English | اردو
حاصل خان بزنجو: حاصل خان بزنجو۔ نائب صدر، نیشنل پارٹی۔ سینٹ کا ممبر بھی ہوں۔
تنقید: سرداری نظام اور ٹرائیبل ازم کی تعریف کیا ہے؟
حاصل خان بزنجو: دیکھیں جہاں تک سرداری نظام کا تعلق ہے، ہمارے ہاں سرداری نظام نہیں ہوتا تھا۔ یہ بنیادی طور پر ٹرائیبل ازم ہے۔ ٹرائیبل ازم دنیا کی انتہائی قدیم سوسائٹی رہی ہے جس کی تاریخ سینکڑوں سالوں پر مشتمل ہے۔ مگر ہمارے ہاں جو یہ آپ سرداری نظام کی بات کرتے ہیں، یہ سرداری نظام ہمارے پاس آج جس شکل میں موجود ہے وہ انیسویں صدی میں تشکیل دیا گیا تھا۔ جب لارڈ سینڈمین یہاں آیاتھا۔ وہ پہلے ڈیرہ غازی خان آیا بلوچوں سے نمٹنے کے لئے۔ بنیادی طور پر وہ بلوچوں کا ایکسپرٹ تھا۔ پھر اُس کو انہوں نے قلات بھیجا ۔ تو اس نے وہاں کے قبائل کے چیف بنانا شروع کر دیئے۔ پہلے اس طرح نہیں ہوتا تھا کہ یہ گیا تو اِس کا بیٹا سردار ہو گا،پھر اگلے کا بیٹا سردار بنے گا۔ایسا نظام پہلے نہیں تھا اور اس نظام کوسینڈمین نے متعارف کروایا۔
سینڈمین نے سرداروں کو عدالتی طاقت بھی دی۔ ان کو معاشی قوت بھی دی۔ ان کی مالی اعانت بھی کی۔ ان کو اصلاح بھی دی تاکہ وہ اپنے پورے قبیلہ پر غلبہ حاصل کر سکیں۔تو اس طرح ایک نیا نظام ٹرائبل ازم کی شکل میں وضع ہوا جسے آج بھی ہم سینڈمین سسٹم کہتے ہیں۔ اب سینڈمین کا نظام چلتا رہا۔ سینڈمین تو مرگیامگر جب پاکستان بناتوہمارے جو یہ کالے انگریز آئے انہوں نے بھی اسی نظام کو جاری رکھا۔ بجائے اسکے کہ یہ لوگوں کو با اختیار بناتے، تعلیم کو فروغ دیتے، مواصلات کے نظام کوفروغ دیتے۔ انہوں نے اس سینڈمین کے طریقے کار کو اپنایا۔ یہاں کی جو اسٹیبلشمنٹ تھی، فیڈریل گورنمنٹ تھی، وہ ان سرداروں کے ذریعے پورے بلوچستان پر حکمرانی کرتی رہی۔ اب یہ جو مصیبتیں یامشکلات آج آپ بلوچستان میں دیکھ رہے یہ اسی طریقہ کار کی وجہ سے ہیں جو ساٹھ سال سے یہچلاتے رہے ہیں۔
تنقید: کہا جاتا ہے کہ پچھلے ساٹھ سالوں میں سنٹرل گورنمنٹ قانون سازی کے حوالے سے کچھ تبدیلیاں بھی لے کر آئی ہے۔ وہ کونسی تبدیلیاں ہیں ، مشرف حکومت سے پہلے بھی اور اس کے دوران بھی؟
حاصل خان بزنجو: دیکھیں ایک بڑا مقبول نعرہ ہے ذوالفقارعلی بھٹو کا کہ میں نے سرداری نظام ختم کیا ۔ میرے حساب سے یہ دعویٰ جائز نہیں۔کیونکہ بھٹو نے سرداری نظام ختم نہیں کیا۔ انھوں نے سرداروں کو مزید بااختیار بنایا۔ ان کو پیسے دئیے۔ان کوسیاسی رشوتیں دیں۔ بھٹو نے صرف ایک اعلان کیا کہ وہ تنخواہیں جو انگریزوں کے زمانے میں سرداروں کو دی جاتی تھیں وہ تنخواہیں بند کر دی گئیں۔ مگر حقیقت یہ تھی کہ ان کی جو سیاسی قوت تھی، جو عدالتی قوت تھی وہ ذوالفقار علی بٹھو نے ان سے نہیں لی۔ یہ تو کہیں جاکر اَسّی کی دہائی میں جب امیرملک مینگل بلوچستان ہائی کورٹ کاچیف جسٹس تھا تو اُس نے یہ جرگہ سسٹم ختم کیا۔ کیونکہ جرگہ سسٹم سردار کی قوت کاسب سے بڑا ذریعہ تھا ۔ جرگہ سسٹم میں یہ ہوتا تھا کہ ڈپٹی کمشنر جرگہ کا سربراہ اور سیکریٹری تھا۔اور علاقے کے دو تین سردار اور دو تین معتبرین کو لے کر وہ لوگوں کو سزائے موت بھی دے سکتے تھے، عمر قید بھی دے سکتے تھے۔ اوراُس کا ناتوکوئی انصاف کا طریقہ تھا ناہی تفشیش کا طریقہ تھا ۔ وہ ایک بے لگام طاقت تھی سردار اور ڈپٹی کمشنر کے پاس جو اُن کی ملی بھگت سے استعمال ہوتی تھی۔ یہ سلسلہ جا کے ختم ہوامیرے خیال میں۱۹۹۳ ۱۹۹۱ کے درمیان۔ اسے ختم کیا بلوچستان ہائی کورٹ نے۔ اس سے ہم کہ سکتے ہیں کہ وہاں تھوڑی سی صورتحال بدلی۔ وہاں سردار بھی کمزور ہو گیا اور ڈپٹی کمشنربھی کمزور ہو گیا۔ کیونکہ یہ ان دونوں کی ملی بھگت ہوتی تھی۔ جو ان کے جی میں آتا تھا وہ یہ کرتے تھے۔اس تبدیلی سے یہ کمزورہو گئے۔ اس ریفارم کی بنیاد پر ہم کہ سکتے ہیں سرداری نظام اور ٹرائبل ازم پر پہلی دفعہ جو کسی نے کلہاڑی ماری ہے تو وہ بلوچستان ہائی کورٹ ہے۔
تنقید: اس کے بعد بھی کیا کوئی تبدیلی آئی ہے؟
حاصل خان بزنجو: دیکھیں ہم سمجھتے ہیں کے اب تو تبدیلی آئی ہے اور آ رہی ہے۔ کیونکہ اب تو بلوچستان میں کوئی سردار اتنا طاقتور ہے ہی نہیں کہ وہ کسی کو گرفتار کر سکے، کسی کو جیل میں ڈال سکے۔ اب تو سردار غریب اس حد تک چلا گیا ہے کہ اس کو ووٹ بھی نہیں ملتے۔ اس کو ووٹ لینے کے لئے بھی ایک ایک آدمی کے گھر جاناپڑتا ہے۔ دیکھیں لوگ سماجی طور پر تھوڑا بہت بااختیارہو گئے ہیں۔ آرسی ڈی ہائی وے بننے کے بعد، بجلی پہنچنے کے بعد، اور کچھ چھوٹی سڑکیں بننے کے بعد یہ ہوتا ہے کہ لوگ انفرادی طورپر بااختیارہو جاتے ہیں۔ دیکھیں جب انفرادی لوگ بااختیار ہو تے ہیں تو وہ معاشی طور پر خود مختار ہو جاتے ہیں۔ جب وہ معاشی طور پر خود مختارہوگئے تو انہیں سردار وردار کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ میرے خیال میں اب بلوچستان میں بہت حد تک معاملہ آگے چلا گیا ہے۔ اور ایک غلط تاثر یہ ہے کہسارا بلوچستان ٹرائبل اور سرداری نظام کی لپیٹ میں رہا ہے۔ بلوچستان کا بہت سا حصہ جس میں نوشکی، خاران، پنجگور، گوادر، تربت، آواران، بیلہ ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں کہ جہاں ٹرائبل ازم کبھی اس شکل میں موجود ہی نہیں رہا ۔ اس کا وجود ہی نہیں رہا۔ اب اسی طرح ہماراجو مرکزی قبائلی علاقہ، جو کوئٹہ سے شروع ہو کر خضدار تک جاتا ہے، وہ بھی اب ٹوٹ رہا ہے۔ مطلب اب ہمارے ہاں چیف آف جھلاوان، جو دس سرداروں کا بڑا ہوتا ہے، وہ اس دفعہ کے الیکشن ہار گیا ہے۔
تنقید: جھلاوان اور سراوان کا مطلب بھی بتا دیں۔
حاصل خان بزنجو: جھلاوان اور سراوان کی تعریف یہ ہے۔ اُس زمانے میں (یعنی برطانوی دورِحکومت میں) قلات خان کا ہیڈکوارٹر ہوتا تھا۔ خان ان تمام قبائل کا سربراہ ہوتا تھا۔ تو اس میں جو اوپر کے علاقے میں لوگ رہتے تھے، جس میں رئیسانی ہوئے ،بنگلزوئی ہوئے ، شارانی ہوئے ، ممَشئی ہوئے، ان کو ہم سراوان بولتے تھے اور اس زمانے میں ان کا ایک چیف مقرر ہواتھا ۔ یہ بھی انگریزوں کا دیا ہوا نظام تھا۔ اور چیف آف سراوان جو ہمارے اس وقت کے وزیرِاعلیٰ ہیں اِس کی فیملی سے ہوتا ہے۔ دوسراچیف آف جھلاوان ہے۔ قلاّت سے نیچے والا علاقہ جو خضدار تک جاتا ہے اس کو ہم جھلاوان بولتے ہیں۔ اور جو قلّات سے کوئٹہ کی طرف جاتا ہے اسے ہم سراوان بولتے ہیں ۔ جونیچے والا علاقہ ہے (یعنی قلّات کا جنوبی علاقہ)اسے ہم جھلاوان بولتے ہیں، جس میں بزنجو، مینگل، محمدحسنی، زہری قبائل شامل ہیں۔ تو اس میں جو زہری قبیلہ کا سردار چیف آف جھلاوان کہلاتا ہے۔ تو اسی لیے آپ تاریخ کا جائزہ لیں تو چیف آف سراوان بھی الیکشن ہار چکا ہے اور چیف آف جھلاوان بھی الیکشن ہار چکا ہے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ اب ٹرائبل ازم اس شکل میں نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر آج بھی یہاں کی اسٹیبلشمنٹ اپنا ہاتھ ان سرداروں کے سر سے ہٹائے تو ان سرداروں کا وجود ختم ہو جائے گا۔
تنقید: اس وقت اسٹیبلشمینٹ نے کس طریقے سے سرداروں پر اپنا ہاتھ رکھاہوا ہے؟
حاصل خان بزنجو: دیکھیں اس وقت یہ سارے سردار اب سیاسی لیڈر بن چکے ہیں۔ وہ سیاسی لیڈر کس لئے بنے ہیں حالانکہ ان کو سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ ان کا بس چلے تو یہ اپنے علاقوں میں سیاست کرنے ہی نہ دیں۔ مگر ان کو اب معلوم ہے کہ سیاست کے بغیر ان کے پاس کمائی کاکوئی ذریعہ نہیں ہے۔ مثلاہماری جتنی انٹیلی جنس آرگنائزیشنز ہیں وہ کسی نہ کسی طرح ان سارے سرداروں سے جڑی ہوئی ہیں۔جہاں سردار نہیں تھے وہاں ڈرگ مافیا کے لوگ اور دوسری مافیاز کے لوگوں کوہماری اسٹیبلشمنٹ نے فروغ دیا اور ان کو سردار بنا دیا۔ بہت سے سردار ہیں، مثلا سردار فتح محمد حسنی جو کہ اصل سردار نہیں۔ آپکو بہت سے لوگ ملیں گے جن کے پاس پیسہ ہے اور اب وہ سردار بنے بیٹھے ہیں۔ تو ہماری رائے یہ ہے کہ آج بھی ان کو ایم پی اے بنانے میں اسٹیبلشمیٹ ان کی مدد کرتی ہے۔ ان کو وزیربنانے میں مدد کرتی ہے۔ ان کی کرپشن میں بھی اسٹیبلشمینٹ ان کی مدد کرتی ہے۔ اب نتیجہ یہ ہے کے یہ سردارجو بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں ان میں سے کسی کے باپ کے پاس، جب وہ بڑے سردار تھے اور ان کے پاس طاقت تھی، ان کے پاس ایک جیپ نہیں ہوتی تھی۔آج یہ سارے سرداربلٹ پروف لینڈ کروزر سے نیچے نہیں آتے۔ یہ تو مہربانی ہے ہماری اسٹیبلشمنٹ کی کہ ان کو یہ سب دیا ہوا ہے۔ ان کے آباؤ اجدادکے پاس آج والاپیسہ یا جائیداد نہیں تھیں۔ یہ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے دیں ہے۔ اسی طریقے سے وہ آج بھی ان سرداروں کے ذریعہ سارے معاملے کو چلانا چاہتا ہے۔
تنقید: سپریم کورٹ کا ایک آرڈر ابھی پچھلے جمعہ کو آیا تھا جس میں بلوچستان حکومت کے حکمرانی اختیار کو چیلینج کیا گیا ہے۔ اس پرآپکا کیا ردِعمل ہے؟
حاصل خان بزنجو: دیکھیں، میں تویہ سمجھتا ہوں کہ یہ ہماری کامیابی ہے۔ کیونکہ ہم چار سال سے یہ کہہ رہے ہیں کے بلوچستان میں حکومت کی اتھارٹی قائم نہیں۔ وہاں کوئی حکومت موجود نہیں ہے۔ یہ وزراء اپنے دفتروں میں نہیں جاتے ہیں۔انھوں نے اندرونی بلوچستان تو کیا ا انہوں نے کوئٹہ شہر کوبھی چھوڑدیا ہے۔ وہاں لوگ مارے جا رہے ہیں۔ مثلا میں پچھلے دنوں خضدار گیا جہاں ہمارے بلوچ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن پجار کے چئرمین کا بھائی مارا گیاتھا۔ آپ یقین کریں گے کہ خضدار میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرکے لوگ پیریفری(بیرونی علاقوں)سے جا کر اپنے لئے راشن لے رہے ہیں۔ جو ہیڈکوارٹر ہے وہ پچھلے تین مہینے سے بند ہے۔ اور ہر دوسرے دن ایک قتل ہو رہا ہے۔ پینتالیس لوگ مارے جاچکے ہیں۔ پولیس اپنے گھر سے نہیں نکلتی۔ ڈپٹی کمشنر اپنے گھر سے نہیں نکلتا۔ وزراء وہاں جانے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ وہ اتنا بڑا شہر ہے۔ تین چار لاکھ لوگوں کا شہر ہے۔ وہ جو ہے کھنڈرات بنا ہوا ہے۔ وہاں ہو کا عالم ہے۔ تو اسی لئے ہم سمجھتے ہیں کہ اس حکومت کوآج سے دو سال پہلے ہی ختم ہو جانا چاہیے تھا۔ اگر دو سال پہلے ختم ہوتی تو یہ جو لوگ مارے گئے ہیں شائد اتنے لوگ نہیں مارے جاتے۔اس کی سب سے بڑی ذمہ داری اس صوبائی حکومت کی اورہماری انٹیلی جنس آرگنائزیشنز کی ہے۔
تنقید: سپریم کورٹ آرڈر نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے خلاف جو ا سٹیٹمنٹ دی ہے کیا وہ مضبوط سٹیٹمنٹ ہے یاآپکو لگتا ہے کہ ابھی بھی انہیں زیادہ کرنا یا مزید کچھ کہنا چاہیے تھا؟
حاصل خان بزنجو: میرے خیال میں انہوں نے ان کومکمل طور پر بے نقاب کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ چیف جسٹس کا کہنا کہ اب میرے پاس کوئی چارا نہیں کہ میں خضدار خود چلا جاؤں۔ یہ چیف جسٹس کے تاثرات ہیں۔کہ یہ حکومت اب کچھ نہیں کر سکتی میں مجبور ہوں کہ میں خضدار جا کے بیٹھ جاؤں۔ تو اسی لئے میں سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ نے بالکل ان کو بے نقاب کر دیا ہے اور سپریم کورٹ نے ڈائریکشن بھی دی ہے۔ انہوں نے تمام چیزیں کی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس پر عمل درآمد کون کروائے گا۔ آیا یہ نافظ ہوگا سپریم کورٹ کا آرڈر۔ یہ صرف سپریم کورٹ کا آرڈر نہیں ہے۔ یہ بلوچستان کی عوام کی آواز ہے۔ سارے بلوچستان کی۔ یہ جو سپریم کورٹ کر رہا ہے یہ صرف سپریم کورٹ کی آواز نہیں ہے۔ یہ ہم سب کا مطالبہ ہے۔ اورسارے بلوچستان کا مطالبہ ہے کہ اس مصیبت سے ہماری جان چھڑائی جائے۔
تنقید: لیویز کی صورتحال اور ایریا ء ’اے‘ اور ایریاء ’بی‘ کے اندر جو ریفارمز رہی ہیں اُس کے بارے میں آپ تھوڑا سا بتا دیں۔
حاصل خان بزنجو: دیکھیں لیویز بھی ہمارے سینڈمین صاحب کی دین ہیں۔ کہ وہ سپاہی انگریز کا ہوتا تھا مگر نامزد اس کو سردار کیا کرتا تھا۔ اس زمانے میں اگر آپ اُس کی پرانی تاریخ میں جائیں، آپکے بڑے بڑے معتبر نام جوآج کل بڑے بڑے سردار بنے ہوئے ہیں اُس زمانے میں وہ جمعدار بننا، بڑے خوش ہوتے تھے جمعدار بننے کے لیے۔ بڑے بڑے آپکو نام ملیں گے جو اس زمانے میں جمعدار تھے۔ کیونکہ انگریزوں کی طاقت ان کے پاس ہوتی تھی۔ تو اسی لئے اس کو جاری رکھاگیا۔ یہ حکومت آئی اس نے بھی اس کا شکل تھوڑا بدل دیا۔ کہ چلو جی اب ان کو تنخواہیں ڈائریکٹ دی جاتی ہیں۔ ان کو سرکاری ملازمت بھی دی جاتی ہے۔ پنشن بھی دی جاتی ہے۔ مگر اس کی بھرتی کا طریقہ نہیں بدلہ انہوں نے۔ وہ جو کمیونٹی پولیس ہوتی ہے دنیا میں ہمارا خیال یہ تھا کہ اگر لیویز کو آپ کمیونٹی پولیس میں لے جایں۔ تاکہ اس کو ٹریننگ دے دیں۔ کوالیفائیڈ لوگو ں کے ماتحت کر لیں۔ کوئی ڈسپلن کر لیں۔ مگر اس حکومت نے یہ نہیں کیا۔ مشرف آیا، اس نے کہاکہ جی یہ سارا۔۔۔ مطلب ’بی‘ ایریاء اور ’اے‘ ایریاء میں فرق ہے کہ ‘اے’ ایریاء میں جہاں ٹاؤن ایریا ہے پچیس کلومیٹرتک پولیس کام کر سکتی ہے۔ پچیس کلومیٹر بعد، سکوئر کلومیٹر پر اس کے بعد جو ہے وہ لیویزآ جاتی ہیں ۔ آپ ایسے سمجھیں کے سیدھاچارپانچ کلومیٹرکے بعدلیویز شروع ہوتی ہیں۔ تو ان نے یہ کام کیاکہ اس نے (مشرف نے)کہا کہ جی یہ ’بی‘ کو ختم کرو ۔ سب کو ’ اے‘ میں ڈال دو جس میں سب پولیس ہو جائے۔ اس کا ایک فائدہ تھا کہ پولیس کا ایک ڈسپلن ہے۔ پولیس کا ایک طریقہ کار ہے۔ اس کا ایک ٹریننگ ہوتا ہے۔ اس کا اپائنٹمنٹ کا طریقہ ہے۔ لیویز تو بھرتی اس طرح کی جاتی ہے کہ جیسے ہمارا جووزیرِداخلہ ہے صوبہ کا وہ کہتا ہے جی کہ تیس ہزارآدمی بھرتی کررہے ہو تو بارہ فیصد تو میرا ہو گا۔ تو بارو فیصدمیں اپنے لوگ شامل کر لوں گا۔ ہر ایم پی اے پر تقسیم کئے جاتے ہیں۔ یہ ایم پی اے صاحب ، بیس آدمی آپکے چالیس آدمی اُسکے تیس آدمی اِسکے۔تو اسی لیے وہ کوئی آرگنازڈ فورس نہیں بنایا گیا۔ اس میں یاں تو یہ ہے کہ اسی کو اپنایا جائے’اے‘ ایریاء قرار دیا جائے۔ یااس کو جیسے دنیا میں کمیونٹی پولیس ہوتی ہے اسے ماڈرن کیا جائے۔اس کو ٹریننگ دی جائے۔اس کو ڈسپلن میں لایا جائے۔تو ایک بہتر صورتحال ہو سکتی تھی۔
تنقید: آخر میں، آخری سوال ہے میر اجس بارے میں ہم پہلے بات کر رہے تھے ۔ مینگل کے دورے کے بعدکافی سیاستدان، نوازشریف سے عمران خان سے، خاص طور پرآپوزیشن سیاستدان۔ انہوں نے آزاد اور شفاف الیکشن پرزور ڈالا ہے۔ یہ صحیح ہے یا اس سے پہلے کچھ آتا ہے؟
حاصل خان بزنجو: نہیں! میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت میری جو اپنی رائے بنتی ہے کہ دو چیزیں اگر یہ حکومت الیکشن سے پہلے کر گیا۔ ایک یہ ہے کہ انہوں نے جومتوازی بلوچ فورس کھڑی کی ہے عسکریت پسندوں (ملیٹنٹ)کا مقابلہ کرنے کے لئے۔ جس کو آپ بلیک واٹر کا نام دے دیں ۔ جو بھی ہیں جن کے پاس سرکاری کارڈ ہے۔ وہ لوگوں کو مارتے پھر رہے ہیں۔ اغوا کرتے پھر رہے ہیں۔ جو خضدارکی صورتحال کی بات کی تھی چیف جسٹس نے وہ سارے یہ لوگ ہیں ۔ سرکار نے ا ن کو ایک کارڈ دیا ہوا ہے۔ ان کوبندوق دی ہوئی ہے۔ا ن کو گاڑیاں دی ہوئی ہے۔ کہ آپ جاکے عسکریت پسندوں کو ماریں۔ وہ عسکریت پسندوں کوپتہ نہیں کیا مارتے ہیں نہیں مارتے۔ انہوں نے پوری سوسائٹی میں اُدھم مچایاہوا ہے۔ لوٹ مار کر رہے ہیں۔ اغوا برائے تاوان۔ یہ سب کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر اسی فورس کوواپس لینے میں، اگر وہ ایمانداری سے واپس لے لیں تو، امن پسند اور شفاف الیکشن ہی بلوچستان کے مسائل کا بہترین حل ہے۔یہ نہیں کہ ختم ہو جائے گا۔ یہ چلے گا۔ مگراُس کی شدت یہ نہیں ہو گی۔ اُس میں بہت فرق آئے گااور اس میں چیزیں بہت بہتر ہو سکیں گی۔ مگر اِس میں پہلا کام ان کو یہ کرنا ہو گا کہ اِس اپنی جوسرکاری فورس بنایا ہوا ہے۔جو سرکار کا ہے بھی اور سرکار کا نہیں بھی ہے۔ اس کو پورا واپس بلا لیں۔ اور وہاں امن پسند اور شفاف الیکشن کروا لیں۔تو میں سمجھتا ہوں کے بلوچستان کا معاملہ حل ہونے کی طرف جائے گا۔
تنقید: سیاستدان جنہوں نے جو بیانات دیئے ہوئے ہیں۔ اس کے مطابق آپکو لگتا ہے کہ وہ صحیح ہیں؟ مطلب کیا وہ بھی یہی بات کر رہے ہیں یا وہ الیکشن کی طرف سیدھا جارہے ہیں؟
حاصل خان بزنجو: دیکھیں، جو ہمارے یہاں کے سیاستدان ہیں۔ہمارے لئے ہر وقت مشکل یہ رہی ہے کو بلوچستان کے متعلق جو ہماری نیشنل لیڈرشپ جسے کہا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر ان کا کوئی تصورہی موجودنہیں ہے کہ انکو کرنا کیا ہے یا وہاں کے مسائل کیا ہیں۔ میں تو کہتا ہوں کہ آپ فوجی جرنیل سے بات کریں وہ زیادہ تفصیل میں آپ سے بلوچستان کے اندرونی مسائل پر بات کرے گا بہ مقابل سیاسی لوگوں کے۔ کیونکہ ہماری جو سیاسی لیڈرشپ ہے وہ کوئی کوئٹہ سے آگے جاتا نہیں ہے۔ اب ایک پنڈال کھلا ہے گوادر کا۔ پلاٹوں کا۔ تو وہاں تھوڑا بہت آنا جانا شروع کیا ہے۔ ورنہ اگر آپ تاریخ میں دیکھیں کہ کوئی وفاقی حکومت، چاہے وہ وزارتِ پٹرولئیم ہو، واپڈا ہو۔ جو اہم وزراء ہوتے ہیں۔ ان میں سے آج تک اندرونی بلوچستان کسی نے وزٹ نہیں کیا ۔ اس وقت جب کوئی اِدھر کا ہو اس کا میں نہیں کہ سکتا۔ جو بلوچستان کا نا ہو اور یہاں وفاقی حکومت کا وزیر ہو۔ کسی تگڑی وزارت سے ہو۔ کسی وفاقی حکومت نے اندرونی بلوچستان کا آج تک کم سے کم میں نوّے سے اسمبلی میں ہوں۔ کوئی وفاقی حکومت اندرونی بلوچستان نہیں گئی۔ تو اسی لئے ان کے پاس وہ تصورہی نہیں ہے کہ بلوچستان کے واقعی میں اندرونی مسائل کیا ہیں۔
تنقید: پر جو ہمارے پنجاب کے سیاستدان ہیں یاشمالی علاقوں کے ۔آپ لے لیں نواز شریف، عمران خان، اے این پی کے۔ اُن کے جو بیانات ہیں، کیاوہ آپکو درست لگتے ہیں جوآپکے بلوچستان کی حمایت میں دئے گئے ہیں؟
حاصل خان بزنجو: دیکھیں وہ بنیادی طور پر ہماری ہی باتیں سن کے بیانات دیتے ہیں۔سچی بات یہ ہے۔ تو بنیادی طور پریہ ڈیمانڈ ہمارا ہے۔ اور یہی ایک رستہ ہے۔ نواز شریف پچھلے دنوں سے، اس کا پرانا تجربہ ہے، ۱۹۹۰ اور ۱۹۹۷ کا۔ وہ کوشش کر رہا ہے کہ نیشنلسٹوں(قوم پرستوں) کو اپنے ساتھ جوڑلیا جائے۔ اور وہ ایک تاثرہے اینٹی پنجابی اُس کو ختم کیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب اچھے اشارے ہیں۔ یہ اچھی چیز ہے۔ جس سے جو گیپ پیدا ہوا ہے پنجاب اور بلوچستان میں، پنجاب اور سندھ۔ یا پھر اس کو آپ اسلام آباد، سندھ اور پنجاب کہیں۔ وہ اس صورت میں گیپ کم ہو گا۔ یہ ایک مثبت چیز ہے۔جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے۔ عمران خان چیزوں کے متعلق ابھی خود کلیئر نہیں ہے۔ مطلب آج بھی عمران خان یہ کہتا ہے کہ میں بلوچستان کے سرداروں کو اکھٹا کروں گا۔کیونکہ بلوچستان میں سرداروں کو اکھٹا کرنا کوئی اچھا پیغام نہیں۔ یہ کوئی بہت اچھی بات نہیں کر رہے ہوتے آپ وہاں پے۔چونکہ اُسے ابھی تک معلوم نہیں ہے۔ کیونکہ وہ شائد سیاست میں ابھی نیا آیا ہے یا ان تمام چیزوں میں ابھی پڑانہیں ہے۔ وہ آج بھی سمجھتا ہے کہ سرداروں کو اکھٹا کرنے سے میں الیکشن جیتوں گا۔
تنقید: شکریہ