مشتبہ شہری

IMG_3975

یہ رمضان میں چلچلاتی دھوپ سے تمتماتے ہوئے ایک دن کی شام تھی جب سیکیورٹی اداروں نے بنوں شہر سے پندرہ کلومیٹر دور واقع پناہ گزینوں کے کیمپ میں احتجاج کرنے والوں پر گولیاں برسائیں۔ فائرنگ میں دو افراد ہلاک اور گیارہ زخمی ہوئے۔ بنوں میں یہ کیمپ شمالی وزیرستان میں ہونے والے فوجی آپریشن سے بچ کر بھاگنے والے 3500 کے لگ بھگ خاندانوں کو پناہ دینے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔شمالی وزیرستان بنوں سے متصل قبائلی علاقہ ہے۔سال گزرنے اور حکومت اور سیکیورٹی اداروں کی جانب سے کٹھن حالات کی شدت کم کرنے کے لیے امداد کی عدم فراہمی کے باعث کیمپ نشینوں کے غم و غصے میں اضافہ ہوتا گیا۔ فائرنگ کے روز احتجاجی مظاہرین پانی و بجلی جیسی بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی اور حکام کی جانب سے کیمپ میں رہنے والوں کی نقل و حرکت پر عائد پابندیوں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔

یہ جاننا دشوارہے کہ حالات نے کیا رخ اختیار کیا تاہم یہ بات طے ہے کہ سیکیورٹی اداروں نے بے گھر ہونے والے ان خستہ حال مظاہرین سے حملہ آوروں کا سا سلوک کیا؛ نتیجتاً دو گھرانوں نے اگلے روز اپنے پیاروں کی لاشیں وصول کیں۔
ایک بریگیڈیئر کا حکام کے ہمراہ کیمپ کا دورہ کرنا اور حملے کی مذمت کرنا معذرت طلب کرنے کا ایک نادر واقعہ تھا۔حکومت نے ہلاک شدگان کے اہل خانہ کے لیے پچاس لاکھ اور زخمیوں کے لیے پندرہ لاکھ روپے کے امدادی پیکج کا اعلان کیا۔ تاہم نہتے مظاہرین پر گولیاں چلانے والے اہلکاروں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کا حکم نہیں دیا گیا۔

یہ واقعہ وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں بالخصوص شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں فوجی آپریشن کے آغاز کو ایک برس مکمل ہونے کے صرف ایک روز بعد یعنی 21 جون 2015 کو پیش آیا۔

پاکستانی جیسے ملک میں جہاں 2008 سے تادم تحریر ایک کروڑ سینتیس لاکھ لوگ قدرتی آفات کے باعث بے گھر ہو چکے ہیں، بے گھر ہونے والے افراد کی حالیہ تاریخ میں موجودہ بحران کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ سوئٹزرلینڈ میں قائم انٹرنل ڈسپلیسمنٹ اینڈ مانیٹرنگ سنٹر کے مطابق 2004 سے اب تک پاکستان کے شمال مغربی علاقوں سے جنگی تنازعات، فرقہ وارانہ تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باعث اب تک پچاس لاکھ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔

اندرون ملک بے گھر ہونے والوں کے لیے قائم کیمپوں میں مقیم افراد اور حکام کے درمیان حالات اکثر کشیدہ ہوتے رہتے ہیں۔ 2008 سے 2009 کے دوران جلوزئی اور کچا گڑھی کے کیمپوں میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف رہنے والے/والی ایک کارکن کا کہنا ہے ’’آئی ڈی پیز (اندرون ملک بے گھر ہونے والے افراد) اور پولیس اہلکاروں کے درمیان اکثر، خاص کر خوراک اور رقوم کی تقسیم کے دوران تصادم کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ کیمپ نشین کیمپ کے مخدوش حالات کے خلاف احتجاج کرتے ہیں اور پولیس اکثر و بیشتر انہیں دبانے کے لیے طاقت استعمال کرتی ‘‘ہے۔

پھر بھی یہ محض اتفاق نہیں کہ صرف اس ایک کیمپ میں ہی دو افراد گولی لگنے سے ہلاک ہوئے جس کے روزمرہ انتظامی معاملات کسی بھی عالمی فلاحی تنظیموں کی شمولیت کے بغیر سیکیورٹی اداروں اور فوج کے زیرِانتظام چلائے جا رہے تھے۔ تب سے آئی ڈی پیز اور سیکیورٹی کے سول و عسکری اداروں کے مابین متعدد تصادم ہو چکے ہیں۔ بنوں میں پولیس کے ساتھ ہونے الے تصادم میں دو پناہ گزین ہلاک اور سترہ پولیس اہلکاروں سمیت 28 افراد زخمی ہوئے۔ بار بار ایسے واقعات پیش آنے کے باوجود پاکستانی ذرائع ابلاغ میں اس تسلیم شدہ بیانیے پر سوالات نہیں اٹھائے گئے جس کے مطابق ان جھڑپوں کی وجہ بے گھر ہونے والے افراد کا شورش زدہ طرزعمل ہے۔

آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں شمالی وزیرستان سے بے گھر ہونے والے دس لاکھ سے زائد افراد کے سلسلے میں حکام کے طرز عمل پرمعاملات کو فلاح و بہبود کی بجائے قومی سلامتی کی نظر سے دیکھنے/کی ذہنیت کے ساتھ چلانے کا نقطہ نظر حاوی نظر آتا ہے۔آپریشن کا باضابطہ آغاز 15 جون 2014 کو ہوا۔ اس فوجی کارروائی سے خیبرپختونخوا اور فاٹا سے بے دخل ہونے والے 930،000لوگوں میں قریب دس لاکھ بے گھر افراد کا اضافہ ہوا۔

آئی ڈی پیز کی نقل و حرکت پر عائد پابندیوں اور قواعد سے سیکیورٹی امور کو حاصل فوقیت اور ترجیح واضح ہو جاتی ہے۔ یہ ترجیحی رویہ فوجی کارروائی کے آغاز کے بعد مختلف انتظامی امور سیکیورٹی اداروں کے سپرد کرنے اور اس حکومتی دعوے سے بھی واضح ہو گیا تھا کہ اسے غیر ملکی امداد درکار نہیں۔ بے گھر خاندانوں کے لیے کام کرنے والی فلاحی تنظیموں کے لیے کام کرنے کی اجازت حاصل کرنے کا طویل عمل بھی اس رویے کا غماض ہے۔

فلاحی تنظیموں کے لیے کام شروع کرنے سے پہلے نو آبجیکشن سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا ضروری ہے، جس کے لیے سیکیورٹی اداروں اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے سوال اداروں کی منظوری لازمی ہے۔ اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور (او سی ایچ اے) کی شمالی وزیرستان کے آئی ڈی پیز سے متعلق رپورٹوں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ اجازت حاصل کرنے کے عمل میں درپیش روکاوٹوں کا معاملہ متعدد بار حکام کے سامنے اٹھایا گیا تھا۔ خاص طور پر اس وقت جب ان علاقوں میں اقوام متحدہ کے اداروں اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے سرکاری اداروں کی جانب سے ان علاقوں میں انسانی صورت حال کا سروے تاخیر کا شکار ہوا۔

ستم ظریفی یہ کہ ایک جانب جہاں کئی تنظیموں کو این او سی کے حصول میں مشکلات کا سامنا تھا، فوج اور کئی کالعدم اسلامی تنظیموں سے قریبی روابط رکھنے والی مذہبی رفاعی تنظیموں کو بنوں میں کام کرنے کی اجازت فوراً مل گئی۔

اور اب شمالی وزیرستان کی صورت حال پر دو برس تک غیر معمولی اختیار رکھنےکے باوجود جی ایچ کیو کی جانب سے بظاہر مزید اختیار اور حکومت سے مزید رقم حاصل کرنے کے لیے بحالی اور تعمیر نو کی سست رفتاری پر عدم اطمینان کا اظہار کای جا رہا ہے۔

جہاں تک فوجی کارروائی کا تعلق ہے کوئی نہیں جانتا کہ درحقیقت فوج نے کیا کیا ہے اور کسے مارا ہے، لیکن جہاں تک آئی ڈی پیز کی دیکھ بھال میں ملک میں قائم متوازی حکومت کے طور پر فوج کی سرگرمیاں بدنظمی اور معاملات کو سیکیورٹی کے نقطہ نگاہ سے دیکھنے کی عکاس ہیں۔ فوج بے گھر ہونے والے افراد کو ممکنہ ‘دہشت گرد’ سمجھتی ہے جن کا سدباب کیا جانا چاہیئے۔

اپنی سرزمین پر اجنبی
میر علی سے تعلق رکھنے والے ایک آئی دی پی کریم٭ کا کہنا تھا ’’کچھ خاندان مئی کے اواخر میں نقل مکانی کرگئے، لیکن ہم میں سے بیشتر نے اپنے گھر نہیں چھوڑے کیوں کہ مساجد سے اعلان کیا گای کہ حکومت طالبان سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔‘‘

فوجی کارروائی کے آغاز سے آٹھ روز قبل تک حکومت اور سیکیورٹی اہلکار قبائلی عمائدین کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے۔ اتمان زئی وزیر اور داور قبائل کے 65 سرداروں پر مشتمل بڑے جرگے نے کور کمانڈر جنرل خالد ربانی سے ملاقات کی۔ اطلاعات کے مطابق حکومت نے ایک بھرپور فوجی کارروائی نہ کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی اگر جرگہ پندرہ روز کے اندر وزیرستان میں امن بحال کرنے میں کامیاب ہو جائے، یہ ایک ایسا ناممکن ہدف تھا جو گزشتہ ایک دہائی میں حکومت اور فوج بھی حاصل نہیں کر سکے تھے۔

اسی جرگے سے متعلق بات کرتے ہوئے شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنماوں کے کثیرالجماعتی اتحاد کے سربراہ نے کہا  ’’جرگے کے بعد بعض لوگوں نے کہا کہ ہمیں ایجنسی سے نقل مکانی کر لینی چاہیئے جبکہ کچھ کا کہنا تھا کہ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیئے۔ لیکن جب تک جرگے کے بیشتر ارکان واپس پہنچے حکومت اپنے الفاظ سے پھر چکی تھی۔‘‘

آپریشن کے فوری آغاز کے باعث ذرائع آمدورفت کے کرایے آسمان سے باتیں کرنے لگے کیوں ہر کوئی جلد از جلد ایجنسی سے نکلنے کی کر رہا تھا۔ وہ رستے جو چھ سے آٹھ گھنٹے میں طے ہو جاتے تھے اب چوبیس سے تیس گھنٹے کا وقت لینے لگے تھے۔ اس تاخیر کی بڑی وجہ وزیرستان میں اور اس سے نکلنے کے راستوں پر پناہ گزینوں کی نگرانی کے لیے قائم کی گئی خار دار تاروں کی روکاوٹیں اور چوکیاں تھیں۔

کل جماعتی سیاسی اتحاد کے ایک رکن کے مطابق ’’انہوں نے یہ فیصلہ اچانک کیا، حکومت کو ایسا کرنے سے پہلے یہ سوچنا چاہیئے تھا کہ وہ بے گھر ہونے والے ہزاروں لاکھوں افراد کو کیسے سنبھالے گی۔ ‘‘

چوبیس جون کو فوجی کارروائی کے آغاز کے کئی روز بعد بھی حکومت بے گھر افراد کی تعداد کا درست اندازہ لھانے میں ناکام رہی تھی۔ حکومت کو لگ بھگ 250000 پناہ گزینوں کی آمد کی توقع تھی لیکن بے گھر افراد کی حقیقیت تعداد 455,000 سے زائد تھی۔

حکومتی سست روی کے باعثآئی ڈی پیز کے لیے کیے گئے انتظامات کا بنیادی محرکات سلامتی امور اور شبہات تھے۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ایک بریفنگ کے دوران ذرائع ابلاغ کو بتایا ’’آئی ڈی پیز کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے تاکہ کوئی دہشت گرد آئی ڈی پیز کے بھیس میں بچ نکلنے میں کامیاب نہ ہو جائے۔‘‘ آئی ایس پی آر نے بے گھر افراد کے بھیس میں موجود بعض دہشت گردوں کی گرفتاری کا بھی دعویٰ کیا ہے۔

لیکن چوکیاں قائم کرنے کی اس حکمت عملی کے ہزاروں افراد پر ہونے والے عملی اثرات کی حقیقت نسرین بی بی نے واضح کی۔ انہیں یاد ہے’’وہ ہم میں میں سے ہر ایک کے سامان کی تلاشی لیتے اور پھر سب کچھ زمین پر پھینک دیتے، انہوں نے ہر ایک کی تلاشی لی۔‘‘ وہ آئی ڈی پیز کے لیے کرائے پر لیے گئے گھر کے فرش پر کئی دیگر عورتوں کے ساتھ بیٹھی تھی۔ اس کے ساتھ بیٹھی تمام عورتیں شمالی وزیرستان میں اپنے گھروں سے نقل مکانی پر مجبور ہوئی تھیں۔
’’
وہ ہماری چیزیں ادھر ادھر پھینک کر ہمیں اپنا سامان اٹھانے کا حکم دیتے تھے۔‘‘ اس کا کہنا ہے کہ اسے وزیرستان سے بنوں تک کی مرکزی شاہراہ؛ بنوں-میران شاہ روڈ کے ذریعے بنوں پہنچنے میں پورا ایک دن لگا۔

آئی ڈی پیز کی آمد کے بعد سڑک کنارے بنائی جانے والی عارضی بستیوں میں سے ایک میں مقیم بیالیس سالہ بختاور خان نے بھی فوج کے زیرانتظام قائم ان چوکیوں جنہیں فوج میں“strangulation points” کہا جاتا ہے، سے گزرنے کے صبرآزما عمل کی روداد سنائی۔ بختاور خان کا کہنا ہے کہ ہر چوکی پر انہیں اپنا شناختی کارڈ دکھانا پڑتا تھا، ان کے نام درج کیے جاتے تھے اور ان کے سامان کی تلاشی لی جاتی تھی۔

بختاور خان نے بتایا ’’انہوں نے ان مویشیوں کی تعداد بھی درج کی جو ہم ساتھ لائے تھے، خدا کا شکر ہے کہ میری کوئی مرغی فرار نہیں ہو گئی ورنہ مجھے اس کے سلسلے میں وضاحت دینی پڑتی۔‘‘

کئی دیگر آئی ڈی پیز نے چوکیوں پر اپنے خاندان کے افراد کے حراست میں لیے جانے؛ جس کے نتیجے میں خاندان تقسیم ہوئے، کی داستانیں سنائیں۔ بختاور خان کے رشتے دار مرجان خان جو پہلے افغانستان کے شہر خوست چلے گئے تھے نے بتایا کہ افغان فوج کا طرزعمل کہیں بہتر تھا۔ ’’وہ ہمارے خاص طور پر بززرگوں اور خاندان کے ہمراہ سفر کرنے والوں کے رسم و رواج کو بہتر طور پر سمجھتے تھے۔‘‘

درحقیقت 180,000افراد نے افغانستان کی سرحد عبور کی۔ بعدازاں پاکستانی حکام نے تسلیم کیا کہ آپریشن کے اوائل میں خاردار تاروں سے بنائی گئی روکاوٹوں اور چوکیوں کی جہ سے پاکستان کے بندوبستی علاقوں تک ان کی رسائی مسدود ہوچکی تھی۔ سیکیورٹی تجزیہ کار امتیاز گل کے اندازے کے مطابق یہ (حکمت عملی) عسکریت پسندوں کو سرحد پار افغانستان دھکیلنے کی منصوبہ بندی کا حصہ تھی۔

علاوہ ازیں، آپریشن کے آغاز کے بعد فوج کی طرف سے کرفیو کے نفاذ کے باعث کئی افراد کے لیے سفر کرنا ممکن نہیں رہا جس کے باعث کئی افراد (وزیرستان میں ہی) محبوس رہ گئے۔ یواین او سی ایچ اے کے دفتر کے مطابق کرفیو میں نرمی کے بعد انخلائی راستوں پر پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد دیکھنے میں آئی۔

ایک جانب جہاں وزیرستان سے نکلنا کٹھن تھا وہیں منزل کا تعین بھی آسان نہ تھا۔ سندھ کی صوبائی حکومت نے آئی ڈی پیز کے صوبے میں داخل ہونے پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کی، جبکہ دیگر حلقوں کی جانب سے بھی آئی ڈی پیز کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا۔ کراچی کے ایک مشہور فلم ساز نے ٹویٹ کی، ’’آئی ڈی پیز کو کے پی کے میں موجود کیمپوں تک محدود رکھنا چاہیئے، انہیں #کراچی میں رہائش اختیار کرنے کی اجازت دینا سیکیورٹی کے لحاظ سے اچھا شگون ثابت نہیں ہو گا۔‘‘ گویا صوبائی حکومتوں اور بااثر سماجی حلقوں کی جانب سے بھی فوج سیکیورٹی اداروں کی رہنما منطق کی حمایت کی گئی۔

 

ایک عارضی نشیمن کی تلاش
بنوں کے نزدیک قائم کیمپ میں ضرب عضب کے آغاز کے بارہ روز بعد تک صرف 28 گھرانوں کو رہائش مہیا کی جا سکی تھی، اگرچہ تب تک بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد 455,000افراد سے تجاوز کر چکی تھی۔ یہ کیمپ ایف آر بکا خیل میں قائم کیا گیا تھا۔ بکاخیل بنوں سے ملحق سرحدی علاقہ علاقہ ہے لیکن اسے ابھی بھی قبائلی علاقے کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ داخلی راستے پر پتھروں اور اینٹوں سے بنی ایک بڑی چوکی قائم ہے جو اسے بقیہ بنوں سے علیحدہ کرتی ہے۔

اس حقیقت کے باوجود کہ کیمپ تقریباً ویران پڑا تھا ایک فوجی افسر نے بڑے جوش و خروش سے ذرائع ابلاغ کو یہ بتایا کہ اس کیمپ کو جلد ہی ایک ’’مثالی کیمپ‘‘ بنا دیا جائے گا۔

بنوں میں سرکاری سکول کھل جانے کے بعد ہی کیمپ کے رہائشیوں میں خاطر خؤاہ اضآفہ دیکھنے کو ملا۔ سکولوں بے گھر افراد کو پناہ دینے کی غرض سے استعمال کیے جاتے رہے، لیکن تعلیمی سال کے آغاز پر آئی ڈی پیز دیگر جگہوں پر منتقل ہونے لگے۔ جلد ہی ایف آر بکاخیل کیمپ ان لوگوں کے لیے آخری جائے پناہ بن گیا جنہیں سر چھپانے کو کوئی اور جگہ نہیں ملی۔

اخباری اطلاعات میں پردے (چادر اور چاردیواری کا تقدس) جیسے ثقافتی محرکات اور طالبان کی جانب سے انتقامی کارروائی کے خوف کو لوگوں کی جانب سے کیمپ میں رہائش اختیار نہ کرنے کی وجہ قرار دیا گیا۔ لیکن جن آئی ڈی پیز سے ہماری بات ہوئی انہوں نے کئی دیگر عوامل کو فوج کے زیرِانتظام کیمپ میں رہائش اختیار نہ کرنے کی اہم وجہ قرار دیا۔

کیمپ میں مقیم میر علی وزیرستان کے 36 سالہ قاسم٭ کا کہنا تھا،’’ہر روزکام کے لیے نکلتے ہوئے دو گھنٹے لگ جاتے تھے۔ ہر صبح میری ہی طرح پانچ سو افراد کام پر جاتے تھے جنہیں گیٹ پاس جاری کرنے کے لیے صرف تین کاونٹر قائم کیے گئے تھے، گیٹ پاس کے بغیر باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔‘‘

ہروز شام چھ بجے کےمعومول کے کرفیوں کے علاوہ کیمپ میں سیکیورٹی ادارے اکثر اچانک کرفیو عائد کر دیتے ہیں۔ کرفیو کے نفاذ کے بعد ریاست اور قبائل کے مابین روایتی طور پر رابطہ کار کے فرائض سرانجام دینے والے مقامی عمائدین کی مداخلت کے بغیر کسی کو کیمپ میں داخل ہونے یا باہر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔

قاسم نے ازراہ طفنن کہا ’’لیکن عام طور پر ہمارے خیموں میں رات کے وقت بھی بہت گرمی ہوتی تھی، اس لیے کرفیو کے نفاذ سے قبل واپس نہ آ پانا کسی ٹھنڈی جگہ سونے کے لیے اچھا بہانہ ثابت ہوتا ہے۔‘‘

کئی اور لوگ کیمپ کے بند ہونے اور شہر سے علیحدہ ہونے کی وجہ سے کیمپ چھوڑ گئے ۔ عائشہ بی بی٭ کی بیٹی کیمپ میں رہائش کے دوران بیمار پڑ گئی، عائشہ نے بالآخر طبی سہولیات تک ’’جلد رسائی‘‘ کی خاطر بنوں شہر میں رہائش تلاش کرنے کو ترجیح دی۔

خطرات کے سب سے زیادہ شکار گروہوں میں سے بہت سوں نے بنوں یا اس کے آس پاس قائم عارضی بستیوں میں رہائش اختیار کرنے کو ترجیح دی ہے۔ بنوں کے مضافات میں قائم دمی پل کے قیرب 1500 خاندانوں کی ایک عارضی بستی میں بیوی بچوں کے ساتھ مقیم بختاور نے وضاحت کی’’ہم اپنے باپ دادے کے زمانے سے آزاد منش لوگ رہے ہیں‘‘۔ یہ گرد آلود اور بے ہنگم انداز میں بسائی گئی بستی نظرانداز کیے جانے کی غماض ہے۔ ترپال کے خیموں پر بنے یواین ایچ سی آر کے لوگو کے سوا اس کہیں کوئی ایسی علامت نظر نہیں آتی جس سے اندازہ ہو سکے کہ سرکاری یا غیرسرکاری ادارے کیمپ کے رہائشیوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔

اس کے باوجود یہاں بھی لوگ اپنے تئیں اپنی زندگیاں قابل برداشت بنانے کی جستجو کر رہے ہیں۔ بعض خیموں کے اندر گارے کی لپائی کی گئی ہے جو گھروں کے اندر درجہ حرارت کم رکھنے کا صدیوں پرانا طریقہ ہے، بعض مقامات پر اکٹھے نصب خیموں کے گرد گارے کی دیواریں کھڑی کی گئی ہیں۔ بختاور نے مزید بتایا ’’ہم میں سے بہت سے لوگوں نے کیمپ میں رہنے کی بجائے یہاں رہنے کا فیصلہ کیا ہے حالاں کہ کیمپ میں زیادہ سہولیات دستیاب ہیں۔ گفتگو کے دوران بختاور ایک خراب ہینڈ پمپ کی مرمت بھی کر رہے تھے جو اس بستی میں پانی کے حصول کا واحد ذریعہ ہے۔‘‘

لیکن اس فیصلے کی اپنی ایک قیمت ہے۔ جیسا کہ بنوں کے ایک صحافی نے بتایا کہ قبائلی علاقوں میں سرکاری سطح پر امدادی سرگرمیاں سرانجام دینے کے لیے قائم ادارے فاٹا ڈیزاسٹر میجمنٹ اتھارٹی (ایف ڈی ایم اے) کی تمام تر توجہ خوراک اور راشن کی تقسیم کے چند مراکز تک محدود ہے۔ یہ ادارہ آئی ڈی پیز کے اپنی مدد آپ کے تحت ان مراکز تک پہنچنے کی صلاحیت پر اکتفا کیے ہوئے ہے۔

بختاور نے بتایا ’’قریب ترین سرکاری سکول ڈومیل بازار سے پچاس منٹ کی پیدل مسافت پر ہے، ہم سب نے اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے خود رقم جمع کر کے ایک استاد کا بندوبست کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود استاد کی اکثر غیر حاضری کے باعث ہمارے بچوں کی تعلیم بری طرح متاثر ہوئی ہے۔‘‘

حکومت اور سیکیورٹی ادارے امداد وصول کرنے کے لیے آنے والوں کو رجسٹریشن کے عمل سے گزرنے پر مجبور کرتے ہیں، رجسٹریشن کے لیے شناختی دستاویزات لازمی ہیں۔ آپریشن کے آغاز کے کچھ عرصے بعد ہی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے اس مقصد کے لیے 20 اہلکار تعینات کیے جبکہ فوج نے اس کام کے لیے سول اہلکاروں کی تعداد سے اڑھائی گنا زائد یعنی 50 فوجی اہلکار متعین کیے۔ آئی ڈی پیز کی ’حقیقی‘ شناخت سے متعلق پائے جانے والے شک و شبے اور عمومی خوف کے باعث سیکیورٹی تقاضوں کو فوقیت دی گئی۔

یہ عمل کئی پرتوں پر مشتمل ہے۔ رجسٹریشن کے لیے شناختی دستاویزات بالخصوص کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ درکار ہے۔ سرکارہ اہلکار یہ تمام کوائف بعد ازاں تصدیق کے لیے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے حوالے کر دیتے ہیں۔ لیکن جلد ہی اس عمل کے نتیجے میں مسائل کھڑے ہونے لگے۔ نادرا نے اعلان کیا کہ اس کے پاس ہزاروں خاندانوں کے کوائف کی تصدیق کی صلاحیت موجود نہیں، اور بے گھر ہونے والے تمام خاندانوں میں سے قریباً نصف کے سربراہوں کے پاس شناختی دستاویزات موجود نہیں تھیں۔ حکومت کے پاس موجود ریکارڈ کے حوالےسے بھی مسائل موجود تھے۔ ان مسائل کے باعث خراک کی صورت میں ملنے والی ابتدائی امداد کے بعد یہ خاندان مالی امداد یا وہ سم کارڈ جن کے ذریعے امداد ملنا تھی حاصل نہیں کر سکتے تھے۔

غلام خان وزیرستان کے ساٹھ سالہ رہائشی عزیز رحمان ان ہزاروں صاحبانِ خانہ میں شامل تھے جو شناختی کارڈ کے بغیر بنوں پہنچے۔ فاٹا کے رہائشیوں کے لیے قومی شناختی کارڈ حاصل کرنے کا خصوصی طریقہ کار جاری قبائلی رہنماوں اور سیاسی انتظامیہ کے دستخطوں کا متقاضی ہے جس کے باعث نسبتاً پر امن زمانے میں بھی کارڈ حاصل کرنا دشوار تھا۔

علاوہ ازیں رحمان سمیت کئی افراد کے پاس نکاح نامہ یا شناختی کارڈ کے حصول کے لیے درکار دیگر شناختی دستاویزات موجود نہیں تھیں۔رحمان نے زچ ہو کر بتایا ’’مجھے تمام دستاویزات حاصل کرنے میں چار ماہ لگ گئے، لیکن تب تک حکومت نے بنوں میں رجسٹریشن کا عمل ختم کر دیا تھا جس کے باعث میں دوسروں کی خیرات پر زندہ رہنے پر مجبور ہو چکا ہوں۔‘‘

رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے امداد سے محروم رہنے والے خاندانوں کی تعداد درحقیقت اس قدر زیادہ تھی کہ فلاحی تنظیم پاکستان ہلال احمر سوسائٹی کو حکومت سے یہ مطالبہ کرنا پڑا کہ وہ شناختی کارڈ کے بغیر آئی ڈی پیز کو امدادی ٹوکن یا کوئی اور دستاویز جاری کرے۔ اقوام متحدہ کے اداروں نے نادرا کو آئی ڈی پیر رجسٹریشن مراکز کے قریب ڈیسک قائم کرنے کی تجویز دی لیکن اس پر عمل نہیں کیا جا سکا۔

رجسٹریشن کے لیے درخواست دینے والے بہت سے افراد کی درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق تقریباً چالیس فیصد درخواستیں اس لیے مسترد ہوئیں کیوں کہ نادرا کے ریکارڈ میں درخواست گزاروں کا پرانا یا ناقص شجرہ نسب تھا۔ عزیزاللہ غلام خان کے رہائشی تھے اور اب دمی پل کی بستی کے پاس مقیم ہیں۔ عزیزاللہ کا کہنا تھا ’’مجھے امداد حاصل کرنے سے صرف اس لیے محروم کر دیا گیا کیوں کہ مجھے بتایا گیا کہ میں پہلے سے ہی امداد وصول کر رہا ہوں، میں خود بال بچوں والا ہوں لیکن حکومت کے مطابق میں اب تک اپنے بھائی کے زیرکفالت ہوں۔‘‘

مکمل دستاویزات کے حامل بعض افراد کی درخواستیں اس لیے مسترد کر دی گئیں کیوں کہ ان کے ایک سے زائد پتے درج تھے۔ ضلع بنوں اور اس کے ہمسائے شمالی وزیرستان کے درمیان موجود تاریخی روابط کے باعث بے گھر ہونے والے بعض افراد کے بنوں کے بھی رہائشی پتے درج تھے۔

یہ امر باعث حیرت نہیں کہ جولائی کے بعد آئی ڈی پیز کی رجسٹریشن کے دوران منظور کی جانے والی درخواستوں کے مقابلے میں مسترد کی جانے والی درخواستوں کی شرح میں خطرناک اضافہ ہوا۔ اگست تک یہ واضح ہو گیا رجسٹریشن کا مسئلہ زدپذیر افراد پر بری طرح اثرانداز ہونے لگا ہے۔

 

شہریت کا درجہ پانے کے لیے
عبدالمرجان کا تعلق میران شاہ سے اور اب وہ دمی کقریب واقع پناہ گزین بستی میں مقیم ہیں،’’میں نے دو شناختی کارڈ بنوانے کے لیے 36,000 ادا کیے۔ انہوں نے مجھے رجسٹرتو کیا لیکن چوں کہ میرے اہل خانہ کی تعداد میرے بیٹے کے اہل و عیال کے برابر تھی اس لیے مجھے امداد سے محروم رکھا گیا۔‘‘

رجسٹریشن اور نادرا سے توثیق میں درپیش مسائل کے باعث اس بڑے پیمانے پر لوگوں کو امداد سے محروم رکھا گیا کہ جلد ہی ایک چور بازار وجود میں آ گیا جہاں اندر کھاتے آئی ڈی پیز کو بھاری رقوم کے عوض رجسٹریشن سلپیں اور شناختی دستاویزات فراہم کی جاتی ہیں۔

جن کے پاس کارڈ کے اجراء کے لیے درکار دستاویزات جتنی زیادہ ادھورے تھیں، انہیں اتنی ہی زیادہ رقم خرچ کرنی پڑی۔ جن افراد کے پاس مطلوبہ دستاویزات نہیں تھیں انہیں پہلے یہ دستاویزات بنوانی پڑتی تھیں۔ ہر دستاویز کے لیے مقامی ملک (حکومت کا متعین کردہ قبائلی سردار) اور متعلقہ ایجنسی کی سیاسی انتظامیہ کے مختلف عہدیداران سمیت کئی سرکاری اہلکاروں سے تصدیق لازمی تھی۔ ہر اہلکار نے ایک ایک دستاویز کی تصدیق کے لیے غیر قانونی طور پر پانچ سو سے دوہزار روپے (پانچ سے بیس ڈالر) تک رشوت وصول کی، گویا ہر دستاویز کی تصدیق سے کارڈ کی قیمت میں مزید اضافہ ہوتا رہا۔

جعلی سرکاری افسران کی ایک بھی ایک بہت بڑی تعداد مبینہ طور پر سرگرم ہو گئی۔ ثمینہ بی بی نے ایسے ہی ایک فراڈیے کے ہتھے چڑھنے کا واقعہ سناتے ہوئے کہا ’’ایک شخص جو خود کو ایف ڈی ایم اے کا اہلکار بتاتا تھا نے چھ شناختی کارڈ بنوا کے دینے کے لیے مجھ سے 60,000 روپے (چھ سو ڈالر) وصول کیے لیکن اس کے بعد اس کا کوئی اتہ پتا نہیں چلا۔‘‘ ثمینہ کے مطابق انہوں نے ایف ڈی ایم اے سے بھی رابطہ کیا لیکن ان کے مطابق ان کا ادارہ کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ آخر کار اس نے شناختی کارڈ حاصل کر لیا لیکن اس کے لیے اسے مزید پندرہ سو روپے ( پندرہ ڈالر) خرچ کرنے پڑے۔

نقل مکانی کے ابتدائی دنوں میں اقوام متحدہ نے یہ مسئلہ اٹھایا لیکن اخباری اطلاعات کے مطابق اگست کا مہینہ آجانے پر بھی سہولیات فراہم کرنے کے مراکز پر خاتون اہلکاروں کی تعداد ناکافی تھی۔او سی ایچ اے کی رپورٹیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ اقوام متحدہ کے اداروں نے حکومت سے شکایات کے ازالے کے لیے ڈیسک قائم کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ کوئی بھی مستحق خاندان رجسٹریشن میں مشکلات کے باعث امداد سے محروم نہ رہے۔

مرجان نے شکایات ڈیسک کے مددگار ثابت ہونے پر بات کرتے ہوئے کہا، ’’شکایت درج کرنا ایک بات ہے اور اس کے ازالے کے لیے اقدامات کرنا ایک الگ بات۔‘‘ یہ حیران کن امر نہیں کہ جولائی سے اگست کے دوران رجسٹرڈ آئی ڈی پیز کے مسترد کیے جانے کی شرح 41 فیصد سے بڑھ کر 42.9فیصد ہو گئی۔

عبدالمرجان سرکاری سطح پر اس انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے اختیار کیے گئے کے حوالے سے بھی شکوک شبہات کا شکار ہیں۔ اپنے سفر اور اس دوران پیش آنے والی مشکلات کو یاد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’آخر کار انہوں نے ہمیں اپنا شہری بنا لیا ہے، مگر ہمیں اس کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑی ہے۔‘‘
دل و دماغ کی جنگ
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر میجر جنرل عاصم باجوہ نے وزیرستان میں فوجی کارروائی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انسانی بحران کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیرستان کے لوگوں کے دل جیتنے میں وقت لگے گا۔

لیکن ہر انتظامی شعبے کو سیکیورٹی کے نقطہ نظر سے دیکھنے کی حکومتی اور فوجی حکمت عملی سے صورت حال پہلے سے بدتر ہو چکی ہے۔ لسانی قومی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے سے وابستہ شمالی وزیرستان کے کل جماعتی اتحاد اور عوامی نیشنل پارٹی کے ایک رکن نثار علی خان کا کہنا تھا، ’’یہ چوکیاں فاٹا کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے نام پر جو کچھ کیا جا رہا ہے اسے چھپا کر ریاست کو تحفظ کا احساس دلانے کے سوا کوئی کام نہیں کر رہیں۔‘‘

فوجی کارروائی کے آغاز کو دو برس بیت جانے کے باوجود معاملات کو سیکیورٹی کے نقطہ نظر سے دیکھنے (کے رحجان میں) کمی نہیں ہوئی۔ درحقیقت یہ رحجان بحالی اور تعمیر نو کے عمل کی صورت گری کر رہا ہے۔ بے گھر افراد کی واپسی کا عمل شروع ہونے کے بعد، گھر لوٹنے والوں کے لیے قومی شناختی کارڈ کے ساتھ ایک وطن کارڈ کا حصول بھی لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ راستے میں آنے والی چوکیوں پر یہ دستاویزات طلب کی جاتی ہیں۔

دمی پل کیمپ کے رہائشی عبدالمرجان کہتے ہیں ’’ہم یہ کارڈ پاسپورٹ کی طرح سنبھال کر رکھتے ہیں‘‘۔ ایک مضمحل سی مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے مزید کہا ’’یہ وطن کارڈ اپنے گھروں کو واپسی کا ویزہ ہے جہاں سے ہمیں نکال دیا گیا تھا‘‘۔
یہ کارڈ حکومت کی طرف سے امدادی رقوم تقسیم کرنے کے ایک ذریعے کے طور پر شروع کیے گئے تھے لیکن اب یہ ایک لازمی دستاویز کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ ان کے بغیر وہ نہ تو اپنے گھروں کو لوٹ سکتے ہیں اور نہ ہی گھر واپسی کے بعد اپنے گاوں سے باہر کا سفر کر سکتے ہیں۔ بالکل جیسے رجسٹریشن کا عمل مشکلات سے اٹا ہوا تھا اسی طرح وطن کارڈ کے اجراء کا عمل بھی مسائل کی آماجگاہ ہے۔

میران شاہ سے تعلق رکھنے والے ایک آئی ڈی پی اکبر خان٭ جو حال ہی میں اڑھائی سو خاندانوں سمیت اپنے گاوں لوٹے ہیں کا کہنا ہے ’’میں اور میرے گھر والے دن چڑھنے سے پہلے کارڈ بنوانے پہنچ گئے تھے، لیکن کارڈ بنواتے بنواتے شام ڈھل گئی۔‘‘

وطن کارڈکے حصول میں پیش آنے والے مسائل اپنے گھروں کو لوٹنے والوں کے مصائب کا محض سرورق ہیں۔ ان سے متعلق ریاست کے شکوک و شبہات کا ازالہ قریباً ناممکن ہے۔

کبر خان نے بتایا ’’جب ہم اپنے گاوں کے اڈے پر پہنچے تو فوج نے ہمیں پرامن طریقے سے رہنے پر چالیس منٹ کا لیکچر دیا۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ ہمیں بنوں جانے سے قبل ہمیں پیشگی رجسٹریشن کرانا ہوگی۔ انہوں نے ہمیں زیادہ تر ادھر ادھر گھومنے، کسی کو اپنے گھر میں رات گزارنے کی اجازت دینے اور گاوں سے باہر رات گزارنے سے منع کیا۔‘‘

حکومت نے ہزاروں خاندانوں کی واپسی کو ایک اجتماعی ذمہ داری کے ایک ایسے معاہدے سے مشروط کر دی ہے جس کے تحت سیکیورٹی کی ذمہ داری براہ راست مقامی آبادی کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے۔ اگر چہ فوج نے مقامی آبادی کے ہتھیار ضبط کر لیے ہیں، لیکن انہیں تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں دی۔

اکبر کا کہنا ہے ’’انہوں نے ہمارے تحفظ پر کوئی بات نہیں کی، انہوں نے ہمیں بس وہ اصول بتائے ہیں جن کے تحت ہمیں زندگی گزارنی ہے اور ان اصولوں کی خلاف ورزی پر سختی سے پیش آنے کی تنبیہہ بھی کی۔‘‘ دیگر عوامل کے علاوہ ان اصولوں کے باعث علاقے میں زندگی معمول پر نہیں آ پائی۔ ’’اب بھی کسی ڈاکٹر تک رسائی مشکل ہے، اور سکول بند ہیں۔‘‘

اور جن لوگوں سے ہماری بات ہوئی وہ فوجی کارروائی کے نتیجہ خیز اور کامیاب ہونے کے بارے میں غیر یقینی کا شکار دکھائی دیے۔ ثمینہ بی بی کا کہنا ہے ’’خدا لگتی کہوں تو میں یہ نہیں کہہ سکتی کہ کامیاب ہوا کہ نہیں، میں تو بس یہ کہہ سکتی ہوں کہ ہمیں اب طیارے اور بم نہیں چاہیئے ۔ ہم اس طرح نہیں جی سکتے، ہم امن چاہتے ہیں، ہمیں امن کی ضرورت ہے۔‘‘

Tags: , , , , ,

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *