آدھا پیکٹ سگریٹ | سلو کا بلاگ

جن دنوں میں گورنمنٹ کالج میں پڑھا اور ہاسٹل میں رہا کرتا تھا ان دنوں مجھ میں اور غالب میں دو چیزیں مشترک تھیں۔ ہم دونوں شاعری کے لیے مشہور اور قرض مانگنے کے لیے بدنام تھے۔ ویسے تو ان دو خصوصیات میں میرے شریک غالب کے علاوہ اور بھی بہت سے شاعر تھے لیکن میں ان دنوں بھی اپنا اتنا بڑا مداح تھا کہ قرض خواری میں عام طور پر اور شاعری میں خاص طور پر تقابل کے لیے غالب کو ہی استعمال کرنا پسند کرتا تھا۔ فرق بھی ہم دونوں میں دو ہی تھے ایک  توغالب شاعری کے لیے میرے مقابلے میں کچھ زیادہ مشہور تھے اور میں قرض کے معاملے میں ان سے کچھ کم بدنام اور دوسرا یہ کہ غالب قرض لے کر مے پیا کرتےتھے جبکہ میرے لیے قرض حاصل کرنا مشکل اور مے کا انتظام مشکل تر تھا اس لئے سگریٹ پر گزارا تھا۔

اقبال حسین کے کام میں اکثرلاہور کی ہیرا منڈی کی طوائف کی منظر کشی ملتی ہے۔ ہیرا منڈی میں پیدا اور پلے بڑھے اس مصنف کی تصاویر کو اکثر پاکستانی سماجی اخلاقی اقدار کے خلاف سمجھتے ہوئے رد کر دیتے ہیں۔

اقبال حسین کے کام میں اکثرلاہور کی ہیرا منڈی کی طوائف کی منظر کشی ملتی ہے۔ ہیرا منڈی میں پیدا اور پلے بڑھے اس مصنف کی تصاویر کو اکثر پاکستانی سماجی اخلاقی اقدار کے خلاف سمجھتے ہوئے رد کر دیتے ہیں۔

سگریٹ مانگنے کی وجہ سے مجھ سے بھاگنے والوں کی تعداد شاعری کی وجہ سے بھاگنے والوں سے زیادہ ہی رہی ہو گی لیکن پھر بھی کچھ کرم فرما ایسے تھے جومیری شاعری کے باوجود مجھے سگریٹ پلانے اور میں ان کے سستے سگرٹوں کے باوجود انہیں شاعری سنانے میں ڈھٹائی کی حد تک مستقل مزاج تھا۔ انہی میں کےایک دوست ہر بار مجھے نئی برانڈ کا سگریٹ پلا کر میرے گلے کا اور میں ہر بار انہیں پرانی غزلیں سناکر ان کی برداشت کا امتحان لیا کرتے تھے۔ یہ صاحب ایک بارایک اور دوست کو ساتھ لیے تشریف لائے اور چھوٹتے ہی فرمایا کہ آج ایک فرمائش لے کر آیا ہوں۔

 میں اس قسم کی فرمائشوں سے بہت گھبراتا تھا کیونکہ عام طور پر یہ فرما ئشں اپنی محبوبہ کے لیے ایک نظم لکھوانے پر مشتمل ہوتی تھی۔ میں نے اپنی ساری محبوباوں کے لئے جتنی نظمیں لکھی تھیں وہ میرے سارے دوستوں کی محبوباوں کو جن کی تعداد درجنوں میں تھی (دوستوں کی) زبانی یاد تھیں۔ پھر بھی میرے دوست دوسروں کی محبوباوں کو میری نظمیں اپنے نام سے سنانے سے باز نہیں آتے تھے۔ ایک صاحب نے تو اس وقت حد کر دی جب وہ میری نظم میری محبوبہ کو اپنے نام سے سنانے پہنچ گئے لیکن ان سے بڑھ کر حد میری محبوبہ نے کی جو میری پہلے سے سنائی ہوئی نظم ان سے سن کر ان پر مر مٹی۔ وہ تو خدا بھلا کرے سہرے اور ختنے کے موقعے پر نظمیں لکھنے کا سلسلہ متروک ہو چکا تھا ورنہ میرے دوستوں کے بچے اس بات پر لڑ رہے ہوتے کہ یہ قطعہ تاریخ میری مسلمانیوں پر لکھا گیا تھا تمہاری پر نہیں۔

خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا جو بقول یوسفی صاحب کے پھیل کر ایک پیرا بن گیا ذکر تھا ایک فرمائش کا جو میرے دوست کرنے آئے تھے۔ اپنی فرمائش کو پرزور بنانے کے لئے انہوں نے اپنے ساتھ آنے والے صاحب کی پسلیوں میں کہنی ماری اور اس کہنی کے جواب میں انہوں نے اپنی جیب سے سگریٹ کا کھلا ہوا پیکٹ نکال کر میرے سامنے میز پر رکھ دیا۔ میں مطلب تو سمجھ گیا تھا لیکن پھر بھی جی فرمائیے کہنے سے پہلے میں نے سگریٹ کی ڈبیا کھول کر اس میں سے ایک سگریٹ نکالنے کے بہانے گن لیا کہ میری انگلیوں میں دبے سگریٹ کو ملا کر آدھی ڈبیا اس فرمائش کا معاوضہ وہ اپنی طرف سے طے کر چکے ہیں۔ فرمائش حسب توقع ایک نظم کی تھی جس کا اظہار کرنے میں انہوں نے ایک سگریٹ جتنا وقت لیا۔ میں نے اطمینان ہوتے ہی ڈبیا سے دوسرا سگریٹ نکال کر سلگایا اور اسے جیب میں رکھ لیا تو ان کے چہرے پر ایک طمانیت آمیز مسکراہٹ پھیل گئی جو اس وقت تک پھیلی رہی جب تک میں نے دوسرا سگریٹ بھی آدھا پی نہیں لیا۔

دوسرا سگریٹ ابھی نصف النہار سے ذرا نیچے گیا ہی تھا کہ ایک کان سے دوسرے تک پھیلی ہوئی مسکراہٹ کو درمیان سے توڑتے ہوئے انہوں نے اصل مدعا بیان کیا جو کچھ یوں تھا کہ وہ ایک کالج میگزین کے ایڈیٹر ہیں اور میری ایک نظم میگزین کی زینت بنانا چاہتے ہیں لیکن اپنے نام سے۔ دوستوں پر سخاوت اپنی جگہ لیکن یہ بات سن کر میری کنپٹیاں سلگ اٹھیں۔ میرا دل چاہا کہ میں سگریٹ کا پیکٹ جیب سے نکال کر ان کے منہ پر دے ماروں لیکن پھر خیال آیا کہ ایک پیکٹ جس میں آٹھ سگریٹ موجود ہوں اسے ایک ایسی جیب سے نکالنے میں جس میں ایک سگریٹ جوگے پیسے بھی نہیں جس قوت ایمانی کی ضرورت ہے وہ میرے پاس موجود نہیں۔

میرا جیب کی طرف بڑھتا ہاتھ رک گیا اور انہوں نے میرے چہرے کو دیکھ کر یہ بھانپ لیا کہ ان کا کام بن گیا۔ ان کے ایک کان سے دوسرے کان تک مسکراہٹ پھر سج گئی۔ نظم کس موضوع پر ہوگی اس پر بات وہ شروع کیا ہی چاہتے تھے کہ میرے دوست نے ان کی پسلی کا نشانہ پھر لیا۔ انہوں نے بات کو ادھورا چھوڑ کر مجھ سے پوچھا کینٹین کس طرف ہے۔ میں نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں کینٹین کا راستہ بتایا اور سر جھکا کر سگریٹ پینے لگا انہیں واپس آنے میں جتنی دیر لگی میں اس دوران ہاتھ میں موجود سگریٹ ختم کر کے اگلا سلگا چکا تھا لیکن اس دوران میرے اور میرے کرم فرما کے منہ سے کوئی بات نہیں نکل سکی۔

وہ واپس آئے تو ہمیں خاموش بیٹھا دیکھ کر انہوں نے بھی کچھ کہنا مناسب نا سمجھا۔ چائے یونہی خاموشی میں پی گئی۔ کپ رکھنے کے بعد میں نے خود ہی پوچھا کہ نظم کیسی درکار ہے ۔ ان کے جواب سے اندازہ ہوا کہ آدھے پیکٹ سگریٹ کے عوض وہ ایک ایسی نظم چاہتے تھے جو ان کو ساری دنیا میں مشہور کر دے۔اپنی شہرت کے علاوہ اس نظم سے تبلیغ اسلام کا کام لینا اس ان کا دوسرا بڑا مقصد تھا۔ میں نے چاہا کہ میں انہیں بتاوں کی دنیا اور عقبی سنوارنے کا معاوضہ آدھا پیکٹ سگریٹ کچھ کم معلوم ہوتا ہے لیکن میں پانچواں سگریٹ سلگا چکا تھا۔ چھٹا اور ساتوں سگریٹ یہ سوچنے میں ختم ہوا کہ انہوں نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ اگر میں ایک ایسی نظم لکھ سکتا جو لکھنے والے کو ساری دنیا میں مشہور کر دے تو یہاں بیٹھا سگریٹ کیوں پی رہا ہوتا۔

آٹھویں سگریٹ کے دوران انہوں نے یہ سوال اٹھایا کہ ہمارے شاعر اور ادیب طوائفوں کے بارے میں اتنا کیوں لکھتے ہیں اوریہ بھی کیا انہیں اندازہ ہے کہ ان کی ایسی تحریریں معاشرے میں کتنا بگاڑ پیدا کر رہی ہیں۔ نویں سگریٹ کے دوران انہوں نے کہا کہ اگر میں انکی نظم وقت پر انہیں دے دوں تو وہ اسی رسالے میں میری ایک نظم میرے نام سے بھی شائع کرسکتے ہیں لیکن صرف اس شرط پر کہ وہ ان کے نام سے لکھی گئی نظم سے کم درجے کی اور ان کی پسند کے موضوع پرہو۔ دسویں سگریٹ کے دوران وہ بتا رہے تھے کہ اگر شعرا غیر عورتوں پر الٹی سیدھی نظمیں لکھنے کے بجائے قومی اور ملی مقاصد پر قلم اٹھائیں تو اس کے کیا کیا فائدے ہو سکتے ہیں لیکن پچھلے کچھ سگرٹوں سے میرا دماغ طوائفوں میں اٹکا ہوا تھا ۔ ایک کے بعد ایک خیال، لکھنا بھی طوائف سے اظہار محبت کرنے جیسا ہے نا کہنے والے کو یقین نا سننے والے کو اعتبار، کیا شب ہجر آدھا پیکٹ سگریٹ کے سہارے گزاری جا سکتی ہے، وصل کا لمحہ کش لگانے سے کتنا ملتا جلتا ہے وہی سانس اندر کو کھینچنا اور روکے رکھنا، پہلے سگریٹ میں پہلے وصل کی لذت ہوتی ہے یا پہلے وصل میں پہلے سگریٹ کی۔ کیا کوئی طوائف سگریٹ کے عوض وصل پر آمادہ ہو سکتی ہے۔ کیوں نا میں ایک طوائف ڈھونڈوں اور اسے سگریٹ کے عوض وصل پر آمادہ کرنے کی کوشش کروں ایک دو تین سات آٹھ آدھا پیکٹ ایک پیکٹ۔ بمشکل میں نے اپنا دماغ طوائفوں سے ہٹایا اور ان سے پوچھا ہاں تو آپ کو نظمیں کب درکار ہیں۔             

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *