جان کا نقصان│صوفی کا بلاگ


ایشیا ٹائپ نسخ یا نستعلیق فونٹ میں پڑھنے کے لیے ان ہدایات پر عمل کریں۔

چند ہفتے پہلے لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی(لمز) میں بلوچستان کے گمشدہ افراد کے موضوع پرطے شدہ سیمینار کو آخری وقت پر منسوخ کر دیا گیا تھا – اسکے کچھ ہی دنوں بعد بلوچستان میں سندھ و پنجاب کے مزدوروں کا بیدردی سے قتل سامنے آیا –    24 اپریل  کی رات وہی سیمینار T2F کراچی میں منعقد کیا گیا اور اس کے ایک گھنٹے بعد ہی سیمینار کی منتظم سبین محمود کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا –

٢٠١٣ میں ماما قدیر اور انکے ساتھیوں نے کوئٹہ سے براستہ کراچی اسلام آباد تک ٢٨٠٠ کلومیٹرپیدل لانگ مارچ کیا – لاہور میں انکا استقبال بمشکل ١٠٠ لوگوں نے کیا ہو گا – پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا نے لانگ مارچ کو لاہور پنڈی اور کراچی میں ہونے والی چوریوں سے بھی کم ایئر ٹائم دیا – اکیلے حامد میر نے ماما قدیر اور فرزانہ بلوچ کو اپنے ٹی وی پروگرام میں دعوت دی – کچھ دنوں بعد حامد میر کراچی آ ئے تو ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا، چھ گولیاں کھانے کے باوجود وہ معجزانہ طور پر بچ گئے – جس میڈیا ادارے سے وہ وابستہ تھےاسے حامد کا ساتھ دینے پرتب تک معاف نہیں کیا گیا جب تک اسکے والی وارثوں کی چیخیں نہیں نکل گئیں –

پروفیسر صبا دشتیاری کوئٹہ یونیورسٹی میں اسلامیات کے استاد تھے –کئی کتابوں کے مصنف تھے بلوچی حقوق کے حق میں آواز اٹھاتے رہتے تھے – ٢٠١١ میں اپنے گھر سے صبح کی سیر کے لئے نکلے اور نامعلوم افراد کی گولیوں کا شکار بن گئے – انکے قاتلوں کا آج تک سراغ نہیں ملا – نا حامد کے حملہ آوروں کا کچھ پتا چلا اور نا ہی سبین کو نشانہ بننے والے درندوں کی قانونی گرفت میں آنے کی کوئی امید ہے –
یوں محسوس ہوتا ہے کہ بلوچستان کا معاملہ حریفوں کے مابین ایک شیطانی چکر بن چکا ہے جس میں ایک دوسرے کا موقف سننے کی کوئی گنجائش نہیں – اس چکر میں ہر چال کا بس ایک ہی نتیجہ ہے …انسانی جان کا نقصان در نقصان –

ریاست سے ماورا ریاستی اداروں اور انکے گماشتوں سے مصنفوں ، سماجی کارکنوں اور صحافیوں کا قتل کچھ بعید نہیں کہ یہ سلسلہ بہت پرانا ہے- اس سے زیادہ تکلیف یہ بات دیتی ہے کہ مظلوم قومیتوں کے حق میں باقائدگی سے کوئی منظم عوامی آواز کیوں نہیں اٹھتی؟ ایسے میں اگر کوئی ایک شخص ہمت دکھاتا ہے تو اسے ہمیشہ کے لئے خاموش کرا دینا بہت آسان ہے – لمز میں جب سیمینار منسوخ ہوا تھا تو سوشل میڈیا پر لوگوں کے تبصرے انتہائی مایوس کن تھے – کہا گیا کہ اسطرح کے مذاکرے ہونے لگے تو ملا فضل اللہ کو بھی بولنے کی اجازت دینا پڑے گی اور یہ کہ کوئی ریاست علیحدگی پسندوں کو پلیٹ فارم مہیا نہیں کرتی – پھر مزدوروں کے قتل کو لے کر پوری بلوچ تحریک کو الزامات کی باڑھ پر رکھ لیا گیا – یہ سوچے بغیر کہ اگر کوئی فلسطینی اسرائیل میں خود کش حملہ کرےجس میں بے گناہ لوگ مارے جائیں تو کیا فلسطینیوں کا مقدمہ آزادی کمزور پڑ جائے گا ؟

ہم ریاستی پراپگنڈہ کو اتنی آسانی سے ہضم کیسے کر لیتے ہیں ؟ ریاست کہتی ہے ماما قدیر علیحدگی پسندہے ہم کہتے ہیں لبیک ! لیکن جو ماما اپنے منہ سے کہ رہے ہیں اسے سننے کی کسی میں ہمت نہیں – ماما قدیر اور فرزانہ بلوچ لاپتہ بلوچوں کی آواز نامی تنظیم کے نمائندہ ہیں – اس تنظیم نے ہر ملکی فورم پر انصاف مانگنے کی ناکام کوشش کر کے دیکھ لی ہے – کل F2 T میں فرزانہ بلوچ نے اپنا پرانا موقف دہرایا کہ پاکستان کے سیکورٹی ادارے بلوچ نوجوانوں کی گمشدگی اور پھر انکی مسخ شدہ لاشیں ملنے میں ملوث ہیں – انکا مزید کہنا تھا کہ اگر انکے پیارے ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں تو انھیں عدالتوں میں پیش کرکے سزا دلوائی جائے – نا کہ ناجائز عقوبت خانوں میں تشدد کے بعد مار کر پھینک دیا جائے – بلوچ پاکستانی ریاست کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں اسے علیحدہ رکھ کر سوچیں کہ اگر ریاست بلوچستان کو اپنا حصہ گردانتی ہے تو کیا اسے سیاسی مخالفین سے دہشت گردانہ رویہ روا رکھنا چاہیے ؟

انتہائی افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ اب ان لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جو صرف بلوچ مظلوموں کی آواز ہم تک پہنچانا چاہتے ہیں – اور ہم خاموشی سے اس قتل وغارت گری کو دیکھ رہے ہیں؟ ہمیں ڈر کس بات کا ہے ؟ ایک ستر سالہ بوڑھے باپ کی فریاد سننے کا ؟جس نے جوان سالہ لاپتہ بیٹے کی لاش اپنے ہاتھوں دفنائی ہے – کیا یہ مطالبہ کرنا جرم ہے کہ سبین ، حامد ، پروفیسر صبا اور ان جیسے بہت سے دوسرے کارکنوں ، صحافیوں اور دانشوروں کو ٹارگٹ کرنے والے مجرموں کو منظر عام پرلا یا جائے ؟ اور اگر اس جرم کی سزا اندھی گولی ہے تو کیاہم انتظار کر رہے ہیں اپنی باری کا یا اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہمارا اس معاملے سے کوئی واسطہ نہیں؟
لیکن اگر ہم خاموش رہتے ہیں تو حق اور سچ کی بات کرنے والے چند سرپھرے یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ بقول شا عر

ہم بھی ہمیشہ قتل ہوئے اور تم نے بھی دور سے دیکھا لیکن
یہ نا  سمجھنا  ہم  کو  ہوا  ہے  جان  کا  نقصان  تم سے زیادہ

Tags: , , , , , ,

One Response to

جان کا نقصان│صوفی کا بلاگ

  1. A.S on Jul 2015 at 11:49 AM

    Your words should be the words of every other Pakistani but unfortunately we never learned from our past mistakes.The irony is that 60% of this nation comprises of Awaam which has no concern wid the rest of Pakistanis ! They least care about the unlawful abduction,brutal torture,killing& dumping of Baloch youth ,all they care about is Natural Gas for their cookingranges & cars or Pak China Corridor for ultimate revenues for Rawalpindi/Islamabad.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *