
Artist: Aman Mojadidi, “Phone Negotiations”
مدیر اعلی:
ماہوش احمد اور مدیحہ طاہر
مدیران:
اسد ہاشم | احسن کمال | فہیم شیخ/حافظ صوفی | سلمان حسین | سلمان حیدر | خواجہ حمزہ سیف | کرسٹن زپپرر
رضاکار مدیران:
مہرین کسنا | ربیع محمود | احسانللہ ٹیپو محسود
اردو مترجمین:
فہیم شیخ/حافظ صوفی | شیبا بھٹی | احسن کمال | سلمان حیدر | انعم ناز | پلوشہ مشتاق
سماجی میڈیا:
انٹرنز:
2013 میں وکی لیکس نے امریکی سفارت خانوں کے انتہائی خفیہ مراسلے عوامی رسائی کے لیے اپنی بین الاقوامی سفارتکاری کی آن لائن آرکائیو پر پیش کیے۔ بیس لاکھ دستاویزات کا یہ نادر ذخیرہ افغانستان، پاکستان اور عراق سمیت دنیا بھر میں قائم امریکی سفارت خانوں کی جانب سے بھیجے گئے برقی مراسلوں/پیغامات پر مشتمل ہے۔ ان مراسلوں میں سے بعض اس سے قبل 2010 میں افشاء ہونے والی دستاویزات کا بھی حصہ تھے۔ یہ برقی مراسلے”عالمی مذاکرے،مباحثے اور اصلاح ” کے خواہاں ایک امریکی اہلکار نے افشاء کیے تھے۔ ان مراسلوں کے افشاء کیے جانے کے بعد سے امریکی خارجہ حکمت عملی اور نگرانی پر بحث کا آغاز ہوا ہے۔ یہ اقدام شہریوں پر نظررکھنے کے قوانین میں اصلاحات اور عوام اور حکومت کے مابین تعلق پر مباحثے کے آغازکا باعث بھی بناہے۔
افشاء کیے جانے سے قبل ان میں سے بعض مراسلے کئی دہائیوں تک سیکیورٹی کلیئرنس کے حامل ہزاروں افراد کی دسترس میں تھے۔ نظریاتی طور پر متعصب مراسلہ نگار ذاتی اور سیاسی ایجنڈے کے ماتحت تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان مراسلوں میں تجزیے کے لیے حقائق پر مبنی دلچسپ مواد تو موجود ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ پیغامات امریکی فیصلہ ساز وں کے اِس دنیا سے متعلق نقطہ نظر کو سمجھنے کا اہم ذریعہ بھی ہیں جہاں وہ اپنے توسیع پسند عزائم کے اطلاق میں مصروف ہیں۔
اب وکی لیکس نے 2010 میں سامنے آنے والے پیغامات اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جاری کی گئی خفیہ دستاویزات کو امریکی سفارت کاری کی عوامی لائبریری یا پی ایل ایس یو ڈی آرکائیو کی صورت میں یکجا کیا ہے۔
———————————————————————————————————————————
پاکستان کی کہانی سنانے کے لیے آزاد میڈیا کی تشکیل میں ہماری مدد کیجیے۔
———————————————————————————————————————————
اس آرکائیو میں موجودامریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جاری کردہ دستاویزات کا ایک مختصر نمونہ ہی ان مراسلہ جات کے تجزیے سے حاصل ہونے والے نتائج کی عکاسی کے لیے کافی ہے۔(اس مختصر جائزے سے) سالہاسال کی پیغام رسانی میں موجود رحجان کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کئی دہائیوں بیت جانے کے بعد اور حالات میں تبدیلیوں کے باوجود ان پیغامات میں تسلسل برقرار رہتا ہے ۔
اس تجزیے کے لیے میں نے اسلام آباد میں قائم امریکی سفارت خانے کے مراسلوں میں سے تمام دس ہزار حرفی (پی ایل یو ایس ڈی آرکائیو طوالت کے اعتبار سے تلاش کی سہولت دیتی ہے) پیغامات کا انتخاب کیا ہے- یہ انتخاب دو محسوس سالوں تک محدود ہے : دستیاب مراسلوں میں سے قدیم ترین سال یعنی (1974) اور دوسراحالیہ ترین (2007)۔ 1974 کی 35 دستاویزات جبکہ 2007 کی دستیاب 40 دستاویزات کے جائزے میں کئی مماثلتیں سامنے آئیں۔
انتشارزدہ پاکستان
14 نومبر 1974کو “بلوچستان کے حوالے سے مثبت پیش بینی” کے عنوان سے بھیجا گیا ایک مراسلہ علیحدگی پسندوں کے خلاف پاکستانی اقدامات کی کامیابی سے متعلق ہے۔ اس پیغام میں تنبیہہ کی گئی ہے “تزویراتی اہمیت کے حامل نظرانداز شدہ صوبے کے حوالے سے سامنے آنے والی اطلاعات مبالغہ آمیز ہیں۔ آزاد ذرائع کے نقطہ نظر کو دھندلانے کے لیے ان کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی ہے۔ ” تاہم اس پیغام میں یہ تبصرہ بھی کیا گیا،”فوج نے مری قبائل کے خلاف ایک کامیاب کارروائی کی ہے اور مینگل قبائل کے خلاف برسرپیکار ہے۔” جس کے نتیجے میں،”امریکی اہلکاروں کو حالیہ مہینوں میں اپنے دوروں کے دوران کوئٹہ کی کشیدہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔”
بلوچستان میں چالیس برس بعد بھی علیحدگی پسند رحجانات کی موجودگی میں یہ پیغام بے جا رجائیت ہی قرا ر دیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح 2007 میں پاکستان سے متعلق بھجوائے گئے مراسلے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں ‘استحکام’ کے مضمرات سے متعلق ہیں۔ 17 جنوری 2007 کو بھیجے گئے ایک مراسلے کے مطابق ،”مشرف نے سرحد پار آمدورفت کی روک تھام کے لیے پہلے سے زیادہ سخت طریق ہائے کار وضع کرنے، مخصوص سرحدی مقامات پر باڑلگانے اور بارودی سرنگیں بچھانے جیسے منصوبوں کا تذکرہ کیا ہے۔ اس میں مقامی پولیس کے زیادہ طاقتور سربراہ تعینات کرنے جیسے اقدامات اورافغان مہاجر کیمپ بند کرنے کے منصوبوں کا ذکر بھی موجود ہے۔ مشرف نے اس بات کا تذکرہ نمایاں انداز میں کیا ہے کہ شمالی وزیرستان کے قبائلی عمائدین کوستمبر 2006 کے امن معاہدے کے بہتر نفاذ کے لیے ایک ماہ کی مہلت دی گئی بصورت دیگر انہیں فوجی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔”
اسی برس ستمبر میں ایک اور مراسلے میں اس وقت کے وزیر داخلہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ کی امریکی اہلکاروں سے گفتگو کا تذکرہ موجود ہے،” وزیر شیر پاؤ نے بتایا کہ امن معاہدے کے بعد چیک پوسٹیں خالی کرنے کے باعث مجرمانہ سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس خلاف ورزی کے باعث معاہدے کو ختم تصور کرتے ہوئے فوج نے دوبارہ چیک پوسٹیں سنبھال لی ہیں اور مجرموں اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی تیز کر دی ہے۔ شیر پاؤ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں اس وقت تقریباً ایک لاکھ فوجی اور سیکیورٹی اہلکار موجود ہیں۔”
———————————————————————————————————————————
یہ مضمون آپ تک پہنچنے کے لیے ہمارے خون پسینے کے علاوہ روپیہ پیسہ بھی خرچ ہوا ہے۔
———————————————————————————————————————————
2007 میں بھیجے گئے مراسلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ 1974 کے مقابلے میں اپنے علاقے پر عملداری کے حوالے سے امریکہ کا پاکستان پر اعتمادکم ہوا ہے۔ 1970 کے برقی پیغامات میں جہاں دنیا کو امریکی اثر رکھنے کا تاثر ملتا ہے وہیں سن2000 کے بعد سے انتشار کے اثرات کو محدود کرنے کا عندیہ ملتا ہے۔ اس تبدیلی کی ایک وجہ سوویت یونین کا انہدام اور سرد جنگ کا خاتمہ بھی ہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد مراسلوں میں سے صنعتوں کو قومیانے سے متعلق تنازعات اور تحفظات کا ذکر بھی کم ہوتا گیا ہے۔ مثال کے طور پر 1974 میں عوام کو مطمئن کرنے کے لیے پاکستان میں “اسلامی اشتراکیت” کے فروغ کے لیے کوشاں وزیراعظم کی موجودگی میں امریکہ نےارادتاًنیولبرل ازم کی ترویج کی کوشش کی۔ 2007 کے مراسلوںمیں نیو لبرل ازم کو پہلے سے تسلیم شدہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس 2000 کے بعد بھجوائے گئے برقی پیغامات میں قبائلی علاقوں پر پاکستانی حکومت کی عملداری مضبوط کرنے کے حوالے سے تحفظات کا بے تحاشااظہار کیا گیا ہے تاکہ اس علاقے سے افغانستان پر قابض امریکی فوجیوں پر کیے جانے والے حملوں کا تدارک کیاجاسکے۔
دونوں ادوار میں امریکہ نے پاکستانی فوج کو اسلحہ اور مالی امداد دے کر پاکستان میں اپنے ترجیحی مفادات کی تکمیل کے لیے تیار کیا ہے۔ 1974 میں امریکی امداد کا مقصد پاکستان کو اپنے زیر اثر رکھنے اور پاکستانی فوج کو سوویت امداد پانے والی افغان اور بھارتی افواج کے مقابلے کے لیے تیار کرنا تھا ۔ 2007 میں اس امداد کا مقصد پاکستان کو ” دہشت گردی کے خلاف جنگ ” میں اپنا اتحادی بنائے رکھنا تھا۔ ان برقی پیغامات کا مشترکہ جائزہ امریکی کوششوں کے نتائج ظاہر کرتا ہے: 1974 میں امریکہ خطے کے مستقبل کے تعین کے لیے سوویت یونین کے خلاف جنگ جیتنے کی کوشش میں تھا۔اس دوران خطے کو عدم مساوات، جنگ اور عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑا۔ 2007 کے برقی مراسلوں سے امریکی جیت کے آثار کچھ یوں ظاہر ہوتے ہیں: بڑھتا ہوا انتشار، ایک انحطاط پذیر معیشت، غارت گری، عسکریت پسندی اور مسلسل شورش۔
افغانستان پر قبضہ
اگرچہ امریکہ پاکستان میں جاری شورشوں سے آگاہ تھا تاہم سفارتی مراسلوں میں افغانستان تک پاکستان کے ذریعے رسائی پر تحفظات کا انکشاف ہوتا ہے۔ درج ذیل میں سے ایک مراسلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی ریاست افغانستان کے حالات سمجھنے اور افغانستان تک رسائی حاصل کرنے میں امریکہ کی معاون ہے ۔
اس کے نتیجے میں افغانستان اور پاکستان کے مابین تناؤ میں ناگزیر اضافہ ہوا ۔ امریکی پیغامات اس تناؤ کو کم کرنے پر بحث کرتے ہیں۔ 1974 میں داؤد اور بھٹو جبکہ 2007 میں کرزئی اور مشرف کے مابین مذاکرات کے انعقاد سے امریکہ نے اس تناؤ کو کم کرنے کی کوشش کی۔
سوویت یونین کے تعاون سے قائم افغان حکومت کے خلاف پاکستان کی سرزمین سے امریکی سرپرستی میں برپا کی جانے والی شورش سے واقف افراد کے لیے 16 اگست 1974 کو بھیجا گیا مراسلہ قابل ذکر ہے۔ اس پیغام میں بھٹو کی جانب سے افغان حکومت پر پاکستان میں تخریب کاری کی غرض سے اشتراکی گوریلوں کے تربیتی کیمپ چلانے کا الزام مذکو ر ہے۔ سفارت خانے کے اہلکار کی رپورٹ کے مطابق بھٹو نے کہا،”سرحدی علاقوں میں افغان تخریب کاری یا تخریبی کوششوں کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ اس کے علاوہ سرحد کے ساتھ تعینات افغان فوجیوں کو پاکستان کے اندر گوریلا کارروائیوں کی تربیت حاصل کرنے کے لیے کابل بھیجنے کے کافی شواہد بھی سامنے آئے ہیں۔ ” اس وقت امریکی سفارت خانے کا سرکاری موقف اس تنازعے میں غیر جانبدار رہنے کا تھا۔
2007 کے مراسلے افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ میں پاکستان کے ساتھ اشتراک اور طالبان کو حاصل پاکستانی سرپرستی کے معاملے سے متعلق ہیں۔ تاہم 1974 اور 2007 ، دونوں ادوار میں امریکہ پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی کی حمایت کیے بغیر دونوں کو اپنا اتحادی رکھنے کا خواہاں دکھائی دیتا ہے۔
———————————————————————————————————————————
وقف نہیں۔ خیرات نہیں۔ بیرونی امداد نہیں۔ صرف آپکی مدد درکار ہے۔
———————————————————————————————————————————
سرمایہ داری کا فروغ
یہ مراسلہ جات ا مریکی خارجہ حکمت عملی کے محور یعنی نجی کاروبار ی مفادات کے فروغ سے عبارت ہیں۔ 1974میں بھٹو سے 10 جنوری کو ہونے والی گفتگو کی ایک رپورٹ امریکی کاروباری مفادات کے مستقبل کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کرتی ہے۔ امریکی سفیر لکھتا ہے،”مجھے خدشہ ہے کہ بھٹو 90 فیصد سیاستدان ہے۔” دوسرے لفظوں میں بھٹو کے معاشی اقدامات اپنی سیاسی طاقت کے مرکز کو خوش کرنے کے لیے ہیں ناکہ تجارتی مفادات کی تکمیل کی حکمت عملی تشکیل دینے کی غرض سے۔ اسی ہفتے سفارت خانے نے بھٹو کی صنعتیں قومیانے کی حکمت عملی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ امریکی سفیر کے مطابق ،” معیشت قومیانے سے “بائیں بازو کی سیاسی حمایت حاصل کرنے میں کامیابی ملی ہے جو اس اقدام کو دولت کی نئے سرے سے تقسیم کے طور پر دیکھتے ہیں” جبکہ اس اقدام نے “کاروبار اور غیر ملکی سرمایہ کاری عدم تحفظ کا شکار کیا ہے۔اکتوبر تک بھٹو نے بائیں بازو کے سیاسی نظریات کے حامل وزیر مالیات مبشر حسن کو فارغ کردیا۔ سفارت خانے نے لکھا کہ “بائیس خاندان”(کاروباری مفاداتی گروہ) اس اقدام پر “خوش” ہیں اور”ان کے اعتماد میں اضافہ ” ہوگا۔
2007 کے مراسلے پاکستان کو درپیش تعلیم، انفراسٹرکچر اور توانائی کے مسائل پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ پاکستان “صارف پسند” معیشت کی مثال ہے۔ ان مراسلوں کے قاری پر (یہ) حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ درحقیقت امریکی مداخلت مضبوط تعلیمی نظام اور بہتر قومی انفراسٹرکچربنانے والی پالیسیوں کو کم زورکرتی رہی ہے ۔ تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکی سفارتی اہلکارشاید ان حقائق سے واقف نہیں۔ درج بالا مراسلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی حکام پر نج کاری کادباؤ ڈالنے کے علاوہ امریکہ نے امداد کا رخ اسلحے کی فروخت کے سودوں کی جانب رکھا جس سے پاکستانی فوج اور امریکی اسلحہ سازوں کو فائدہ پہنچا ۔ ان سودوں میں تین ارب ڈالرمالیت کے ایف سولہ طیاروں کی فروخت کا معاہدہ بھی شامل ہے جس کا ذکر ان مراسلوں میں بارہا آیا ہے۔
امریکی سفارت خانے کے مراسلے قاری کو (کاروباری طاقت میں اضافے، ہتھیاروں کی فروخت اور خطے پر اثرورسوخ کے) امریکی خبط کا احساس دلانے کے ساتھ امریکی طاقت کے استعمال کے اثرات سے بھی آگاہ کرتے ہیں۔ امریکی اقدامات کے نتیجے میں پاکستان میں انتشار، تشدد، ریاستی عملداری میں کمی، عدم مساوات میں اضافہ اور ہمسایہ ممالک سے خراب تعلقات جیسے اثرات کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ دنیا میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے امریکی نقطہ نظر اور اقدامات سے واقفیت پاکستان جیسی ریاستوں کے شہریوں کو امریکی اثر سے آزاد راستے کے انتخاب کے لیے کافی جواز فراہم کرتی ہے۔
جسٹن پوڈر یارک یونیورسٹی ٹورنٹو میں استاد ہیں-آپ پاکستانی اور ہندوستانی جامعات میں پڑھاتے بھی رہے ہیں۔ یہ مقالہ پہلے پہل ٹورنٹو پاکستان کانفرنس میں پیش کیا گیا تھا۔