
مصور: امن موجددی | ٢٠١٠ جہادی پارلیمانی گینگسٹر پوسٹر
١
میں شامی روڈ لاہور کینٹ کےچیک پوائنٹ پر کھڑا ہوں۔ مجھے چاروں طرف سے فوجیوں نے گھیر رکھا ہے۔ ایک میرے دائیں طرف، ایک میرے بائیں طرف اور ایک میرے سامنے ہے۔ اپنے پیچھے میں دیکھ نہیں سکتا۔ تین جی تھری بندوقوں کی نالیاں مجھ پر تنی ہیں۔ ایک میری چھاتی کو ٹہوکا دے رہی ہے۔ سردموسم میں اسکی ٹھندی نالی میری جلد گدگدا رہی ہے۔ اونچے کھمبوں سے لگی تابناک سفید روشنیاں مجھ پر مرکوز ہیں، لیکن میں ان کی گرماہٹ محسوس کرنے سے قاصر ہوں۔ میں سخت گھبرایا ہوا ہوں۔ میرے پسینے چھوٹ رہے ہیں، لیکن پھر بھی میں ٹھنڈ سے کپکپا رہا ہوں… یا شاید ڈر سے۔ میں چیخ بھی رہاہوں۔
’’میں نے کچھ نہیں کیا۔‘‘ میں نے واقعی کچھ نہیں کیا تھا ۔
’’میں نے کچھ نہیں کیا ۔ خدا کے لیے مجھے چھوڑ دو ۔ میں کچھ نہیں جانتا۔‘‘ میں واقعی کچھ نہیں جانتا تھا ۔
’’میں نے کچھ نہیں کیا۔ خدا کے لیے مجھے مت مارنا۔ خدا کے لیے گولی مت چلانا۔ پلیز مجھے مت مارنا۔ پلیز مجھے مت مارنا۔ خدا کے لیے مجھے مت مارنا۔‘‘
اب وہ میرے کپڑے پھاڑ رہے ہیں۔ وہ خود بھی بوکھلائے ہوئےہیں۔ انہیں ابھی تک میرے پاس سے کچھ نہیں ملا ہے۔ شاید وہ میرے کپڑوں کے نیچے کچھ تلاش کر رہے ہیں۔ نہیں… وہ میری چمڑی کے نیچے کچھ ڈھونڈ رہے ہیں۔
’’کچھ نہیں ہے۔ میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ کچھ نہیں۔ کچھ نہیں ہے میرے پاس۔ کچھ نہیں ہے۔ خدا کے لئے گولی نہ چلانا ۔ خدا کے لئے گولی نہ چلانا۔ خدا کے لئے گولی نہ چلانا … خدا کے لیے گولی نا …‘‘ انہوں نے گولی نہیں چلائی ۔
جب تک میں پہلی مرتبہ اس بھیانک خواب سے کپکپاتےہوئے نہیں اٹھاتھا مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میں موت سے اسقدر ڈرتا ہوں۔ اسکے بعد جب بھی مجھے یہ خواب آیا مجھے علم تھا کہ موت ایک ہولناک امر ہے۔
٢
یہ شامی روڈ پر لاہور کنٹونمنٹ کا چیک پوائنٹ ہے۔ میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھورٹی کی حدود سے نکل رہا ہوں، جہاں میں کچھ مہینوں سے مقیم ہوں۔ اس ملک کے سب راستے کسی نہ کسی کینٹ سے ہو کر گزرتے ہیں۔ لاہور بھی ایسا ہی ہے۔ چاہے آپ ڈیفنس میں رہتے ہوں، یا نہیں ۔شاید یہ بھی ایک بھیانک خواب ہے۔ مگرنہیں … یہ خواب کہاں ۔
میں ایک نئی گاڑی میں ہوں جسے میں نہیں چلا رہا۔ میری ایک خاتون دوست ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی ہے، اور دوسری اس کے ساتھ والی نشست پر براجمان ہے۔ میں پیچھے بیٹھا ہوں ۔ لیکن پھر بھی میری مردانگی میری بےترتیب، لمبی گھنی داڑھی مونچھوں میں نمایاں ہے۔
پاکستان میں لمبی زلفیں عام طور پر خواتین سے مناسبت رکھتی ہیں ۔ لیکن اگر داڑھی کے ساتھ رکھی جائیں تو قوی مردانگی کی نشانی سمجھی جا سکتی ہیں، خاص کر اگر آپ لاہور میں ہوں تو۔ اس وقت میری زلفیں بھی کچھ ایسا ہی کردار ادا کر رہی ہیں چہ جائیکہ میں نے جامنی قمیض اورلال پتلون ہی کیوں نہ زیب تن کی ہو۔ میری دوستوں کا حلیہ بھی متوسط طبقے کے لوگوں کا ہے۔ یہ تاثر کہیں سے نہیں ملتا کہ ہم کسی کی گاڑی چھین کر بھاگ رہے ہیں۔ اورآشتی مندانہ ماحول دیکھتے ہوئے مجھے اغوا کار سمجھنے کی غلط فہمی بھی نہیں ہو سکتی۔ لیکن شاید میری مردانگی اتنی بھی واضح نہیں۔ بھلا کون مرد گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھتا ہے؟
ہمیں روک لیا جاتا ہے۔ ایک سنتری اندر جھانکتا ہے اور ہمیں اضافی سیکورٹی کی صف میں جانے کا اشارہ کرتا ہے۔ ہمارے آگے چند گاڑیاں اور ہیں۔ ہم کچھ دیر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ اشارہ ملنے پر ہم اپنی گاڑی آگے بڑھاتے ہیں۔ ایک اور سنتری گاڑی میں جھانک کر اندر کا جایئزہ لیتا ہے۔ وہ مجھ سے شناختی کارڈ مانگتا ہے جس پر میرا پورا نام لکھا ہے، جومحمد سے شروع ہو کر خان پر ختم ہوتا ہے۔ مستقل پتہ ناظم آباد کراچی کا درج ہے۔ مجھ سے پوچھا جاتا ہے میں لاہور میں کیا کر رہا ہوں۔ میری دوستوں کو بلکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ میں اپنی ملازمت کا کارڈ دکھاتا ہوں اورمجھے جانے دیا جاتا ہے۔ یہ ہمیشہ کا چکر ہے، جو مجھ سےزیادہ میرے دوستوں کو تنگ کرتا ہے ۔ ’’تیمور شاہد! ہمیشہ ، ہمیشہ! جب بھی تمھارے ساتھ جاؤ یہی ہوتا ہے۔‘‘ شکرہے ان کا مطلب یہ نہیں ہوتاکہ وہ اگلی دفعہ مجھے ساتھ لے کر نہیں جائیں گے۔ بس دیر ہو جانے کے یقینی امکان سے جھنجھلاہٹ ضرور ہوتی ہے ۔
٣
’’بہن چود تم اپنی داڑھی کاٹ کیوں نہیں لیتے؟ پھر یہ کبھی نہیں ہو گا۔‘‘
تم سالے اپنی جلد کا رنگ کیوں نہیں بدل لیتے ۔ پھر یہ بھی کبھی نہیں ہو گا۔
’’یار ایک تو تم سے مذاق نہیں کر سکتے۔‘‘
میرے گندمی چہرے پر پر داڑھی جو دھری ہے۔
٤
یہ لاہور کینٹ کا مال روڈ والا چیک پوائنٹ ہے۔ بدقسمتی سےآج میں اپنی دوستوں کے ساتھ نہیں۔ میں گھر جا رہا ہوں اورسہولت کے لئے میں ایک رکشہ کر لیتا ہوں۔ مجھے تو رکشہ کر لینے کی سہولت میسر ہے لیکن رکشے کو گاڑیوں کے لئے مختص سیکورٹی کی صف میں جانے کی سہولت میسر نہیں۔ ہمیں روک لیا جاتا ہے اور اضافی سے بھی اضافی صف میں جانے کا اشارہ کیا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ کوئی سیکورٹی کی صف نہیں۔ یہ غریب طبقہ کے لوگوں کے جمع ہونے کے لئے ایک کھلی سی جگہ ہے: پیادوں، سائیکل سواروں، موٹر سائیکل والوں اور رکشہ والوں کے لئے۔ امیر لوگ ایک دوسرے کے لئے خطرہ نہیں ہوتے۔ وہ صرف غریبوں کی گانڈ مارتے ہیں، یہی سب سائیڈ کی صفوں والے۔ مجھے باہر آنے کو کہا جاتا ہے۔ کئی آنکھیں میرا اور میرے مہنگے دکھائی دینے والے کپڑوں کا جائزہ لیتی ہیں۔ مجھ سے شناختی کارڈ طلب کیا جاتا ہے۔
———————————————————————————————————————————
پاکستان کی کہانی سنانے کے لیے آزاد میڈیا کی تشکیل میں ہماری مدد کیجیے۔
———————————————————————————————————————————
’’لاہور میں کیا کر رہے ہو ؟‘‘
لمز میں لیکچرار ہوں ۔
اساتذہ کی اب بھی عزت کی جاتی ہے ۔ کم از کم ان اساتذہ کی جو ملکی اشرافیہ کی سب سے مقبول یونیورسٹی میں پڑھاتے ہوں ۔پچھلے جملے میں ’کم از کم‘ کو’صرف‘ سے بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
٥
یہ لاہور میں میرا پہلا مہینہ ہے۔ مجھےابھی تک تنخواہ نہیں ملی ہے۔ رکشے بہت مہنگے ہیں۔ میں سینٹر پوائنٹ سے ڈیفنس جانے والی پانچ نمبر بس لیتا ہوں۔ میری لال پتلون، نیلے جوتے اور پھولدار سبز قمیض مجھے مسافروں میں نمایاں کر رہے ہیں۔ مجھے اپنے اس حلیہ میں تنگی محسوس ہورہی ہےجسے کم کرنے کے لئے میں اپنی انگریزی کتاب میں چھپنے کی کوشش کرتا ہوں ۔
بس آر اے بازار سے ہو کر گزرتی ہے۔ رائل آرٹلری بازار کینٹ کے نچلے طبقے کا مسکن ہے جہاں ڈیفنس والے سستی اشیاء اور گھریلو ملازم خریدنے جاتے ہیں ۔ ہم ایک چیک پوسٹ پر رکتے ہیں ۔ ایک پولیس والا بس کے سامنے والے دروازے سے اوپر چڑھتا ہے۔ میں اس دروازے سے کئی صفیں پیچھے بیٹھا ہوں۔ میں سپاہی پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالتا ہوں اور پھر اپنی کتاب پر نگاہیں جما لیتا ہوں ۔ وہ سیدھا میرے پاس آکر میرا شناختی کارڈ طلب کرتا ہے ۔ میں حیران ہوں ، لیکن اسکی فرمائش پوری کر دیتا ہوں ۔ کہاں جا رہے ہو ؟ کرتے کیا ہو ؟ کہاں سے ہو ؟ وہی جانی پہچانی مشق ۔ پھر وہ مجھ سے پیچھے بیٹھے ہوئے ایک مسافر کے پاس جاتا ہے،اس سے بغیر کچھ کہے اسکا کارڈ چیک کرتا ہے( جو اس مسافر نے پہلے سے نکال رکھا ہے) اور بس سے اتر جاتا ہے ۔ بس پھر چلنا شروع ہو جاتی ہے۔ میں پیچھے مڑکر اس شخص کو دیکھتا ہوں ، ہم خاموشی سے ایک دوسرے سے افسوس کرتے ہیں اور ایک پھیکی سی مسکراہٹ ہمارے لبوں پر پھیل جاتی ہے۔ ہم دونوں بے یقینی سے سر ہلاتے ہیں ، اور واپس اپنی اپنی دنیاؤں میں گم ہو جاتے ہیں۔ پوری بس میں داڑھی والے صرف ہم دو شخص ہیں ۔
———————————————————————————————————————————
یہ مضمون آپ تک پہنچنے کے لیے ہمارے خون پسینے کے علاوہ روپیہ پیسہ بھی خرچ ہوا ہے۔
———————————————————————————————————————————
٦
یہ کوئی چیک پوائنٹ نہیں ہے ۔ لیکن میں ایک سے گزر کر ضرور آیا ہوں ۔ یہ گلبرگ کا علاقہ ہے۔ ایک دوست نے مجھے شہر میں کھلنے والے انگریزی طرز کے ایک نئے چائے خانے کے سامنے اتارا ہے ۔ گاڑی سے اترتے ہوئے میں اپنا سرخ کنویس کا بستہ بے دھیانی سے اپنےکندھے پر ڈالتا ہوں ، اورسر پر اپنی پکول درست کرتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھتا ہوں ۔ خیال یہ ہے کہ جب تک دوست گاڑی لگائیگا میں کوئی سیٹ سنبھال لونگا۔ میں دروازہ کھولنے کو ہاتھ بڑھاتا ہی ہوں کہ اچانک چائے خانے کا استقبالی ملازم کہیں سے نمودار ہوتا ہے ۔
’’سر ذرا بیگ دکھا دیں اس میں کیا ہے؟‘‘
میں اسے اپنا بیگ تھما دیتا ہوں ۔
مجھے بہت الجھن ہو رہی ہے، لیکن وہ بھی ہچکچا رہا ہے ۔ وہ میری طبقاتی فوقیت سے نا بہرہ نہیں۔اسے پتا ہے کہ اسے مجھ سے تمیز سے پیش آنا پڑے گا۔ طاقت کے لحاظ سے استقبالی یونیفارم خاکی یونیفارم کا عشر عشیر بھی نہیں ۔
وہ میری چیزیں کنگھالتا ہے ، جس میں کچھ اونی پونی نوٹ بکس ، دو پرانی پانی کی بوتلیں ، چند قلم ، کچھ پنسلیں ، مارکر ، کاغذات ، ایک سکارف اور اسکے نیچے دبی ہوئی کچھ کتابیں شامل ہیں۔ اس اثنا میں کچھ اور لوگ چائے خانے میں داخل ہوتے ہیں ۔ انکے پاس بھی بیگ ہیں ۔ ایک نے تو بڑا سفری بستہ اپنی کمر پر لٹکایا ہوا ہے ۔ انکے سامان کی تلاشی نہیں لی جاتی ۔ انکی داڑھیاں نہیں ہیں ۔
٧
پکول ایک گول اونی ٹوپی ہے ، سردیوں میں انتہائی کارآمد ۔ شمال مغربی پاکستان اور افغانستان میں بہت پہنی جاتی ہے ۔ آرام دہ ہونے کے علاوہ پہنی ہوئی اچھی بھی لگتی ہے (کم ازکم میرا تو یہی خیال ہے) ۔ لیکن یہ پشتونوں سے منسوب ہے ۔اونی واسکٹ کا بھی یہی معاملہ ہے ۔
میں اکثر دونوں ہی پہنتا ہوں ۔ یہ مجھے سردی سے بچاتی ہیں ۔ سستی بھی ہیں۔ اور پھر پشاور سے میرے عزیزوں کا دیا تحفہ بھی۔ لیکن لاہور میں چل رہے ایک مقبول ڈرامےکے ولن کے پکول پہنے کی وجہ کچھ اور ہی ہے ۔ روشن خیال اور جانے مانے اجوکا تھیٹر کی تیسویں سالگرہ منانے کے لئے ایک نیا کھیل ‘لو پھر بسنت آ ئی ‘ پیش کیا جا رہا ہے ۔
اس ڈرامے میں دکھائے جانے والا لاہور خطرے میں ہے ۔آہستہ آہستہ غنڈے بدمعاش اس پر قبضہ کررہے ہیں۔ عشق کرنا نا ممکن ہو گیا ہے ۔ پتنگیں اڑانا بھی منع ہے ۔ روزمرہ زندگی معتل ہے ۔ شہر کا سماجی تانا بانا بکھر رہا ہے ۔ چند خاص لوگ اس کے ذمہ دار ہیں۔ وہ سب پکول اور واسکٹ پہنتے ہیں ۔ انکی داڑھیاں بھی ہیں ۔ بس اتفاقاً وہ پشتون دکھائی دیتے ہیں ۔ لیکن وہ پشتون نہیں ہیں ۔ وہ اداکار ہیں، جنہیں پشتون بننا نہیں آتا ، بلکل ایسے جیسے گورے مرد کالے ولن کا رول ادا کر رہے ہوں۔
میں مال روڈ کےسب سےمشہور اور بڑے تھیٹر ہال میں بیٹھا ہوں ۔ ڈرامہ اکتا دینے والا ہے ، لیکن میں چھوڑ کرجانا نہیں چاہتا ۔ آخر ایک چیک پوسٹ گزا ر کر آیا ہوں …کچھ تو معاوضہ وصول کروں ۔ آخر کار ولن نمودار ہوتا ہے اور کچھ کہتا ہے ۔ مجھے ‘خوچی’ سنائی دیتا ہے اور باقی ماندہ جملہ ناظرین کی بلند داد میں دب جاتا ہے ۔ وہ پکول اور واسکٹ میں بالکل میری طرح دکھائی دیتا ہے ۔ لیکن نہیں …وہ تو ابن الغیب دکھائی دیتا ہے ۔ وہ ابن الغیب ہی تو ہے۔ اس کی کوئی پہچان نہیں ہے ۔ وہ تو بس ایک پکول اور واسکٹ ہے ۔ میں بھی ابن الغیب ہوں ۔ میری بھی کوئی پہچان نہیں ہے۔ میں بھی صرف ایک پکول اور واسکٹ ہوں ۔
اب میں سمجھاکہ افریقی النسل ہوتے ہوئے ہوڈی یعنی ٹوپی والی جیکٹ پہن کر کیسا لگتا ہو گا ۔ لیکن نہیں ، میں نہیں سمجھا- میں کبھی نہیں سمجھ سکتا ۔اور نا ہی آپ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ پشتون ہوتے ہوئے پکول اور واسکٹ پہن کر کیسا لگتا ہے ۔ اگر کوشش کرنا چاہتے ہیں تو داڑھی رکھ کے کیجئے گا ۔
میں کھیل ا ادھورا چھوڑ کراٹھ آتا ہوں ۔ ابھی سے واپسی کی چیک پوسٹ میرےذہن پر سوار ہے ۔
٨
میں نے چپ چاپ اپنےشناختی کارڈ فورٹریس اسٹیڈیم چیک پوائنٹ کے کنکریٹ مورچہ میں بیٹھے سنتری کے حوالے کر دیئے ہیں ۔ وہ انکا ٹارچ کی روشنی میں معائنہ کر رہا ہے اورمیں خاموشی سے کھڑا اسے دیکھ رہا ہوں ۔ اسکا معائنہ ختم ہوا۔ اب وہ یقیناً مجھےبہت اچھی طرح جان گیا ہے۔
’’سر یہ آپ نے کیا حلیہ بنایا ہوا ہے ؟ آپ اتنے پڑھے لکھے ہیں، یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں، پھر ایسی داڑھی اور بال کیوں؟‘‘
میں مسکرا دیتا ہوں ۔ میں نے اس سوال کا جواب کبھی نہیں دیا ۔ اپنے آپ کو بھی نہیں ۔ لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ کسی سیکورٹی چیک پوائنٹ پر یہ سوال کبھی پوچھا بھی نہیں گیا ۔ لاہور یا عالمی ہوائی اڈوں کی سیکورٹی پر مامور افسروں کو آپکی داڑھی میں کوئی فلسفیانہ دلچسپی نہیں ہوتی۔
لیکن آج میں آزمانا چاہتا ہوں کہ ہم کتنے پانی میں ہیں۔ آزماؤں یا نہیں ؟میں تھوڑ ا ہچکچاتا ہوں، لیکن کیوں نہیں؟ اپنی جھجک کو ہونٹوں پر پھیلی باریک مسکراہٹ کے پیچھے چھپاتا ہوں، اور مدھم سی آوازمیں سنتری سے کہتا ہوں ’’بہت زیادتی ہے داڑھی والوں اور پٹھانوں کے ساتھ …‘‘
’’نہیں سر ۔ یہ کیا بات کی ۔ میں خود بھی پشتون ہوں ۔‘‘
میں ششدر رہ جاتا ہوں ۔ میں اسے غور سے دیکھتا ہوں ۔ میں جواب کا متلاشی ہوں ۔اندھیرے میں صرف اسکایونیفارم ہی نظر آتا ہے ۔کراری آواز والا بغیر داڑھی کا پشتون ،نہ کوئی پکول نہ کوئی واسکٹ ۔ نا ہی وہ بولنے سے پہلے ‘خوچی’ کہتا ہے ۔ لہجہ بھی اجوکا ڈرامے کے ولن سے مختلف ہے جس سے پناہ لینے میں واپس گھر لوٹ رہا ہوں۔
پتا نہیں کیوں مجھے مالکم ایکس کا انکل ٹام یاد آ جاتا ہے ۔ شاید ہم اس سنتری کو لاہور میں انکل خان کہہ سکتے ہیں ۔
———————————————————————————————————————————
وقف نہیں۔ خیرات نہیں۔ بیرونی امداد نہیں۔ صرف آپکی مدد درکار ہے۔
———————————————————————————————————————————
٩
میں ظفر علی روڈ پر ایک بڑے بنگلے میں موجود ہوں ۔ یہاں پر سنجن نگر ادارہ برائے فلسفہ اور آرٹ کا سالانہ میلہ موسیقی منعقد کیا جا رہا ہے ۔ بہت دلکش ماحول ہے ۔
محفل موسیقی کا اختتام راگ بھاگیشری کی خوبصورت پیشکش سے ہوتا ہے جس کی فنکارہ چندی گڑھ سے آئی بانسری نواز دبوپریہ چیٹر جی ہیں ۔ میں بہت خوش ہوں اور اپنے شکریہ کا اظہار کرنا چاہتا ہوں، لیکن میں اکیلے ان سے بات کرنے سے شرما رہا ہوں۔ ۔ مجھے پروگرام کی ایک منتظم دکھائی دیتی ہیں ، جو میری فلسفے کی پہلی استاد بھی رہ چکی ہیں۔ وہ موسیقی کی بھی بہت دلدادہ ہیں۔ میں انھیں سلام کرنے جاتا ہوں ۔
’’یہ آپ نے کیا طالبان جیسا حلیہ بنایا ہوا ہے ؟‘‘
میرے پاس اس سوال کا کبھی کوئی جواب نہیں ہوا ۔ لیکن اس موقع پر یہ سوال ایک اور گتھی سلجھا گیا ۔ اب مجھے سمجھ آیا کہ خاکستری سوٹوں میں ملبوس بھاری بھرکم اشخاص مجھے وقفے وقفے سے ٹکٹکی باندھ کر کیوں گھور رہےتھے ، اور انکی اس پروگرام میں موجودگی کی وجہ کیا تھی… بس ان کے پاس خاکی یونی فارم کی کمی تھی ۔
١٠
مردانگی تند خو ہے ۔ تند خوہی مردانگی ہے ۔ پھول تند خو نہیں ہوتے ۔ تند خو شے پھول نہیں کہلا سکتی ۔ بس اسی لئے میں ہر وقت اپنی داڑھی میں پھول پروئے رکھتا ہوں ۔ کیا آپ بھی اپنی داڑھی میں پھول پرونا پسند کریں گے؟
تیمور شاہدابن الغیب ہیں۔