
مصور: مدیحہ حیدر
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیان اور …
غالب
’’کلام غالب کی ترجمہ نگاری سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ دنیا جہاں کے کلاسیکی ادب میں سے اردو غزل کا ترجمہ مشکل کام سمجھا جاتا ہے اور اساتذہ اردو غزل میں سےغالب سے زیادہ نا موافق ترجمہ کسی شاعر کا کلام نہیں ہے۔ ‘‘
فرانسس پریتچٹ
اردو شاعری کے سب سے روشن ستارے مرزا اسد اللہ خان غالب کا کلام آٹو رکشوں ، فلمی نغموں اور روزمرہ بول چال میں کثرت سےاستعمال کیا جاتا ہے۔ پھر بھی غالب کے امیدوار ترجمہ نگاری کے لئے کوئی مبارک مقام شروعات نہیں۔ ١٩٩٨ء میں ہندی ٹی وی دور درشن نے غالب پر ایک مقبول عام ٹی وی سیریل پیش کیا تھا جس میں غالب کا کردار مشہور اداکار نصیر الدین شاہ نے نبھایا تھا۔ غالب کو آخری مغل شاعر بھی کہا جاتا ہے۔ دہلی میں ١٨٥٧ کی ناکام بغاوت ، جس نے بہادر شاہ ظفر کا رہا سہا اقتدار بھی ختم کر ا دیا تھا اور جس کے نتیجے میں بادشاہ کو جلا وطن ہونا پڑا تھا، کے وہ عینی شاہد تھے۔ بغاوت کے بعد ہندوستان میں برطانوی راج مستحکم ہوا۔ آگرہ غالب کی جائے پیدائش تھا لیکن وہ نو عمری ہی میں دہلی آ گئے تھے۔ باقی ساری زندگی انہوں نے دہلی ہی میں گزاری۔ انہیں دہلی والا ہونے پر فخر تھا۔ وہ فارسی دربار سے وابستگی اور فارسی افسر شاہی سے تعلقات پر بھی نازاں تھے۔ برطانوی انتظامیہ کے مالی محتاج ہونے کے باوجود انہوں نے تاج برطانیہ کو اہل فن کی روایتی پذیرائی نہ کرنے پر آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ انہوں نے ملکہ کی شان میں ایک قصیدہ لکھا تھا تا کہ انکی پنشن بحال کی جا سکے (ملکہ نے انکے خط کا کوئی جواب نہیں دیا تھا )۔ غدر کے دوران دہلی اجڑ گئی تھی۔ غالب کو کئی دوستوں اور رشتہ داروں کی موت کا غم سہنا پڑا۔ دہلی کی ادبی اور ثقافتی وراثت کے لٹنے کا صدمہ اس کے سوا تھا۔ ان حالات پر اپنی بے بسی کی اظہار انہوں نے اپنی نثری تحریر داستان بو میں کیا ہے جو اہتمام کے ساتھ فارسی کے متروک الفاظ میں لکھی گئی ہے۔ دوستوں کے نام انکے خطوط سے پتا چلتا ہے کہ غالب کو پورا احساس تھا کہ جس ثقافت کے وہ فخریہ مثال تھے وہ ثقافت مر چکی ہے۔ غالب کا انتقال ١٨٦٩ میں ہوا۔
اردو کی تاریخ اور اسکے سفر پر غالب کا اثر تو مسلمہ ہے ہی لیکن بھارت اور پاکستان کے ثقافتی اور ادبی میدانوں میں آج بھی انکے لگائے درختوں کی جڑیں دور دور تک پھیلی نظر آتی ہیں ۔ انکے مترجمین کو ایک مسئلہ تو یہ درپیش ہے کہ اگر وہ اصل متن کا معیار برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو لامحالہ انکے کام کو سابقہ ترجمہ نگاروں جیسے اعجاز احمد ، فرانسس پریتچٹ، رالف رسل ، ثروت رحمن، یوسف حسین، کے سی کندا، این میری شمل اور احمد علی کے حوالے سے پرکھا جائے گا۔ میری معلومات کے مطابق صرف فرانسس پریتچٹ اور ثروت رحمان ہی نے پورے دیوان غالب کا ترجمہ کیا ہے۔ باقی مترجمین نے علمی مقالوں یا کتابوں میں حوالاجات کی غرض سے کلام کے کچھ حصے ترجمہ کئے جس سے اصل متن کو سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
———————————————————————————————————————————
پاکستان کی کہانی سنانے کے لیے آزاد میڈیا کی تشکیل میں ہماری مدد کیجیے۔
———————————————————————————————————————————
اگرچہ برصغیر پاک و ہند سے باہر کم ہی دنیا غالب کو جانتی ہے لیکن پھر بھی انکی شاعری کی متعدد انگریزی اشکال مل جاتی ہیں۔ موجودہ دور میں امریکی اس کی سب سے نمایاں مثال، ١٩٧١ میں شائع ہونے والے والیوم غالب غزلز سےشاید واقف ہوں ۔اسکے علاوہ غالب سے تحریک شدہ انگریزی غزلوں کے مجموعے ‘غزلز ہوم ایج ٹو غالب ‘ اور ‘بلیو غزلز’ ایڈرین رچ نے ١٩٦٨ میں چھاپے تھے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ انگریزی غزلوں کا احیا غالب سے ممکن ہوا لیکن ان انگریزی غزلوں کا استعمال شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتا ہے سوائے شاہد علی کے ٢٠٠٠ء میں چھپے رویشنگ ڈس یونٹز مجموعہ میں۔ انگریزی غزلیات کا کوئی پورا دیوان بھی دیکھنے میں نہیں آیا البتہ کئی شعراء نے اپنی نظموں میں غزل کی روایتی بندشوں اور ممکنات کو لے کر کچھ تجربات ضرور کئے ہیں۔
غالب کی اردو شاعری کو جتنی پذیرائی ملی ہے اسے دیکھتے ہوئے حیرت ہوتی ہے کہ انکا فارسی کلام اتنا مقبول کیوں نہیں ہوا ۔ اگرچہ کلام غالب کا بڑا حصّہ اردو میں ہے لیکن انہیں اپنے فارسی کلام پربہت ناز تھا۔ غالب کے فارسی دیوان کے چند ہی مستند ایڈیشن چھپے ہیں۔ فارسی نثر کا بھی ایسا ہی حال ہوا ہے۔ فارسی سے انگریزی ترجمے جو میری نظر سے گزرے ہیں وہ یوسف حسین اور رالف رسل کے ہیں جنہوں نے مجھ پر تو کوئی خاص تاثر نہیں چھوڑا۔ ایک تو وہ ترجمے قدیم زبان میں کئے گئےہیں۔ یوسف نے شاید فٹزجیرالڈ کے عمر خیامی ترجمے کو حوالہ مانا ہے اور رسل کے ترجمے میں بہت سی بے ربط نثر ہے۔ غالب کے کچھ چنیدہ فارسی اشعار این میری شمل نے ترجمہ کئے ہیں لیکن انکا مقصد اپنی کتابوں میں مثالیں مہیا کرنا ہے نہ کہ غالب کی انگریزی ترجمہ نگاری۔
اس وسیع لسانی میدان کو دیکھتے ہوۓ میں نے غالب کی ایک اردو اور ایک فارسی غزل ترجمے کے لئے چنی۔ میں دیکھنا چاہتی تھی کہ ایک ہی شا عرکی دو زبانوں میں ایک ہی صنف میں کی گئی شاعری کو ترجمہ کرنا کیسا رہتا ہے۔ لہذا میں غالب کے فارسی اور اردو دیوان سے ایک ایک غزل چنی۔ شروع میں میرا خیال تھا کہ اردو سے انگریزی ترجمہ آسان کام ہو گا۔ جو پہلے تراجم ہوئے ہیں میں انہی کوشاعرانہ انداز دے کر بہتر بنا لوں گی۔ لیکن یہ کام اتنا آسان ثابت نہیں ہوا۔ جو غزلیں میں نے چنی اور یہ بات غالب کا دونوں دیوانوں کے بارے میں مجموعی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ وہ تشبیہ استعارے اور اضافت کا استعمال اتنی روانی سے کرتے ہیں کہ اسے انگریزی شاعری میں ڈھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اکثر اشعار میں ایک مصرعہ تراکیب سے لدا ہو گا اور اگلے ہی مصرعے میں انتہائی سادہ زبان لکھی ہو گئی۔ بہرحال یہ بھی کلام غالب کی خوبیاں ہیں ۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ شعر پڑھنے والا معنی سےپوری طرح واقف نہیں لیکن وہ وزن اور الفاظ کی روانی سے لطف اندوز ہو رہا ہو۔
یہ سب کہنے کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ ترجمے کی حد تک میں نے آواز اور متن کو ایک دوسرے پر ترجیح نہیں دی۔ میرا ماننا ہے کہ شا عر جو کہنا چاہتے ہے وہ اسکے شعروں کی بناوٹ پر اثر ڈالتا ہے اور الفاظ کا انتخاب یہ بتاتا ہے کہ شاعر کا مد عا کیا ہے ۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ میں نے نوٹ کیا ہے کہ برصغیر کے’غالبی’ مترجمین کا ترجمہ بہت حد تک لفظی ہے ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ متن کو من و عن انگریزی میں پیش کرنا چاہتے ہوں۔ اس کے برعکس غزلز آف غالب کے ترجمے سادہ ہیں لیکن ان کا مطلب کہیں سے کہیں نکل جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مجھے اس مشہور غزل کا پہلا شعر اور یہ دوسری غزل کا چھٹا شعر ترجمہ کرنے میں کافی دقت ہوئی۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مر ے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
There are a thousand such desires that each would require an entire lifetime;
Many of my wishes have been gratified but even those many were too few (fewer than I wish were gratified, not enough).” (Aijaz Ahmad)
“Of my thousand cravings, each one a career,
many I’ve done, but never enough.” (William Stafford)
“Thousands of wishes: all such
that for each one
I sighed my last breath.
My desires were many ۔
and yet, so few. (Francesca Chubb۔Confer)
اعجاز احمد کا ترجمہ تو بالکل لفظی ہے ۔ سٹیفورڈ کا پہلا مصرع معقول ہے لیکن خواہش کا جو ترجمہ انہوں نے کیا ہے انگریزی پڑھنے والا ایسا مطلب نکال سکتا ہے جس سے شعر کا کوئی واسطہ نہیں۔ دوسرے مصرعے میں کیریئر کا انتخاب ‘دم نکلے’ والے محاورے کو پھیکا بنا دیتا ہے ۔سٹیفورڈ ‘خواہش’ اور ‘ارمان’ میں فرق بھی نہیں کرتے جبکہ یہ فرق اس شعر کی خوبی ہے اور شاید اسی لئے اعجاز احمد کے ترجمے میں بھی اس کا اہتمام کیا گیا ہے۔
رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہو تا
From the vein in the stone would have flown such a profusion of blood that it would be unstoppable,
If what you think as grief were a spark of fire.” (Aijaz Ahmad)
“This stone would have pulsed blood all over
if man’s common suffering had really struck fire.” (William Stafford)
“If you understand grief as sparks,
a ceaseless burning blood
would drip from the stone’s struck vein.” (Francesca Chubb۔Confer)
اوپر والے شعر میں تو سٹیفورڈ اصلی معنی سے دور ہو گئے ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ غالب آفاقی طور پر بات کر رہے ہیں بلکہ دل /پتھر اور خون /شرار کی تشبیہات سے وہ پڑھنے والے کو ایک عاشق کی جگہ رکھتے معشوق کے ہاتھ بنی درگت کا نظارہ کروا رہے ہیں ۔
میری اردو اور فارسی غزلوں کے تراجم میں ایک اہم فرق ان کے انتخاب میں پنہاں ہے۔ اردو غزلوں کا انتخاب میں نے بغیر کچھ خاص سوچے کیا تھا۔ یہ غزلیں اردو بولنے والوں میں بہت مقبول ہیں لہذا انکی ثقافتی اہمیت تو ہے لیکن شاعرانہ حوالے سے یہ باقی غزلوں سے بہتر یا کمزور ہیں اس کا کوئی اثر میرے انتخاب پر نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ غزلیں کچھ دوسرے کلام غالب کے مقابلے میں ترجمے کے لئے سازگار نہ ہوں؛ بلکہ شاید یہی وجہ ہو کہ وہ اردو بولنے اور پڑھنے والوں میں اتنی مقبول ہیں۔
اس کے مقابلے میں فارسی دیوان سے میری کوئی آشنائی نہیں تھی لہذا میں نے دیوان کھولا اور ایسے ردیف تلاش کرنے کی کوشش کی جو مجھے اچھے بھی لگیں اور آسانی سے انگریزی میں ڈھل بھی جائیں۔ اس سلسلے میں است و نیست
———————————————————————————————————————————
یہ مضمون آپ تک پہنچنے کے لیے ہمارے خون پسینے کے علاوہ روپیہ پیسہ بھی خرچ ہوا ہے۔
———————————————————————————————————————————
کی متضاد لیکن سادگی اور پرکاری سے لبریز تکرار نے میرا دل موہ لیا ۔ میں نے ہر شعر کو ایک تین سطری سٹینزا میں تبدیل کیا ہے تا کہ میں قافیے ملا سکوں اور لائنوں کے اختتام پر بلحاظ وزن الفاظ ہوں ۔ فارسی غزل کے لئے میں نے ردیف سے پہلے خالی جگہ کو اس طرح پر کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ علیحدہ تو نظر آیے لیکن باقی سٹینزا سے اس کا تعلق بھی برقرار رہے۔
ایک چیز کی طرف میں یہاں اشارہ کرنا چاہوں گی کہ روایت کے مطابق تو مجھے غالب کے تعارف کے ساتھ ساتھ انکی شاعری کے انداز اور اسکی کچھ خاص تلمیحات اشارات اور تراکیب کا ذکر بھی کرنا چاہیے۔ لیکن میرا یہ خیال ہے کہ انگریزی ترجموں کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہیے تا کہ بغیر کسی تعارفی مواد کے پڑھنے والے اسکا فیصلہ کر سکیں۔ میرے ترجموں کے زیادہ تر سٹینزا اندرونی اور اختتامی قافیوں پر انحصار کرتے ہیں۔ میں نے شاعرانہ ساخت کو جہاں تک ممکن ہو سکے برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ میں یہ دعوٰی تو نہیں کر سکتی کہ اس طریقے سے اصلی شعر کی موسیقی اسکے ترجمہ پڑھنے والے کو سنائی دے گی لیکن امید ہے کہ کچھ سر مل جائیں گے۔ میرا مکمل ایمان ہے کہ شاعری کا ترجمہ شاعری ہی ہو سکتی ہے ۔
میرا یہ تجربہ اس سوال کہ ’’کیا شاعری کا ترجمہ ممکن بھی ہے؟‘‘ کا ایک ممکنہ جواب ہے۔ غالب کے معاملے میں تو فرانسس پریچٹ پہلے ہی کہہ چکی ہیں کہ ہر ایسی کاوش کا مقدر ناکامی ہے۔ شاید میرے تجربے کا مقدربھی ناکامی ہو لیکن جیسے شاید ایک اردو شاعر نے کہا ہے کہ ’’سخن کے دروازے قیامت تک وا نہ ہوں گے‘‘ اور غالب نے بھی اپنے فارسی دیوان میں کیا خوب تبصرہ کیا ہے کہ
اے کہ دار رہ سخن چن تو ہزار آمد و رفت
تو ایک اور ترجمہ ہو جائے تو کیا مضائقہ ہے؟
مترجم کا نوٹ: غالب کے انگریزی ترجموں کے لئے دیکھیے مصنفہ کا اصلی مضمون۔ غالب کی جن دو غزلوں کا ترجمہ کیا گیا ہے انکے ویب لنکس ملاحظہ کیجئے جہاں انکا ذکر پہلی بار آیا تھا۔ ترجمے کے لئے جس فارسی غزل کا انتخاب کیا گیا ہے وہ دیوان سے ذیل میں نقل کر دی گئی ہے ۔
دل بردن ازین شیوہ عیانست و عیان نیست
دانی کہ مر ا بر تو گمانست و گمان نیست
در عرض غمت پیکر اندیشہ لا لم
پاتا سرم انداز بیانست و بیان نیست
فرمان تو برجان من و کار من از تو
بی پردہ بہر پردہ روانست و روان نیست
نازم بفریبی کہ دہی اہل نظررا
کز بوسہ پیامی بدہانست و دہان نیست
دا غیم زگلشن کہ بہار است و بقا ہیچ
شادیم بگلخن کہ خزانست و خزان نیست
سرمایہ ہر قطرہ کہ گم گشت بدریا
سو دیست کہ مانا بزیانست و زیان نیست
در ہر مثرہ برہم زدن این خلق جدید است
نظارہ سگالد کہ ہمانست و ہمان نیست
در شاخ بود موج گل از جوش بہاراں
چون بادہ بہ مینا کہ نہانست و نہان نیست
ناکس ز تنو مندی ظاہر نشودکس
چون سنگ راہ کہ گرانست و گران نیست
پہلو بشگافید و ببینید دلم را
تا چند بگویم کہ چانست و چان نیست
غالب ہلا نظارگی خویش تو ان بود
زین پردہ برون آ کہ چنانست و چنان نیست
Thousands of wishes: all such
that for each one
I sighed my last breath.
My desires were many
and yet, so few.
Why would my murderer worry
about my blood on her neck?
Will it stay there—dripping with each breath
from wet eyes, just like this,
my whole life?
We’ve all heard about Adam
leaving paradise.
But when I left your street—
now that was disgrace.
If all those twisting twining curls
would come undone,
cruel one: the confusion, the secret
profusion of your lengths
would tumble out.
I should write every letter
she could receive.
Dawn broke. Pen tucked
behind my ear, I left the house.
In this age, wine-drinking flows from
me: that time swung back around
for Jamshid’s cup to come
into the world.
I’d hoped for some justice, some understanding,
from those who knew woundedness;
but they were worse off than me,
even more wounded
by that cruel sword.
Living and dying. There’s no difference
in love. Breath leaves the body
when you see that infidel,
but only then, you live.
Where’s the wine-house door, Ghalib?
Where’s the preacher?
I know this much:
yesterday, as I was leaving,
he was on his way in.
“If Only” (Urdu)
It wasn’t our fate to be together.
If we’d kept on living,
we’d be waiting still.
I lived on your promise—
we both knew it was false.
If there was ever any trust,
wouldn’t I have died of happiness?
You were so exquisitely fragile:
and so I knew your vow
was likewise breakable.
If it had been knotted tight,
you never could have broken it.
Let anyone ask my heart
about your half-drawn arrow;
that thrill as it rankles. Where would I be
if it had pierced me through?
What kind of friends
give you advice?
If only they could cure or lift my grief!
If you understand grief as sparks,
a ceaseless burning blood
would drip from the stone’s struck vein.
How can we escape life-breaking
heartache? We still have hearts.
If it weren’t the grief of love,
it would be the grief of all living.
Who could I tell about the torment
of that long night’s loneliness?
What harm was it to die,
if only once?
In death, I was disgraced.
Why wasn’t I plunged into the sea;
my tomb, my funeral, all drowned?
Who could have seen him?
That oneness is one.
If there were any trace of twoness,
somewhere the two of us would have met.
These Sufi problems! This discoursing!
You’d be a saint, Ghalib,
if you didn’t drink so much.
“Is/Not” (Persian)
My heart’s teased out by your expert lure.
That much is clear and is not.
You know that I suspect you and do not.
My thought’s mute figure tells
you of my grief, expressing all
from head to toe and does not.
I live on your command. All that I do,
unveiled—with every veil—flows forth
from you and does not.
I take pride in your deceiving
the discerning. Your mouth
announces a kiss and it’s gone.
Our grief in the garden: spring is here,
never lasting. Our joy: the ashes’ glow,
which is autumn and is not.
The value of each drop,
lost in the sea, is gain
resembling loss, and there is none.
With each flicker of your eyelashes
this creation is made new:
The eye thinks all is as it was and is not.
A rose swells within the branch
from the surge of spring,
like wine in the decanter, concealed and not.
Split my side. See my heart.
How long should I keep saying
that this is how it is and how it is not.
Watch out, Ghalib, for your own sight.
Draw back this veil.
It’s like this and is not.
“Embrace” (Persian)
No easy task, I said, to wrap
your arms around
my bursting joy
She simply drew me close.
Her provocations thrill me:
her heart
beats out a bagatelle,
her forehead
wrinkles wryly, yet
her sly hands
find my own.
Her damply clinging tunic, soaked
to sheerness
leaves her naked
but for perspiration in my arms.
Her wits
surrendered
to the wine,
No longer
can she tell
hers from mine,
and shyly hides
her cheek against my chest.
At times she
blissfully
sleeps at my side,
lips closed to sound.
At times she
props her head
up on my arm
rubbing her chin.
She came at dawn
unbidden,
sash loose. As we embraced,
the summons of the shah were left unopened.
An officer with blade and lance
in hand came riding
from the court,
attendant running close behind.
Wine-flushed
she sways
throughout the palace gardens,
hundreds more blooming
in her shadow’s embrace.
Spying a bud,
she declares (to the roses):
“You see how I shoot for the liver,
how the arrow rankles and stays!”
Well, Ghalib! Sitting in solitude
with such fear and delight:
the royal spies waiting in ambush,
the sought-after one in my embrace!
فرانسسکا چب کونفر یونیورسٹی آف شکاگو کے ڈی وینٹی سکول میں پی ایچ ڈی اسلامیات کی طالبہ ہیں۔ وہ عربی ، فارسی اور اردو شاعری میں کام کرتی رہی ہیں۔ انکی دلچسپی کے موضوعات میں دنیا بحیرہ ہند کا ادب، سیاست مذہب اور ان سب کا میل ملاپ شامل ہے۔