پشاور سے گزرتے ہوئے کینٹ کی سرکاری عمارتوں اور دیواروں پر لکھی تحریروں کو نظر انداز کرنا میرے لیے ناممکن تھا۔
پشتونوں کا قتل عام بند کرو
فوج کو واپس بلاؤ
امریکہ واپس جاؤ
پشاور کی سڑکیں پروپیگنڈا کی جنگ کا میدان بنی ہوئی ہیں۔ فوج اور اس کے استعماری حلیفوں کی جانب سے شہر کو خوشگوار بنانے کی کوششیں بھی پشاور کے جمالیاتی نقش پر تھوپی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ ماضی قریب میں یوایس ایڈ کے پوسٹر بھی دیواروں کی بلندی سے راہگیروں کو گھورتے دل ودماغ جیتنے کی محاوراتی جنگ میں مصروف نظر آتے تھے۔ پولیس اور فوج کے قتل ہونے والے افسران کی تصویروں پر مشتمل پوسٹر شہادت کے عنوان سے ماتم گساری کی فضا کو مزین کر رہے ہیں۔ ان کوششوں کے باوجود فوج اور خفیہ ایجنسیوں سے بیگانگی اوران کا خوف بہت نمایاں ہے۔ یو ایس ایڈ کے پوسٹر بھی جلد ہی روزمرہ کے عوامی طنز کا سامان بن جاتے ہیں۔
’’وہ اس خطے کی تعمیر میں ہماری مدد کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس پر دوبارہ بمباری کر سکیں۔‘‘ مجھ سے پشاور کے ایک رہائشی نے کہا۔
مدیر اعلی:
ماہوش احمد اور مدیحہ طاہر
مدیران:
اسد ہاشم | احسن کمال | فہیم شیخ/حافظ صوفی | سلمان حسین | سلمان حیدر | خواجہ حمزہ سیف | کرسٹن زپپرر
رضاکار مدیران:
مہرین کسنا | ربیع محمود | احسانللہ ٹیپو محسود
اردو مترجمین:
فہیم شیخ/حافظ صوفی | شیبا بھٹی | احسن کمال | سلمان حیدر | انعم ناز | پلوشہ مشتاق
سماجی میڈیا:
انٹرنز:
مزید مضامین
پشتونون کی سوشل میڈیا ویب سائٹوں، بلاگز، ٹی وی اور ریڈیو پروگراموں، سماجی اور سیاسی حلقوں میں پنجاب زدہ فوج کے ہاتھوں خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان ، افغانستان، اور یہاں کے عوام کے استحصال کا تذکرہ مسلسل اور پرجوش انداز میں جاری رہتا ہے۔ پشاور میں کیے جانے والے انٹرویو کے ایک سلسلے میں بار بار دہرائی جانے والی باتوں میں ’’جہاں کہیں بھی آپ دیکھیں پشتونوں کو مارا جا رہا ہے۔‘‘ اور ’’پنجاب پشتونوں کی موت کو اس طرح محسوس نہیں کرتا جیسے ہم کرتے ہیں۔‘‘ جیسے جملے شامل ہیں۔ پشاور اور دوسری جگہوں پر احتجاج کے دوران بینر صاف لفظوں میں ’’پشتونوں کا قتل عام بند کرو‘‘ کا مطالبہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
اس گفتگو کا ماخذ کیا ہے؟ عوامی اور نجی محفلوں میں اس طرح کا اظہار کیوں ہو رہا ہے؟ نسلی اور جغرافیائی تخیل سے یہ اظہاریہ اپنا تعلق کیوں، کیسے،اور کہاں جوڑتا ہے؟
پاکستان میں پشتونوں کا رومانوی یا غیر انسانی تصور
پاکستان کے بیانیے کا مرکزی دھارا پنجاب کے زیر تسلط اور اردو کی ثقافتی اور لسانی برتری کا قائل ہونے کے ساتھ ساتھ پشتونوں کو ایک یک سمتی گروہ تصور کرتا ہے اور اس یک سمتی گروہ سے مختلف اوقات اور انداز میں نا صرف ایک رومانس نتھی کیا جاتا ہے بلکہ اس گروہ کو انسانیت سے کمتر درجے پر متعین بھی تصور کیا جاتا ہے۔
2001 سے 2015 تک کے انگریزی اخبارات کے تجزیے سے میں نے اس بات کے شواہد اکھٹےکیے ہیں کہ کس طرح اور کتنی بار سیاسی فوجی اور دیگر مفادات کے نمائندوں نے پشتونوں کو دہشتگردوں، بمباروں، منشیات فروشوں اور مجرموں کے گروہ کے طور پر پیش کیا۔
اپنے سابقہ کام کے دوران میں نے افغان پناہ گزیروں اور غریب شہریوں (جن کی بڑی تعداد پشتون ہے) کا تجزیہ کیا۔ مجھے اکثر پاکستانی پشتونوں اور افغانوں (جن میں سے بہت سے پشتون نہیں بلکہ ازبک، تاجک، ہزارہ اور ترکمان تھے) سے ملنے کا موقع ملا جنہوں نے یہ بتایا کہ ریاست کے ساتھ ان کے رابطے کے دوران کس طرح غیر پشتون انہیں طالبان دہشت گرد یا القاعدہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ قومی ٹی وی پر مذاکروں اور ڈراموں میں پشتونوں کا غریب اور بے وقوف کرداروں کے طور ہر پیش کیا جانا روزمرہ کا معمول ہے۔ ( اس کی ایک مثال 2014 میں حمزہ علی عباسی اور ثروت گیلانی کا ڈرامہ سیریل ایک تھا راجہ ایک تھی رانی ہے)۔ اسی طرح مشہور لطیفوں میں (جنہیں سنتے ہی سناناے والے یا سامعین یا دونوں کے غیر پشتون ہونے کا پتا چل جاتا ہے) پٹھان کا مطلب بیوقوف لیا جاتا ہے۔ مختلف ایس ایم ایس نیٹ ورکس پر اس طرح کے لطیفے اکثر گردش میں رہتے ہیں۔ کرکٹ میں شاہد آفریدی کے کھیل کی تکنیک پر تنقید ہمیشہ اس کے پٹھان اور مفروضہ طور پر بے وقوف ہونے سے جوڑی جاتی ہے۔
دوسری طرف پشتونوں کا لازمہ سمجھی جانے والی چیزوں میں کچھ مثبت چیزیں بھی ہیں۔ جیسے کہ پشتونوں کو بہادر، جنگجو، گورا چٹا، وفادار اور محنتی کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے۔ مثلاََ آفریدی اپنی مفروضہ پٹھان کند ذہنی کے نا پسند کیے جانے کے ساتھ ساتھ اپنے جذباتی انداز کی وجہ سے سراہا بھی جاتا ہے۔
یہ بیانیے یوں تو بےضرر معلوم ہوتے ہیں لیکن ان میں سے ہر مثبت یا منفی بیانیہ پشتونوں کو ایک یک سمتی ’’مسخاکہ‘‘ بنا دیتا ہے۔ پاکستان میں معاشی و سیاسی طاقت پنجاب اور کراچی کی شہری اشرافیہ میں مرتکز ہے اور یہاں کے معاشی اور ریاستی ڈھانچے میں عدم توازن کی موجودگی بلکہ اس کے ساتھ جڑ کر یہ بیانیے بے ضرر ہرگز نہیں رہ سکتے۔
یہ مسخاکے بیانیے کے ایسے ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں جن کے ذریعے انگنت طریقوں سے نا صرف پشتون شانخت برتی جاتی اور متاثر ہوتی ہے بلکہ بیانے کے ان ہتھیاروں کی مدد سے پشتونوں کو نسل پرستی کا نشانہ بھی بننا پڑتا ہے۔
———————————————————————————————————————————
وقف نہیں۔ خیرات نہیں۔ بیرونی امداد نہیں۔ صرف آپکی مدد درکار ہے۔
———————————————————————————————————————————
اوپر بیان کی گئی اور ان جیسی اور بہت سی خصوصیات کو پشتون لازمہ قرار دینے کا عمل اول تو پشتون مزدوروں، اس خطے اور اس کے وسائل پراشرافیہ کے استحصال کو تقویت دیتا ہے۔ دوم، اس کے ذریعے پشتون خطے میں فوج کی موجودگی اور فوجی آپریشن کا جواز تراشا جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ عمل اوراس کے ذریعے تخلیق کیا جانے والا بیانیہ اس خطے میں تشدد کی صورتحال کو پیدا کرنے میں فوج کے مرکزی کردار سے توجہ ہٹانے کا کام بھی آتا ہے۔
اس چیز پر بات کرنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پشتونوں کو ایک یک سمتی گروہ کے طور پر دیکھنا مختلف جغرافیائی خطوں، مثال کے طور پر بندوبستی علاقوں، فاٹا، پشتون ریاستوں، اور افغانستان، کے پشتونوں کے مختلف، قبل از نو آبادیاتی، نو آبادیاتی اور بعد از نو آبادیاتی، تجربات کے فرق کو نظر انداز کرتا ہے۔ یہ پشتونوں کی مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا میں تاریخی نقل و حرکت، ہرات اور بنگال نیز موجودہ دور میں لندن اور نیویارک میں آبادکاری اور تعلقات کو یکسر نظر انداز کرتا ہے۔ مزید جن چیزیوں کو یہ یک رخا پشتون تصور نظر سے اوجھل کر دیتا ہے ان میں سے ایک پشتون معاشرے کا صنفی، طبقاتی، عصبیتی اور گروہی تنوع ہے۔
“دہشتگرد” پشتون
پاکستان کے غالب بیانیے میں پشتونوں کا جارحیت اور تشدد سے ملاپ خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ مثال کے طور پر پاکستانی غیر پشتون بیانیہ پشتونیت کے تنوع کو نظرانداز کر کے پشتونوں، افغانوں، 1980 کی دہائی کے مجاہدوں، 1990 اور اس کے بعد کے پاکستانی اور افغان طالبان، سب کو بالکل ایک یا ایک ہی چیز کی مختلف شکلوں کے طور پر دکھاتا ہے۔ یہ بیانیہ پاکستانی فوج کی جانب سے افغانستان سے ملحقہ علاقوں ( بلوچستان، خیبر پختونخواہ، اورخاص طور پر فاٹآ جو پاکستان کے آئین سے ماورا ہے) کو اپنے جیو پولیٹیکل کھیل میں استعمال کرنے کے اس عمل کو جواز مہیا کرتا ہے جو اکثر امریکہ کے استعماری مفادات سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔
ایسا پہلی بار سرد جنگ کے پسِ منظر میں افغان روس جنگ کے دوران دیکھنے میں آیا۔ دوسری بار افغان طالبان کے نمودار ہونے کے دوران اور تیسری بار 2001 کے بعد دہشت گردی کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ کے دوران ایسا ہوا۔ ان تمام ادوار میں غیر پشتون پاکستانیوں اور دیگر کھلاڑیوں کی طرف سے دہشت گردی کو ایک پشتون مسئلے کے طور پر دیکھنے کی روایت قائم ہوئی۔
روزمرہ منطق کے مطابق یہ ان (قبائلیوں) کا مسئلہ اور انہی (قبائلیوں) کا علاقہ ہے۔ وہی اس تشدد کو سمجھتے ہیں۔ یہ بیانیہ اس نظام کو جواز مہیا کرتا ہے جس کے مطابق پشتون علاقے اور ان میں زندگی کو کھینچا تانی کا نشانہ زیادہ آسانی سے بنایا جا سکتا ہے کیونکہ اسی روزمرہ منطق کے مطابق انہیں اس کی عادت ہے۔ اس طرح مسلح مذہبی مزاحمت کی بنیاد ایک ثقافت میں تلاش کی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی داستان ہے جو تاریخی طور پر ان علاقوں میں موجود فوج سول ریاستی اداروں ان کے معاشی مفادات اور اس تحریک کو پوشیدہ رکھتی ہے جو جنگ کو یہاں لانے کا سبب بنی۔
موجودہ صورتحال میں خیبر پختونخواہ اور فاٹا میں طالبان کی موجودگی اور کامیابی صرف پشتون معاشرے کے تشدد کی طرف مفروضہ جھکاؤ اور سماجی رجعت پسندی کا نتیجہ نہیں ہے۔ اس کے برعکس طالبان، جو خود تندیل ہوتے ہوئے دھڑوں پر مشتمل ہیں، کی کہانی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے مختلف دھڑوں کی طویل مدت سے جاری سرپرستی کی کہانی ہے۔
یہ نکتہ نظر اس حقیقت کو بھی نظرانداز کرتا ہے کہ طالبان کی ایک مضبوط شاخ پنجاب میں قائم اور پنجابیوں پر مشتمل ہے۔ مزید یہ کہ جب مقامی آبادی طالبان کا ساتھ دیتی ہے تو اس کی پیچیدہ علاقائی، سیاسی، سماجی، تاریخی اور معاشی وجاہات ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ بات نوٹ کی گئی ہے کی سوات میں طالبان کے ساتھ شامل ہونے والے نوجوان سرمایےکی اُن شکلوں تک رسائی چاہتے تھے جن تک ان کی پہنچ مقامی سرمایہ داروں کی وجہ سے محدود تھی۔
———————————————————————————————————————————
یہ مضمون آپ تک پہنچانے کے لیے ہمارے خون پسینے کےعلاوہ روپیہ پیسہ بھی خرچ ہوا ہے۔
———————————————————————————————————————————
2013 میں وزیرستان میں نوجوانوں سے گفتگو کے دوران مجھے بتایا گیا کہ طالبان جنگجوؤں کو ابتدائی طور پر اس لیے خوش آمدید کہا گیاکہ انہوں نے ’’مقامی عدالتوں‘‘ تک لوگوں کی رسائی کو آسان بنایا اور ایسے تنازعات میں ثالثی کردار ادا کیا جو قدیم نوآبادیاتی قانون ایف سی آر کی موجودگی کی وجہ سے ناقابل حل تھے۔
مزید یہ کہ جنگجو پشتونوں کا مغالطہ اس بات کو زیر بحث لانے کی کوئی گنجائش نیں چھوڑتا کہ 2001 سے قتل، اغوا، بم دھماکوں، اور تشدد کی صورت میں مسلسل اور شدید جارحیت کا شکار یہ فاٹا اور خیبر پختونخواہ کے لوگ ہی ہیں۔ اور یہ کہ اس خطے میں ذہنی صدمے کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
16 دسمبر کو آرمی پبلک سکول پر حملے کی قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں وسیع پیمانے پر رپورٹ دی گئی، مگر بیان کی جانے والی جارحیت میں فاٹا اور خیبر پختونخواہ میں بم دھماکوں کی خبروں کو مناسب توجہ نہیں مل پاتی۔ ’’ہر بار جب یہ ہوتا ہے تو یہ ( خاموشی ) ڈستی ہے‘‘ مجھے ایک ڈاکٹر عبدالکریم نے اس شرط پر بتایا کہ اس کا نام تبدیل کر دیا جائے گا۔
میڈیا میں دہشت گرد حملوں کی رپورٹوں جغرافیائی بنیادوں پر پرکھا جا تا ہے۔ لاہور اور اسلام آباد میں ہونے والے دھماکے کی غیر مصدقہ اطلاع فوری خبر بنتی ہے۔ اس کے برعکس پشاور میں ہونے والے حملوں کا فوری خبر بننا تو کجا اسے رات کی خبروں تک پہنچنے کے لیے اموات کی تعداد بہت زیادہ ہونا ضروری ہے۔ ایک ناقابل محبت یک سمتی مسخاکے کے طرزپر ایک اوسط درجے کے پشتون کا غم منانا تقریباََ نا ممکن نظر آتا ہے۔
اس حوالےسے آرمی پبلک سکول پر حملہ ایک منفرد واقعہ تھا جس کے بعد پاکستان حقیقی صدمے اور غم میں ڈوب گیا۔ اس کی وجہ بہت حد تک تشدد کی سطح کا بھیانک اور اس کا نشانہ بنے والوں کا کم عمر ہونا تھا۔ اس غیر معمولی کوریج کا تعلق اس بات سے بھی تھا کہ وہ ایک فوجی سکول کے بچے تھے۔ لازماََ ایسے پشتون جنہیں ہم جانتے ہیں، جن سے کوئی خطرہ نہیں اور جن کا تعلق (فوج کی طرف مائل)پاکستانی قوم سے جوڑا جا سکتا تھا۔ غالبا اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جب فاٹا سے تعلق رکھنے والے پشتون بچے جارحیت کے نمایاں مظاہروں میں مارے جاتے، امریکہ کے ڈرون حملوں اور پاکستانی فوج کے آپریشنوں میں معذور یا اپاہج کر دیے جاتے ہیں تو اس طرح کے غم کے مظاہرے دیکھنے کو نہیں ملتے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی پشتونوں کی زندگی کا تجربہ کس طرح ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ سب سے واضح طور پر باقاعدہ پاکستانیوں اور فاٹا کے رہائشیوں میں فرق ہے۔ فاٹا جس کا بندوبست نسلی تفریق اور نو آبادیاتی دور کی نشانی ایف سی آر کے تحت کیا جاتا ہے اور جس کے رہائشی پاکستانی آئین سے ماورا ہیں۔
تفریق اور تشدد کا معاملہ یقینی طور پر اتنا سادہ نہیں ہیں کہ اسے نسل اور آبائی جغرافیائی خطے تک محدود کیا جا سکے۔ جنس، طبقہ، برادری، مذہب (غیر مسلم)، فرقہ (غیر سنی)، آئینی حیثیت (ٖفاٹآ، پاکستانی، کشمیری)، نیز مزدور یونینوں اور کسان تحریکوں میں متحرک ہونا (وہ بھی ایک ایسی ریاست میں جس میں طاقت ایک فوجی سرمائیدار طبقے کے ہاتھ میں ہے) بھی پاکستانیوں کی زندگی کے تجربے میں واضح فرق کا سبب بنتے ہیں۔ مزید یہ کہ خیبر پختونخواہ میں پشتون اشرافیہ مقامی اقلیتی گروہوں کی طرف سے پشتون تسلطی پہ تنقید کا نشانہ بنتی رہتی ہے (چترال اور ہزارہ کے لوگ اس کی واضح مثال ہیں)۔
نسلی وفاقی امتیازی ڈھانچہ
پشتون اشرافیہ اور متوسط طبقہ تاریخی طور پر فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی ریڑھ کی ہڈی رہا ہے اور اب بھی ایسا ہی ہے۔ حالیہ سالوں میں سول بیوروکریسی اور انتظامیہ میں ان کی تعداد میں اضافہ ان اداروں میں پنجابی مہاجر تسلط میں تبدیلی کی علامت ہے۔
فاٹا میں بھی برطانوی حکومت کی طرح پاکستانی ریاست اپنا بندوبست برقرار رکھنے کے لیےمقامی ملکوں کی وفاداری پر انحصار کرتی ہے جنہیں ان کی خدمات کا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ یہ حقیقت اس بات کو واضح کر دیتی ہے کہ یہ ملک کیونکر اس نظام کے سب سے بڑے حامی ہیں اور اس علاقے کے قبائلی تصور کو تقویت دیتے ہیں۔ یہ ملک طالبان کے سب سے بڑے مخالف ہیں لیکن اس مخلفت کی وجہ صرف طالبان کی بربریت نہیں بلکہ اس میں ان کا معاشی اور سماجی مفاد بھی ہے۔
اس لیے پاکستان میں پشتونوں کے بڑھتے ہوئے غصے کو صرف لسانیت اور قوم کے حوالے سے دیکھنا اس عمل کو نظر سے اوجھل کر دیتا ہے جس کے ذریعے استعمار کے جبر کو نسلی اور لسانی گروہوں سے ماورا طبقاتی اتحاد اور طبقاتی استحصال کے ذریعے جاری رکھا جاتا ہے۔
پنجاب بھی کسی ایسی خیالی جنت کا حصہ نہیں ہے جو غیر پنجابی تخیل کی پیداوار یک سمتی پنجاب کی تخلیق سے محفوظ ہو۔ سیاسی رہنماؤں اور اوپری متوسط طبقے کا پنجاب محبت کش طبقے، غریب دیہاتی، اور ’’جنوبی پنجاب‘‘ کے اس پنجابی کے پنجاب سے بہت مختلف ہے جو مرکزی پنجاب میں موجود ایک استحصالی حکمران اشرافیہ کے خلاف ایک مسلسل مزاحمت میں مصروف ہے۔
———————————————————————————————————————————
پاکستان کی کہانی سنانے کے لیے آزاد میڈیا کی تشکیل میں ہماری مدد کیجیے۔
———————————————————————————————————————————
طویل مدتی تاریخی معاشی اور ادارہ جاتی ترقی کی وجہ سے پنجاب معاشی ڈھانچے اور طاقت میں خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان، سندھ، ہنزہ، کشمیر، سانقی مشرقی پاکستان سے بہت مضبوط ہے۔ شہروں کی بنیادی سہولتوں اور ادارہ جاتی طاقت کا فرق اس وقت بہت شدت سے سامنے آتا ہے جب ہم مثال کے طور پر پشاور کا لاہور سے تقابلی موازنہ کریں۔ ماضی میں ان مستحکم شہری مراکز میں سرمایہ کاری طاقت اور منافعے میں اضافے کے مد نظر کی گئی جس کے تحت منافع حاصل کرنے کی ضمانت ہر چیز پر فوقیت رکھتی تھی۔ سیاسایت کی ماہر حمیرہ اقتدار نے بھی یہ نوٹ کیا ہے کہ ان شہروں کی موجودہی شکل عالمی منڈی کے دباؤ کا نتیجہ ہے جس کا مطلب ہے کہ بڑے شہروں کی ایک چھوٹی تعداد وسائل کا بڑا حصہ ہڑپ کر رہی ہے جس کا نقصان ملک کے باقی خطوں یہاں تک کے پنجاب کے باقی شہری مراکز کو بھی اٹھانا پڑتا ہے۔
’’نسلی عصبیت اور ثقافت‘‘ پر لکھتے ہوئے فرانز فینوں بہت جوش سے کہتا ہے کہ ’’فرد کو منطقی طور پر کمتر ثابت کیے بغیر اسے غلام بنائے رکھنا ممکن نہیں‘‘۔ اگر پنجاب کی اشرافیہ امیر ہے اور اس نے سڑکیں انفراسٹرکچر اورادارے بنائے ہیں تو اس کی وجہ صرف اور صرف وہ استحصال ہے جو مرکزی پنجاب ملک کے دوسرے حصوں سے رواں رکھے ہوئے ہے۔ چاہے وہ سوئی اور کرک کی گیس ہو، دیہات سے نقل مکانی کرنے والوں کی سستی محنت ہو، پناہ گزیر ہوں، غیر دستاویزی کارکن ہوں، گھر چھوڑنے پر مجبور لوگ ہوں، ماضی میں مشرقی پاکستان سے پٹ سن کی برآمد ہو یا پنجاب کے اپنے شہری اور دیہی عوام۔ مضبوط، بےوقوف، وفادار، محنتی، پشتون کا یہ بیانیہ فرد کی سطح پر اس وقت ایک سنجیدہ شکل اختیار کر جاتا ہے جب کراچی لاہور اور سلام آباد جیسے شہری مراکز میں پشتون دیہاڑی دار ہزاروں کی تعداد میں روزانہ اجرت پر ملازم رکھے جاتے ہیں۔
ان مثبت اور منفی خصوصیات کو پشتون لازمے کے طور پر قبول کر لینے سے کہیں بہتر یہ ہو گا کہ معاشی ڈھانچے میں ان عوامل کا جائزہ لیا جائے جنہوں نے گزشتہ سالوں میں پشتونو ں کو ان شہروں کی طرف نقل مکانی اور دیہاڑی مزدوری پر مجبور کیا ہے۔ ان عوامل میں فوجی آپریشن، ایف سی آر، اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم شامل ہیں۔ ان خصوصیات پر مبنی یک سمتی مسخاکے ان نا ہمواری کا فوری نتیجہ ہیں جو اس سستی محنت کی فراہمی کو تقویت دیتے ہیں۔ وہ محنت جو ان جگہوں کو عالمی سطح کے شہروں میں بدلنے میں مدد دیتی ہے۔
اس طرح پشتون خطوں اور وہاں بسنے والے انسانوں کو کمتر قرار دینا ان جگہوں اور یہاں کے لوگوں کے طاقت کے مراکز اور وہاں مقیم حکمران طبقے کے مفاد کے لیے استحصال کا باعث بنتا ہے۔ ٖفاٹآ، خیبر پختونخواہ، بلوچستان نے جنگجو پشتونوں اور ایسے ہی دوسرے مثبت دکھائی دینے والے اور ’’طالبان پشتون مسئلہ ہے اس سے انہیں خود نمٹنا چاہئیے‘‘ جیسے منفی بیانیے کی وجہ سے تصادم اور جنگ کو نا صرف بھگتا ہے بلکہ ان کی وجہ سے حکمران طبقات اس خطے میں جنگ کھینچ لانے کی ذمےداری سے بھی بری ہو گئے ہیں۔
عالمی دنیا کے نسلی نظام میں دو چیزیں واضح ہیں۔ اول یہ کے تمام غیر سفید لوگ امتیاز کا نشانہ ہیں اور دوسرے مغربی دنیا کی دولت پھر سے فینوں کے لفظوں میں غیر ترقی یافتہ لوگوں سے چرائی گئی دولت پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں اس کے متوازی فوج اور افسر شاہی پر مشتمل اشرافیہ نظر آتی ہے جو اپنی طاقت اور عیش و عشرت کے لیے مرکزی دھارے سے باہر موجود صوبوں اور لوگوں کا استحصال کرتی ہے۔ اور جن کا مفاد شہری اور دیہی غریبوں “خطرناک” “بےوقوف” پشتونوں بلوچ کمتری اور دیگر قوموں کی فطرت پر مبنی اساطیر جاری رکھنے میں ہے تاکہ ان لوگوں اور خطوں کا استحصال جاری رکھا جا سکے۔
اس پسمنظر میں پشتونوں اور دیگر اقوام کے گرد دلچسپ انداز میں بنا جانے والاکمتری اور غیر انسانی مقام کا بیانیہ ایک سنجیدہ رنگ رکھتا ہے جس سے بہت کچھ کھل کر سامنے آتا ہے۔ ہاں انسانوں کو انسانوں کے درجے سے گرانے کی یہ کوششیں نظر انداز نہیں ہو رہیں۔ پشتون اس پر ردعمل ظاہر کر رہے ہیں جو پشاور کی دیواروں پر واضح لکھا ہے۔
ثنا علیمیہ سکول آف اورینٹل اینڈ ایفریکن سٹیڈیز کے پالیٹکس اینڈ انٹرنیشنل سٹیڈیز ڈیپارٹمنٹ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتی ہیں۔