افغانستان کامیابی کی ایک بکھرتی ہوئی داستان

شمارہ ٩Eng | Issue 9

Chiovenda | Issue 9

مجھے افغانستان میں بین الاقوامی فوجی اقدامات کے بارے میں پہلے پہل کی جانے والی اپنی بات چیت میں سے ایک بہت اچھی طرح یاد ہے۔  یہ 2011 تھا اور میں اینتھروپالوجی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ کے طور پر ہزارہ  نسلی شناخت کے بارے میں اپنا ابتدائی کام بامیان کے وسطی صوبے میں کر رہی تھی۔ ایک دن میں اپنی میزبان خاتون کے ساتھ، جو ہزارہ تھی، چائے کی چسکیاں لے رہی تھی کہ اس نے ایک دم پلٹ کر مجھ سے پوچھا ’’امریکی کب جا رہے ہیں؟ وہ کیوں جا رہے ہیں؟ کیا  وہ نہیں جانتے کہ ان کے جاتے ہی طالبان آ جائیں گے اور ہمیں مار دیں گے؟‘‘ میں اس کے سوالوں میں الجھ کر  فکر مند ہو گئی۔ (میں نے دیکھا کہ افغانستان میں لوگ عام طور پر تمام غیر ملکی فوج کو امریکی فوج کہتے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ تمام فوجی امریکی حکام سے  احکامات وصول کرتے ہیں۔اس وجہ سے میری میزبان خاتون نے امریکی فوج کا ذکر کیا حالانکہ اس وقت  بامیان میں امن و امان کی ذمےدار اتحادی ملک  نیوزی لینڈ کی افواج تھیں۔) میری دانست میں میری میزبان خاتون کسی فوری خطرے کی زد میں نہیں تھی لیکن میں جانتی تھی کی ہزارہ برادری کے ساتھ ماضی  میں جو کچھ ہوا اس کے پیش نظر  وہ  ان خطرات کے اظہار میں غلط نہیں ہیں۔

افغانستان کی ہزارہ برادری، یعنی وہ شیعہ مسلمان جن کا وطن افغانستان کا مرکزی پہاڑی علاقہ ، 2001 میں امریکی سربراہی میں شروع ہونے والی بین الاقوامی فوجی مہم کی وجہ سےافغانستان کے تمام نسلی گروہوں کے مقابلے میں زیادہ فیض یاب ہوئے ہیں۔ اسی لیے انہوں ان اس فوجی مہم کی بھرپور حمایت بھی کی ہے۔ شیعہ ہونے کی وجہ سے ہزارہ برادری نے  شدت پسند سنی طالبان حکومت کے ہاتھوں بہت تکالیف اٹھائی تھیں۔ مشرق وسطیٰ سے ان کے تعلق کو واضح کرتے ہوئے نمایاں خال و خد کی وجہ سے  ان کے لیے تقیہ کرنا اور اپنی شناخت کو پوشیدہ رکھنا ممکن نہیں تھا  (شیعہ مذہب میں  جان کی حفاظت کے لیے خود کو سنی ظاہر کرنے کی اجازت موجود ہے جسے تقیہ کہا جاتا ہے)۔ اگرچہ 2001 کے بعد سماجی تحرک میں اضافہ ہوا اور ہزارہ برادری پر مہلک حملوں میں کمی ہوئی ہے لیکن ان کا مستقبل مخدوش ہے۔  مفروضہ طور پر ان کے حامی امریکی، جو ان کے ایران سے تعلق اور حزب اللہ جیسے کسی گروہ سے انکی مشابہت کے بارے میں واضح نہیں، موجودہ مزاحمت میں شامل نا ہونے کے باوجود ان پر اعتماد نہیں کرتے۔  ساتھ ہی ساتھ داعش اور دولت اسلامیہ کی شکل میں شدت پسند سنی خیالات افغانستان میں جڑ پکڑرہےہیں اور فرقہ وارانہ تشدد کے جہنم کو پھر سے بھڑکا رہے ہیں۔ ہزارہ برادری کے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ  افغانستان میں داعشی خیالات کی ممکنہ مضبوطی ہزارہ برادری کے لیے موت کا سندیسا ہے۔

———————————————————————————————————————————

وقف نہیں۔ خیرات نہیں۔ بیرونی امداد نہیں۔ صرف آپکی مدد درکار ہے۔

سبسکرائب کیجیے یا چندہ دیجیے

———————————————————————————————————————————

افغان ریاست سے ہزاروں کا تعلق ہمیشہ سے پیچیدہ رہا ہے۔ 1888 میں افغانستان کے حاکم می عبدالرحمان نے مرکزیت کی ایک تحریک شروع کی۔ اس دوران میر عبدالرحمان نے کئی خودمختار اور نیم خودمختار قبائلی گروہوں کو اپنے مطیع کیا۔ لیکن ہزاروں کے خلاف اسکی مہم خاص طور پر شدید اور جابرانہ رہی۔ غالباََ اسکی وجہ یہ تھی کہ ہزاروں کا تعلق شیعہ اقلیت سے تھا۔ زبردستی زمینوں سے بےدخل کر کےغلام بنا کر فروخت کیا گیا اور بہت بڑی تعداد کوتہِ تیغ کر دیا گیا۔ ہزارہ برادری کے متحرک نمائندوں کا کہنا ہے کہ ہزارہ برادری کا 60 فیصدحصہ یا تو قتل کر دیا گیا یا غلام بنا لیا گیا یا انہیں اس مہم کے نتیجے میں اپنی زمیں چھوڑ کر پاکستان اور ایران جانا پڑا۔ اس کے بعد ہزارہ نسلیں  بہت عرصے تک دوسرے درجے کے شہری کے طور پر مزدورا ور نوکر چاکر بن کر زندگی گزارنے پر مجبور رہیں۔  اس وجہ سے وہ کئی دہائیوں تک سماجی درجہ بندی میں بہت نچلے درجے پر گنے جاتے رہے۔  ہزارہ برادری کے  متحرک نمائندےآج بھی پرزورانداز میں اس تاریخ کا حوالے دیتے ہیں اور ان کے مطابق عبدالرحمان کی مہم  سے شروع ہونے والے واقعات کا تسلسل آج بھی قائم ہے۔ 

طالبان کا زمانہ ہزارہ تاریخ میں ایک اور تاریک دور ہے۔ اس حکومت نے  ہزاروں کو کئی بار اپنے عتاب کا نشانہ بنایا۔ بامیان کے ضلع یکالنگ میں 2001 میں 300 لوگ، 2000 میں بغلان میں 31 لوگ  اور اسی سن میں بامیان کے وسط میں سرآ سیاب نامی اس قصبے میں 70 لوگوں کو مارا گیا جہاں مجھے اپنی تحقیق کے سلسلے میں جانے اوررہنے کا اتفاق ہوا۔ یکالنگ میں میرے واقف ایک خاندان نے مجھے ان مشکلات کے بارے میں بتایا جن کا سامنا 7 میں سے 5 بھائیوں کے قتل کر دیے جانے کی وجہ سے انہیں کرنا پڑا۔ سرآ سیاب میں میرے ہمسائے اپنے مردوں کا  تہہ خانوں میں چھپنا بھولے نہیں تھے۔  انہیں یہ خوف ہوتا تھا کہ بچے طالبان کے گھر گھر چھاپوں کے دوران اپنے باپوں کے چھپنے کی جگہ ظاہر کر دیں گے جس کا نتیجہ عام طور پر سارے خاندان کی موت ہوتا تھا۔ ان کے زخم اب تک ہرے ہیں۔

ہزارہ 2001 کواپنی تاریخ کا ایک اہم موڑ مانتے ہیں۔ درحقیقت پچھلی دہائی میں  ہزاروں  کی ایک نمایاں تعداد نے تعلیم پائی اور اہم سیاسی منصب سنبھالے۔ اس کے نتیجے میں جن ہزاروں سے میں نے بات کی وہ امریکہ کے مشکور ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر میں امریکی اور بین الاقوامی مداخلت  کا مقصد پِسے ہوئے لوگوں کی مدد کرنا ہے۔ انہوں نے جارج بش کے کردار کی بھی تعریف کی آخر وہی تھا جس نے طالبان کی حکومت کو ختم کیا۔  جب میں نے  ان سے بش کی صدارت کے دوران دیگر پالیسیوں جیسے عراق جنگ کی قانونی حیثیت یا اوبامہ  کی پالیسیوں جیسے پاکستان  اور افغانستان کے پشتون علاقوں پر ڈرون حملوں میں اضافے وغیرہ کے بارے میں پوچھا تو ان کے پاس ان میں نشانہ بننے والوں کے لیے کو ئی ہمدردی نہیں تھی۔  پشتون عبدالرحمان کے دور میں رہنما تھے اور طالبان کی اکثریت بھی انہی پر مشتمل تھی۔ وہ افغانستان کے مسائل کو نسل کے آئینے میں دیکھتے ہیں اور اس میں پشتون انہیں مسلسل ظالم نظر آتے ہیں۔  ان کا نقطہ نظر اس حوالے سےکافی پھیلا ہوا ہے۔   مثال کے طور پرجب ہزاروں کوامریکی فل برائٹ سکالرشپ کی بانٹ میں نسلی عصبیت کی شکایت ہوتی ہے تو وہ موردِ الزام امریکیوں کو نہیں بلکہ پشتونوں کو ٹھراتےہیں۔ میں نے ہزاروں کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا ہے کہ پشتون امریکی سفارت خانے کے دربان بنے ہوئے ہیں اوربعض ہزاروں کے مطابق یہ پشتون ہزاروں کے خلاف امریکیوں کے کان بھرتے رہتے ہیں۔ اسی لیے ہزاروں کو کم مواقع میسر آتے ہیں۔ اس مبالغے کے پیچھے سچائی کا امکان بھی پوشیدہ ہے۔

اگرچہ ہزارہ امریکہ اور اس کی خارجہ پالیسی کے بارے خوش گمان ہیں لیکن امریکی حکومت ان سے سردمہری کا رویہ رکھتی ہے۔ امریکی مفروضہ یہ ہے کہ ہزارہ برادری اگر ایرانی حکومت کی کٹھ پتلی نہیں تو کم ازکم ایران کی ہمدرد ضرور ہے۔ ایک دفعہ بامیان میں کام کرنے ولے ایک امریکی عہدیدار سے شیعوں کی وسعت نظری کے بارے میں بات ہوئی۔ اس عہدیدار نے بے یقینی کے عالم میں کہا ’’لیکن شیعہ ایرانی ہیں، وہ حزب اللہ ہیں۔ میں نے کبھی شیعوں کو وسیع القلب نہیں سمجھا‘‘۔ ہزاروں کا یقینی طور پر ایران سے ایک رشتہ ہے۔ پناہ گزیری کے لیے بہت سے وہاں گئے، تعلیم حاصل کی۔ لیکن حقیقت اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔  افغانستان میں سوویت دور میں ایران نے ہزاروں کو اکھٹا کر کے حزب وحدت کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنانے میں مدد کی۔  اس جماعت  نےسیاست کو مذہب سے ہٹا کر نسل کی طرف لے جانے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ اس تبدیلی کو ایران میں پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا کیونکہ ایران کا مفاد مذہبی سیاست میں تھا۔  نتیجتاََ ہزارہ پارٹیوں کوایران کی طرف سے مالی امداد کم ملی جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بد مزگی کے اثرات آج بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ پچھلے تیس سالوں میں پناہ گزیر کے طور پر ایران جانے والے ہزارہ اپنے ہم مذہبوں کے برے برتاؤ کا  ذکر آج بھی کرتے ہیں۔  ان ہزاروں کے مطابق ایرانی کافی حد تک نسل پرست ہیں۔ اور آخری بات یہ کہ ہزارہ جانتے ہیں کہ امریکہ کی طرف رخ کرنے کا مطلب ایران سے منہ پھیرنا ہے۔ اگرچہ یہ ممکن ہے کہ ایسے ہزارہ موجود ہوں گے جو ایران کے ہمدرد ہیں لیکن مجھے ایسا کوئی فرد نہیں ملا۔  اس کے باوجود  امریکہ اب بھی تذبذب کا شکار ہے۔  بامیان کے امریکی عہدیدار سے میری گفتگو یہ ظاہر کرتی ہے  کہ اگرچہ ہزارہ خود کو  ایک لچکدار اورمستقبل بین گروہ کے طور پر پیش کرتے ہیں لیکن انہیں پہلے شیعہ گردانا جاتا ہے۔ وہ جارج بش کی جتنی بھی تعریف کریں ان کے اس تعلق  کو نظر انداز کرنا مشکل نظر آتا ہے۔

———————————————————————————————————————————

یہ مضمون آپ تک پہنچانے کے لیے ہمارے خون پسینے کے علاوہ روپیہ پیسہ بھی خرچ ہوا ہے۔

سبسکرائب کیجیے یا چندہ دیجیے

———————————————————————————————————————————

بہر حال، افغانستان میں امریکی مداخلت اور اس کے نتیجے میں ہزارہ برادری کی سیاسی اور سماجی صورتحال میں بہتری  کے باوجود مجھ پر 2011 بامیان کے پہلے  دورے پر ہی یہ واضح ہو گیا تھا کہ ہزارہ برادری کے لیے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میری میزبان خاتون کا تبصرہ میرے لیے پریشان کن تھا۔  جب میں بامیان پہنچی تو ایک افراتفری کا سماں تھا۔ طالبان نے انہی دنوں میں صوبائی کونسل کے صدر جواد ضحاک کو کابل سے واپسی کے سفر میں پکڑ کر ان کا سر قلم کر دیا تھا۔  2011 میں امام حسین کی شہادت کی یاد میں منایے جانے والے مذہبی تہوار عاشورہ پر کابل میں ایک  ایسی مسجد پر خودکش حملہ ہوا تھا جس میں اکثرہزراہ جایا کرتے تھے۔  ستر لوگ مارے گئے تھے۔ اسی روز مزارشریف میں چار لوگ ایک مسجد پر ایسے ہی حملے کا نشانہ بنے۔ جب میں 2012 میں  اپنے پی ایچ ڈی کے کام کے لیے سال بھر کے لیے بامیان لوٹی  تولوگ پھر افراتفری کا شکار تھے۔ طالبان صوبے کی سرحدوں کی طرف پیشقدمی کر رہے تھے اور یوں محسوس ہوتا تھا جیسےہزارہ برادری کے کھلے عام استحصال میں تھوڑی ہی دیر باقی ہو۔ 2013 میں نیوزی لینڈ کے فوجی اڈے بند ہونے اور فوجیوں کی واپسی  سے صورتحال مزید بدتر ہو گئی۔ سڑک کا سفر جو ملک کے بیشتر حصوں میں ہزارہ برادی کے لیے پہلے ہی غیر محفوظ تھا  مزید جان لیوا بن گیا۔ میرے جاننے والوں نے ایسی کہانیاں سنائیں جن میں ان کے دوستوں کو طالبان نے روکا، لوٹا اور بعض اوقات اغوا کر لیا ۔  جولائی 2014 میں نقابپوش مسلح افراد نے کابل اور غزنی کے بیچ سفر کے دوران ایک بس کو روکا  اور ہزارہ برادری کے ارکان کو باقی مسافروں سے علیحٰدہ کر لیا۔  بتایا جاتا ہے کہ پہلے مسلح افراد عورتوں  اور بچوں کو چھوڑ رہے تھے لیکن عورتیں  اپنی چیخیں نا روک سکیں اور ان کے ساتھ ساتھ بچوں کو بھی قتل کر دیا گیا۔ کل چودہ لوگ مسلح افراد کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ 

اپنی تحقیق کے دوران میں یہ جاننا چاہتی تھی کہ 2001 کے بعد اقوام متحدہ کی جانب سے مسلح جتھوں کو غیر مسلح اور غیر متحرک کرنے اور مجاہدین کو معاشرے کا حصہ بنانے کے پروگرام کے دوران  سب سے پہلے غیر مسلح کیے جانے والے ہزارہ  ان خطرات کے مقابلے کے لیے دوبارہ مسلح ہو رہے ہیں یا نہیں۔ درحقیقت ہزارہ تاریخی طور پر جنگجو رہے ہیں۔ ہزاروں کی سیاسی تنظیم حزب وحدت،  1979-1989 کی روسی جنگ اور اور 1992-1996 تک کے داخلی انتشار کے دوران مجاہدین کے نمایاں جتھوں میں سے ایک تھی۔  تاہم جب میں نے بامیان میں  ہزارہ برادری سے بات کی  تو مجھے بتایا گیا  کہ اگرچہ وہ حفاظتی انتظامات کے لیے اسلحہ خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن  انہیں اقوام متحدہ کی جانب سے اس حد تک غیر مسلح کر دیا گیا ہے کہ دوبارہ ماضی کی طرح مسلح ہونا تقریبا ناممکن ہے۔ مزید یہ کہ دوبارہ مسلح ہونے کے لیے وسائل کے حوالے سے ہزارہ برادری نے مجھے بتایا کی ان کا  واحد ذریعہ ایرانی اہلکار ہیں جن پر وہ مکمل  اعتماد نہیں کرتے۔ یہ بھی کہ متحرک ہزارہ کارکنوں کی ایک بڑی تعداد  ماضی میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں  کے خلاف انصاف پرامن ذرائع سے حاصل کرنا چاہتی ہے۔ یہ کارکن اکثر مارٹن لوتھر کنگ جونئیر کی غیرمسلح آبادی  کے حقوق کی تحریک کی طرز پربامیان اور کابل میں جلوس نکالتے ہیں ۔ یہ کارکن پرامن ذرائع سے حقوق کے حصول کو اپناعزم قرار دیتے ہیں۔

حالیہ مہینوں میں ہزارہ برادری کے خلاف تشدد میں مزیداضافہ ہوا ہے۔ فروری میں زابل نامی جنوبی صوبے میں 31 ہزاروں کو اغوا کر لیا گیا۔ 19 کو رہا کر دیا گیا اور باقی میں سے کچھ کے بارے میں یہ خدشہ ہے کہ انہیں قتل کر دیا گیا ہے اور کچھ کے بارے میں کوئی خبر  دستیاب نہیں۔15  مارچ کو غزنی میں 8 ہزاروں کو اغوا کر لیا گیا اور2دن بعد صوبہ فرح اور ہرات کے بیچ شاہراہ پر چھ ہزاروں کو یرغمال بنا لیا گیا۔  پھر مارک کی 25 تاریخ کو 18 ہزارہ اور تین بلوچ شیعوں کو دیکنڈی اور  29 مارچ کو پانچ ہزاروں کو مزارشریف میں  اغوا کیا گیا۔  ابھی کوئی نہیں جانتا کہ اغوا کس نے کیا ہے (کچھ کہتے ہیں داعش، جب کہ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ طالبان کا کام ہے)  اور اس اغوا  کا مقصد کیا ہے۔ جو لوگ داعش کا نام لیتے ہیں ان کا کہنا  ہے یہ لوگ پشتون ہیں جو حکومت کے خلاف اور طالبان سے مایوس ہو کت داعش کے مقاصد کو اپنا چکے ہیں۔ اس کے نتیجے میں حالیہ مہینوں میں نسلی اور فرقہ وارانہ دونوں بنیادوں پر زیادہ خون بہایا گیا ہے۔ ہزارہ کے قتل کی وجہ ان کا شیعہ ہونا بھی ہو سکتی ہے اور نسلی طور پر کمتر قرار دیا جانا بھی۔ بلوچوں کے اغوا کی وجہ ان کا شیعہ ہونا یا ہزاروں کی حمایت میں ووٹ ڈالنا ہو سکتا ہے جیسا کہ ایک خبر دینے والے کی رائے تھی۔ 

———————————————————————————————————————————

پاکستان کی کہانی سنانے کے لیے آزاد میڈیا کی تشکیل میں ہماری مدد کیجیے۔

سبسکرائب کیجیے یا چندہ دیجیے

———————————————————————————————————————————

صرتحال جو بھی ہو داعش کی افغانستان میں موجودگی کی خبر بہت لوگوں کے لیے پریشان کن ہے۔ اس سال کے آغاز میں داعش کے ایک ترجمان نے اعلان کیا کہ وہ خراسان، افغانستان اور ملحقہ عالقوں کا پرانا نام، میں اپنی خلافت مستحکم کر رہے ہیں۔  مزید یہ کہ افغان علاقوں میں داعش کے سیاہ جھنڈوں کے ساتھ جنگجوؤں کی ویڈیو فلم سامنے آ چکی ہے۔  بہت امکان ہے کہ داعش کے اکثر جنگجو مقامی ہیں غیر ملکی نہیں لیکن اس کے  باوجود یہ صورتحال تشویشناک ہے۔ نظریے کو ختم کرنا غیر ملکی جنگجوؤں کو نکالنے سے زیادہ مشکل ہے۔ بہت سے افغان داعش سے اس لیے بھی خوف زدہ ہیں  کہ اس کی وجہ سے صدیوں سے جاری ایک پیچیدہ تنازعے میں مسلکی وجوہات کا اضافہ ہوا ہے۔ اگر داعش کے  قتل کرنے کےخوفناک نمائشی  طریقے افغانستان میں مقبول ہو گئے تو  ہزارہ اور دیگر افغان شیعہ  لوگوں کو ایک ایسے خطرے کا سامنا ہوگا جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ خالص مسلکی بنیادوں پر ایک تحریک کا مطلب ہے  کہ افغانستان  ہزاروں بے گھر لوگوں اور لاشوں کے ساتھ شایدعراق جیسا دکھائی دینے لگے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بڑھتا ہوا تشدد بعض ہزاروں کے لیے مسلح ہونے کے ذرائع تلاش کرنے کی ترغیب بن سکتا ہے۔ مرگ، جس کا دری زبان میں مطلب موت ہے، ملک کے شمالی علاقوں میں بننے اور  داعش سے لڑنے کا اعلان کرنے والا ایک ایسا گروہ ہے جس میں اکثریت ہزاروں کی ہے اگرچہ یہ گروہ نسلی بنیادوں پر شناخت سے  انکار کرتا ہے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں  کہ پروان ضلع میں شیخ علی اور غزنی کے ضلع جاگوری میں ایسے ہزارہ گروہ بنے ہیں جو ہزاروں کےحالیہ اغوا  کا بدلہ لینے کے لیے پشتونوں کو قتل کر رہے ہیں۔

2001  کے بعد سے اب تک ہزارہ تعلیم میں ترقی اور اپنے مطالبات منوانے کے لیے پرامن طریقے اپنانے کی وجہ سے کامیابی کی ایک کہانی رہے ہیں۔ تاہم  تشدد  برھنے کا ساتھ ساتھ یہ کہانی بکھر رہی ہے کیونکہ ہزاروں  کو امریکی مداخلت کے باوجود تحفظ کا احساس نہیں  دلایا گیا۔  آنے والے سالوں میں عین ممکن ہے کہ ہزارہ خود کو ایک ایسی مسلکی جنگ میں گھرا ہوا پائیں جس کی جڑیں ستمبر 2001 کے بعد مشرق وسطی کو تباہ کر دینے والی جنگوں اور عالمی سرمایہ داراننہ پراجیکٹ میں ہیں۔  ایسا نا ہونے کی خواہش ضرور کی جا سکتی لیکن شواہد یہی بتا رہے ہیں۔ 

پچھلے ہفتے میں میساچوسٹس میں اپنی بیٹی کو سلانے کے بعد اپنا کام نپٹانے کی کوشش کر رہی تھی  جب بامیان سے ایک دوست نے سکائپ پر کال کی۔ میں اس اچانک کال پر خوش تھی لیکن بات چیت فکرمند کر دینے والی تھی۔ ’’ملیسا صورتحال بگڑ رہی ہے‘‘ میری دوست نے کہا۔ ’’میں یہاں سے نکلنا چاہتی ہوں لیکن نہیں جانتی کے کیسے نکلوں۔ یہاں طالبان ہیں اوراب داعش بھی ہے۔ میں کابل تک بھی نہیں جا سکتی۔ میں اکیلی ہوتی تو گزار لیتی لیکن میں اپنی بیٹی کی پرورش ایسی جگہ نہیں کرنا چاہتی۔ میں کیا کروں؟‘‘

میلیسا کر شیوویندا یونیورسٹی آف کنیکٹیکٹ  سے اینتھروپالوجی میں ڈاکٹریٹ کر رہی ہیں۔ انہوں نے روسی، یوریشین، اور مشرقی یورپی تعلیمات میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی سے اور  ا ینتھروپالوجی میں یونیورسٹی آف کنیکٹیکٹ سے ماسٹرز کیا ہوا ہے۔                        

Tags: , , , , ,

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *