دورِفساد : سرپرستانہ سیاست اور تشدد

شمارہ ۶

Photo credit: Asadullah Tahir | Bombay Doors

فوٹوگرافر: اسداللہ طاہر ۔  بمبئی دروازہ

۲۰۰۲ء میں بھارت کی ریاست گجرات میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کاآنکھوں دیکھا حال سنیے:

” شیلش بھائی (جو ریاستِ گجرات کی اسمبلی کا رکن ہے) کسی متبھرے شخص(یعنی غنڈے یا بدمعاش) کو فون ملا کر کہتاکہ دو مسلمان مار دو۔ وہ کہتا کہ ’مارو اور آگے بڑھے چلو‘۔  پھر چار ہندو مارے جاتے اور اس طرح فسادات شروع ہو جاتے۔ شیلش بھائی ان سماج مخالف عناصرسے اچھے تعلقات رکھتا ہے ۔چناؤ میں انہیں استعمال کرتا ہے اور انہیں باقائدہ تنخواہ بھی دیتا ہے۔ وہ ایسے کاموں کے لیے عام طور پر باہر کے لڑکے استعمال کرتا ہے اور اگر یہ پکڑے جائیں تو انہیں رہا کروانے میں مدد کرتاہے۔ وہ کاروباری لوگوں کے ذریعے ایسے لوگوں سے رابطہ کرتا ہے اور انہیں کہتا ہے کہ چار مسلمان مار دو۔ کہتا ہے، ’مختلف ٹائم پر جاؤ اور ہر دفعہ ایک مسلمان کو مار تے جاؤ۔ گولی مار و یا چھرا گھونپ دو‘۔”

سیاست دان اور انکے چیلوں کا یہ نیٹ ورک وسیع پیمانے پر ہونے والے تشدد کے واقعات کو جس انداز میں ترتیب اور فروغ دیتا ہے وہ برِصغیر میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات کا ایک بھیانک اور چونکا دینے والا عنصر ہے ۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا سیاست وہ گھناؤنا کھیل ہے جس میں ہزاروں لوگوں کی لاشیں گرائے بنا اقتدار میں آنا ممکن نہیں؟ لیکن اگر ہرکوئی سیاست دانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو ان کے کہنے پر لوگ اپنے ہمسایوں سے لڑنے مرنے کوکیوں تیار ہو جاتے ہیں؟

عام تاثر یہ ہے کہ بھارت میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی اصل وجہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین مذہبی تناؤ ہے۔ اور جب ہندو قوم پرستوں اور شدت پسند اسلامی تنظیموں کے بیانات کو شہ سرخیاں بنا کر پیش کیا جائے تو اس تاثرکو مزید فوقیت ملتی ہے۔ اگر ہم صرف ان تنظیموں کے پراپاگنڈے اور نظریات پرنظر مرکوز رکھیں تو ہندومسلم فسادات محض تعصب اور باہمی نفرت کا بے ساختہ اظہار دکھائی دیتے ہیں۔

لیکن حقیقت تو یہ ہے کے فرقہ وارانہ فسادات میں مذہبی تفریق کا کوئی خاطر خواہ کردار نہیں۔ بلکہ اس خون ریزی اور قتلِ عام کو پروان چڑھانے میں اصل ہاتھ سرپرستی کے اس مخفی جال یا نیٹ ورک کاہے جس کے ذریعے شہری اور خاص طور پر غریب شہری ریاست تک رسائی حاصل کرپاتے ہیں۔ اسی جال یا نیٹ ورک نے ۲۰۰۲ ء میں گجرات کے ہندو قوم پرستوں کے نفرت آمیز اور معتصبانہ رویے کو قاتلانہ حقیقت بنا دیا۔

گجرات میں ہونے والے فسادات میں دو ہزار سے زیادہ لوگوں کا قتلِ عام ہوا۔ میں فسادات کے تین سال بعد ۲۰۰۶ء میں پرفساد علاقوں میں لوگوں کے ان نیٹ ورک پر تحقیق کر رہا تھا جس کے ذریعے اس پرتشدد واقع کو تحریک میں لایا گیا تھا۔ فساد بھڑکانے کے طور طریقہ پر ایک مقامی فرد کا یہ کہنا ہے:

” وہ مجھے ان جگہوں پر لے گئے جہاں سے ہتھیار خریدے جا سکتے تھے۔ ہم فسادات کے دوران وہاں چھپ کر گئے تھے۔ ان جگہوں پر میونسپل کاؤنسلر، اراکینِ پارلیمنٹ، ایم ایل اے (اراکینِ ریاستی اسمبلی)، اور مذہبی لوگ نظر آتے تھے ۔ اگر میں اپنے اصولوں کے خلاف ان جگہوں پر نہ گیا ہوتا تو ان ساری باتوں کا پتہ بھی نہ چلتا۔ “

اسی طرح کی ایک دوسری داستان سنیے:

“شروع میں وہاں صرف سماج مخالف عناصر اور وی ایچ ایم (وشو ہندو پریشد) کے کارکن موجود تھے۔ سادہ اور کم فہم لڑکے تھے وہاں، قریباََ پچیس یا پچاس لوگ۔ وشو ہندو پریشد کے کارکنان نے انہیں ہتھیا ردیے، پیسے دیے، مسالہ (یعنی تمباکو) کھلایا، شراب پلائی۔ پھر وہ آگے پیچھے چکر لگاتے اور کہتے جاتے کہ ’ وہ لوگ (مسلمان) آئیں گے ہمیں قتل کرنے کے لیے۔ وہ یہ کردیں گے وہ وہ کردیں گے!”

وشوہندو پریشد (وی ایچ پی) یاراشٹریہ سوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)جیسی ہندو قوم پرست تنظیموں کی مقبولیت کی وجہ محض انکی مشترکہ سماجی شناخت کی کشش یا مشترکہ دشمن کا ڈرنہیں ۔ بلکہ ان کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ تنظیمیں بلا رکاوٹ مقامی سرپرستانہ نظام سے منسلک ہیں اور اس طرح ان کے ممبران ریاستی وسائل تک رسائی حاصل کرپاتے ہیں۔ ممبران کو یہ بتایا جاتا ہے کہ تنظیم کے کاموں میں سرگرم رہنے کے عیوض انہیں نوکری ملی گی، کاروبار کے مواقع ملیں گے یا پھر تھانہ کچہری کے کاموں میں سہولت ہو گی۔ مسلمانوں کے علاقوں میں فسادات میں حصہ لینے والے کی غرض سے وشوہندو پریشد میں بھرتی ایک نوجوان کہتا ہے:

———————————————————————————————————————————

یہ رسالہ قارئین کے چندے سے چلتاہے۔ اس کارِ خیر میں آپ بھی حصہ ڈالیں۔

———————————————————————————————————————————

“ہم یہ سوچتے تھے کہ وی ایچ پی میں شامل ہونے سے ہمیں دوسروں لوگوں پر طاقت کا استعمال کرنے کا موقع ملے گا۔ جیسے کہ اگر ہمارا کسی سے لڑائی جھگڑا ہو، مثال کے طور پر اگر کسی استاد سے کوئی مسئلہ ہوتو ہم وی ایچ پی کے کسی بڑے لیڈر سے بات کریں گے اور میری ہمایت میں کئی لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ ‘‘

یہ تنظیمیں اپنے کثیر التعداد ممبران پر قابو رکھنے کے لیے نظریات سے زیادہ طاقت اور پیسے کے دعدوں کا استعمال کرتی ہیں۔ ہندو قوم پرست کارکنان کے جس وسیع عوامی نیٹ ورک کا حوالے میرے مخبرین دیتے ہیں اس کے وجود و دوام میں قومی سطح کی لیڈر شپ، خاص طور پر وی ایچ پی اور بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) کے لیڈران کا کافی کردار ہے جو ریاستی اداروں اور وسائل تک رسائی ممکن بناتے ہیں۔ فسادات کے دور ان یہ کارکنان مقامی سطح پر لیڈرشپ کردار ادا کر کے اپنا آپ منواتے ہیں تاکہ بعد میں انہیں سیاسی عہدے یاسرکاری نوکری نصیب ہو۔

ان مشاہدات سے اندازہ ہوتا ہے کہ تشدد کو فروغ دینے یااسے روکنے کی صلاحیت کے لیے ریاستی وسائل تک رسائی دینے کی صلاحیت ہونی چاہیے ۔ جب سیاسی سرپرست ریاستی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کی طاقت رکھتے ہوں توپسماندہ شہریوں کے پاس یہ اختیار کہاں کہ وہ اپنا حق جتا کر ریاستی وسائل تک رسائی پائیں۔ ان محروم شہریوں کو حق کی بناپر زمین کی رسائی، سرکاری نوکری، یا کاروبار کے لیے لائسنس کیسے مل سکتا ہے۔ پس رسائی کے لیے انہیں سیاسی سرپرستوں سے بات چیت اور لین دین کرنا پڑتا ہے۔ جب غریب شہری ریاستی اداروں کے در پر جاتے بھی ہیں تو ان تجربات سے مایوسی بڑھتی ہے، اپنا حق مانگنے کا خیال بیوقوفانہ لگتا ہے ۔ بلکہ طاقت ور طبقہ سے تعلقات بڑھا کر سرپرستی کی سیاست میں شامل ہونے کا رجحان مزید بڑھ جاتا ہے۔

سیاستی سرپرستوں کے چنگل میں پھنسی یہ غریب عوام ان کی سازشوں اور ہیراپھیری سے محفوظ نہیں۔ سرپرستانہ نیٹ ورک سے ملنے والے فوائدکو مدِنظر رکھتے ہوئے ہر طرح کے لوگ سیاستدانوں اور سرکاری افسران سے تعلقات بڑھانے میں جت جاتے ہیں۔ پارٹی ممبران اورعلاقے کے طاقتور لوگوں کے علاوہ جرائم پیشہ لوگ، ریاستی اہلکار، کاروباری لوگ اور پالیس آفیسر ان سیاسی تعلقات کی بنیاد پر”دھندہ” کرتے ہیں اور ریاستی وسائل پر ترجیحی بنیادوں پر رسائی پاکر اپنا کام چلاتے ہیں۔

سرپرستی حاصل کرنے کے عزائم تشدد کو فروغ دینے کا سبب بنتے ہیں۔ سیاسی لوگوں میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو متحرک کرنا، ان میں ہتھیار تقسیم کرنااور پولیس کی دخل اندازی روکنی کی صلاحیت ہونا اس بات سے جڑی ہے کہ اہرامِ سرپرستی کے نچلے درجات پر موجود لوگ اپنے مفادات کے لیے کس حد تک سرپرستوں کے خوشنودی کے لیے کام کرنے کو تیار ہیں۔

سیاسی لیڈرشپ کے سامنے اپنے آپ کو سرخ رو نا کر پانے کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر سیاست دانوں سے اچھے تعلقات ہوں تو پولیس اہلکاروں کو اچھا خاصہ بھتہ ملتا رہتا ہے۔ مگر سیاست دان ناراض ہو جائیں ، مثلاََ اگر کوئی پولیس والا تشدد کے واقعات روکنے کی کوشش کرے، تو سزا کے طور پر اس کا تبادلہ کر دیا جاتا ہے۔ چونکہ اچھی یعنی منافع بخش تعیناتی کے لیے پولیس افسران ٹھیک ٹھاک رشوت دیتے ہیں اس لیے تبادلہ سے شدید مالی نقصان ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ سیاسی سرپرستوں پراس مالی انحصار کی وجہ سے پولیس افسران نسلی و مذہبی تشدد کو روکنے کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کرتے۔ پولیس پر سیاست دانوں کا کنٹرول کی وجہ سے انفرادی افسران کا قانوں کی پاسداری کا کام مشکل ہو جاتا ہے۔

مقامی غنڈے فرقہ وارانہ فسادات میں اہم حصہ دار ہیں اور یہ بھی سرپرستانہ نیٹ ورک کا حصہ ہوتے ہیں۔ سیاسی لیڈرشپ جرائم پیشہ ذرائع آمدن کے علاوہ اپنی حفاظت اور خود مختار پولیس کی غیر موجودگی میں مقامی سطح پر اپنا راج قائم کرنے لیے ان غنڈوں کا استعمال کرتی ہے۔ مقامی راج اور تشدد کو فروغ دینے اور قابو پانی کی صلاحیت کا آپس میں گہرہ تعلق ہے۔ جب آلاتِ تشدد پر ریاست کا اجارہ داری نہ ہو تو عوام اپنے تحفظ کے لیے انہی مقامی سرپرستوں سے رجوع کرتی ہے۔

مقامی غنڈوں کو بھی سیاسی سرپرستی سے فائدہ ملتا ہے۔ بھتہ خوری، جوا بازی، اور غیر قانونی تجارت سے کمائی کرنے والے ان لوگوں کو پولیس سے بچنے کے لیے سیاسی ڈھال کی ضرورت ہوتی ہے۔ چونکہ سیاست دانوں بیوروکریسی پر حاوی ہیں، خاص طور پر پولیس پر، اس لیے سیاست دانوں اور تشدد کے تاجروں کل الحاق باہمی منافع بخش ہوتا ہے۔

تشدد کے واقعات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے سے مقامی غنڈے ایسے سرپرستوں کو اپنا مشکور بنا لیتے ہیں جو فسادات کے بعد ان کا دھندہ محفوظ رکھنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ ایک مخبر نے مجھے بتایا: ’’فسادات کے دوران یہ (غنڈے) لیڈر بن جاتے ہیں۔ اگر وہ اس میں حصہ نہ لیں تو ان کی عزت کا مسئلہ بن جائے۔ عام دور میں یہ لوگ داداگیری کرتے ہیں۔ تو اگر فسادات کے دوران یہ لیڈر نہ بنیں تو عام دنوں میں ان کی داداگیری پر اثر پڑے گا۔ [اگر وہ لیڈر بنے تو] لوگ کہیں گے کہ تم نے ہماری مدد کی تھی تو اب تم اپنی داداگیری کرتے رہو۔‘‘ اپنے غیر قانونی کرتوتوں کو بچانے کی غرض سے یہ غنڈے مقامی فسادات میں لیڈر بن کر سیاسی سرپرستوں کے ساتھ تعلقات مضبوط کرتے ہیں۔

فرقہ وارانہ فسادات کو بھڑکانے اور ترتیب دینے کی صلاحیت اور مفادات ان سیاسی کرداروں کے اس صلاحیت سے جڑے ہیں کہ وہ ریاستی وسائل تک رسائی کس حد تک ممکن بنا سکتے ہیں۔ فسادات کے دوران مقامی غنڈوں، محلے کے لیڈروں اور پولیس افسروں جیسے مختلف فسادیوں اور سیاستدانوں کے درمیان جو تعاون نظر آتا ہے وہ روزمرہ کے اس سرپرستانہ نظام کی ایک گھناؤنی جھلک ہے جس کے ذریعے عوام ریاستی اداروں سے نبر آزما ہوتے ہیں۔ یہ سرپرستانہ سیاست ہے ، نہ کہ مذہبی تفریق، جو برِصغیرمیں فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دے رہی ہے۔ اس تشدد کے خاتمے لیے پبلک سرورس کے ارسال کے نظام میں بہتری ضروری ہے تاکہ غریب عوام کو سیاسی سرپرستوں کے چنگل سے آزادکروایا جا سکے۔

وارڈ بیرنشاٹ سیاسیات کے ماہر ہیں اور آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی ۲۰۱۱ میں شائع کردہ کتاب رائیٹ پالیٹکس: ہندومسلم وائلنس اینڈ داانڈین سٹیٹ (فسادی سیاست: ہندو مسلم فسادات اور بھارتی ریاست) کے مصنف ہیں۔

Tags:

2 Responses to

دورِفساد : سرپرستانہ سیاست اور تشدد

  1. […] تاریخ بیان کی ہے۔ وارڈ بیرینشاٹ برصغیر میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی بنیادی وجوہات میں مذہبی نفرت کے برعکس ریاست تک […]

  2. […] موضوع پر وارڈ بیرینشوٹ کا مضمون   دور فساد  […]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *