ایشیا ٹائپ نسخ یا نستعلیق فونٹ میں پڑھنے کے لیے ان ہدایات پر عمل کریں۔

Artist: Madiha Hyder, “Three Little Birds”
مدیر اعلی:
ماہوش احمد اور مدیحہ طاہر
مدیران:
اسد ہاشم | احسن کمال | فہیم شیخ/حافظ صوفی | سلمان حسین | سلمان حیدر | خواجہ حمزہ سیف | کرسٹن زپپرر
رضاکار مدیران:
مہرین کسنا | ربیع محمود | احسانللہ ٹیپو محسود
اردو مترجمین:
فہیم شیخ/حافظ صوفی | شیبا بھٹی | احسن کمال | سلمان حیدر | انعم ناز | پلوشہ مشتاق
سماجی میڈیا:
انٹرنز:
اپریل 2015 میں پاکستان کے دورے کے دوران چینی صدر شی جن پنگ نے 46 ارب ڈالر سرمایہ کاری پیکج کا وعدہ کیا۔ یہ خطیر رقم پاکستان کے انحطاط پذیر انفرسٹرکچر بشمول ذرائع آمدورفت، مواصلات اور بجلی کی پیداوار اور ترسیل کے منصوبوں پر خرچ کی جائے گی۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے نام سے موسوم یہ منصوبہ اپنے حجم کے اعتبار سے بے حد بڑا ہے۔ اس چینی سرمایہ کاری کا حجم گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستان میں کی جانے والی کل سرمایہ کاری کے حجم سے زیادہ ہے۔ اس منصوبے کے اعلان کا وقت بھی اہم ہے: پاکستانی معیشت زبوں حال ہے جس کی ایک بڑی وجہ اقتصادی پیداوار کی معاونت کے لیے ضروری انفراسٹرکچر کی کمی ہے۔
منصوبے کا ایک حصہ بلوچستان کی بندرگاہ گوادر کو چین کے مغربی صوبے سنکیانگ کے شہر کاشغر سے ملانے کے لیے تعمیر کی جانے والی 3000 کلومیٹر طویل سڑکوں اور ریلوے لائنوں پر مشتمل ہے۔ چینی سرمایہ کاری سے انفراسٹرکچر کی تعمیر کے حامی یہ دلیل دیتے ہیں کہ اس منصوبے سے پسماندہ بلوچستان میں ترقی ہو گی؛ اس منصوبے کے تحت تعمیر ہونے والی سڑکوں اور ریلوے لائنوں سے سامان کی ترسیل اور سفر کی سہولیات میسر آئیں گی، بجلی گھروں سے کارخانوں اور گھروں کو بجلی فراہم کی جاسکے گی اور ایک شاندار بندرگاہ کے ذریعے اس علاقے کو عالمی تجارتی گزرگاہوں سے منسلک کیا جاسکے گا۔بظاہر اس منصوبے میں کچھ بھی قابل اعتراض نہیں ،سو چینی سرمایہ کاری کو خوش آمدید کہاجانا چاہیے۔ آخر کار یہ منصوبہ قومی تعمیروترقی کا منصوبہ ہے۔
تاہم سوال یہ ہے کہ کیا واقعی سب کچھ ایسا ہی ہے؟ اس منصوبے کی تعمیر کے لیے اختیار کردہ راستے کی شفافیت اور اقتصادی راہداری کےپس پشت کارفرما تجارتی نقطہ نظر کے حوالے سے پاکستانی صوبائی اسمبلیاں اعتراضات اٹھا چکی ہیں۔ خصوصاً بلوچ حقوق کے لیے سرگرم کارکنان اور سیاسی رہنما اقتصادی راہداری منصوبے پر تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔ بیشتر بلوچ کارکن اور دانشور پاکستانی ریاست کی جانب سے بلوچوں کواعتماد میں لیے بغیر چینی سرمایے سے تعمیر کیے جانے والے ترقیاتی منصوبوں کی عرصہ دراز سےمخالفت کر رہے ہیں۔ ترقی کے ایسے عمل کے خلاف مزاحمت کا اظہار تشدد کے ذریعے بھی کیا جاتا رہا ہے۔ رواں برس تربت میں فوجی پشت پناہی سے تعمیر کیے جانے والے ڈیم پر کام کرنے والے غیر بلوچ کارکنوں کا قوم پرست عسکریت پسندوں کے ہاتھوں بہیمانہ قتل اس تشدد کی ایک مثال ہے۔ پاکستانی ریاست کی سرگرمیوں کے خلاف مسلح بلوچ تحریکیں 1948 میں قلات کی پاکستان میں بزور شمولیت کے خلاف مسلح مزاحمت کے بعد سے زور پکٹرتی رہی ہیں۔ بلوچ مزاحمت کی حالیہ لہر گزشتہ ایک دہائی سے جاری ہے۔اس مزاحمت نے بلوچ عسکریت پسندوں اور بلوچ حقوق کے لیے سرگرم کارکنان، اور انہیں دبانے کے لیے تعینات سیکیورٹی اداروں کے درمیان جنگ کی سی صورت اختیار کرلی ہے۔
———————————————————————————————————————————
پاکستان کی کہانی سنانے کے لیے آزاد میڈیا کی تشکیل میں ہماری مدد کیجیے۔
———————————————————————————————————————————
ہم میں سے کوئی بھی خصوصاً غربا کس طرح تعمیر وترقی کی مخالفت کر سکتے ہیں؟
عمومی موقف یہ ہے کہ ایک پسماندہ اور رجعت پسند اقلیت اس خطے کی ترقی کی راہ میں مزاحم ہے۔اگرچہ یہ نقطہ نظر مسلح افواج میں عام ہے(اور شاید پنجاب اور سندھ کے شہری متوسط طبقے میں بھی عام ہے)تاہم ان خیالات کا واضح اظہار سابق فوجی سربراہ اور حکمران جنرل پرویز مشرف کی تحریر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ غالباً ایک عام شہری کے طور پر سیاست میں حصہ دار بننے کی مجہول کوشش کے طور پرمشرف نے مارچ 2012 میں انگریزی جریدےدی نیوز میں دو حصوں پر مشتمل ایک مضمون “بلوچستان کی تفہیم” کے نام سے لکھا۔ بنیادی طور پر یہ مضمون مشرف دور اور اس کے بعد بلوچستان میں تعینات مسلح افواج پر عائد کیے جانے والے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کے ردعمل میں لکھا گیا ہے۔
مشرف کا موقف ہے کہ دیگر سرگرمیوں کے علاوہ بلوچ حقوق کی تحریک”قومی تنصیبات کو تباہ کرنے یا نقصان پہنچانے کے لیے دہشت گردکارروائیوں میں ملوث ہے” اور اس طرح اس تحریک نے،”حکومتی عملداری کو کھلے بندوں چیلنج کیا ہے”۔اس قسم کی شورش “کسی بھی ریاست کے لیے قابل برداشت نہیں اس لیے اس سے آہنی ہاتھوں سے نبٹنا ضروری ہے۔” مشرف مزید لکھتے ہیں”سوال یہ ہےکہ یہ عسکریت پسندکون ہیں جو پاکستان کی مخالفت کرتے ہوئے علیحدگی چاہتے ہیں۔” ان کا کہنا ہے کہ یہ علیحدگی پسند”سفاک، بے رحم اورتخریب کار” قبائلی سردار ہیں جو “اپنے قبائل کو پسماندہ اور محکوم بنائے رکھنا چاہتے ہیں”۔وہ اس مضمون میں اعتراف کرتے ہیں کہ “بلوچستان پاکستان کا سب سے پسماندہ اور محروم صوبہ ہے”۔تاہم (ان کے مطابق) “اس پسماندگی کی بنیادی وجہ بدقسمتی سےان سرداروں کا اپنے علاقے میں ترقی کی مخالفت کرنا ہے”۔ علاوہ ازیں ان سرداروں نے عام بلوچ آبادی میں “پاکستان اور فوج مخالف جذبات” کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ دوسرے لفظوں میں بلوچستان کے مسائل کی وجوہ بلوچستان میں ہی ہیں۔بظاہر پاک بلوچ تعلقات یا وسیع تناظر میں مرکز اور صوبوں کے تعلقات کی محفوظ شدہ اور مسائل سے عبارت تاریخ تجزیاتی اہمیت کی حامل نہیں۔
پسماندگی اور ترقی کو سمجھنے کے لیے زمینی تعلقات اہم ہیں۔ ایسے تجزیے کو زمانی مباحث تک محدود نہیں کیا جاسکتاجس میں کسی خطے کی پسماندگی یا ترقی یافتہ ہونے کا اندازہ اس ملک کے دیگر حصوں سے موازنے کے ذریعے لگایا جاتا ہے۔ اس تجزیے میں ارضیاتی مباحث کو بھی شامل کیا جانا چاہیئے جن میں ایک خطے کے دوسرے علاقے پر انحصار یا بالادستی کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ پسماندگی ترقی سے قبل وقوع پذیر ہونے والاکوئی تاریخی مرحلہ نہیں۔ اس کے برعکس پسماندگی کسی ایک خطے کی ترقی کا دوسرارخ ہے۔ “جدید” اور “پسماندہ” کی بحث استبدادی ترقی کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کے حق میں خطرناک بیانیوں کی تشکیل کا باعث بنتی ہے۔ صرف جدت و پسماندگی کی بحث تک محدود رہنے سے ریاست کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو محض جاہل(یا بدتر صورت میں تخریب کار) قرار دے کر مسترد کیا جاسکتا ہے۔ ایسا کیا جانا غیر منصفانہ اور غیر جمہوری ہے کیوں کہ اس سے مختصر مدت میں جبراور بالادستی کو جواز فراہم کیا جاتا ہے۔ اس عمل کا تسلسل آزادی اور مساوات کے طویل مدتی انضباط کا باعث بھی بنتا ہے۔ ترقی پسندی کے لیے ترقی، قومی تعمیر اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کے حوالے سے ایک نئے طرز فکر کی ضرورت ہے۔
***
1961 میں وفات پانے والے عسکریت پسند انقلابی اور ماہر نفسیات فرانز فینن کے افکار اقتصادی راہداری منصوبے کے تجزیے کے لیے ایک زیادہ نتیجہ خیز بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ اس جائزے کو پاکستان میں بلوچ سیاست کے تجزیے تک بھی پھیلایا جاسکتا ہے۔ استبدادی ترقی کے خلاف مزاحم بلوچوں کی طرح فینن “استعمار” اور “نوآبادیاتی اقوام” کے مابین تعلق کی نشاندہی کرتا ہے۔ فینن کے زمانے میں فرانس ایک استعماری قوت کے طور پر الجیریا میں موجود تھا۔ ہمارے عہد اور ہمارے معاملےمیں پاکستان بلوچستان میں ایک استعمار کے طور پر موجود ہے۔ پاکستان میں ملکی فوج، افسر شاہی اور سرمایہ دار اشرافیہ (جس کا زیادہ تر تعلق پنجاب سے ہے) استعمار کا کردار ادا کررہے ہیں، جو بیرونی اشرافیہ کے تعاون سے اپنے طبقے یا خاندان کے معمولی مفادات کی تکمیل کے لیے قومی مفادات کو قربان کر نے سے دریغ نہیں کرتے۔
فینن کا موقف ہے کہ سماجی علوم اور سیاست کے تحت لائی جانے والی “جدت” اور”ترقی” کی تقسیم نوآبادیاتی خطوں کے محکوم عوام کے افعال کو سمجھنے کے لیے ناکافی ہیں۔ یہ اس صورت میں زیادہ درست ہے جب استعماری قوتیں نوآبادیاتی اقوام کو ٹیکنالوجی کے ذریعے جدید یا ترقی یافتہ بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ محکوم اقوام استعمارکی جانب سے ٹیکنالوجی متعارف کرانے کی کوشش کو شدت سےاور بسااوقات مزاحمت کے ذریعے رد کرتی ہیں۔ ممکن ہے کہ ویکسین اور ڈیموں جیسےٹیکنالوجی کے یہ تحائف عالمگیر سطح پر مفید تصور کیے جاتے ہوں۔ تاہم محکوم اقوام ٹیکنالوجی کواستبدادی ثقافت اور مقاصد سے علیحدہ تصور نہیں کرتے۔
اسی لیے بلوچستان میں ڈیموں کے خلاف مزاحمت کو جدت کااسترداد قرار نہیں دیا جاسکتا۔یہ استعماری طاقت کے تصور ترقی کو رد کرنے کے مترادف ہے۔محکوم قوم کے لیے استبدادی طبقے کاتصورجدیدیت ان کی محکوم طبقات کو زیردست رکھنے کی خواہش سے مختلف نہیں ہوتا۔ سوال یہ نہیں کہ بلوچ کس لیے سیاسی اور علمی سطح پر استعماری قوت کی جدیدیت کی نفی کررہے ہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ برطانوی تسلط کے خاتمے کے 70 برس بعد بھی پاکستانی ریاست کا رویہ اپنے ہی لوگوں سے استعمارپسندانہ کیوں ہے۔
———————————————————————————————————————————
یہ مضمون آپ تک پہنچنے کے لیے ہمارے خون پسینے کے علاوہ روپیہ پیسہ بھی خرچ ہوا ہے۔
———————————————————————————————————————————
پاکستان قومی تشکیل کا کوئی بھی موثر لائحہ عمل ترتیب نہیں دے سکا، اس کی بجائے پاکستانی ریاست جبر سے کام لیتی ہے۔ یہی سوچ اس کی ترقیاتی منصوبہ بندی میں بھی کارفرما نظر آتی ہے: پاکستانی ریاست ترقیاتی منصوبے جمہوری مباحث کے بغیر بہیمانہ فوجی طاقت کے استعمال سے مسلط کرتی ہے۔قوم پرستانہ عسکریت پسندی غیر مساویانہ جغرافیائی ترقی سےپیدا ہونے والے مسائل حل نہ کرنےسے پیدا ہوئی ہے۔ یہ عسکریت پسندی اِس سیاسی ناکامی اورسول اور فوجی انتظامیہ کی بالادستی کے باعث پیدا ہونے والا ایک لازمی نتیجہ ہے۔
موجودہ صورت حال سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ رضاکارانہ قومی تشکیل کا عمل شروع کیا جائے۔ ایسی مشترکہ قومی تشکیل کو ہی اطالوی اشتراکیت پسند انتونیو گرامشی نے اکثریتی وفاداری پر مبنی ریاست قرار دیا تھا۔ ایسی ریاست بالا دستی کے لیے جبر اور طاقت کے استعمال کی بجائے ثقافتی رہبری اور اخلاقی اقدار کی تشکیل کے ذریعےعوام کو متحرک کرتی ہے۔ملکی سیاسی تاریخ کے تناظر میں گرامشی نےاطالوی سیاستدانوں اور دانشوروں کو اٹلی کے لیے ایک “مقبول قومی” وژن تشکیل دینے میں ناکامی پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس وژن کا مقصد شہری اور ریاستی خلیج پر پل باندھنا یا ترقی یافتہ اور پسماندہ علاقوں کے مابین خلاء کو پر کرنے والے اٹلی کی تشکیل تھا۔
آبادی کے ایک بڑے حصے خصوصاً غیر پنجابی شہریوں کے لیے قابل قبول قومی وژن/بیانیہ کی تشکیل میں ناکامی قومیت سازی کے میدان میں پاکستان کی تکلیف دہ ناکامی کی ایک اہم وجہ ہے۔ اس کے برعکس مرکزی سیاسی قیادت اور دانشورپاکستانیوں کے لیےایک انحطاط پذیر قومی تصور کو فروغ دیتے رہے ہیں۔ اس تصور کی بنیاد ہندوستان دشمنی، پدرسری نظام کے فروغ اورسماجی اقلیتوں کے لیےبداعتمادی پر رکھی گئی ہے۔ اس تصور کے تحت ہی ملکی ترقیاتی اہداف پرنظریاتی اور عسکری تحفظ کو فوقیت دی جاتی رہی ہے۔یہ کم زور قومی بیانیہ محض چند ترقی یافتہ طبقات جیسے دریائے سندھ کے کنارے بسنے والے پنجابیوں کے لیے ہی قابل قبول رہاہے۔
آج اس ریاستی قومی تصور کو ہر طرف سے اعتراضات کا سامنا ہے۔ اس تنازعے کو دبانے کے لیے زیادہ تر دائیں بازو کے قدامت پسند نقطہ نظر پر زور دینے کی روش اختیار کی جاتی ہے جو اپنے رجعتی نظریات کو اسلام کامذہبی لبادہ اوڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ یہ بنیاد پرست اسلام کو پاکستانی شہریوں کو جوڑنے والی قومی بنیاد کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
لیکن اس نقطہ نظر کے علاوہ مشترک قومیت پسندی کی ایک مختلف صورت بھی ابھر کرسامنے آ رہی ہے۔ اس نئے بیانیے میں گرامشی کے افکار کے مطابق استعماری قوت کے گڑھ یعنی پنجاب اور کراچی اور نوآبادیاتی علاقوں خصوصاً بلوچستان کے محکوم عوام کو جوڑنے کی صلاحیت موجود ہے۔ قومی یکجہتی کی یہ ابھرتی صورت سبین محمود کے زیرانتظام پ بلوچستان پرپاکستان کے نوآبادیاتی قبضےسے متعلق کرائے گئے ایک مباحثے میں دیکھنے کو ملی۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی غیر محسوس سیاسی وابستگی کے باوجود سبین محمود کوایک خطرے کے طور پر دیکھا گیا۔ قومی یکجہتی کی یہ ابھرتی صورت اس قدر طاقتور ہےکہ دی سیکنڈ فلور (ٹی 2 ایف) جیسے معمولی پلیٹ فارم پر بھی اس کے اظہارسےجبر کا نظام حرکت میں آجاتا ہے۔ لاہور اور کراچی کے نوجوان محکوم بلوچوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے عمل میں بدعنوان اور پیش بینی سے محروم مقتدر اشرافیہ سے تکلیف دہ سوال بھی پوچھنے لگیں گے۔ گزشتہ 75 سال سےلوٹ مار میں مشغول صنعتکاروں، سرمایہ داروں، جرنیلوں، سرکاری ملازموں اور جاگیرداروں کے اس گروہ کو مقبول عام قومی یکجہتی کی سیاست سے سامنے آنے والے سوالوں کا سامنا کرنے پر مجبور کرنا ہوگا۔
———————————————————————————————————————————
وقف نہیں۔ خیرات نہیں۔ بیرونی امداد نہیں۔ صرف آپکی مدد درکار ہے۔
———————————————————————————————————————————
مشرف نے 2012 میں لکھے گئےاپنے مضمون کا اختتام اپنے دور حکومت کو بلوچستان کے لیے سب سے زیادہ ترقی یافتہ دور قرار دے کر کیا ہے۔ انفراسٹرکچر کی تعمیر و ترقی کی مثالوں کے ذریعے وہ اپنے دعوی کا ثبوت پیش کرتے ہیں: جیسے گوادر بندرگاہ، سڑکوں، ڈیموں، نہروں کی تعمیر، معدنیات کی تلاش اور قدرتی گیس کی ترسیل کے پائپ لائنیں بچھانا۔ اقتصادی راہداری کا مقدمہ بھی انہی خطوط پر پیش کیا جاسکتا ہے—یعنی کنکریٹ اور فولادی ڈھانچے جس قدر زیادہ تعمیرکیے جائیں گے اسی قدر بہتر ہے۔
مشرف اورقومی تشکیل کے استعماری مکاتب نظر یہ سمجھنے میں ناکام رہے ہیں کہ سیاسی و معاشی طور پر غالب طبقات کے لیے قومی انفراسٹرکچر کی تشکیل کا جو عمل جائز ہے وہ پسماندہ اقوام کے نزدیک استعماری ہے۔مشرف جس نعرے کے ذریعےوسطی پنجاب اور کراچی کے مقتدر حلقوں میں خود کو مقبول بناتے ہیں محکوم عوام کے لیے وہ بے حد کھوکھلا ہے۔ مشرف کہتے ہیں “سب سے پہلے پاکستان”۔ اس کی فوری نقد یوں کی جاسکتی: کون سا پاکستان؟ کس کا پاکستان؟
ایسے سوالات پوچھنے کی جرات کرنا اور سیاسی جواب تلاش کرنا اقتصادی راہداری منصوبے کے حوالے سے ایک بے حد مختلف نقطہ نظر کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ ایک تو ایسے سوالات مشرف کی حکمت عملی کو بالکل الٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ “سب سے پہلے پاکستان” کہنے کی بجائے اب “سب سے پہلے بلوچستان” کی بات کی جائے گی۔ ابھرتا ہوا نیا قومی بیانیہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ بلوچستان میں کی گئی سرمایہ کاری سے ملنےوالے فوائد کے بڑے حصے پر بلوچ عوام اور ان کے منتخب نمائندوں کا حق تسلیم کیا جائے۔ اس کا مطلب سیاسی طاقت کا انتقال اور ثقافتی خود مختاری کی ضمانت بھی ہے۔ بالآخر ایک رضاکارانہ قومی تشکیل بلوچستان کے اندر طاقت اور اختیار کی تقسیم کے نظام کا معاملہ بھی اٹھاتی ہے۔ یہ تشکیل بلوچ معاشرے کے اندر مرتبے، دولت اور اختیارات کی تقسیم کے ساتھ پاکستان کے انتخابی نظام میں ڈرامائی تبدیلیوں کی بھی متقاضی ہے، تاکہ اشرافیہ کے غلبے کا نظام بلوچستان کے اندر چھوٹے پیمانے پر اپنی جگہ نہ بنا لے۔
ایک مقبول عام قومی سیاسی تشکیل کا یہ عمل اقتصادی راہداری منصوبے جیسے نوآبادیاتی انفراسٹرکچر کے خلاف مزاحمت کرتا ہے اور ٹی 2ایف جیسے استعمار مخالف عناصر کی حمایت کرتا ہے۔ ایسے سیاسی نظام کے استحکام اور افزائش اور اقتصادی راہداری جیسے منصوبوں کی مخالفت کے ذریعے پاکستان کے منقسم حاکم و محکوم طبقات کے مابین ایک پائیدار یکجہتی کا قیام ممکن ہے۔ اس نہج کی قومی یکجہتی اور وسیع تر سیاسی، سماجی، ثقافتی اور معاشی تشکیل اقتصادی راہداری جیسے منصوبوں کی تعمیر کے لیے ضروری ہے۔ رضاکارانہ شرکت پر آزادقومی ترقی کا مقصد بھی صرف اسی مقبول عام قومی سیاسی بیانیے کی تشکیل کی صورت میں ہی ممکن ہے۔
ماجد اختر انڈیانا یونیورسٹی بلومنگٹن میں جغرافیے کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔