
- فوٹوگرافر : اسداللہ طاہر ۔ چائے پینے کا انداز
۲۰۱۳ء میں جب لاہور کے بادامی باغ میں مسیحی برادری کے درجنوں گھر جلا دیے گئے تو سوشل میڈیا پرتبصروں میں “شرمناک”، “غلیظ” اور”جنونی” جیسے القابات بکثرت استعمال کیے گئےتھے۔
اسی طرح کا ایک واقع ۲۰۱۰ء میں بھی پیش آیا تھا تو ایک مشہورِزمانہ کالم نگار نے حملہ آوروں کے لیے “انسانی کاکروچ” کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ اس قسم کے القابات سے نوازنہ انگریزیدان لبرل حلقوں کا خاصہ بنتا جا رہا ہے۔ ہجومی تشدد وفسادات کے ایسے واقعات پر فوری گھن آنا تو سمجھ آتا ہے، لیکن یہ سوال قابل غور ہے کہ ان خیالات کا اظہار کرنے والے پاکستانی انگریزی دان لبرل خود کہاں کھڑے ہیں۔ وہ کس بنیاد پر اپنی اخلاقی برتری کا اظہار کرتے ہیں؟
ناگزیر سوال یہ ہے کہ یہ لوگ جو تشدد کی دوسری اقسام کو واضح طور پر مسترد نہیں کرتے، ان کوہجومی تشدد و فساد پر کیا خاص اعتراض ہے؟ کیونکہ عام طور پر ہجومی تشدد و فساد کا مقصد وہی استحصالی یا غاصبانہ اعمال ہیں جن سے پاکستان کی شہری صارفانہ لبرل اشرافیہ بخوبی واقف ہے۔ اگر لبرل اشرافیہ اور ہجوم میں کوئی فرق ہے تو وہ یہ اشرافیہ “مہذبانہ” طریقے سے استحصال کرتی ہے۔ جبری قوت کی بجائے قلم کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ این جی اوز اور صنعتیں چلاتے ہیں، کاروبار کرتے ہیں۔ پرائیویٹ کمپنیوں میں بھاری تنخواہوں پر پروفیشنل نوکریاں کرتے ہیں۔ ان میں بینکرز بھی ہیں اور اکادمی سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی۔ اور یہ سب کرنے کے لیے وہ انتہائی غیرترقی یافتہ اور غیرفعال سیاسی معیشتی نظام کی بالائی منزل پر ڈیرہ ڈالے ہیں۔ وہ اپنے ذریعہ معاش اور سیاسی معیشتی نظام کے ربط کو سمجھنے سے قاصر ہیں، لہذا وہ اپنے غاصبانہ قبضے اور ہوس پر مہذبانہ استدلال کی پرت چڑھا لیتے ہیں۔
ان باتوں کو مدّ ِنظر رکھیں تو تعجب نہیں کہ غریب طبقات کے بارے میں ان کا اخلاقی بھاشن سامراجی اور نوآبادیاتی سوچ کی دین ہے۔ درحقیقت جب برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں کو مسلمان رعایا کی طرف سے مسلح مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر آجکے خیبر پختونخواہ کے علاقوں میں، تو انہوں نے غیرعقلی، مذہبی جنونیت کے تصورات ایجاد کیے۔ وقت گزرنے کے ساتھ مغربی معاشرے نے تیسری دنیا کے لوگوں سے خود کو علیحدہ رکھنے کیلئے کئی قسم کی دو گانگیاں بنالی ہیں، جیسے کہ عقلی یا غیرعقلی، مہذب یا حیوانی، نیک یا شیطانی۔ اس طرح کی تشبیہات کا بارہا استعمال تنقیدی فکر کے برعکس سوچ کی نوآبادیاتی قید کو ظاہر کرتا ہے۔
لبرل حلقوں کو مذہبی جنونیت کو موردِ الزام ٹھہرانے کی بجائے اس سماجی ساخت کو مجرم قرار دینا چاہیے جو مایوسی اورغصہ پیدا کرتا ہے۔ وہ سماجی ساخت جو اشرافیہ کی برتری برقرار رکھتےہیں۔
———————————————————————————————————————————
یہ رسالہ قارئین کے چندے سے چلتاہے۔ اس کارِ خیر میں آپ بھی حصہ ڈالیں۔
———————————————————————————————————————————
اس تحریر کا مقصد ہجوم کے اعمال کا دفاع نہیں بلکہ اس بات کی نشاندہی کرنا ہے کہ ہجومی تشدد اور فسادات کے ادراک کی ضرورت کو ان پر قابو پانے کی ضرورت کی بنا پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سوال ہمیشہ اٹھتا رہے گا کہ ان فسادی ہجوم سے کیسے نمٹا جائے اور اس لیے انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بالائی مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے ہم جیسے لوگ خود کو اپنی ادبی عقلی سوچ کا پابند محسوس کرتے ہوئے ہجوم کے اعمال کی شعوری بنیاد تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب کوئی وضاحتیں ہمارے حالات وتقاضات پر پورا نہیں اترتیں تو ہم ہجوم کوغیرعقلی یا غیراستدلالی قرار دے کرآگے بڑھ جاتے ہیں۔ پھر ہم ریاست کو اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس سے اقلیتوں کے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہیں۔
بس یہی تو لبرل ازم کی خود ستائی ہے۔ ریاست کی جانب سے اقلیتوں کے عدم تحفظ کو ریاست کے فرائض سے لاپروائی کے طور پر پیش کیاجاتا ہے، حالانکہ یہ نام نہاد ناکامی درحقیقت ریاستی طریقہ کار ہی تو ہے۔ ریاست بالادست اور حکمران طبقات کی طاقت اور نظریہ کا نام ہےاور اسکا بنیادی کام یہ ہے کہ ہر قسم کے دستیاب نظریاتی خام مال کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کے مختلف گروہوں کو ایک دوسرے سے لڑایا جائے۔فسطائیت بہرحال فسطائیت اسی لیے ہے کیونکہ یہ عوامی طبقات کو عوام دشمن اور رجعتی صفوں میں لا کھڑا کرتا ہے۔ انتہا پسند مدرسوں کا قیام درحقیقت سامراجی اور پاکستان کے حکمرانی طبقات کے کچھ حصوں کی شعوری حکمت عملی ہے تا کہ معاشرے پر اپنا کنٹرول مضبوط بنایا جائے اور لوگوں کی سماجی یکجہتی ختم کی جائے۔ اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ سماجی و معاشی نظام کی ساخت کو بچانے کے لیے مدرسے ایک نظریاتی پردہ کا کام دیتے ہیں۔ (لیکن تمام معاملات میں مدرسوں کو حکمران قوتوں کےآلہ کار کے طور پر محدود نہیں کیاجاسکتا۔)
شاید حکمران طبقہ کے غالب حلقے مدرسوں کے اس نیٹ ورک میں براہ راست ملوث نہیں لیکن ایسا نہیں کہ ان کے “جمہوری” اور “سیکولر” عقائد کم پرتشدد یا کم عوام دشمن ہیں۔ (اور حقیقت میں ہمارا لبرل حلقہ ان “جمہوری” اور “سیکولر” حکمرانوں کا زبردست دفاع کرتے ہیں)۔ یہ اب کوئی راز نہیں رہا کہ سول اور فوجی اشرافیہ ریاست میں اپنے ذاتی مفاد کیلئے یکساں طور پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہیں اور جرائم پیشہ گروہ اور کرپٹ پولیس بھی ان کے ساتھ ملی ہوتی ہے۔ یہ حکمران سامراجیت پر بھی انحصار کرتے ہیں، خاص طور پر امریکہ اور خیلیجی ریاستوں کی ہدایات پر پاکستانی ریاست کو اس طرح چلاتے ہیں کہ انکی جیبیں بھری رہیں۔ نیم جاگیردارانہ اور سرمایہ دارنہ طبقات کے مختلف گروہ کی تنظیمی اور ادارتی گٹھ جوڑ کی وجہ سے طبقات کے اندر اختلافات کو فروغ ملتا ہے۔ یہ اختلافات بالائی سطح پر ریاستی مشینری کے کنڑول کی کشمکش اور شہروں اور دیہاتوں کی نچلی سطح کے سیاست میں نظر آتے ہیں۔
حکمرانوں کی لوٹ مار اور ایک غیرترقی یافتہ، نیم نوآبادیاتی اور نیم جاگیردارانہ سیاسی نظام کے ساختیاتی تقاضوں نے پاکستان کی معیشت کا جو حشر کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اسی میں شامل ہیں معیشت کے وسیع غیررسمی سیکٹر کا فروغ جس میں لاکھوں نوجوان رزق مہیا کرنے کی سماجی توقعات کے بوجھ تلے دبے ہیں لیکن انہیں رزق اور معاشی ضروریات کی فراہمی کے لئے سودمند راستہ نہیں دستیاب، باوجود اس کے کہ ملکی آبادی کا ایک بڑا حصہ بیرون ملک جاچکا ہے۔ غم وغصہ بڑھ گیا ہے، اور جرائم کی شرح اس ناقابل یقین حد تک بڑھ گیا ہے کہ خوف اس غم و غصہ کو فروغ دے رہا ہے۔ اس تناظر میں ہمیں مارکس کا یہ قول نہیں بھولنا چاہئے کہ مذہبی مشکلات حقیقی مشکلات ہیں اور مذہب مظلوموں کی سسکی ہے۔ براہ راست ریاستی کنٹرول کے طابع نہ ہوتے ہوئے بھی مذہبی گروہوں کے لیڈر منظم ہو کر اس غیررسمی معیشت میں جگہ بناتے ہیں اور حکمران طبقات کے نیٹ ورک سے تعلق جوڑتے ہیں۔ جرائم پیشہ نیٹ ورکوں سے تعلق بھی بلاشبہ اسی طرز پر بنتے ہیں۔
اس ترقی پذیریت، خوف اور بےچینی کے تناظر میں جو مذہب، جرم اور ریاست کے اندرونی اور بیرونی وسائل حاصل کرنے کی جدوجہد کے ساتھ جڑی ہے، اس بات پر حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ سنی انتہا پسندوں کی جانب سے کی جانے والی پرجوش تقریروں اور جائزوں میں ہندوتوا اور نازی خطابت کی جھلک نظر آتی ہے جس میں “دوسرے” کو موردالزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہاں پرشیعہ یا احمدیوں کو اسلام کی بنیادی واحدانیت کا دشمن قرار دیا جاتا ہےاور ان پرسماج کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی بنیادوں کو تباہ کرنے یا ان پر قابو کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اس پر بھی تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ جواب کے متلاشی ہزاروں بے چین لوگ اس قسم کے سازشی نظریات(کانسپرسی تھیوری) کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ سازشی نظریہ لوگوں کو عہد مایوسی میں تحفظ ، یقین، بلکہ شناخت اور طاقت دیتا ہے۔ یہ عوام کو حقیقی، واضح اور حاضر مسائل سے موڑ کر حکمرانوں کے مقاصد بھی پورے کرتا ہے ۔حقیقت میں مسئلہ تو وہی سیاسی معیشت ہے جو نیم جاگیردارانہ سرمایہ دار اور ان کے سامراجی ضامن برقرار رکھتے ہیں۔
ضروری نہیں کہ ہم کٹر یا احمقانہ مادیت پرست تجزیہ کی بنیاد پر ہرہجومی تشدد و فساد کے عمل کو ملکیت کے جھگڑے سے ملائیں۔ کم تنخواہ دار، مایوسی کی شکار آبادی اور نیم مذہبی لیڈر اور گروہوں کے منظم نیٹ ورک کی موجودگی میں آگ بھڑکانے کیلئے بہت چنگاریاں ہیں۔ لیکن یہ قابل غور بات ہے کہ جب گرد بیٹھ جاتی ہے تو اکثر اقلیتوں پر ہونے والے ہجومی تشدد و فسادات کی جڑ میں جائیداد یا روپے پیسوں کا جھگڑا ہوتا ہے۔ ان جھگڑوں کو ہجومی فساد کے رنگ میں رنگنے میں ہاتھ ہے ذات پات اور طبقاتی تفریق پرتشکیل دیے ہوئے ساختیاتی نظام کا جو فاسطیاتی سازشی نظریات سے خطرناک انداز میں جڑا ہوا ہے۔
بلاشبہ یہی وجہ ہے کہ اگر مذہب نہیں تو بلوے کے پیچھے کوئی اور بہانہ یا نظریہ مل جائے گا۔ 2010 میں ایک ہجوم نے سیالکوٹ میں دو نوجوانوں کو چوری کے شبے میں سنگسار کردیاتھا۔ لیکن اس حرکت کے پیچھے کوئی مذہبی وجہ نہیں تھا۔ بلاشبہ ہجومی تشدد کے بہت سے معاملات ہیں جن میں مذہبی رنگ نہیں ہے۔ اشرافیہ کا مخصوص تبصرہ لوگوں پر الزام لگا کر عوام میں تعلیم اور شعور کی کمی اور انکی جہالت اور قدامت پسندی کی بات کرتا ہے۔ لبرل حلقہ بھرپور انداز میں اس طرح کے تشدد کو اسلام یا بڑھتی ہوئی مذھبیت کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں چاہے ان میں ربط بہت کم ہو(یا بالکل ناپید ہو)۔ لیکن تشدد کے مسئلے پر مذہب (یاجنونیت) کو ذمہ دار ٹھہرانا پاکستان میں تشدد کے بہت سے دوسرے پہلوؤں سے لاپرواہی برتنا ہے جبکہ اکثر اوقات تشدد کا مذہب سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا؛ نسلیت، قومیت حتی کے سیکولرازم کو بھی تشدد پھیلانے اور اشرافیہ کی حکمرانی کے لئے استعمال کیاجاتاہے۔
مذہب مخالف جنگ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ مذہب میں بہت سی مثبت اور عوام دوست باتیں بھی ہو سکتی ہیں۔ اقبال کا نقطہ ذہن میں رکھنا چاہئیے:
گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ
ہمیں آج جو سوال درپیش ہے وہ مذہب سےجنونیت جوڑنے کا نہیں بلکہ اس بات کا ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ مذہب کو مختلف سماجی گروہ اور طبقات کس طرح استعمال کرتے ہیں۔
مذہب کو بذات خود ایک بنیادی سماجی تضاد قرار دے کر لبرل حلقہ ترقی پذیرسیاسی معیشتی نظام میں پائی جانے والی حکمرانی کی حقیقی، واضح اور حاضر مسائل کی پہلوتہی کرتا ہے۔ اس طرح لبرل حلقہ دوسروں پر انگلی اٹھا کر ہماری توجہ ان فوائد اور ترجیحات سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے جو انہیں اس سیاسی معیشتی نظام سے ملتی ہیں۔ ‘دوسروں’ پر انگلی اٹھا کر، انہیں جنونی، نفرت انگیز شرمناک عوام قرار دیتا ہے، ایسی عوام جو مذہبی انتہاپسندی کے ہاتھوں گمراہی کا شکار ہے۔ اس منطق سے عوام دشمن تشدد کی مختلف اشکال اور وجوہات کو جانچنے کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ ان سب کو مذہبی جنونیت قرار دے دیا جاتا ہے۔
یقیناً رجعتی نظریات کو فروغ دینے والوں کا شکار بننے والے کمزور طبقے کے لوگوں کا مظبوط دفاع ضروری ہے۔ حکمران طبقات پر اقلیتوں کے تحفظ کی ذمہ داری عاید کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن اس معصومانہ امید کے ساتھ نہیں کہ ادارے اور قانون کی حکمرانی ایک ایسے معاشرے میں تبدیلی لائے گی جہاں کا حکمران طبقہ اور ریاست روبہ زوال ہیں۔ حقیقت میں ان غیرعقلی اقدامات اور پاکستان کی منطق اور طاقت کی ٹھوس ساخت کے درمیان تعلق کی نشاندہی کرتے ہوئے ان سے نبرد آزما ہونا ہی فیصلہ کن ہو گا۔ سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک ایسی نئی سیاست تشکیل دی جائے جو ایک قومی وعوامی منصوبہ کے تحت عوامی جمہوری طبقات کو اشرافیہ کے خلاف متحد کرے۔
عوامی جمہوریت قائم کرنے کے لیے سامراجی کلچر پر پروان چڑھنے والی لبرل سوچ سے دامن بچانا پڑے گا۔ وہ لبرل ازم جو سول یا فوجی شکل میں ہو، ابتدا سے پاکستان کو مذہبی جنونی لوگوں سے بھرا ایک جاہل، نفرت انگیز اور شرمناک ملک قراردیتا ہے ۔ عوامی جمہوری منصوبے کو سول یا فوجی شکل میں موجود نسلی اور فرقہ وارانہ رجعت پسند نظریات سے بچنا ہوگا۔ بلاشبہ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے اور یہ جنگ لڑنی ہے کہ یہ سامراجی اور لبرل حلقے اس سماجی ساخت کی جڑوں میں بیٹھیں ہیں جس میں نیم جاگیردارانہ سرمایہ دار مذہبی یا غیرمذہبی فاسطی گروہوں، مافیا اور دوسرے گروپوں کو استعمال کر کے اس سیاسی اور معاشی نظام کو برقرار رکھے ہوئے ہے جس سے انہیں لوٹ مار اور لوگوں پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔ اور یہی لوگ ہیں جو اپنے آپ کو خوبصورت، مہذب، منطقی، اور با وقار کہتے ہیں۔
نعمان جی علیBASICS کمیونٹی نیوز سروس، ٹورنٹو میں ایک منتظم اور لکھاری ہیں اور یونیورسٹی آف ٹورنٹو میں سیاسیات میں پی ایچ ڈی کے امیدوار ہیں۔ ان کے مقالے کا موضوع خیبر پختونخواہ میں کسان جدوجہد اور زرعی تبدیلی ہے۔
[…] جیم علی عوامی فسادات پر لبرل نقطہ نظر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور عمیر جاوید اس غیرمعقولیت پر سوال اٹھاتے […]
[…] اندھا یقین؟ لبرل احساس جرم | (نعمان جیم علی (فوٹوگرافر: اسداللہ […]