تحریک کے متلاشی احتجاج

 7 شمارہ 

 

Artist: Tazeen Qayyum | Poisonous if Inhaled

Artist: Tazeen Qayyum | Poisonous if Inhaled

اقوامٍ متحدہ کے مطابق ہم ’اربن صدی‘ میں رہ رہے ہیں۔ توقع ہے کہ 2050ء تک دنیا کیستر فیصد آبادی، یعنی 5 بلین لوگ، شہروں میں رہائَش پذیر ہوں گے۔ پیشن گوئیوں کے مطابق اگلی دو دہائیوں میں آبادی میں سب سے زیادہ اضافہ متوقع ہے، خاص طور پر ایشیائی ترقی پذیر ممالک میں۔ شہری سازی کے عمومی اندازبیان کے مطابق آج پاکستان کا ۳۸فیصد حصہ شہری ہے اور گمان ہے کہ 2025ءاور2030ء کے درمیان شہری آبادی دیہاتی آبادی سے زیادہ ہو جائے گی۔ 2050ء میں ملک کی آبادی 33کروڑ ہونا متوقع ہے۔ لیکن اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ شہری، شہر اور شہرسازی کی اصلاحات پر اتفاق رائے نہیں، تو یہ پیشن گوئی کم متاثر کن دکھتی ہیں۔ کیونکہ شہر اور شہری کے بارے میں عام تاثرات معیشتی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔

میں پچھلے دو سالوں سے پاکستان میں شہری سیاست، بالخصوص کچی آبادیوں یعنی اعلانیہ یا غیر اعلانیہ طور پر بنی نا منظم آبادیوں، کی سیاست پر تحقیق کر رہی ہوں۔ میں نے اس تحقیقی سفر کا آغازشہرسازی سے متعلق سوالات سے نہیں کیا تھا۔ میں تو یہ جانچنا چاہتی تھی کہ شکایات پر جگہ موجود ہونے کے باوجود سماجی تحاریک کا ابھار ہر جگہ کیوں نہیں نظر آتا۔ سماجی تحریک پرکی گئی تحقیق میں زیادہ توجہ مختلف لوگوں کو متحرک کرنے اور تحریک کے اتار چڑھائو پر بات کی جاتی ہے۔ تحریکوں کے وجود میں نہ آنے کی وجوہات کو زیادہ تر تحریکی مشاہدے اور متنازع سیاسی نظریات میں نظرانداز کیا جاتا ہے۔

لیکن جب میں نے اپنی تحقیق کے لیے کراچی اور لاہور کا انتخاب کیا تو شہرسازی کے سوالات نے مجھے جکڑ لیا۔ میری توقعات کے برعکس کراچی اور لاہور کے شہری علاقوں میں متنازع اور دائمی شکایات پانی، بجلی یا گیس مہیا کرنے کے بارے میں نہ تھیں، کیونکہ ان کے حصول کے لئے کسی نہ کسی طرح کوئی نہ کوئی بندوبست کرہی لیا جاتا تھا۔ اس کے برعکس مقامی باشندوں کی جدوجہد کا اصل مقصد رہائش کے تحفظ کا حصول تھا، یعنی مالکانہ حقوق با بھی ملیں تو سر پر چھت تو رہے۔ چناچہ مجھے اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ تحاریک کے وجود میں آنے یا نا آنے کی وجوہات کو سمجھنے کے لیے شہر سازی کے تنازعات کو خدو خال سمجھنا ضروری تھا۔

آج اس بات پر کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان بڑے پیمانے پر شہری ملک بن چکا ہے۔ 1999ء کے ابتدائی دور میں محمد اے قدیر نے دعوی کیا تھا کہ پاکستان کی اکثریت زمینی اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے شہری ہے۔ شہرسازی کو مختلف لوگوں کے مابین رہائش اور چھت کی تعمیر کی جدو جہد اور جوڑ توڑ کے عوامل کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ شہر سازی کوئی یک جانبی عمل نہیں، بلکہ یہ طاقت کے ناہموارتعلقات کے کھیل کی عکاسی کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پہلی نظر میں یہ بات بے وقعت لگے، لیکن محقیقن کے بڑی تعداد شہرسازی کو سادہ انداز سے بیان کرنے پر زور دیتے ہیں ۔

ایک عالمی شہر؟

عمومی طور پر شہرسازی کے عمل کو سمجھنے کے لیے دیہی وشہری آبادی کے تناسب، شہروں کی تعداد اور جغرافیائی حدود میں بتدریج اضافے یا شہری علاقوں میں بسنے والی آبادی میں بڑھاﺅ پر غور کیا جاتا ہے۔ حاوی، یعنی نیو لبرل، نقطئہ نظر کے مطابق شہر ترقی کا انجن ہیں اور “گلوبل شہر” ترقی کی اس داستان کا اہم کردار سمجھے جاتے ہیں۔ اس نقطئہ نظر کے مطابق شہر عالمی پالیسی ساز نیٹ ورک کو تشکیل دیتے ہیں اورعالمی معیشتی سمندر میں مالی سرمایے کے جزیرات ہیں۔ بنیادی مفروضہ جو 2012ء کی گلوبل سیٹیز انڈیکس رپورٹ میں بیان ہے وہ یہ ہے کہ: “آج کی دنیا ممالک کی نہیں بلکہ شہروں کی دنیا ہے۔ ” ریاستوں کے درمیان سیاست ماضی کا حصہ ہے، مستقبل میں شہروں کے مابین تعلقات کی بنیاد پر ہی عالمی اور مقامی سطح پر مالی، جمہوری اور ماحولیاتی برحانات کا سامنا کیا جا سکے گا۔

———————————————————————————————————————————

پاکستان کی کہانی سنانے میں پماری مدد کیجیے۔ پاکستان میں ایک آزاد میڈیا کی تشکیل میں ہماری مدد کیجیے۔

چندہ دیجیے

———————————————————————————————————————————

دوسری جانب کچی آبادی کے مکینوں کی خود اختیاری کو حقیقیت سے زیادہ بڑھا کر پیش کرنے کا بھی رجحان ہے۔ جیسے کے صحافی ڈگ ساﺅنڈرز نے “آمدی شہر”(آرائیول سیٹیز) کے خیال کو بہت عام کیا ہے۔ یہ اصطلاح شہروں کے گردو نواح میں موجود ان سابق دیہاتی گروپوں کے لیے استعمال کی گئی ہے جو مخصوص محلّوں اور مقامی علاقوں میں نئی زندگی اور سماجی واقتصادی استحکام کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ ساﺅنڈور یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ گزشتہ دو صدیوں کے تمام اہم انقلاب ان آمدی شہروں کے باشندوں نے شروع کئے تھے، مثال کہ طور پر پہلی جنگِ عظیم میں روسی انقلاب اور حال ہی میں عرب بہار۔ کامیاب آمدی شہر خوشحال مڈل کلاس کا قیام کرتی ہیں اور ناکام آمدی شہرغرب،سماجی مسائل اور ممکنہ طور پر تشدد کا تحلیق کار بنتی ہیں۔ سماجی ترقی اور تنزلی کا یہ نقطئہ نظر، یعنی کہ آمدی شہر کی کامیابی یا ناکامی اس کے باشندوں کے اختیار میں ہے، سماجی ترقی میں ناکامی کو غربت کا جواز بنا دیتا ہے جس کے نتیجے میں یہ تاثر ملتا ہے کہ سماجی غیر ترقی یا منجمد ہونے کی کیفیت کا ساختیاتی قوتوں سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ انفرادی رویہ اور عمل کا نتیجہ ہے۔ بنیادی طور پر یہ ان تینوں نظریات میں اقتصادی سوچ جھلکتی ہے جس میں انسانوں کو اعداد و شمار تک محدود کر دیا جاتا ہے یا پھر خود اختیاری کو مجموعی اقتصادی نتائج پر جانچا جاتا ہے۔ لیکن میری تحقیق کے نتائج کچھ اور ہی ہیں۔

جب میں نے ہاﺅسنگ اور چھت کے مسائل کے حوالے سے کچی آبادی کی تحریکوں سے متعلق سوالات پر غور کیا تواپنی تحقیق سے “شہری صدی” (اربن سنچری) اورشہری یا شہری ساز معاشرے جیسے تصورات کو زمینی حقائق سے جوڑنے کی کوشش کی۔ یعنی ان کا پاکستان کے دو بڑے شہروں میں کم آمدن علاقوں کی حقیقی صورتحال سے کیا تعلق ہے۔

ضروری نہیں کہ شہرسازی تبدیلی لائی اور یک جانبی ہو۔ پاکستان میں یہ ایک ایسے پیداواری عمل سے مشابہ رکھتا ہے جس میں بنیادی طور پر ریاست اور اس کے نمائندوں کے علاوہ دوسرے پراپرٹی ڈیلرز، میڈیا اور این جی اوز سمیت دیگر ادارے شامل ہیں۔ یہ پیداواری عمل منظم طریقے سے قانون سے بالاتر سرگرمیوں اور کچی آبادی میں موجود غریب ترین طبقے کے مابین اجتماعی سرگرمی کی غیر موجودگی سے پہچانا جا سکتا ہے۔ کچی آبادیوں میں اجتماعی سرگرمیوں کی غیر موجودگی پر دھیان دینے کی ضرورت ہے اور کراچی اور لاہور کی کچی آبادیوں میں میری تحقیق سے یہی واضع ہوتا ہے۔

اور اس سے تحریک کے وجود میں آنے یا نا آنے پر اثر پڑتا ہے۔

اتحاد کو حرکت میں لانا

مزید آگے جانے سے پہلے موبلائزیشن کی دو اقسام کے درمیان فرق کرنا ضروری ہے۔ اول وہ جومختصر مدت کے لئے ہوتی ہیں اور ایک یا دو مواقع پراحتجاج کرنے کے بعد ختم ہو جاتی ہیں، اور دوم وہ جو بہت منظم ہوتی ہیں اوران کا مقصد سماجی تبدیلی ہوتا ہے۔ موبلائزیشن کی پہلی قسم مختصر مدت کے لئے مسائل کو حل کر سکتی ہے لیکن اس میں ٹرانسفورمیشنل سٹرٹیجی (تبدیلی کی حکمت عملی) کی کمی ہوتی ہے اور اسلام آباد میں کچی آبادیوں کے حالیہ احتجاج اسی زمرے میں آتے ہیں۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ سرگرم کارکن ان احتجاجوں کو وسیع البنیاد تحریک میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔

دوسری قسم کی موبلائزیشن ایک وسیع البنیاد تنظیم ہے جس کا مقصد سماجی تبدیلی ہےاور میں اسی پر بات کروںگی۔ ایسی موبلائزیشن کو ایک نظریہ کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ وسیع البنیاد سماجی تحریک کا سبب بن سکے اور جس کا مقصد معاشرے میں موجود وسائل اور طاقت کو نئے سرے سے تقسیم کرنا ہو۔ اور اس قسم کی موبلائزیشن پاکستان میں ناپید ہیں۔

عالم آصف بیعت کی ساکت و قابل سماعت موبلائزیشن سے متاثر ہو کر میں نے روز مرہ کی غیر اداری طرزِ عمل کو جاننے کے لیئے تحقیق شروع کی جو کہ بہتر زندگی اور وسائل کے حصول کے لئے مجموعی طور پر کامیاب ہوں گے۔ میں اس عمل کو بھی سمجھنا چاہتی تھی جس سے یہ سب ممکن ہوگا۔ تو تحقیق کا اہم مقصد مقامی،سماجی خود تنظیم اور کم نتائج کے عوامل کو جاننا ہے۔ اس سلسلے میں،میں نے مختلف کچی آبادیوں میں انٹرویوز کئے۔ان انٹر ویوز کو مد نظر رکھ کر میں نے اپنے کام کو چند سائٹس تک محدود کر دیااور پھر مزید انٹرویوز کے لئے دوبارہ کام شروع کر دیا۔میں نے این جی اوز،مقامی امدادی تنظیموں،سرکاری حکام،میڈیا،کورٹ رپورٹز اور دوسرے محققین سمیت دیگر مقامی تنظیموں کے ساتھ بھی گفت و شنید کی۔

Photo credit: Asadullah Tahir | Bombay Doors

اس موضوع پر وارڈ بیرینشوٹ کا مضمون   دور فساد  پڑھیے۔

سرپرستانہ سیاست اور تشدد
سرپرستانہ سیاست اور تشدد

میں نے یہ جاناکہ کچی آبادی شہرسازی کی ایسی مثال ہے جسے مقامی نئی کالونیوں کے قیام کے ذریعے شہروں کی توسیع کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔اس عمل کو میں نے بہت غیر معمولی پایا لیکن جب جانا تو اس پر کام کرنے میں مزہ آیا۔ نئی کالونیوں کے قیام کا اندازہ اربن کور علاقوں کے کناورں پر بڑھتی ہوئی آبادی کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے۔اس کی کوئی اہمیت نہیں کہ آبادکار دیہاتی مہاجر نہیں تھے لیکن زیادہ تر کراچی اور لاہور کے علاقوں سے تھے جہاں وہ کرایے پر رہ رہے تھے جسے وہ بمشکل برداشت کر سکتے تھے۔ان کی خواہش تھی کہ ان کا اپنا گھر ہو تاکہ وہ کرایہ کا خرچہ بچا کر دیگر ضروری اخراجات پر صرف کر سکیں۔ اس طرح شہری آبادی کی اکثریت کے پاس با ضابطہ پراپرٹی مارکیٹ سے زمین خریدنے کے لئے پیسے نہیں تو وہ سرکاری زمیں، خاص طور پر کسی سرکاری محکمے یا کراچی پورٹ ٹرسٹ جیسے اداروں کی زمینوں پر ڈیرہ ڈال لیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ مختلف سرکاری نظاممیں پڑ کر بستی کو رجسٹر کروا کر طویل مدتی رہائش گاہ بنا سکیں۔ لیکن مجھے یہ معلوم ہوا کہ رہائش رجسٹر کروانے سے انہیں حقیقی مالکانہ حقوق نہیں مل پاتے۔ بہت سے باشندوں کو مالکانہ دستاویزات اس لیے نہ مل سکیں کیونکہ وہ سرکاری اداروں کے ساتھ الجھ پڑے (جس میں قانون سے بالاتر فیسوں کی ادائیگی بھی شامل ہے) بحر حال قانون کے مطابق رجسٹرڈ کچی آبادیوں کو بے دخل نہیں کیا جا سکتا۔

میری تحقیقی ان کچی آبادیوں میں بھی تھی جو کافی عرصے سے بنی تو ہوئیں تھیں لیکن یا تو کسی وفاقی ادارے یا پھر ڈی ایچ اے، ایل ڈی اے یا کسی اور کارپورٹ ادارے نے اس زمین پر ملکیت کا دعوی کر دیا تھا۔ لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے کیس میں ملکیت کا دعوی لینڈ اکیوزیشن ایکٹ کے تحت کیا گیا تھا۔ کے ان متنازع کیسز میں کالونیوں کے باشندے حکومتی نمائندوں کے ساتھ قانونی اور بالا قانونی طور پر اتحاد کرنے کی کوشش کررہے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کی تنظیموں اور میڈیا کو بھی حرکت میں لاتے ہیں۔ ان اداروں کے ساتھ مل کر مکین اپنی رہائش بچانے کے لئے بغیر کسی حتمی نتائج کے پریس کلب کے سامنے احتجاج کرتے ہیں۔

شہرسازی کی تیسری مثال دیہاتی علاقوں کو شہر میں انتظامی طور پر شامل کرنے کی ہے۔ میں نے بے دخلی کے ایک کیس پر تحقیق کی جس میں لاہور کی ایک رہائشی سکیم، ایل ڈی اے ایونیو۱ کے تعمیر کے لیے ایک گاﺅ ں کے علاقے پرلینڈ ایکویزیشن کے ایکٹ کے تحت قبضہ کیا گیا۔ اس کیس میں مقامی لوگوں اور ایل ڈی اے کے مابین معاوضے کے لئے معاہدہ بھی ہوا تھا۔ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ دیہاتیوں نے اپنی مزاحمت کی حمایت کے لئے مقامی این جی اوز اور میڈیا کو حرکت میں لانے کے لئے جو کوششیں کیں ان کا مقصد ایل ڈی اے سے ملنے والی زمین کی زیادہ قیمت کے لئے اپنے دعوی کو ثابت کرنا تھا، جس پر پہلے اتفاق کیا گیا تھا۔ اسی طرح کا قصہ کراچی میں تب دیکھنے کو ملا جب ایک سندھی گوٹھ کو میونسپل علاقے میں شامل کیا گیا، البتہ اس کیس میں گوٹھ کے بزرگوں پر زمین ساز پرائیوٹ کمپنی کا اثر تھا۔ ان بزرگوں کے سامنے دو راستے تھے، یا تو زمیں سے بے دخل ہو جاتے، یا پھر زمین سے بے دخل ہونے کے ساتھ زمین ساز کمپنی سے اپنا حصہ بھی وصول پاتے۔ تو زمین ساز کمپنی اور بزرگوں نے مل کر قانون سے کچھ بالا تر ہو کر کام کیا۔

شہری تحاریک کو ثالث بنانا

ان سب کیسوں میں موبلائزیشنز بڑے پیمانے پر ساختی تبدیلی کی بجائے مخصوص نتائج تک محدود تھیں۔ موبلائزیشن کی اقسام میں فرق کرنے سے یہ پتہ چلا کہ کیوں برازیل یا انڈیا کی طر ح اربن پاکستان میں ہاﺅسنگ یا رہائشی حقوق نہیں دیئے جاتے۔

موبلائزیشن کے عمل پر غور کرنے سے مجھے گروپوں کی اندرونی دراڑوں کا پتہ چلا جو ایسے دورخی تجزیوں میں نظر انداز کر دیے جاتے ہیں جن میں ایک طرف بےدخل مظلوم اور دوسری طرف قابض ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس لچکدار تعلقات جو بجلی اور ہاﺅسنگ جیسے وسائل تک رسائی کا تعین کرتے ہیں،حقیقت کو پیچیدہ بنادیتے ہیں۔ ایک ابھرتی ہوئی کالونی جس پر دو سال تک نظرثانی کے گئی کے اسے طویل مدتی مطالعے سے آبادکاروں کے اپنی رہائش کے حصول کے لئے اندرونی تنظیمی انشقاق اور رضاکارانہ طور پر دو سال تک کئے گئے اتحاد سے کئی چیزیں گہرائی میں سمجھ آتی ہیں۔ خاص طور پر زمین کے ایک پلاٹ تک رسائی اور رسائی کو برقرار رکھنے کے لئےاندرون گروپ مقابلہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ذاتی مفاد اور نیٹ ورک اجتماعی کاروائی اورمقامی کچی آبادی کے باشندوں کے مفاد کی نمائندگی کے لئے ایک متحدہ قوت کو آغاز ہونے سے روکتے ہیں۔

———————————————————————————————————————————

وقف نہیں۔ خیرات نہیں۔ باہری امداد نہیں۔ صرف آپکی مدد درکار ہے۔

چندہ دیجیے

———————————————————————————————————————————

ان نتائج سے دو چیزیں سامنے آئیں،پہلی شہرسازی اور دوسری موبلائزیشن سے متعلق۔ کچی آبادیوں سے،شہرسازی کا تصور بطورِ شہری اور دیہاتی ہجرت کی وجہ سے شہروں میں بڑھتی ہوئی آبادی جس نے سماجی نظام کو خطرے میں ڈال دیا اور زندہ رہنے کے لئے باشندوں اور دیگرکارکنوں کے درمیان اتحاد اور احتجاج کے بیچ ایک ڈرامائی فرق کا پتہ چلتا ہے۔

یہ نتائج مشترکہ مفاد کی نمائندگی اور ایک نقطئہ نظر پیش کرنے والے ثالثوں اور مددگاروں کے اہم کام کو اجاگر کرتے ہیں۔ شکایات ہونے کے باوجود عام کچی آبادی کے باشندوں کے پاس اپنے مفاد کے حصول کے لئے وسائل نہیں۔آج تک وہ ساختیاتی تبدیلی کے مقصد کے لئے مشترکہ مفاد پر مبنی موبلائزیشن عمل کے لئے کئے جانے والے احتجاج اور ہنگاموں کے خلاف جانے کے قابل نہیں ہوئے بلکہ باشندوں نے نیٹ ورک تعلقات،غیر واضع قانونی ضوابط کا انتخاب کیا جس نے بدلے میں ان کے لئے ریاست کی طرف سے دوسرے حقوق اور خدمات تک رسائی کو محدود کر دیا۔اور یہ تب ہوا جب وہ موبلائزیشن کی وہ دوسری قسم کو قائم کرنے کے قابل ہوئے جس سے معاشرے میں طاقتی وسائل کو بنیادی طور پر پھر سے تقسیم کرنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔

کاٹیا میئلکے ایک سیا سی ماہرِ عمرانیات ہیں جو جرمنی کی بون یونیورسٹی کے سینٹر فار ڈویلوپمنٹ ریسرچ میں کام کررہے ہیں۔

Tags: , ,

One Response to

تحریک کے متلاشی احتجاج

  1. […] نسلی جغرافیہ کی بنیاد پر اپنا تجزیہ پیش کرتی ہیں ،جبکہ کاٹجا میلک کچی آبادیوں کے طویل احتجاجوں کی کہانی سناتی ہیں ۔ […]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *