صدر ایوب خان کے دورِ حکومت میں جب منگلا ڈیم کی تعمیر کے لئے آزاد جموں کشمیر کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے باسی پنجاب کے وسیع میدانوں میں آباد ہونے کو سفر کر رہے تھے تو جاٹوں کا ایک چھوٹا سا خاندان بھی ان سینکڑوں دیہاتیوں میں شامل تھا۔ تب اس خاندان کے لئے ہجرت سے بڑا کوئی واقعہ نہ ہو گا لیکن وقت معمولی واقعات کو بھی کئی خاندانوں کی نسلیں سنوارنے یا بگاڑنے کی بنیاد بن سکتا ہے۔ بات اتنی سی تھی کہ اس خاندان کے ایک بچے نے معمولی سی بات پر بگڑ کر بنجاروں کی ایک بکری کی ٹانگ توڑ دی اس پر دونوں گھرانوں کے درمیان خوب ٹھنی لیکن بچے کی شر انگیزی تھی سو تصفیہ ہو گیا۔ یہ بچہ اللہ داد نامی جاٹ کا بیٹا منیرحسین تھا۔ چھوٹے موٹے جھگڑے اور ان بن ان جاٹوں کی زندگی کا معمول تھا۔ اس دوران منیر کی ماں کے ذہن میں ایک تشویش نے سر اٹھایا کہ اس کا بچہ اس کم عمری میں اذیت پسندی کی طرف مائل ہو گیا ہے۔ ایک ان پڑھ اور کا شتکار گھرانے میں اس اندیشے کو ایک ماں کا حد سے زیادہ تفکر سمجھا گیا۔ منیر حسین کی زندگی لڑکپن کی پٹڑی پر بظاہر سید ھی چل رہی تھی لیکن تقدیر کچھ اور فیصلہ کر چکی تھی۔ ضلع وہاڑی کے چک 15 میں نئی زندگی اس لئے لحاظ سے آزمائش ثابت ہوئی کہ گھریلو ماحول میں ناگوار تبدیلیوں کے باعث اس کے والدین الگ ہو گئے، ایسے حالات میں بچوں میں ذہنی انتشار، احساسِ کمتری ،احساس تنہائی اور عدم تحفظ کا پیدا ہونا نا گزیر تھا۔ بوڑھی ماں کو اس کا ادراک ہونے میں کافی وقت لگ گیا کہ منیر حسین اپنے دیگر بہن بھائیوں کی نسبت ذہنی طور پر زیادہ متاثر ہوا ہے اذیت پسندی اور عدم برداشت جیسے احساسات اس کے مزاج کا حصہ بن گئے تھے جن کا عملی اظہار بھی وہ کرنے لگا تھا۔ اس سیلانی طبعیت کی وجہ سے وہ سکول چھوڑ چکا تھا۔ وہ اکثر چاندنی راتوں میں گھر سے بھاگ نکلتا اورپھر کئی کئی دن بعد گھر والوں کو بے ہوش یا نڈھال حالت میں ملتا۔ پھر اس کے بعد ایک اور حادثہ ہوا جس نے اس کی ذہنی بیماری کو شدید کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ہوا یوں کہ غیر ارادی طور پر اس کے ہاتھ سے بندوق چل پڑی جس کی وجہ سے وہ شدید زخمی ہو گیا اور اس کی ایک آنکھ بھی ضائع ہو گئی اس حادثے نے اس کے دماغ پر بھی اثرات مرتب کئے لیکن غریب والدین لاعلمی اور غربت کے باعث بہتر علاج نہ کرا سکے۔ تندرست ہونے کے بعد جب اس کے غیر معاشرتی رویوں میں شدت آئی تو نا خواندہ اور توہم پرست ماں نے مامتا کے ہاتھوں مجور ہو کر اس کو محلے کے یک مولوی کے پاس لے گئی جس نے نذارانے وصول کرنے کے سوا کوئی قابل ذکر کام نہ کیا البتہ ماں کا یہ وہم پختہ ہو گیا کیا منیر پر جنات اور ارواح کا سایہ ہےاس توہم نے بھی پیروں فقیروں کی چاندی کر دی لیکن انہوں نے بھی جن نکالنے کے روائتی طریقوں سے اس کی اذیت پسندی میں مزید اضافہ کیا۔ پھر بوڑھی ماں نے مرنے سے قبل اس کی شادی بھی کر دی لیکن اس کی شادی اور نہ ہی گھر میں معصوم بچوں کی آوازوں نے اس کے دماغ پر کسی مرہم کا کام کیا۔ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ کسی کے ذہنی مرض اور زندگی کے داخلی اور نفسیاتی مسائل کو سمجھنے کی بجائے اسے عضوِ معطل کی طرح معاشرے کے بدن سے کا ٹ پھینکتا ہے۔ منیر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا
اس کے بعد اس کی زندگی میں ایک بھیانک واقعہ ہوا جس پر آج تک ہمارے طریقِ تفشیش اور نظام انصاف کی ان گنت کمزوریوں اور منیر حسین کے ذہنی مرض کے باعث پیدا ہونے والی معذوری کی دھند چھائی ہے۔ منیر حسین کو ذہنی اور جسمانی معذوری کے اور عمر قید سےبھی طویل عرصہ سزا کاٹنے کے باوجود پھانسی پر لٹکا دیا گیا ہے ۔ اس کی ذہنی بیماری اس کے اپنے بیٹے میں منتقل ہوئی اور وہ جوانی کے عالم میں زنجیروں میں جکڑا ہوا زندگی گزار رہا ہے وہاں باقی بچوں کو والد کی غیر موجودگی، ایک مجرم کی اولاد ہونے کا احساس کسمپرسی اور اور عدم تحفظ کا احساس بھی ورثے میں ملا ہے۔ اس نے اپنے جرم کی سزا بھگتی ہے یا کسی اور کے جرم کی؟ یہ ایک سوال ہے جو شاید اس کی پھندے سے لٹکی لاش بھی چھوڑ جا رہی ہے۔ اس سوال سے جڑے کئی اور سوال بھی ہیں۔
منیر حسین جسے قانون کی آنکھ نے ایک ذہنی مریض کے طور پر نہیں پر کھا اگر اپنے کردار کا ناقص حصہ اپنی اولاد میں بھی منتقل کر کے جا رہا ہے تو سوال یہ ہے کہ ذمہ دار وہ خود ہے یا نظام جو کہ ملزم کے بچوں کو بھی ملزم بنانے پر تل جاتا ہے۔ بکری کی ٹانگیں توڑنے والے نو عمر منیر کے ذہنی مرض کی سزا اب بوڑھے منیر حسین اور اس کی نوعمر اولاد کو مل رہی ہے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ذہنی مریض ہونا جرم ہے؟ کیا ہمارا معاشرہ ذہنی مریضوں کو مجرم بنا دینے کے بعد انہیں پھانسی لگا دینے میں حق بجانب ہے؟ اگر سزائے موت مسائل کا حل ہے تو کیا سزائے موت منیر حسین جیسے ذہنی امراض میں مبتلا عمر رسیدہ قیدیوں کو ہونی چاہیے ؟ یا اس معاشرے میں پھیلی جہالت، ہماری عدالتوں اور تھانوں میں پنجے گاڑ کر بیٹھے غیر پیشہ وارانہ ذہنوں اور موت کی سزا کے ذریعے موت کے زہر کو نسل در نسل منتقل کرنے والےقوانین کو؟ ذہنی مریض منیر حسین باشعور اور سلامت عقل والوں سے سوال کرتا ہے کہ اس تمام قصے میں مجرم کون ہے؟ سزائے موت پر دوبارہ عملدرآمد کرانے سے پہلے عصرِ حاضر کا ضمیر اس کا فیصلہ کئے بغیر مطمئن نہیں ہو سکتا۔