مترجم : محمد اکرام اور حافظ صوفی

فوٹو گرافر : اسد ہاشم
۔” تاریخی لحاظ سے بنوں کبھی بھی اہم واقعات کا تھیٹر نہیں بنا اور نہ ہی اس کے باشندوں نے ہندوستانی تاریخ میں کبھی نمایاں کردار ادا کیا۔” ضلع بنوں کا شاہی گزٹ، 1883-84
قبائلی پٹی سے متصل صوبہ خیبرپختونخواہ کے مغرب میں واقع دس لاکھ نفوس پر مشتمل یہ چھوٹا سا گمنام قصبہ، بنوں- جس کی لمبی تاریخ فتوحات، لوٹ مار اور تشدد سے بھری پڑی ہے۔ یہ قصبہ جو افغانستان اور بھارت کے مصروف تجارتی کاروانوں کے راستے سے کافی ہٹ کے واقع ہے، ازمنہ رفتہ کے دوران مسلسل لوٹ مار اور یورشوں کا سامنا کرتا رہا، جن میں سے بہت سے حملے تاریخ کی مشہور شخصیات نے کئے؛ محمود غزنوی نے اس پر گیارھویں صدی میں حملہ کیا، اسی طرح منگول شہنشاہ تیمور لنگ نے 1398 میں، مغل سلطنت کے بانی بابر نے 1505 میں، ایرانی شہنشاہ نادر شاہ اور پہلے افغانی امیر، احمد شاہ درانی نے بھی سترھویں صدی میں یہی کیا، اور پھر بعد میں سکھ شہنشاہ رنجیت سنگھ نے بھی 1838 میں اسے اپنی سلطنت کے ساتھ ملحق کرلیا۔ اور یہ ان حملوں کے مقابلے کچھ بھی نہیں جو اس دوران باقاعدگی سے موجودہ شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے وزیر قبائل کی جانب سے ہوئے۔ یہ حملے اس وقت تک جاری رہے جب تک بنوں کو پہلی اینگلو سکھ جنگ1 کے بعد 1846 میں برطانویوں نے اپنے ساتھ منسلک نہیں کرلیا۔
بنوں کا بطور اقامت گاہ بھی ایک کردار رہا ہے۔ یہ ساتویں صدی عیسوی کے ایک چینی راہب سوآن سانگ کا پڑاؤ بھی رہا جب اس نے 17 سالہ طویل سفر کے بعد اپنے عظیم الشان سفرنامے جنوبی علاقوں کے بارے عظیم ٹینگ ریکارڈز1 کے ذریعے بھارت اور چین کے درمیان تعلقات کی شروعات کیں۔
ماضی میں اس قصبے کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہاں فارسی سیمرغ بھی آتا رہا ہے، یہ وہ داستانوی، دیومالائی ققنس ہے جس نے مشہورزمانہ سورما زال زر کی حفاظت کی تھی اور جس کا ذکر عظیم فارسی نظم شاہنامہ میں ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس قصبے کا نام بھی اس خاندان سے آیا ہے۔ زال کے بیٹے رستم جس کا مطلب ہے “بہادروں سے بھی بہادر” کی بیٹی تھی بنو گوشاپ، جو کہ فارسی دیومالا میں ایک عظیم جنگجو شہزادی تھی۔ بنوں قصبہ بنو گوشاپ کا ہم نام ہے۔
تاہم اس سب کے باوجود یہاں کبھی بھی کوئی عظیم واقعہ پیش نہیں آیا۔ بنوں برطانوی راج سے پہلے کبھی بھی دائمی طور پر مقبوضہ نہیں ہوا اور نہ ہی یہاں کبھی کوئی عظیم جنگ ہوئی اور نہ ہی تخت رہا۔ اس کی وجہ بظاہر یہ نظر آتی ہے کہ اگرچہ ہرکوئی بنوں میں سے گزرتا ہے لیکن کوئی بھی بنوں کو آتا نہیں ہے۔
میرے وہاں جانے کی کچھ تو یہ وجہ بھی تھی – تازہ ترین فوجی آپریشن شروع ہونےپہلے میں نے بنوں کی طرف رخت سفر مارچ 2014 میں باندھا، میرا مقصد یہاں کے رہنے والوں سے بات چیت کرنا تھا جو پاک افغان بارڈر پر چمن اور طورخم کی تجارتی راہوں کے درمیان بے بشر زمین میں پھنسے دکھائی دیتے ہیں — یہ گرد آلود، تنگ گزرگاہ پاکستان کے اہم راستوں سے بہت دور ہے لیکن ملحقہ وزیرستان کے نام نہاد “قبائلی علاقوں” کیلئے بہت اہم ہے۔ آپریشن شروع ہونے سے کئی ماہ پہلے بنوں کے رہائشیوں سے میں نے سیکھا کہ یہ شہر اپنے مائل بہ تشدد اور قابو سے باہر ہمسایہ علاقوں کے لئے مرکزی حیثیت رکھتا ہے ۔
* * *
شمالی وزیرستان کے لوگ بنوں میں حکومت کی مدد کے منتظر۔
خان علی نے 1998میں صرف 19 سال کی عمر میں ایک اندرونی قبائلی تنازعے کی وجہ سے میرعلی چھوڑا تھا جو کہ شمالی وزیرستان میں ایک اہم قصبہ ہے۔ ایک ملنسار آدمی، ہنس مکھ جو خود بھی خوش رہتا ہے اور اپنے ارد گرد لوگوں کو بھی خوش رکھتا ہے – وہ بظاہر اپنے علاقے کے بارے بقول اس کے مسئلے کی “اصل نوعیت” یا کسی بھی معاملے میں اپنے دل کی بات کہنے سے نہیں ڈرتا۔
پچھلے 16 سال میں اس نے بنوں میں بطور ایک پراپرٹی ڈیلر کے کام کرتے ہوئے اپنے لئے ایک کامیاب زندگی گھڑ لی ہے- اس کا کام ڈیرہ اسماعیل خان سے لے کر شمال مشرق میں موجود پشاور تک پھیلا ہوا ہے۔
۔”پہلے ہم مہینے میں ایک یا دوبار وزیرستان جاتے اور واپس آجاتے تھے۔ ہم گرمیاں وہاں اور سردیاں یہاں گزارا کرتے تھے۔ اب صورتحال اس طرح کی ہے کہ میں وزیرستان اپنے گھر جہاں میرے بھائی، بہنیں اور رشتہ دار رہتے ہیں، پانچ ماہ سے نہیں گیا۔ اور اگر میں جاؤں بھی توکبھی کبھار جاتا ہوں اور وہ بھی ڈرتے ڈرتے۔” اس نے پرانے بنوں کے دل میں واقع اپنے سادہ لیکن کشادہ گھر میں مجھے بتایا۔ بنوں کا پرانا شہر ان حدود میں واقع ہے جسے پہلی بار برطانوی نوآبادیاتی افسر لیفٹیننٹ ہربرٹ ایڈورڈ نے بنوایا تھا اور اسی نے بنوں کو باقاعدہ طور پر پہلی بار 1848 میں ملحق کیا تھا۔
شمالی وزیرستان میں وزیروں اور باقی لوگوں کیلئے تحریک طالبان پاکستان کے مختلف گروہوں بشمول گل بہادر کے جنگجوؤں اور فوج، دونوں کی طرف خطرہ رہتا ہے۔ ” راستے میں بہت سی پریشانیاں ہیں۔ جب ہم وہاں جاتے ہیں تو ایک طرف تو فوج کی چیک پوسٹیں ہیں۔ جہاں ہمیں پوری طرح تلاشی دینی پڑتی ہے۔ اور دوسری طرف میرعلی اور میران شاہ میں ہم ایسے چہرے دیکھتے ہیں، تو ہنسنے کیلئے رکا کہ بندے کو ان سے بلاوجہ خوف آتا ہے”۔
اسی طرح وزیرستان میں رہنے کے لئے اپنے آپ کو ہر وقت مسلح گروہوں، پاکستان آرمی اور آخرکار امریکی ڈرون حملوں سے بچاتے ہوئے ایک توازن قائم کرنا پڑتا ہے۔
وزیر اور دوسرے لوگ قبائلی علاقے میں پاکستانی فوج کے آپریشن کو “غیرامتیازی” قرار دیتے ہیں جس میں پورے کے پورے گاؤں پر بمباری کی جاتی ہے اور بڑے پیمانے پر بے گناہ لوگوں کو ہلاک کیا جاتا ہے۔ پاکستانی ریاست نے اسی طرح ہمیشہ اس علاقے پر حکمرانی کی ہے اور ان سے پہلے برطانیہ نے بھی یہی کیا۔ اجتماعی سزا کا تصور تو حتی کہ فاٹا کے قوانین میں باقاعدہ مدون ہے، خاص طور پر فرنٹئیر کرائم ریگولیشن (FCR) کی دفعہ اجتماعی ذمہ داری کے تحت، یہ قوانین کا ایسا مجموعہ ہے جو پہلی بار برطانوی سلطنت نے بیسویں صدی کے آغاز میں نافذ کئے اور پھر آزادی کے بعد پاکستانی ریاست نے بھی ان کو جاری رکھا۔
مقابلتا وزیر امریکی ڈرون کو ترجیح دیتا ہیں۔ وزیر کہتا ہے،” اگر سو میں وہ صرف پانچ بے گناہ لوگوں کو ہلاک کرتا ہے تو یہ قابل قبول ہے، انہوں نے 95 فیصد صحیح لوگوں کو نشانہ بنایا ہے،” وہ زور دیتا ہے،” پاکستانی فوج لوگوں کیلئے ایک بڑی مصیبت پیدا کردیتی ہے۔ اگر کوئی بم دھماکہ [کسی مسلح گروہ کی جانب سے] ہوتو فوج کئی لوگوں کو ماردیتی ہے، گاؤں پر بمباری کرتی ہے، بوڑھوں کو مارتی ہے اور لوگوں کو طبی امداد حاصل کرنے سے روک دیتی ہے [کرفیو کی وجہ سے]۔ ڈرون بہتر ہیں”۔
باوجودیکہ شمالی وزیرستان میں زندگی بہت مشکل ہے۔ وزیر ایک کہاوت سناتا ہے جو آجکل وہاں بہت مقبول ہوگئی ہے: “اوپر ڈرون، نیچے چھریاں”۔
* * *
پچھلے چھ ماہ میں تو نیچے والے چھریاں تھیں جن کے بارے رہائشیوں کو زیادہ پریشان ہونا پڑا۔ 15 جون کو پاکستان کی فوج نے آپریشن ضرب عزب کا اعلان کیا جس کا نام پیغمبر محمد (صللہ علیہ وسلم ) کی تلوار کے پر رکھا گیا اور جس کے بارے میں فوج کا دعوی ہے کہ یہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف “حتمی حل” ہے۔
فوج کا کہنا ہے کہ یہ شمالی وزیرستان میں موجود مسلح گروہوں کے پیچیدہ جال، جس میں شامل ہے تحریک طالبان پاکستان (اور اس کے مختلف گروہ )، حقانی نیٹ ورک، اور مقامی مسلح کمانڈر، اور اس کے ساتھ ساتھ القاعدہ، مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ، اسلامک موومنٹ ازبکستان، کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔ اس میں گل بہادر، جو کہ شمالی وزیرستان میں ایک طاقتور مسلح کمانڈر اور ایک حقیقی عسکری طاقت ہے – اس نے ماضی میں پاکستانی فوج کے ساتھ امن کے معاہدوں پر بھی دستخط کئے تھے، کے بارے میں کوئی لفظ نہیں ہے آیا کہ یہ اسے نشانہ بنایا جائے گا یا نہیں۔ ایک پاکستانی اہلکار نے حال میں تنقید کو بتایا تھا کہ وہ”ایک وفادار پاکستانی” ہے۔

بنوں شہر کا پولیس سٹیشن | فوٹو گرافر: اسد ہاشم
ضرب عضب ساتواں بڑا فوجی آپریشن ہے جو پاکستان نے اپنی سرزمین پر سرگرم مسلح گروہوں کے خلاف شروع کیا ہے— سارے آپریشن، سوائے سوات میں دو مہمات کے ، قبائلی علاقوں میں موجود جنگجوؤں کے خلاف ہوئے۔ فوجی اعدادوشمار کے مطابق ابھی تک فضائی حملوں اور ابتدائی زمینی حملوں کے نتیجے میں 570 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ فوج کا کہنا ہے کہ 36 پاکستانی فوجی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ تنقید آزادانہ طور پر ان اعدادوشمار کی تصدیق نہیں کرسکا کیونکہ علاقے تک رسائی محدود ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ فوج نے ابھی تک صرف ایک “دہشت گرد”، میران شاہ میں کمانڈر عمر، کی دوران آپریشن ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
سابقہ فوجی آپریشنوں کی طرح فوج کی کاروائی کا سب سے پہلا اثر بہت بڑی تعداد میں مہاجرین یا جیسا انسانی حقوق کی تنظیمیں کہتی ہیں، “اندرونی بے دخل لوگ” یا IDPs کا پیدا ہونا ہے—- وفاقی مقتدرہ برائے انتظام حادثہ (FDMA) کے مطابق 573000 لوگ،بے گھر ہوئے ہیں ۔ بموں، کرفیو اور بند راستوں میں سے پیدل سفر کرتے کراتے ان میں سے زیادہ تر بنوں پہنچ گئے۔
ان کی آمد کے ساتھ ہی شہر میں حکومتی اہلکاروں، فوج، امدادی کارکنوں اور صحافیوں کی آمد شروع ہوگئی۔ ایک دفعہ پھر یہ سب بنوں کی ضروریات کی بجائے ہمسائیگی میں شورش زدہ شمالی وزیرستان میں ہونے والے واقعات کی وجہ سے ہے۔ یہ ایک لمبا گھن چکر ہے اور اس کا اظہار یہاں بنوں میں باقی ہر جگہ سے بڑھ کر ہے کہ پرانے دور کا مشہور مقولے کی حقیت سچائی بنتی نظر آتی ہے: چیزیں جتنی زیادہ تبدیل ہوتی ہیں، اتنی ہی ایک جیسی رہتی ہیں۔ حقیقت میں فوجی، حکومتی اور پولیس حکام سے بات کرنے کے بعد یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ کہ علاقے کا انتظام کیسے چلایا جائے اور ریاست لوگوں کوکس نظر سے دیکھتی ہے، دونوں لحاظ سے سلطنت نے کبھی ان علاقوں سے انخلا کیا ہی نہیں۔
اس کی سب سے نمایاں مثال ہے فرنٹئیر کرائم ریگولیشن ۔ برطانوی دور کے قوانین جن کو پاکستانی ریاست نے چند ترامیم کے بعد اسی طرح برقرار رکھا ہے۔ یہ قوانین قبائل کو ایف سی آر کی اجتماعی ذمہ داری دفعہ کے تحت اجتماعی سزا دیتے ہیں۔ ریاست ضلع کو نمائندہ جمہوریت (باقی ملک کے برعکس) کی بجائے ایک طاقتور سیاسی کارندے کے ذریعے چلاتی ہے۔ یہ قوانین اس سارے علاقے کو صحیح معنوں میں ایک ایسی جگہ میں بدل دیتے ہیں جہاں بے پناہ تشدد جیسا کہ بلا امتیاز بمباری ممکن ہے جب بھی ریاست اپنی کمزور رٹ کو بحال کرنے کی ضرورت محسوس کرے۔ مزید براں ریاست نے ان مسلح گروہوں جیسا کہ حافظ گل بہادر، جو فوج پر حملے نہیں کرتے کو حفاظت فراہم کی ہوئی ہے ۔
ایسے قوانین کے ہوتے ہوئے، جو تدابیر پاکستان کررہا ہے وہ ان سے بہت زیادہ مماثلت رکھتے ہیں جو برطانیہ نے انیسویں اور بیسویں صدی کے شروع میں کئے تھے، فرق صرف یہ ہے کہ پاکستان نے برطانیہ کے ویسٹ لینڈ واپیتی، ہاکر ہارٹ اور ہاکر آڈیکس جہازوں کی بجائے ہائی ٹیک F-16 اور JF-17 لڑاکا طیارے اور کوبرا گن شپ ہیلی کاپٹر استعمال کئے ہیں۔ لیکن بمباری کی زیادہ تر نظریاتی بنیادیں باقی ہیں۔ 1924 میں برطانوی شاہی فضائی فوج کےسربراہ ہو ٹرینچارڈ نے قبائلی علاقوں میں بمباری کے بارے ایک خفیہ ہدایت نامے میں بیان کی۔ “قبائیلی علاقے کو کنٹرول کرنے میں مسئلہ یہ ہے کہ [۔۔۔]،”ٹرینچارڈ نے لکھا،” قبائلی لوگوں کی خاص نفسیات، سماجی تنظیم اور نظام زندگی اور علاقہ جس میں یہ رہتے ہیں کی وجہ سے ایک خاص طریقہ کار کی ضرورت ہے”۔
———————————————————————————————————————————
وقف نہیں۔ خیرات نہیں۔ باہری امداد نہیں۔ صرف آپکی مدد درکار ہے۔
———————————————————————————————————————————
خاص طریقہ کار” جس کے بارے میں ٹرینچارڈ نے بات کی کا مطلب ہے تیز اور وسیع پیمانے پر تشدد، جب اس نے یہ واضح کیا،” غیر مہذب دشمنوں کے ساتھ نپٹنے میں ہچکچاہٹ یا دیر کمزوری کی نشانی ہے۔ دہشت گردوں کے حملوں کے جواب میں وزیرستان میں تشدد کے وسیع پیمانے اور عجلت سے صاف ظاہر ہے کہ وہ خیالات آج بھی کارفرما ہیں۔ فوج کی جانب سے آپریشن ضرب عضب کے دوران اور اس سے پہلے دسمبر 2013 اور مئی 2014 کے دوران ہونے والے فضائی حملے حیران کن حد تک مماثل ہیں۔ دونوں ہی پاکستان کے کسی اور علاقے میں شہری یا فوجی علاقے پر دہشت گردوں کے حملوں کے جواب میں ہوئے، فوج نے پرچیاں بانٹ کر معمولی سی پیش از خبرداری دی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ ریاست مخالف عناصر کو ان کے حوالے کردیا جائے یا پھر گاؤں والے نتائج بھگتنے کیلئے تیار ہوجائیں۔ مثال کے طور پر آپریشن ضرب عضب اس وقت شروع کیا گیا جب ٹی ٹی پی نے کراچی کے بین الاقوامی ائیرپورٹ پر حملہ کیا جس میں 30 لوگ ہلاک ہوئے۔
یہ بنوں ہے جو ان نوآبادیاتی روایات کے اثرات کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ یہ قصبہ ریاست کی شمالی وزیرستان پر حکمرانی کرنے کے طریقہ کار کیلئے مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ ایک طرح کا تطبیق خانہ ہے — نہ صرف وزیرستان کے لوگوں کیلئے بلکہ پاکستانی ریاست کیلئے بھی جو اسے قبائلی علاقہ ہی گردانتی ہے حالانکہ تکنیکی اعتبار سے یہ ایف سی آر کے تحت نہیں آتا۔
پاکستان کے اس حصے میں راج ابھی ختم نہیں ہوا۔
* * *
40 سالہ اسرار گل دیکھنے میں ایک ضعیف شخص لگتا ہے۔ میں اس سے ملنے بنوں کے مرکزی بازار میں اس کے گھر گیا۔ وہ میران شاہ سے اپنے خاندان کے 20 اراکین سمیت پاکستانی فوج کی بمباری سے بچنے کیلئے جنوری میں بنوں آیا۔
۔”جب بم پھٹنا شروع ہوئے تب [ہم نے] گھر چھوڑا۔ ساری رات مختلف چیک پوسٹوں سے فائرنگ ہوتی رہی۔ اس لئے ہرکوئی یہ بات کررہا تھا کہ کیسے ہمیں یہاں سے نکلنا ہوگا۔ ہم وہاں [فائرنگ کے بیچ] پھنسنا نہیں چاہتے تھے۔ بچے رو رہے تھے۔ سکول بندہوگئے [۔۔۔] اس لئے ہم نے سوچا اب ہمیں نکلنا ہوگا”۔
یہ نہیں کہ طالبان ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتے تھے۔ اس نے کہا،” حتی کہ طالبان بھی ہمیں اپنا دشمن سمجھتے تھے،” اس کا کہنا ہے۔
جو ہتھیار نہیں اٹھاتا اسے دشمن سمجھا جاتا ہے۔ اور حکومت بھی ہمیں دشمن سمجھتی ہے کہ ہمارا تعلق وزیرستان سے ہے اس لئے ہم دشمن ہیں۔ ہمارے ساتھ حکومت اور طالبان دونوں کا رویہ ایک جیسا ہے۔ ان دونوں کیلئے [۔۔۔] ہم دشمن ہیں۔
۔[طالبان] کہتے ہیں کہ اگر میرے پاس بندوق نہیں ہے تو میں مجاہد نہیں ہوں اور یہ کہ میں مسلمان نہیں ہوں” اس نے غصے میں مزید اضافہ کیا،” اس لئے تم جہاد نہیں کررہے؟ طالبان اس سے بھی نفرت کرتے ہیں جو زیادہ ہنستا ہے”۔
اپنے علاقے میں رہنے کے خطرات کے متعلق مجھے بتاتے ہوئے گل نے مجھے ایک خو فناک واقعہ سنایا۔ میران شاہ کے قریب ایک بارودی سرنگ کے پھٹنے کے بعد فوج نے ایک چیک پوسٹ قائم کردی جس کی وجہ سے وہاں گزرنے والے لوگ جمع ہوگئے۔ کچھ دیر بعد وہاں سے فوج کا ایک کارواں گزرا اور فوجیوں نے گولی چلادی، گولیوں گاؤں والوں کے سر کے قریب سے گزریں۔ اسی دوران فوجی چیختے ہوئے گالیاں نکلتے رہے: “کیا ہم مسلمان نہیں ہیں،بہن چود”۔
گل ابھی بھی اس واقعہ کو یاد کرکے کانپ جاتا ہے اور اس کی یاد اسے غصہ دلا دیتی ہے ساتھ پریشانی بھی۔
۔”میں نہیں جانتا طالبان کی جانب فوج کی جانب سے یہ ظلم کب تک چلتا رہے گا۔ ہم نہیں جانتے کہ کیا ہم اس اندھیرے میں اگلے دس سال رہیں گے یا کتنی دیر۔ میں قسم کھاتا ہوں کہ جب ہم صبح کو گھر سے نکلتے ہیں تو ہمیں یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ ہم گھر واپس آئیں گے۔ ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہمارا کوئی قصور نہیں ہے “۔
افسردگی اور سراسیمگی کی یہ لہر میران شاہ کے قریب ایک گاؤں، اسپالغائی سے تعلق رکھنے والے ماہرامراض چشم سلیم زاہد میں بھی نظر آتی ہے جو نے اپنے خاندان کے 19 اراکین کے ساتھ جنوری میں بنوں میں پہنچا۔ ان میں سے 11 افراد واپس اپنی چیزوں اور زمین کی حفاظت کیلئے چلے گئے ہیں۔ آٹھ ابھی یہیں ہیں جن میں زیادہ تر بچے ہیں کیونکہ اب یہ لوگ یہ فیصلہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں کیا ابھی واپس گھر جانا محفوظ ہے یا نہیں۔ اسپالغائی چھوڑنے کے متعلق وہ کہتے ہیں،” جب آپ اپنا گھر چھوڑتے ہیں، آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ کا جنازہ اٹھ رہا ہے، حتی کہ جانور بھی آپ کی طرف ایسے دیکھتے ہیں جیسے کہ خداحافظ کہ رہے ہوں کیونکہ وہ وہیں رہتے ہیں اور آپ یہاں آجاتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ۔۔۔۔جو چیزیں ہم چھوڑ آئے ہیں بس وہی ہماری کل جمع پونجی ہے”۔
زاہد جو کہ مقامی طور پر بطور ایک شاعر بھی جانے جاتے ہیں نے بھی تصدیق کی کہ کس طرح وہ اپنے آپ کو طالبان اور پاکستان آرمی کے درمیان پھنسا ہوا محسوس کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے،” ہر وقت یہ پریشانی اور یہ بے یقینی رہتی ہے کہ ہر کوئی خوفزدہ ہے، جب ہم مارکیٹ جاتے ہیں تو ہر طرف ٹریفک کے مسائل ہیں کیونکہ ہرجگہ چیک پوسٹ ہیں۔ اور راستے ایسا کئی بار ہوتا ہے کہ آپ پر گولی چلائی جاتی ہے اور آپ کو پتہ نہیں ہوتا کہ گولی کس نے چلائی۔ ہم نہیں جانتے کہ دشمن کون ہے اور ہم نے کیا جرم کیا ہے۔”
زاہد اور بہت سے اور لوگوں سے بات کرنے کے بعد اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں طاقت تک رسائی کا ذریعہ یا تو سیاسی کارندے ہیں یا ٹی ٹی پی۔ مقامی لوگوں کیلئے زیادہ مشکل بات یہ کہ جنگجو جنہوں نے وسیع زمینوں پر قبضے کرلئے ہیں اور ریاست کے برخلاف ان کو جرگوں کے ذریعے چلارہے ہیں اور مال اکٹھا کررہے ہیں، ان کو بطور بیرونی پہچاننا بڑا مشکل ہے۔ زاہد کا کہنا ہے،” ہمارے علاقے میں جو طالبان ہیں وہ علاقے کے لوگ ہیں۔ جس طرح ہم دوسرے لوگوں سے ملتے ہیں اسی طرح ہم ان سے بھی معمول کے مطابق ہاتھ ملاتے ہیں۔ کیونکہ وہ ہمارے [دوست] ہوا کرتے تھے، آجکل وہ طالبان ہیں۔ شاید مستقبل میں وہ دوبارہ ہمارے اپنے بن جائیں”۔
* * *

Read: Holding it Down: A Poetics of War & Occupation | Hannah Green
میر علی کا رہائشی 20 سالہ نیاز علی ایک دلچسپ کیس ہے، یہ ایک ایماندار نوجوان ہے جو 2010 میں بنوں آیا تاکہ میر علی گورنمنٹ ڈگری کالج سے سیاسیات میں اپنی بی اے ڈگری کی پڑھائی جاری رکھ سکے۔ کالج کی سطح پر کوٹہ سسٹم ہونے کی وجہ سے وہ مجبورا وہاں داخل ہے – حالانکہ وہاں پہ کوئی اساتذہ یا پڑھائی نہیں ہوتی۔ تاہم وہاں امتحان ضرور ہوتا ہے صرف یہی وہ سرگرمی ہے جس کیلئے اساتذہ حاضر ہوتے ہیں۔ اس لئے نیاز اور اس جیسے سینکڑوں طلباء بنوں آکر ہوسٹلوں میں رہ کر نجی ٹیوشن پڑھتے ہیں۔ پھر وہ امتحان دینے کیلئے اپنے آبائی اداروں میں چلے جاتے ہیں۔
نیاز فی مہینہ 5000 روپے ادا کرکے دو اور لڑکوں سے ساتھ اشتراک کرکے ایک کمرے میں رہتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ 700 روپے فی مہینہ فی مضمون ٹیوشن فیس ادا کرتا ہے۔ سارے اخراجات ملا کر اس کا کل ماہانہ خرچہ 25000 روپے بنتا ہے۔ ڈالروں میں یہ تھوڑی سی رقم بنتی ہے – یعنی 250 ڈالر کے قریب — لیکن وزیرستان جو کہ ایک پسماندہ علاقہ ہے یہ شاہانہ خرچ ہے۔ لیکن پھر بھی نیاز پی ایچ ڈی کرنا چاہتا ہے تاکہ اس تعلیم کو وزیرستان میں نوجوانوں کو پڑھانے کیلئے استعمال کرسکے۔
کچھ لحاظ سے نیاز کا اپنی تعلیم کیلئے اخراجات پورا کرنے بارے پریشان ہونا اسے باقی پاکستانی طلباء کی طرح بنا دیتا ہے۔ میں نے اس سے جب یہ تذکرہ کیا تو ان نے فورا کہا،” یقینا”۔
لیکن تھوڑے وقفے بعد اس نے وضاحت کی،” سارے پاکستان میں کرفیو نہیں ہے، ہمارے ہاں فوج ہے، صحیح؟ تو اگر آپ جائیں، آپ ان کی موجودگی میں سڑک پار نہیں کرسکتے۔ وہ آپ کو سیدھے گولی مار دیں گے۔ تو میں پاکستان کے اندر کیسے ہوا”؟
وہ مجھے بتاتا ہے کہ اس کے بہت سے ساتھیوں نے یا تو طالبان میں شمولیت اختیار کرلی ہے یا اپنی تعلیم اور رابطوں کے ذریعے متحدہ عرب امارات میں ملازمت حاصل کرلی ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ اس نے ایسا کیوں نہ کیا، تو اس نے کہا:۔
۔”میں نے اپنے بارے میں سوچا کہ میں علم حاصل کروں، کچھ دانائی حاصل کروں۔ میں اس سب میں شامل نہیں ہونگا کیونکہ اس جنگ جوئی کا مستقبل ٹھیک نہیں ہے۔ ہماری تباہی اس جنگ جوئی میں ہے۔ تباہی، یارا ، کیونکہ طلباء تعلیم حاصل نہیں کرسکتے اور کوئی شعور نہیں ہوتا ۔ اگر آپ اس میں شامل ہوجاتے ہیں تو یا تو آپ ڈرون حملے میں مارے جائیں گے یا کسی بم دھماکے میں یا کسی اور طریقے سے۔ سب کچھ ختم ہوجائے گا۔ اس راستے پر موت واضح ہے”۔
شمالی وزیرستان میں موجود لوگوں میں مرکزی پاکستان سے دور ہونے کا احساس بہت زیادہ ہے۔ یہ ٹھیک بھی ہے۔ فاٹا اپنے قوانین اور اپنی علیحدہ حقیقتوں کے ساتھ رہتا ہے۔ سکول ہیں لیکن اساتذہ نہیں؛ ہسپتال ہیں لیکن ڈاکٹر غائب۔ اور ہر راہ بجائے کسی مقامی انتظامی نمائندے یا عدالت کے سیاسی کارندے کی طرف جاتی ہے۔
زاہد نے وضاحت کی، ” یہ بات واضح ہے کہ ہماری زندگی پاکستان کے کسی اور علاقے کے لوگوں جیسی نہیں ہے، خاص طور پر پنجاب کے لوگوں جیسی تو بالکل نہیں۔ یہ غربت، تعلیمی اداروں کی کمی، تعلیم یا صحت کیلئے کوئی نظام نہیں جیسا کہ پنجاب میں ہے۔ اس قسم کا ترقیاتی کام بالکل نہیں ہے۔ تمام سڑکیں مکمل طور پر ٹوٹی ہوئی ہیں۔ [۔۔۔] وہاں الیکٹرانک میڈیا نہیں ہے، وہاں موبائل فون کا نظام بھی نہیں ہے”۔
خان وزیر اسے زیادہ پر معنی انداز سے بیان کرتا ہے۔ “دیکھو میرے علم کے مطابق صرف فیصل آباد سے 200-300 فیکٹریاں ہیں۔ ٹھیک؟ اور اب آپ وزیرستان سے پشاور تک جائیں، اگر آپ 200-300 رھیڑیاں بھی ڈھونڈ لیں تو آپ ٹھیک کہتے ہیں کہ وزیرستان پاکستان کا حصہ ہے”۔
شاعر سلیم ، پراپرٹی ڈیلر خان ، دوکاندار اسرار ، اور طالب علم نیاز، ان سب کیلئے باہر کا صرف ایک راستہ ہے بنوں۔ بنوں جو میران شاہ سے 37 میل (60 کلومیٹر) اور میر علی سے 21 میل (35 کلومیٹر) کے فاصلے پر، ان سب اور ان جسے اور ہزاروں لوگوں کیلئے تنازعے سے دور ان سہولیات تک رسائی دیتا ہے جو ان کے گھر میسّر کرنے سے قاصر ہیں۔
لیکن یہ محسوس کرنے والے وہ اکیلے نہیں ہیں۔
* * *
بنوں ڈویژن جس میں قریبی لکی مروت ضلع بھی شامل ہے کے ضلعی انسپکٹر جنرل، ساجد علی خان، کہتے ہیں،” بنوں طالبان کے راستے میں ہے اور ہم اس آگ سے جھلسنے والے پہلے لوگ ہیں۔
خان وضاحت کرتے ہیں:۔
میرا خیال ہے کہ بنوں ایک لحاظ سے پہلا باقاعدہ علاقہ تھا جہاں ٹی ٹی پی 2005 میں اپنی تنظیم اور بنیادیں قائم کرنے میں کامیاب ہوئی۔ آباد علاقہ جہاں پہلا منظم اور باربط حملہ ہوا۔ میں آپ کو اس وقت کے بارے میں بتا رہا ہوں جب ابھی باقی صوبے میں دہشت گردی کے اثرات نہیں پہنچے تھے، یہ ابھی دوسرے اضلاع میں نہیں پہنچی تھی۔
خان جو 25 سال سے بھی زیادہ ایک پولیس افسر رہا ہے اسے ڈی آئی جی ہوئے ابھی صرف چھ ماہ ہوئے ہیں، لیکن ضلع کو درپیش مسائل کے بارے میں وہ باقی سب لوگوں سے زیادہ آگاہ ہے۔ یا شاید وہ ان خطرات کا ادراک کرنے کو تیار ہے۔ جونئیر پولیس افسران جن سے میری بات ہوئی لگتا ہے واقعات کو تبدیل کرنے کی طاقت بالکل نہیں رکھتے۔ اسی وجہ سے وہ اپنی قانون نافذ کرنے بارے ذمہ دارویوں کو بہت ہی مقامی سطح پر دیکھتے ہیں۔ دوسری طرف شہری منتظمین حفاظتی معاملات کو اپنے دائرہ کار سے باہر جہاں ان کا کوئی اختیار نہیں ہے دیکھتے ہیں اور نظر انداز کردیتے ہیں۔
۔2013 کے الیکشن سے تین دن بعد، بنوں میں بم دھماکہ
تاہم پولیس ایک دوراہے پر ہے۔ یہ ایک شہری قوت ہے جس کا بنیادی مقصد ہی حفاظت ہے۔ ساجد علی خان جیسے لوگ آپ کو ان مشکلات کا بتاتے ہیں جن کا انہیں سامنا ہے اگرچہ اگر سادہ لفظوں میں کہا جائے تو پولیس جو کردار ادا کررہی ہے وہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
۔ 2005 سے لے کر بنوں نے کئی بڑے منظم حملوں کا سامنا کیا ہے-پولیس اسٹیشن اور ریاستی اداروں بشمول سکولوں پر حملے اور اس کے ساتھ ساتھ 2012 میں ایک بڑی جیل توڑ جس میں 380 قیدی فرار ہوگئے۔ شمالی وزیرستان یا کسی اور جگہ جانے والے کئی آرمی کاروانوں پر بھی بارودی سرنگوں سے حملے ہوچکے ہیں۔ تازہ ترین حملہ جنوری میں ہوا تھا جس میں آرمی کے ایک کارواں کو بھاری دفاع والے بنوں کینٹ میں نشانہ بنایا گیا۔ اس میں 20 لوگ ہلاک ہوئے اور اس کی وجہ سے حکومت کی ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچا۔ مارچ کے آخر میں ضلع کے بم ڈسپوزل سکواڈ نے 2014 کے اندر اندر 100 سے زائد بم ناکارہ کردیے ہیں۔ اسی دوران ضلع کے کچھ حصے مکمل طور پر طالبان یا دوسرے مسلح گروہوں کے قبضے میں ہیں۔
خان نے میران ہوئید، بکا خیل، باسیا خیل،ماماش خیل اور شہر کے اندر بنوں پولیس اسٹیشنوں پر ہونے والے حملوں کے بارے میں تفصیلی بات کی۔ شہر کے مرکزی پولیس اسٹیشن کے سربراہ محمد رخسار کے مطابق پچھلے سال 20 ہلاکتیں ہوئیں جن میں ان کے عملے کے لوگ بھی شامل ہیں۔ اسی پولیس اسٹیشن میں ایڈیشنل ایس ایچ او، امین مروت جو اپنی گاڑی پر خودکش حملے میں بال بال بچے تھے 2012 میں پولیس اسٹیشن پر ایک حملے کو یاد کرتے ہیں جن میں انہوں اور ان کے چند ساتھیوں نے دو خود کش حملہ آوروں اور ٹی ٹی پی کے کئی بندوق برداروں کو عمارت میں داخلے سے روکا تھا۔
رخسار نے مجھے بتایا:۔
بنوں ان کیلئے داخلی راستہ ہے، ہم ہروقت نشانے پر ہوتے ہیں لیکن ہم ان سے لڑتے ہیں۔ ہم نے ان کی پولیس کار میں شہر کا چکر لگایا۔ خان بنوں میں ایک پولیس افسر ہونے کے تجربے کو یوں بیان کرتے ہیں ، ہم ان کے دوست نہیں ہیں، اور ہم پیچھے بھی نہیں ہٹتے۔ ہم انہیں کوئی لچک نہیں دکھاتے۔ یہ ایک طرح سے حالت جنگ ہے۔
طالبان اور دوسرے مسلح گروہوں کے بارے میں شہری انتظامیہ کا رویہ تھوڑا مختلف ہے۔ ان کا خیال ہے کہ بنوں جنگجوؤں کو ایک محفوظ جنت فراہم کرتا ہے۔”[وہ] یہاں پناہ لینے آتے ہیں۔ ان کے خاندان یہاں پناہ لینے آتے ہیں۔ تو اگر وہ یہاں [حملہ] کرتے ہیں اس کا مطلب ہوگا ان کے اپنے خاندان یہاں متاثر ہونگے کیونکہ آخرکار یہ ان کی پناہ گاہ بھی ہے جہاں وہ آرام کرتے ہیں۔” اورنگریب حیدر، ضلعی حکومت میں اسسٹنٹ کمشنر کہتے ہیں۔ حیدر اس حقیقت کو نظرانداز کرتے ہیں کہ بنوں میں کئی حملے ہوئے۔

حیدر کے باس اور بنوں کے ضلعی کمشنر، محسن شاہ، لاء اینڈ آرڈر کے متعلق خدشات کی تردید کرتے ہیں۔ شاہ نے مارچ میں مجھے بتایا، ” جہاں تک انتظامیہ کا سوال ہے تو ہم لا اینڈ آرڈر کے متعلق اتنے پریشان نہیں ہیں کیونکہ چیزیں کافی حد تک پرسکون ہوچکی ہیں”۔
شاہ ایک لمبا، بھاری بھرکم آدمی ہے۔ سول سروس میں 24 سال کے باوجود وہ ابھی تک کافی جوان اور بے پناہ توانائی کا حامل انسان ہے۔ اسے اپنے بنوں سے متعلق تاریخی کام کے اکٹھ پر فخر ہے، اور وہ بڑے فخر سے شاہی گزٹ کے متعلق بات کرتا ہے، یہ مقامی ثقافت اور لوگوں سے متعلق برطانوی دور میں اکٹھا کئے گئے کوائف ہیں۔ شاہ برطانوی دور کے اپنے ہم منصب جیک نکلسن کے بارے میں بڑی تعریف کا اظہار کرتا ہے۔ نکلسن 1852 سے 1855 تک بنوں کا ڈپٹی کمشنر تھا اور اس دور کی اس کی رہائش شاہ کے دفتر کے پیچھے بحال کردی گئی ہے۔ اس نے اپنے پیچھے عمارت کی طرف دیکھتے ہوئے بڑے فخر سے کہا۔
اگر آپ تاریخ پر نظر ڈالیں تو بنوں بہت پرانا ضلع ہے، جس کی تاریخ 1848 سے شروع ہوتی ہے جب پہلا ڈپٹی کمشنر یہاں آیا۔ وہ اس گھر میں رہا۔
اس نے مزید یہ بھی بتایا کہ بنوں کے رہائشی اپنے حکمرانوں کے ساتھ بہت وفادار ہیں۔
یہ ایک پرانا گھر ہے۔ جون نکلسن یہاں پہلا ڈپٹی کمشنر تھا۔ ان دنوں [بنوں کے رہائشی] کرایہ دیا کرتے تھے۔ وہ زرعی ٹیکس دیا کرتے تھے۔ انہوں نے پانی ٹیکس، آبیانہ، ادا کیا اور اور ارضی ٹیکس بھی ادا کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ حکومت سے بہت وفادار ہیں۔
———————————————————————————————————————————
پاکستان کی کہانی سنانے میں ہماری مدد کیجیے۔ پاکستان میں ایک آزاد میڈیا کی تشکیل میں ہماری مدد کیجیے۔
———————————————————————————————————————————
اپنے اس مفروضے کیلئے کہ بنوں کے رہائشی خاص طور پر وفادار ہیں شاہ مقامی لوگوں کی ایک خاص تصویر کشی کرتا ہے، جو کہ اصل میں شاہی گزٹ میں بیان کی گئی ہے۔ اس میں بیان ہے،
مجموعی طور پر [بنوں کے لوگ] بے ضرر قسم کے لوگ ہیں؛ بہت ہی کم سیاسی اہمیت کے حامل؛ اور تاہم ہم انہیں بطور انسان جتنا بھی ناپسند کریں ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ وہ بہت ہی کمال کے محصول ادا ہیں، ان کی بری خصوصیات کی وجہ، چاہے وہ جسمانی ہوں یا ذہنی اسکی وجہ انکی خلاقی اوربنو ں کا ماحول ہے ۔
شاہ کی منطق ہے کہ بنوں کے لوگوں کا ٹیکس اور محصول کی ادائیگی کی صورت میں جو وفاداری برطانوی راج کے ساتھ تھی وہ پاکستانی ریاست کے ساتھ وفاداری میں تبدیل ہوگئی ہے۔ یہ امکان شاہ کے ذہن میں نہیں آیاکہ بنوں کے لوگ، وفاداری کی بجائے کسی دور سے حکمرانی کرنے کی روایت کے عادی ہو گئے ہیں ۔ بنوں کے لوگوں کے ساتھ یہ ریاستی رویہ شاہ ، جو صرف آٹھ ماہ سے ڈی سی او ہے تک محدود نہیں۔ یہ ریاست کے ضلع کے ساتھ مالی معاملات میں بھی نظر آتا ہے۔ ریاست کا بنوں کےساتھ کیا سلوک ہے ، اور ان لوگوں کو کیسے دیکھتی ہے جو یہاں رہتے ہیں، لااینجل طور پر نوآبادیاتی علم اور قوانین میں پیوستہ ہے۔
مثال کے طور پر ڈی آئی جی ساجد خان اپنے افسروں اور جن کی وہ خدمت کرتے ہیں کے قبائلی کردار بارے بڑی تفصیل سے بات کی۔ اپنے افسروں کے بارے فخریہ طور پر بات کرتے ہوئے اس نے کہا، “اگر آپ یہاں سے بھاگ جاتے تو اس بات کو بہت زیادہ بےعزتی کا باعث سمجھا جاتا ہے”۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ بھاگے تو ان پر لعنت ملامت ہوگی۔ اس لئے روایتی طور پر اور دوسرے لحاظ سے، [۔۔۔] ہمارے لوگوں کو ہتیھار کا استعمال آتا ہے – یہ پیدائشی لڑاکے ہیں۔ [۔۔۔] کے پی کے کے دوسرے اضلاع کے برعکس یہاں کے لوگ زیادہ روایتی اور قدامت پسند ہیں۔ اسی لئے آپ کو زیادہ تر روایات یہاں زیادہ پرانی شکل میں ملیں گی اور یہاں بہادری بھی زیادہ نظر آتی ہے۔
1908 کا این ڈبلیو ایف پی شاہی گزٹ بھی پراسرار طریقے سے مقامی مروت قبیلے کے بارے میں یہی بات کرتا ہے۔ “شخصی طور پر یہ لوگ لمبے اور مضبوط جسم والے ہیں؛ وریوں میں ملنسار اور کھلے دل کے۔ تقریبا جس افسر نے بھی یہاں خدمات انجام دی ہیں اس نے ان کا ذکر انہی الفاظ میں کیا”۔
خان بطور ایک نوآبادیاتی منتظم بھی شاید ایک برا انتخاب نہ ہوتا۔ جب پوچھا گیا کہ بنوں میں سب سے زیادہ جرم کیا ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ باقی سب نے بھی بتایا کہ مارکیٹ میں اکثر ذاتی جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھار یہ متشدد ہوجاتے ہیں۔ اپنے سے پہلے برطانوی افسروں کی طرح خان نے بھی اسے ثقافتی “قبائلی” رسم قرار دیا۔
یا تو یہ کوئی خاندانی دشمنی ہوتی ہے یا پھر کسی وقتی گرما گرمی کا فوری نتیجہ۔ وزیر زیادہ ٹھنڈے مزاج اور دییکھ بھال کر چلنے والے لوگ ہیں۔ وہ کچھ کرنے سے پہلے سوچتے ہیں۔ سو بار سوچتے ہیں۔ وزیر بڑے زیرک لوگ ہیں۔ بڑے ہی زیرک۔ یہ مت دیکھیں کہ وہ پڑھے لکھے ہیں یا نہیں – یہ پی ایچ ڈی بندے کو بھی سالوں بیوقوف بنا سکتے ہیں۔ یہ اتنے چالاک ہیں۔
لیکن بنوچی یہ بڑے جذباتی لوگ ہیں۔ یہ میری ذاتی رائے ہے۔ یہ فورا عمل کرتے ہیں۔ زیادہ تر جرائم یہاں ایسے ہوتے ہیں کہ ایک لمحے میں یہ کسی بحث ومباحثہ کے نتیجے میں جھگڑ پڑتے ہیں اور اس کے نتائج کے بارے میں بعد میں سوچتے ہیں۔
ایک بار پھر خان کے الفاظ کو اٹھارویں صدی کے آخری عشروں کے برطانوی منتظم رینال ٹیلر کے الفاظ سے موازنہ کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ بنوچی قبیلے کے بارے میں بات کرتے ہوئے، ٹیلر نے 1883-84 میں بنوں ضلعی گزٹ میں لکھا:۔
بطور ایک طبقہ یہ اپنے ہمسایوں وزیروں سے بہت ہی کم تر ہیں۔ قد میں چھوٹے اور بظاہر زردی مائل مرجھائے ہوئے [۔۔] یہاں وہاں کوئی بہتر کردار نظر آجاتا ہے لیکن بے شک ان لوگوں میں کچھ خانگی خوبیاں پائی جاتی ہیں، جو ان کی عوامی اور سماجی غیر اخلاقی کا مداوا کردیتی ہیں۔ لیکن بطور ایک طبقہ کے یہ بدترین قسم کے لوگ جن سے میرا آج تک واسطہ پڑا۔ یہ فاسق، جھوٹے، چغل خور، دھوکہ باز، ظالم اور انتقام جو لوگ ہیں۔ میں نے کبھی بھی سچ سے اتنے بے پراوا ہ لوگ نہ دیکھے اور نہ ہی سنے۔
سامراج تو شاید چلا گیا لیکن بنوں میں طاقت کی جڑیں اور ان کو کیسے استعمال کیا جاتا ہے ابھی بھی بہت گہریں ہیں۔
* * *
بنوں میں کوئی بھی اتنا طاقتور نہیں ہے جتنا اکرم خان درانی، جو کہ ضلع کا پارلیمان میں منتخب نمائندہ ہے اور 2002 سے 2007 تک خیبر پختونخواہ کا وزیر اعلی رہا ہے۔
درانی وفاقی دالحکومت کے ایک اعلی مضافات میں اپنے متمول گھر میں رہتا ہے اور دیکھنے میں اپنے سیاسی حیثیت کے برعکس ایک بارعب شخصیت کی بجائے ہنس مکھ آدمی ہے۔ اس کا بچپن بنوں میں گزرا اور وہ ان دنوں کو بڑی حسرت سے یاد کرتا ہے۔ اپنے جوانی کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے وہ مسکراتے ہوئے کہتا ہے، ” بنوں ایک بارڈر پر ہونے کی وجہ سے لوگوں نے یہاں ہمیشہ خوشحال زندگی گزاری۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہاں ہر وقت عید کا سا ماحول رہتا۔ اور گلیوں میں بچے گڑیا کے ساتھ کھیلتے پھرتے۔ پورے پاکستان میں بنوں میں لوگوں نے سب سے زیادہ خوشحال زندگی گزاری”۔

وزیر اعلٰی اکرم خان درانی
درانی کے دور حکومت میں بنوں میں بہت سا ترقیاتی کام ہوا: ایک بڑا نیا ہسپتال، ایک یونیورسٹی (درانی کے نام پر رکھی گئی)، اور کئی ڈگری کالج اور ووکیشنل ادارے بنائے گئے اور ضلع کے ارد گرد کئی نئی سڑکیں تعمیر کی گئیں۔
وہ عمارتیں آج بھی کھڑی ہیں لیکن بنوں کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ان میں سے کچھ تو کام نہیں کررہیں اور اگر کررہی ہیں تو جزوی طور پر۔ اس بات کو شہری انتظامیہ نے بھی تسلیم کیا، کمشنر محسن شاہ نے اس کا الزام افسرشاہی کو دیا کہ وہ ضلع میں مناسب سہولیات نہیں پہنچارہے۔
تاہم درانی حقیقت کی بجائے امکانات پر زیادہ بات کرتا ہے۔ ہسپتال اور کالج، زرخیز زرعی زمین اور تجارت کے مواقع کے باوجود لوگ ابھی تک بنوں میں نہیں آرہے۔ زیادہ تر لوگ یہاں سے گزر جاتے ہیں۔ حتی کہ یہاں آنے والے مہاجرین بھی اسے منزل کی بجائے ایک عارضی پڑاؤ ہی سمجھتے ہیں۔ درانی اس بات سے واقف ہے لیکن وہ اس سے دلبرداشتہ ہونے کی بجائے اسے وہ ضلع کو دوبارہ زندہ کرنےکیلئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ یہ حقیقت کہ بنوں ایک راہگزر ہے دونوں طرح سے فائدہ مند ہے۔ قبائلی پٹی کے بارڈر پر ہونے جہاں ریاست سے تعلق اور قانون ایک مسئلہ بن جاتے ہیں کے باوجود دوسرے لحاظ سے یہ فائدہ مند ہے – وہ ہے تجارت اور ترقی کی جانب سفر۔ درانی کے نزدیک بنوں کی بارڈر کے قریب موجودگی مصیبت کی بجائے ایک نعمت ہے۔ اس کی سوچ بنوں کو طورخم یا چمن کی طرح افغانستان کے طرف ایک راہگزر میں تبدیل کرنے کی ہے۔ جب وہ ان امکانات پر بات کرتا ہے تو اس کی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں۔
درانی کا کہنا ہے، ” اگر امن وامان کا یہ مسئلہ حل کردیا جائے تو بنوں ایک راستہ بن سکتا ہے۔ بنوں سے افغانستان کے صوبے خوست میں غلام خان تک سڑک مکمل ہے اور تجارت جاری ہے۔” یہ بہت فائدہ مند کاروبار ہو سکتا تھا لیکن جب امن و امان کا مسئلہ خراب ہوگیا تو اس منصوبے میں دراڑ پڑ گئی۔ جس سڑک کے بارے درانی بات کرتے ہیں وہ بنوں سے شورش زدہ زیرستان کے میر علی اور میران شاہ سے ہوتی ہوئی غلام خان کلے جاتی ہے جو افغانستان کے صوبہ خوست اور پاکستان کے درمیان ایک بارڈری قصبہ ہے۔ یہاں حفاظت ایک بڑا مسئلہ کیونکہ فوج ہمیشہ چیک پوسٹ نہیں لگائے رکھتی۔ اور تاریخی طور پر یہ راستہ سوائے صنوبری بادام اور خشک میوہ جات کے کسی اہمیت کا حامل نہیں رہا ہے۔
———————————————————————————————————————————
اس مضموں کو لکھنے کے لیے ہماری ٹیم نے کام بھی کیا اور پیسہ بھی خرچ کیا۔
———————————————————————————————————————————
اس لئے یہ بات ابھی دیکھی جانی باقی ہے کہ بنوں جو ہمیشہ تاریخ اور دیومالا میں موجود رہا ہے کیا اپنے آپ میں ایک راہ گزروں کیلئے لوٹ مار کی بجائے ایک منزل بن سکتا ہے۔
میرے بنوں سے آنے کے کچھ دیر بعد فوجی آپریشن پوری طاقت سے شروع ہوگیا۔ میں واپس یہ دیکھنے گیا کہ اس کی کیا حالت ہے۔ بنوں آج بھی مہاجرین، جنگجوؤں اور ہر گزرنے والے کو ٹھکانہ فراہم کررہا ہے۔ فوجی آپریشن جاری ہونے کی وجہ سے یہ چھوٹا سا شہر مغلوب ہے۔ تشدد سے بچ کرآنے والوں سے اس کی گلیاں بھری ہوئی ہیں۔ 21 مئی سے پانچ لاکھ سے بھی زیادہ لوگ شمالی وزیرستان سے نکل چکے ہیں اور تقریبا سب نے بنوں میں پناہ لی ہے، یا تو اپنے رشتہ داروں کے ہاں یا پھر کرائے کے کمروں میں کیونکہ ان کو وہ حکومت کی جانب سے بکاخیل میں قائم کئے گئے اکلوتے کیمپ سے زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔
بنوں میں شمالی وزیرستان سے آنے والے اپنے گھر پر فضائی بمباری کی منظر کشی کرتے ہوئے۔
آنے والے لوگوں کا شہر پر اثر بہت زیادہ ہے: آج بنوں میں ہر دو میں سے ایک فرد مہاجر ہے۔ شہری انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اتنی بڑی تعداد کو سنبھالنے کیلئے انفراسٹرکچر نہیں ہے, جبکہ اس کے ساتھ ساتھ 16 گھنٹے بجلی کی بندش اور باقی شہری خدمات بھی اپنی انتہائی حیثیت میں کام کررہی ہیں۔
مہاجرین کی لمبی بل کھاتی قطارین امداد کی تقسیم کے تین مراکز کے سامنے 104 فارن ہائیٹ (40 ڈگری سیلسئیس) میں گھنٹوں انتظار کرتی ہیں اس امید میں کہ حکومت اور فوج کی جانب سے تقسیم کی جانے والی اشیائے خو ردونوش کے پیکج اور کیش رقوم مل جائیں گے۔ یہ صورتحال عموما بدنظمی کی ہوتی جہاں پریشان حال لوگ دھکم پیل اور چیخ و پکار میں اپنے پیاروں کیلئے امداد تلاش کررہے ہوتے ہیں۔ حکام عموما ہوائی فائرنگ، لاٹھی چارج اور کانٹے دار تار لگا کر صورتحال کو کنٹرول کرتے ہیں۔
فوجی کاروائی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انسانی ملبے تلے بنوں کا دم گھٹ رہا ہے۔
اسد ہاشم آزادانہ طور پر کام کرنے والے صحافی ہیں ۔ وہ الجزیرہ کے پاکستانی میں ویب مراسلہ نگار ہونے کے ساتھ تنقید کے ایڈیٹر بھی ہیں۔
[…] کی زمین پر نیوی کی تجاوزات بارے تحقیق کررہی ہیں اور اسد ہاشم بنوں کی صورتحال پر نظر ڈالتے ہیں، بنوں جو مسافروں، […]