ایشیا ٹائپ نسخ یا نستعلیق فونٹ میں پڑھنے کے لیے ان ہدایات پر عمل کریں۔
جولائی ۲۰۱۵ کے آخری دنوں میں اسلام آباد کی سب سے بڑی کچی آبادی کے خلاف سفاک بیدخلی آپریشن کر کے تین ہزار گھر گرا کی قریبا بیس ہزار نفوس کوچھت سے محروم کر دیا گیا تھا۔ تین دن تک جاری آپریشن میں اسلام آباد کے بلدیاتی ادارے کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کی ایما پر آبادی کے مکینوں کو گھروں سے گھسیٹ کرنکالا گیا۔ اس اس آپریشن میں سی ڈی اے کو وفاقی حکومت کی حمایت اور دارلخلافہ پولیس اور رینجرز کی مدد بھی دستیاب تھی۔
اس مضمون میں حسن طوری اس آپریشن کی روداد بیان کرتے ہیں۔ حسن کچی آبادیوں میں کام کرنے والی بائیں بازوں کے سیاسی کارکنان اور آئی الیون کچی آبادی کے مکینوں پرمشتمل تنظیموں آل پاکستان آلائنس برائے کچی آبادی (آپکا) اور عوامی ورکرز پارٹی کے ممبر ہیں۔ اس آپریشن کے دوران لکھاری کو ریاست کی بربریت کی ویڈیوبنانے اور تصویریں کھینچنے کے ’’جرم‘‘ میں انسدادِ دہشتگری قانون لاگو کر کے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ لکھاری کا تعلق فاٹا کی کرّم ایجنسی ہے اور انہیں وہاں بھی اسی طرح کے ریاستی تشدد کا سامنا کرن پڑتا ہے۔ اس مضمون میں وہ پاکستان کے غریب ترین اور زیر دست لوگوں پر نا رکنے والے ریاستی تشدد پر روشنی ڈالتے ہیں۔
جیل سے رہائی کے بعد میں اپنا شناختی کارڈ اور موبائل فون واپس لینے کیلئے سبزی منڈی تھانہ پہنچا۔ سبزی منڈی تھانہ سڑک کے ایک طرف ہے ۔ جبکہ دوسری طرف I-11 کچی آبادی ہے ۔ یہ منظر میرے لئے نا قابل یقین تھا کہ تمام آبادی اب بس ایک ملبے کا ڈھیر بن کر رہ گئی تھی ۔ میں نے ان جگہوں کو تلاش کر نا شروع کر دیا جہاں کبھی ہم لوگ آبادی کے مکینوں کے ساتھ میٹنگز کرتے تھے ۔ پارٹی آفس اور وہ تنگ و تاریک گلیاں جن میں کبھی آپریشن کے خلاف تحریک کے دوران اور کبھی الیکشن مہم کے دوران ایک ایک دروازے پر دستک دیتے تھے۔
I-11 کچی آبادی کی تباہی نے مجھے اپنے گاؤں کرم کی یا د دلا دی جو کہ فاٹا میں واقع ہے۔ ان دنوں کی یاد کہ جب طالبان نے ہمارے قبیلے کے لوگوں پر تشدد کیا عورتوں اور بچوں کو قتل کیا اور پھر پورے قبیلے کو زبردستی گاؤں سے بے دخل کر دیا ۔ اور آج CDA نے بھی بالکل وہی کیا جو کل طالبان نے کیا تھا ۔ وہ جنگ کہ جس نے پورے علاقے کو تباہ کر دیا۔ لاکھوں لوگوں کو (جن میں غالب اکثریت پختونوں کی ہے )بے گھر کر دیا۔ یہ ہمار ی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے اور آج جب ریاستی مشینری کچی آبادی کو گرانے کیلئے صف بندی کئے ہوئے ہے تو دوبارہ پختون ہی اس کا شکار ہیں۔ جب فاٹا کے لوگ بے گھر ہوئے تو وہ اسی ریاست کی ہی نازل کردہ پالیسیوں کا نتیجہ تھا کہ جس کے بعد لوگوں نے اسلام آباد اور دوسرے بڑے شہروں کا رخ کیا لیکن کہیں پر بھی ان کو خوش آمدید نہیں کیا گیا۔ سندھ اور پنجاب میں داخل ہونے سے ان کو روک دیا گیا۔ ان کے شناختی کارڈوں پر موجود ان کے گھر کے پتہ کی وجہ سے روزانہ پولیس ان سے غیر انسانی سلوک کر تی رہی ۔
———————————————————————————————————————————
پاکستان کی کہانی سنانے کے لیے آزاد میڈیا کی تشکیل میں ہماری مدد کیجیے۔
———————————————————————————————————————————
اور جب ان میں سے کچھ لوگوں نے اسلام آباد میں کسی طرح کچے گھر بنا لئے تو بے رحمی سے ان کی چھتیں گرا دی گئیں ان کی عورتوں کو گھسیٹا گیا ذلیل کیا گیا اور ان کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت پرچے کاٹے گئے۔ اس ریاست اور اس کے ساتھ جڑے ہو ئے لوگوں کو اب کسی نئی دلیل کی ضرورت نہیں رہی ۔ پشتون دہشت گرد ہے خواہ وہ کہیں بھی ہو ۔ فاٹا ہو ، افغانستان ہو یاا سلام آباد کی کچی آبادی ۔ لہذا جب دہشت گرد سامنے آتے ہیں تو مملکت خداداد پاکستان کے قانون ، عدالت اور ریاستی ادارے چرچا کرتے ہیں کہ وہ ان دہشت گردوں سے نمٹیں گے اور عام لوگ بس ان کے لئے تالیاں بجائیں ۔ دہشت گرد تو کوئی بھی ہو سکتا ہے ، کچی آبادی میں رہنے والا بچہ جو بلڈوزر کو پتھر مارے یا پھر وہ جو فاٹا میں فوجی آپریشن کے دوران مارا گیا۔
* * *
I-11 کچی آبادی میں میرا اکثر آنا جانا رہتا تھا لیکن بلدیاتی الیکشن کا اعلان ہونے کے بعد تو میں روزانہ اپنے کا میریڈز کے ساتھ یہاں جایا کر تا تھا ۔ میں پارٹی کی سرگرمی میں موجود ہوتا تھا دراصل میری ذمہ دار ی تھی کہ میں ان سرگرمیوں کی تصاویر بناتا تھا سوشل میڈیا کیلئے اور پارٹی کے امیدواروں کی تصویریں ، اشتہار چھاپنے کیلئے اور بینرز وغیرہ بنانے کیلئے ۔ آبادی میں لگ بھگ روزانہ ہی صبح شام کارنر میٹنگز ہو رہی ہوتی تھیں اس سب کچھ کی وجہ سے آبادی کی اکثریت سے میری ذاتی طور پر جان پہچان ہو چکی تھی اور پھر میرے خود کے پشتون ہونے کی وجہ سے بھی ان لوگوں کا رویہ مجھ سے زیادہ دوستانہ تھا ۔
الیکشن مہم کے دوران بہت سے نئے نوجوانوں نے بھی عوامی ورکرز پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور ہم لوگ روزانہ ان کے ساتھ میٹنگز رکھتے اور آبادی میں ہر گھر تک پارٹی کا پیغام پہنچاتے ۔ رمضان میں پارٹی کی طرف سے پارٹی آفس میں افطار پارٹیوں کا اہتمام کیا جاتا ، آبادی میں جا بجا سرخ پرچم لگے ہو ئے ، گلیوں میں کھیلتے ہوئے بچے جاگو جاگو ، انٹر نیشنل بھی گا رہ ہو تے تھے ۔ آبادی کے سب لوگ بڑی بے صبری سے الیکشن کا انتظار کر رہے تھے لیکن بد قسمتی سے یہ تاخیر کا شکار ہو گئے اور میں عید کیلئے گاؤں چلا گیا ۔ 27 جولائی کو متوقع I-11 کچی آبادی کے خلاف آپریشن کی خبر سن کر میں 26 جولائی کو واپس اسلام آباد پہنچ گیا ۔ میں پیر ودھائی پر بس سے اترا اور سیدھا کچی آبادی میں چلا گیا ۔ ہم نے آپریشن کے خلاف لوگوں کو متحرک کرنے کیلئے ٹیمیں بنائی ۔ لوگ خاصے پر امید تھے۔ عالمگیر جو کہ ہمارا ساتھی ہے اور آبادی کا رہائشی ہے اس نے مجھے بتا یا کہ ایسا پہلی بار ہو ا ہے کہ کوئی آبادی سے نکلا نہیں اور نہ ہی کسی نے سامان باندھا ، لوگ متحد ہیں ۔
CDA اب کچھ نہیں کر پائے گا ۔ 27جو لائی کو ہم سب پارٹی کے ساتھی بہت صبح ہی آبادی میں پہنچ گئے لوگ پہلے ہی اکھٹے ہو نا شروع ہو چکے تھے ۔ وہ معمول کے برخلاف کام پر نہیں گئے بلکہ آبادی میں ہی موجو د رہے۔ جب CDA کی ٹیم آئی تو ہم نے مزید مسجدوں اور گلیوں میں اعلانات کر وا دئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگوں نے آبادی کے سامنے صفیں بنا لیں ۔ بچے چھتوں پر موجود تھے ۔ آبادی کے لوگ اب اور بھی پر جوش تھے کہ CDA اب ہمار ا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ 29 جولائی کو دوبارہ CDA والے آبادی کی طرف آئے لیکن اس دفعہ ان کی تعداد سے واضح تھا کہ وہ آج آپریشن کر نے نہیں آئے لیکن پھر لوگوں کی بڑی تعداد آبادی کے باہر جمع رہی اور CDAکی بے دخلی مہم کے خلاف نعرے لگاتے رہے جبکہ CDAکی ٹیم دوپہر کو ہی واپس روانہ ہو گئی ۔ لیکن شام کو اس طرح کی خبریں گردش کرنے لگیں کہ 30 جولائی کو I-11 کچی آبادی کے خلاف ایک بڑا آپریشن ہو نے والا ہے لیکن اگلے دن ہم لوگ بہت صبح سویرے ہی پارٹی کا مریڈز کے ہمراہ آبادی میں پہنچ گئے اور ناشتہ بھی پارٹی آفس میں ہی کیا اور ہم سب آبادی میں لوگوں سے ملنے جلنے لگے لیکن ابھی تک CDA کے عملے کا نام و نشان تک نہ تھا ۔
میں تصویریں اور ویڈیو بنا رہا تھا کہ اسی دوران CDA کا عملہ پولیس اور رینجرز کی ایک بڑی تعداد نے میٹرو سٹور کے سامنے والی گراؤنڈ میں جمع ہو نا شرو ع کر دیا یہ صبح کے تقریباً 10 بجے کا وقت تھا ۔ آبادی کے لوگوں نے بھی بڑی تعداد میں صف بندی کرنا شروع کر دی ، CDA نے مفتی اور ایک بزرگ جن کا نام سارتر ہے کو مذکرات کرنے کے لئے بلایا جبکہ عوامی ورکرز پارٹی کو مذاکرات کا حصہ بنانے سے صاف انکار کردیا ۔ مفتی اور سارتر نے CDAکے ساتھ اتفاق کر لیا کہ لوگ خود اپنے گھروں کو گرائیں اور واپس آ کر اعلان کیا کہ سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں لوگوں نے مفتی کے گھر کو رستہ دے دیا اور خود دو سری طر ف اکھٹے ہو گئے لیکن جب مفتی نے اپنا گرانا شروع کیا تو لوگوں نے مزاحمت کرنا شروع کر دی ۔ لوگ چھتوں پر چڑھ گئے چیخنے چلانے لگے اور پولیس اور CDA کے لوگوں پر پتھراؤ شروع کر دیا ۔
میں زخمی ہونے والے ایک بچے کی ویڈیو اور تصاویر بنا رہا تھا اور ایک دوسری خاتون کی بھی جسے پولیس اہلکار اس کے گھر سے گھسیٹتے ہو ئے باہر لائے تھے اور وہ مدد کے لئے پکار رہی تھی میں نے اسے پانی دیا اور پھر ایک ایسی خاتون کی ویڈیو بنانا شروع کر دی جو چھت پر کھڑی تھی اور قرآن شریف اٹھائے ہوئے تھی اور پولیس والوں سے رحم کی اپیل کر رہی تھی ۔ اس کی گود میں ایک چھوٹا سا بچہ بھی تھا ۔ جبکہ پولیس والے ان کے ساتھ انتہائی غلیظ زبان استعمال کر رہے تھے۔ اسی دوران ایک پولیس والے نے دوسرے سے کہا کہ اس لڑکے کا میڈیا کارڈ چیک کر و ’’مجھے لگتا ہے کہ یہ بھی آبادی والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ کیونکہ میرے پاس واقعی کارڈ نہیں تھا لہذا میں نے بولا کہ میں فری لا نسر ہوں لیکن انہوں نے میری بات نہیں سنی اور مجھے بھی گرفتار کر لیا۔
———————————————————————————————————————————
یہ مضمون آپ تک پہنچنے کے لیے ہمارے خون پسینے کے علاوہ روپیہ پیسہ بھی خرچ ہوا ہے۔
———————————————————————————————————————————
مجھے اور باقی گرفتار شدہ لوگوں کو I-9/2 CIA تھانہ میں لایا گیا جبکہ یہاں پر موجود گرفتار شدہ افراد میں سے زیادہ تر کا تعلق آبادی سے نہ تھا بلکہ یہ پشتون بھی نہ تھے لیکن اس کے باوجودباہر موجود ایک پولیس آفیسر یہ کہہ رہا تھا کہ:
’’70 پٹھانوں کا دماغ مل کر ایک پنجابی کا دماغ بنتا ہے۔‘‘
ہم میں سے 9 لوگوں کو ایک ایسی چھوٹی سی بیرک میں ڈال دیا گیا جہاں پر سانس تک لینے میں دشواری ہو رہی تھی اور بیٹھنے پر ٹانگیں بھی سیدھی نہیں کی جا سکتی تھیں ۔ اس چھوٹی سی بیرک کے اندر ہی ٹائلٹ بھی تھی جس کی دیوار مشکل سے دو فٹ بلند ہو گی جبکہ ہمیں اسی کے نل سے پانی بھی پینا پڑتا اور پھر ہر ایک گھنٹے کے بعد پانی ختم ہو جاتا اور مختلف بیرکو ں سے قید ی پانی کیلئے چلانے لگتے۔
اگلے دن ہمیں ATC اینٹی ٹیراسٹ کورٹ لے جایا گیا جہاں سے ہمیں چار دن کے ریمانڈ پر واپس پولیس کے حوالے کر دیا گیا اور سیکرٹریٹ تھانہ میں منتقل کر دیا گیا۔ یہاں کی بیرک قدرے بہتر حالت میں تھی ۔ یہاں میرے ساتھ موجو د لوگوں کی اکثریت کا تعلق سبزی منڈی سے تھا جبکہ حبیب الرحمٰن کے علاوہ ان میں سے کوئی پشتون نہیں تھا۔ جو کہ بجری اور ریت کا سپلائر ہے۔ تیسرے رو ز پولیس نے مجھ سے تفتیش کی جہاں میں نے انویسٹی گیشن آفیسر سے مباحثہ بھی کیا ۔ اس کی دلیل تھی کہ لوگوں نے جھونپڑیاں بنا کر دوسرے لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کیا ہے وہ زمین جو کہ CDA نے دوسرے لوگوں کو الاٹ کر دی تھی ۔ میں نے بو لا کہ CDA نے یہ زمین 1992 ء میں الاٹ کی جبکہ آبادی کے لوگ 1985 ء سے یہاں پر موجو د تھے جبکہ لوگوں کے 1985 ء کی الیکشن کی ووٹر لسٹ بھی موجو د وے ۔ اس پر ان کا کہنا تھا کہ 2005 ء میں یہ تمام آبادی گرا دی گئی تھی اور یہ لوگ دوبارہ واپس آئے ہیں۔
اس پر میں نے کہا کہ اگر ریاست لوگوں کو چھت فراہم کر نے میں ناکام رہتی ہے جو کہ لوگوں کا آئینی و قانونی حق بھی ہے ۔ تو پھر یہ کچی آبادیاں تو بنیں گی ۔ جبکہ میں نے ان سے سوال کیا کہ آپ لوگ کچی آبادیوں کو تو گراتے ہیں لیکن وہ جگہیں جہاں پر امیر لوگوں نے قبضہ کیا وہاں کبھی کوئی آپریشن نہیں ہوتا ۔ جس پر اس نے جواب دیا کہ ہم بنی گالا میں بھی آپریشن کیا تھا۔ تو جواباً جب میں نے یہ کہا کہ وہاں آپ پولیس کے کچھ لوگ قتل بھی ہوئے تھے تو اس پر وہ خاموش ہو گئے۔
میں نے کہا کہ زیادہ تر لوگ جو آبادی میں رہ رہے ہیں ان کا تعلق قبائلی علاقوں سے ہے جہاں آپ ہی کے جاری کردہ فوجی آپریشن نے ان کے گھر تباہ کر دئے اور یہاں پر بھی آپ نے انہی لوگوں کے گھروں کو تباہ کر دیا ہے۔ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا تو کہنے لگا کہ پھر یہ فاٹا کے لوگ ٹیکس کیوں نہیں ادا کر تے؟ تو اس پر میں نے سوال کیا کہ پھر پاکستان اس علاقے میں ایک صدی پرانے قانون کو کیوں چلا رہا ہے؟ یہ قانون ختم کرو اور ہم پاکستان کو ٹیکس دیں گے۔ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا اور اس نے اعتراف کیا کہ یہ تو پاکستان بھی پاکستان پینل کوڈ کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ جو کہ ایک برطانوں قانون (کا لونیل قانون) ہے اور اس کے بعد انہوں نے مجھے واپس جیل میں ڈال دیا۔ ان چار دنوں کے دوران میں نے دیکھا کہ ہر فرد بہت خاموش تھا۔
* * *
I-11 کی کچی آبادی کو گرا نے میں ایک اور پہلو بھی تھا۔ کچی آبادی کے زیادہ تر لوگ منڈی میں کام کر تے تھے لہذا ایک طر ح سے منڈی میں مفادات رکھنے والے باہر کے لوگ کچی آبادی والوں کے ساتھ مقابلے میں ہوتے تھے۔ ارشد جس کا تعلق خانیوال سے ہے نے مجھے بتا یا کہ وہ جس کام کو 500 روپے میں کرتے تھے پشتون وہی کام 200 روپے میں بھی کر دیتے تھے ۔ حتٰی کہ وہ ریت اور کرش کا سپلائر پشتون بھی آبادی کے گرائے جانے کو لے کر بڑا پر جوش تھا کہ اب اس جگہ عمارتیں بنیں گیں اور اس کے کاروبار کو بڑھوتری ملے گی ۔
یہ تو واضح ہے کہ غیر پشتون جو منڈی میں کام کر تے ہیں وہ کچی آبادی والوں کے خلاف ہیں کیونکہ یہ ان کے ساتھ مقابلے میں ہیں لیکن اس کیلئے وہ جس منطق کا سہارا لیتے ہیں وہ ان لوگوں کا اپنا نہیں ہے وہ بڑی سادگی سے عوام دشمن حکمران طبقات کے منطق کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ جو کہ میڈیا کے ذریعے ان تک پہنچتا ہے اور یہ عمومی طور پر مڈل کلا س اور حکمرانوں میں عام ہے۔
ہر کسی کو قانون کی حکمرانی قانون کی بالا دستی کی فکر ہے۔ یہ فکر ہے کہ یہ کچی آبادیاں غیر قانونی طور پر بنی ہیں لیکن کوئی بھی اس بات پر غور کرنے کو تیار نہیں کہ آخر کیوں لوگ ان کچی آبادیوں کو بنانے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ فاٹا میں جاری ریاست کی مسلط کردہ جنگ کو لے کر کوئی یہ سوال اٹھانے کو تیار ہے کہ یہ قانونی ہے یا کہ غیر قانونی؟ کو ئی بھی قانون کی بالا دستی پر اس وقت سوال نہیں اٹھاتا جب ریاست لوگوں کو چھت فراہم کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے۔ شہروں میں لوگ تالیاں بجاتے ہیں اور احتجاج کر تے ہیں کہ یہ آپریشن لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیتا ہے اور ان کی ایک نیا نام دے دیا جاتا ہے، آئی ڈی پی، اور دوبارہ کوئی بھی کبھی ان کے بارے میں بات کر نا پسند نہیں کرتا ۔ جب تک کہ جنگ کے متاثرین کے لئے واضح پالیسی نہیں بنا ئی جاتی اور فاٹا میں جنگ ختم نہیں ہوتی ، لوگ ان علاقوں سے شہر وں کا رخ کرتے رہیں گے او ر نئی نئی کچی آبادیاں بنتی رہیں گی۔
اس بیدخلی مہم کے بعد عوامی ورکرز پارٹی، آلائنس برائے کچی آبادی، اور آئی الیون کے مکینوں نے سپریم کورٹ میں ایک کیس درج کیا۔ اس کے علاوہ آئی الیون بستی کے مکین عوامی ورکرز پارٹی کی ٹکٹ پر بلدیاتی الیکشن بھی لڑے اور دو سیٹیں بھی جیت گئے۔ سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت جاری ہے اور آئی الیون آبادی کے لوگ پورے شہر میں تتر بتر پھیلے ہوئے ہیں۔
حسن طوری عوامی ورکرز پارٹی اور آل پاکستان آلائنس برائے کچی آبادیات کے رکن ہیں۔ وہ فاٹا کی کرم ایجنسی میں پیدا اور پلے بڑے ہیں۔