رنگ اڑنے سے ذرا پہلے
ہوا کا ہاتھ تها مے کوچ کر جاتی ہے شہروں سے
***
نئے موسم کے سورج ہو
پرانی کهڑکیوں کی درز سے کمرے میں آ جاؤ
یہ خط کوئی نہیں لکهتا
مگر کرنیں منڈیروں سے اتر کر نرم ہاتهوں سے پرانی چٹخنی کو رام کرنے کا سلیقہ جانتی ہیں
***
کسی اخبار کے ماتھے پہ لکهی سرخیوں کی زندگی زیادہ
سے زیادہ ایک دن ہے
***
محبت میں لکهی نظمیں پرانی کیوں نہیں ہوتیں…
جنگ: ایک کولاژ
مورچے کهودنے کا کفارہ دینے کو
قبریں جسموں سے پر کرنی پڑتی ہیں
***
بوڑهی کمریں بیٹوں کے دفنانے کو جهکتی ہیں
سیدهی نہیں ہوتیں
***
قبروں پر جو پانی چهڑکا جاتا ہے
چکھ کر دیکھو
اس میں نمک ہے
***
پائینتی لگ کر آپ ہی آپ سلگنے والی اس عورت نے
جنگ چهڑنے سے خوابوں کے دفنانے تک
خوشبو نہیں پہنی
***
سرہانے پر ہاتھ پھیرتی ماں سے پوچهو
جیتا کون
***
تمغے جس سونے سے ڈهالے جاتے ہیں
اس میں سے نیت کا کهوٹ علیحدہ کرنا ناممکن ہے…
***
اک زخم نیا لگ جانے سے
کچھ درد پرانے کہلائیں
جو سب کو اپنا جانتے ہیں
خود سے بیگانے کہلائیں
ہر درد لگائے سینے سے
ہم سب دیوانے کہلائیں…
سلمان حیدر