ھمارے ماھرینِ معاشیات، افسر شاھی اور رہنماء سرمایہ داری کے کثیر پیداواری اور کثیر مصرفی روایتی نظام میں مکمل طور پر ڈوب چکے ہیں۔ حتٰی کہ  سرمایہ دارانہ نظام کی مستند شواھد کےساتھ حالیہ ناکامی اور مصرف پرستی (کنزیومرازم) بھی اس جنون کو کم نہ کر سکی بلکہ پاکستانی بیٹھکوں میں میں نے جس بات کا سب سے زیادہ ماتم ہوتے دیکھا ھے وہ یہ ھے کہ چین ، بھارت اور دیگر ریاستوں کی طرح ھمارا بھی بین الاقوامی سرمایے کے ہاتھوں استحصال کیوں نہیں ہو رھا !
اس موقعہ پرمجھے میرے دوست جیانتی درائی نے رابرٹ ایف کینیڈی کے یہ لازوال الفاظ یاد کرا دیئے جنھیں میں پاکستانی سیاق و سباق کے حساب سے تھوڑی بہت ترمیم کے ساتھ پیش کر رھا ھوں:

” بہرحال مجموعی قومی پیداوارہمیں ہمارے بچوں کی صحت، تعلیم کی برابری یا ان کے کھیلنے کی خوشی بڑھانے میں مدد نہیں  دیتی۔ اس سےھماری شاعری کی نغمہ سرائی یا ازدواجی رشتوں کی مظبوطی کی ضمانت نہیں ملتی، اور نہ ھی ھمارے مباحثوں اور فکری رویّوں کی آزادی یا روایتوں کی باریکیاں۔ اس سے نہ تو ھماری لطفِ طبع ماپی جا سکتی ہےاور نہ ہماری ھمّت، نہ ھماری عقل اور نہ ھمارا علم، نہ ھماری ھمدردی  اور نہ مٹّی سے ھمارا پیار۔ یہ سب چیزوں کی پیمایش کرتی ھے  ما سوائے ان کے جو ھماری زندگی کو قابلِ صرفِ وقت بناتی ہیں اور یہ پاکستان کے بارے میں سب کچھ بتا دیتی ھے سوائے اس کے کہ ھم اس سے کیوں پیار کرتے ہیں۔”

روزمرّہ کی گفتگو میں ‘ترقّی’ کو جدیدیّت، صنعتکاری اورشہری آبادکاری (اربنائزیشن) کے مترادف سمجھا جاتا ھے- اس تمام فکری ڈھانچے کا بنیادی مفروضہ ھی یہی ھے کہ ھم اپنی تمام ترملکیّت کا مجموعہ ہیں اور انھی کو بڑھانے سے ھماری قدر من حیث الانسان بڑھ پائےگی- لیکن ھم جو گڑ گڑاکر مانگ رھے ہوتے ہیں، بے تحاشا انسانی اور ماحولیاتی خسارےکے بعد ملتا ہے۔ مغرب کی طرزِ زندگی چینیوں، انڈین، تھائی، بنگلہ دیشیوں اورتیسری دنیا کے دیگر مزدوروں کی کمرتوڑ اور روح کو تڑپا دینے والی محنت پر پل رھی ھے۔  ایشیاء کے زہریلے ہوتے ہوئےدریا، جنوبی امریکہ کے ننگے ہوتے ہوئے جنگلات اور یورپ کی زہریلے مواد کا انبار بنتی سرزمین اس کی قیمت چکا رھے ہیں۔ جب تک کسی دن ھم سٹار ٹریک کی طرز کی ٹیکنالوجی ایجاد نہیں کر لیتے جس میں اشیاء محض ہوا ھی سے بنائی جاسکیں، صرف چند لوگوں کے پاس دولت کے اس ارتکاز کا کسی نہ کسی کو ، کسی نہ کسی جگہ قیمت چکانی پڑےگی۔  غربت ایک لعنت ھے لیکن اس لعنت کو اس کے متضاد یعنی دولت کو سمجھے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔

غربت کی ثقافتی تعریف و تشریح ممکن ھے لیکن  موجودہ مادّہ پرست تقافت میں  اسے فقط پیسوں اور مادّی اصلاحات میں بیان کیا گیا ھے۔ انسانوں کو صرف اشیاء کی ھی ضرورت نہیں ہوتی—گرچہ ان کی اہمیت سے انکار نہیں مگرمعاشرتی ملنساری، یاری دوستی اورفکری تحریک بھی انسانی ضرورتیں ہیں۔ اور اگر غربت یا مفلسی کوان حوالوں سے پرکھا جائے تو خلافِ قیاس اشخاص اس کا شکار نظرآیئںگے۔

مجھے میرے اچھے دوست دیپک گیاولی کی بتائی ھوئی داستان یاد آرھی ھے جو کہ لدّاخ میں اس کے تجربات پر مبنی ہے۔ 1970ء میں پہلی دفعہ ایک عمرانی تحقیق (سوسشل سروے) کرنے جب وہ لدّاخ کے ایک دُوراُفتادہ گاؤں گیا تو اس نے اپنے مقامی گاییڈ سے گاؤں کے غریب ترین آدمی کے پاس لیجانے کا کہا۔ گاؤں کے مبیّنہ مفلس ترین شخص کے گھر پہنچنے پر اُسےیہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ اس شخص کے پاس وہی لحاف ، توشک، ظروف اور مال مویشی جیسے روایتی لوازمات موجود تھے جو کہ دنیا کے اس حصّے میں عموماََ لوگوں کے پاس ہوتے ھیں۔ چائے کے بعد وہ اس شخص کے ہاں سے رخصت ہوئے۔ واپسی پر اس نے اپنے گایئڈ سے پوچھا کہ وہ اسے ادھر کیوں لے کے گیا تھا۔ وہ تو بظاہر اچھا خاصا تھا۔ بیچارہ گایئڈ اس احتجاج پر بڑا حیران ھوا ، کہنے لگا کہ “وہ واقعی گاؤں میں سب سے مفلوک الحال ھے، سب اسے ناپسند کرتے ہیں۔” گایئڈ کے مطابق دوستوں اور معاشرتی قبولیت کی کمی مفلسی کے معیار تھے نہ کہ اشیاء کی قلّت۔

مندرجہ بالا داستان کا حاصل یہ ھے کہ ہمیں اپنے لئے ترقّی کی ایک نئی تعریف ڈھونڈنی پڑےگی ، صرف مادّی پیشرفت کی نسبت سے نہیں، بلکہ اجتماعی انصاف، مساوات، سیاست کی جمہوریت پسندی، جنسی برابری وغیرہ کے حوالوں سے بھی۔ مغرب دولتمند ضرور ھے مگرپھیلتی ہوئی تنہائی، علیحدگی اورعدم تحفظ کے احساس کی صورت میں اس کے تاریک پہلو بھی ہیں۔ پاکستانی بہت سارے مسائل کا شکار ہیں لیکن یقیناََ ان کی اکثریت تنہائی کا شکار نہیں۔ ھمارے ادارے شاید بد دیانت ہیں لیکن ھمارے سماجی رشتے صحتمند ہیں اور ہمیں آفت و اُفتاد سے بچاتے ہیں۔ مغرب کی تقلید میں سَر کے بل چھلانگ لگانے پرہم اپنا سماجی حفاظتی حصار کھو دیں گےاور اپنے لوگوں اور دور دراز سرزمینوں کے باشندوں پر پڑنے والی ناانصافی اور استحصال میں حصّہ دارہونگے۔ ایک ایسے مستقبل کا خواب جس میں سب کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوں اور ساتھ ہی دوستی، رشتہ داری اور سماجی انصاف  کی صحت بھی اطمینان بخش ہوں، کہیں زیادہ دلکش ھے بجائے اسکے کہ محض زیادہ سڑکیں، گاڑیاں اور بلند و بالا عمارتیں ہوں۔

دانش مصطفیٰ کنگزکالج لندن کی جغرافیہ کے ڈیپارٹمنٹ میں پڑھاتے ہیں۔  وہ ہمہ وقت قاری کی مصنف پر دھونس کے خلاف سینہ سپر رہتے ہیں۔

سجاد حسین چنگیزی پیشہ سے انجنیئر ہیں اور پیس اینڈ کانفلکٹ سٹڈیز کے طالبِ علم بھی۔ ان کا تعلق عالمدار روڈ کوئٹہ سے ہے۔

Pages: 1 2 3

Tags: , , , , ,

One Response to Mheeda Bharla | Daanish Mustafa

  1. Khwaja Hamzah Saif on Mar 2013 at 9:36 AM

    This is beautiful! Thank you!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *