کابل کی ثقافتی جنگ سے پاکستان چین اقتصادی راہداری تک، یہ شمارہ سامراجیت کی ہیت بدلتی لچک دار اشکال کا احاطہ کرتا ہے۔ افغانستان سے غیر ملکی فوجی انخلا کا بہت چرچا ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ سامراجی نظام فوجی بوٹوں کا محتاج نہیں ہوتا۔ یہ ذہن میں رکھتے ہوئے ، ہم آپ کے لیے لائے ہیں چند شاندار لکھاری:
میلیسا کر چیووندا اس سوال کے جواب کی متلاشی ہیں کہ افغانستان میں جنگ کے اختتام پر ہزارہ برادری کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا جائے گا۔ ’’کاببل‘‘ کے ذریعے فرانچیسکا ریچیا نے ثقافتی سیاست کو سمجھنے کی ایک کاوش کی ہے جسے امن موجددی نے اپنے فن سے آجکل کے حالات کا تصویری رخ دیا ہے۔ ڈیورنڈ لکیر کے اِس پارثناعلی میاں سانحہ پشاور کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کی جائزہ لے رہی ہیں۔ جبکہ تیمور شاہد نے ایک پشتون کا داڑھی رکھ کر لاہورمیں گھومنے کے ذاتی تجربے کوانتہائی دل موہ لینے والے انداز میں بیان کیا ہے۔ ماجد اختر چین پاکستان اقتصادی راہداری کو فرانز فنون کے نظریہ سے چانچتے ہیں اور اس راہداری کی تفاصیل وقاص بٹ اور شیر علی خان کے مضمون میں بیان ہیں۔ جسٹن پوڈر وکی لیکس میں پاکستان کے متعلق انکشافات پیش کر رہے ہیں تو ناہید مصطفیٰ یہ بتا رہی ہیں کہ کینیڈا اپنے امیگریشن نظام کا استعمال مشتبہ دہشتگردوں کے خلاف کر کے انکے قانونی حقوق غصب کر رہا ہے- شائستہ عزیز ہماری توجہ یورپ پہنچنے کی کوشسش کرنے والے تارکین وطن کی طرف مبذول کروانا چاہتی ہیں۔ فرانسسکا چب کونفر نے دلفریب انداز میں غالب کی انگریزی ترجمہ نگاری کا احوال سنایا ہے۔ اس کے علاوہ حیدر شہباز بنگلادیشی جنگی نظموں کے مجموعوں کو کھنگال رہے ہیں جبکہ سمن طارق ملک نے کراچی کی فنکار مدیحہ حیدر کے کام کا جائزہ لیا ہے۔
آپ اس شمارے کو خرید کر یا سبسکرائب کر کے پڑھ سکتے ہیں۔
تو پڑھنا شروع کیجیے!