ترجمہ: اسد فاطمی
(سِنان انطون، دی کورپس واشر (نیو ہیون: مطبع ییل یونیورسٹی، 2013ء
اپنے ناول کے پیش لفظ میں، سِنان انطون قاری کو ایک دلچسپ مشاہدہ پیش کرتے ہیں: “جب ایک مترجم مصنف کے وجود اور جسم میں بسیرا کر لے تو اس کو ایسے منفرد استحقاق میسر ہوتے ہیں، جن کو عام طور پر مسترد کر دیا جاتا ہے یا ان پر ناک بھوں چڑھائی جاتی ہے-” یہاں انطون کی مراد اس امر سے ہے کہ وہ کتاب کے عربی اور انگریزی ہر دو زبانوں میں مصنف ہیں، اور انگریزی سے عربی میں مترجم بھی ہیں۔ ان کے بیان سے کئی امکانات کا پتہ چلتا ہے؛ انطون نے جس “منفرد استحقاق” کا ذکر کیا ہے اس پر تبصرے کے لیے ایک درسی کانفرنس کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔ بہرکیف اس انشائی تبصرے کے آغازیے کے طور پر میں انطون کے مشاہدے میں جسم اور ترجمے کے تصورات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا، کیونکہ ان تصورات پر انطون کا ماہرانہ تجزیہ ہی ہے جو اس تحریری کاوش کو مسحور کر لینے والی تباہ کن شدت بخشتا ہے۔
دی کورپس واشر (وحدها شجرة) اپنے جوہر میں ایک معاشرے کی تباہی کی داستان ہے ۔ یہ اس معاشرے کے تعمیراتی سراپے سے لے کر ثقافتی اداروں تک، اس کی گروہی زندگی سے لے کر ایک مکمل سیاسی پیکر تک اس کے تعلقات اور رسم و راہ، غرض اس معاشرے سے تعلق رکھنے کے ہر پہلو کا احساس سے لبریز اور مادی نچوڑ ہے۔ یہ ایک شخص جواد کی کہانی ہے، جو کہ میّت نہلانے والوں کے خاندان میں پیدا ہوا اور حالات نے اسے بھی با دل نخواستہ یہ پیشہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے، جس کی زندگی عراق کی تاریخ کے ہاتھوں ہر ممکن حد تک چکنا چور ہو چکی ہے۔ یہ کتاب عراق اور عراقیوں کو چلتے پھرتے میّتوں میں بدل دینے والی خونریزی کے اسباب کی گہری جڑوں کی نشاندہی کرتی ہوئی، ایک اعتبار سے حالیہ زمانے کی ایک سفّاکانہ گواہی ہے: امریکہ کی المناک اور احمقانہ چڑھائی اور بہ تدریج عراق پر قبضہ، قبضے کے دوران بے مہر فرقہ وارانہ فسادات کا پھوٹ پڑنا اور صدام کے قہرمانہ عہد کے دوران زندگی کے جوکھم کی گواہی۔
ان، اور ان جیسی دوسری اموات کی کہانی ہم پر جواد کے شعور کے توسط سے کھلتی ہے۔ ہماری ملاقات بوالعجب قسم کے حیات آور انداز میں پہلے موت سے ہوتی ہے۔ جواد ہمیں غسل میت کی رسم سے اپنے تعارف کا بتاتا ہے جو اسے بغداد کے شیعوں کے ایک مغیسل میں اپنے باپ اور باپ کے معاون حمودی کے ساتھ کام کرنے سے ہوا۔ میّت کےاوپر کام، مغیسل کے در و دیوار کے نقوش، تدفین سے قبل کی رسوم کے ساتھ جواد کے باپ اور حمودی کے کامل توکل کا ذکر کرتے ہوئے بیان کی نفیس پچی کاری نے اس طرز زندگی کا نہایت طاقتور دستاویزی بیانیہ پیش کیا گیا ہےجس کا وجود معدوم ہو رہا ہے۔ کیونکہ مغیسل، بعد ازاں عراق میں پھیلتے ہوئے تشدد کا فشار پیما بن جاتا ہے، قبضے کے دوران اور بعد میں تشدد کی لہروں کے ساتھ آنے والے لاشوں کے پشتے آہستہ آہستہ ناقابل تصور انداز میں “موت کی فصل کی ہفتہ وار کٹائی” میں بدل کر ناپاک ہوتے جاتے ہیں (131)۔
جواد اپنے باپ کی خواہش کے برعکس اپنے خاندانی پیشے کو جاری نہ رکھنے کا فیصلہ کرتا ہے تاکہ وہ بغداد کی فائن آرٹ اکیڈمی میں فنون لطیفہ کے ساتھ اپنے شغف کی آبیاری کر سکے۔ یوں ایران عراق جنگ کے فورا بعد ہی 1980ء میں وہ اکادمی میں داخلہ لے لیتا ہے۔ یہاں وہ اپنا زیادہ وقت بورخیس اور لاطینی ادب کے بارے میں بحث و مباحثہ میں صرف کرتا ہے اور جیاکومتی میں اس کی دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔ سالوں بعد، جب 2003 میں بغداد پر قبضہ ہو گیا، جواد کو پتہ چلتا ہے کہ اس کی اکادمی پر امریکیوں نے بم گرائے ہیں اور وہ یہ منظر خود دیکھنے کے لیے دوڑ پڑتا ہے۔ ایک نہایت ہی چبھتی ہوئی ساعت میں وہ اپنی اکادمی کی لائبریری کو گھورتا ہے جو کہ ملبے میں بدل چکی ہے:
مجھے وہ ایک ایک لمحہ یاد ہے جب میں یہاں آرٹ کی فرہنگسراؤں اور لغات کی ورق گردانیاں کرتا تھا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں مجھے ڈیگاس، رینوئے، ریمبراں، کاندینسکی، میرو، مودیگلیانی اور شاگال، ڈی کوننگ، بیکن، مونے اور پکاسو کے فن پاروں نے اپنے جادو میں جکڑا تھا۔ اسی جگہ میں رودین اور جیاکومتی، اپنے محبوب جیاکومتی کے بنائے ہوئے مجسموں کو گھنٹوں تک ٹکٹکی باندھے دیکھا کرتا تھا (73)۔
جواد جونہی اگلی عمارت کی طرف بڑھتا ہےتو اس کی نظر “پکاسو کے چہرے پر پڑتی ہے جو شعبہ پلاسٹک آرٹ کی دائیں دیوار پر پھیلا ہوا ہوتا تھا۔ اس کے چہرے مہرے پر اس دن پہلے سے زیادہ وجاہت تھی” (73)۔ ان مناظر میں یہ کتاب امریکی حملے کے ہاتھوں استشراقی جہالت کے ایک بھونڈے عمل پر یکطرفہ لیکن مطلق فیصلہ سناتی نظر آتی ہے، یہ ایک ایسا عمل تھا جس میں ایک ستم ظریفی کے ساتھ قصداُ غلط ترجمانی سے کام لیا گیا تھا، اور وہ بھی ان قدروں کے نام پر کہ مغرب جن کی نگہبانی کا دعویدار ہے۔ جواد کی روداد عراق کو ناقابل فہم اور انتہائی بیگانہ حریف کے طور پر بیان کرنے کی کوششوں کے خلاف ایک آواز ہے۔ امریکی بمباری کے نتیجے میں اکادمی آف آرٹ کی تباہی سے تو “آفاقی” قدروں کی آماجگہ تباہ ہوئی اور ساتھ ہی مغرب کا اپنا ورثہ بھی ۔ پکاسو کے کرخت چہرے کا حوالہ اس کے شاہکار “گویرنیکا” میں چھپے جنگ کی بربریت اور بیہودگی کے بارے میں پیغام کی یاد تازہ کرتا ہے۔
———————————————————————————————————————————
یہ رسالہ قارئین کے چندے سے چلتاہے۔ اس کارِ خیر میں آپ بھی حصہ ڈالیں۔
———————————————————————————————————————————
ایک اور بیانی منظر میں انطون ہمیں دکھاتے ہیں کہ حملہ آور اور مغضوب کے بیچ حائل خلیج ناقابل عبورہوتی ہے۔ ایک لاش کو گاڑی میں نجف لے جاتے ہوئے جواد اور اس کے ساتھیوں کو ایک امریکی پلاٹون روکتی ہے اور جب تک سپاہی گاڑی کا معائنہ کرتے ہیں وہ ان سب کو ہاتھ سروں کے پیچھے باندھ گٹھنے ٹیک کر زمین پر بیتھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ جب جواد حمودی کو امریکیوں کی کہی گئی انگریزی باتوں کا ترجمہ کرکے بتاتا ہے تو ایک امریکی سپاہی چلا کر اسے گالی دے کر کہتا ہے کہ “بکواس بند کرو!” ۔ یہ لمحہ نوآبادیاتی نظام کے ایک کلیدی سچ کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ یہ کہ اگرچہ اپنے ساتھی انسانوں کو حقوق کے نام پر آزادی دلانے کے لیے آفاقیت پسندانہ جذبات کو نوآبادیاتی نظام کا جواز بنایا جاتا ہے، مگر سانجھی انسانیت کی منطق کبھی بھی نوآبادیاتی ٹاکرے میں پیش آنے والے تفاوت اور تضادات پر حاوی نہیں ہو پاتی۔ جیسا کہ حمودی بیان کرتا ہے، “یہ نجات دہندے تو ہماری توہین کرنا چاہتے ہیں۔” (68) امریکیوں کا ان لوگوں سے خوف جن کو وہ آزادی دلانے آئے ہیں، گاندھی کے نوآبادیاتی مزاحمت کے اساسی نگاشتے ہند سوراج کے اس اقتباس کی ایک گونج ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان کے نوآبادکار حکمران انگریز ان کھیتوں میں سونے سے ڈرتے ہیں جہاں ان میں کام کرنے والے ہندوستانی کسان بے خوف و خطر سوتے ہیں (44)۔
آرٹسٹ بننے کی لگن میں ناکامی اور عراق کی بدلتی ہوئی صورتحال جواد کو پھر سے مغیسل کا حصہ بننے پر مجبور کر دیتی ہے۔ جوں جوں عراق ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرتا جاتا ہےجواد کی زندگی پر موت کی گرفت مضبوط تر ہوتی جا تی ہے اور سب ذاتی اور پیشہ ورانہ آدرش مٹی میں مل جاتے ہیں۔ باپ مر جاتا ہے۔ حمودی بھی غائب ہو جاتا ہے۔ اور اس کی محبت بدستور ناآسودہ رہتی ہے۔ عراق سے بیزار ہو کر جواد سرحد پار کر کے اردن جانے کی کوشش کرتا ہے لیکن ایسا کر نہیں پاتا۔ کتاب کسی بھی امید کے امکان یا اداسی کے کسی ناقابل اعتبار بوجھ کے بغیر ختم ہو جاتی ہے۔ اور جواد کا مغیسل میں ہونا زندگی اور موت کے اتصال کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ انطون ایک معروف شاعر، مترجم اور تعلیمی ماہر ہیں۔ دی کورپس واشر کی نثر اور ہیئت میں شاعری جیسی جامعیت ہے۔ ادبی، فنی اور مذہبی حوالوں کا استعمال عدیم المثال ہے۔ انطون ایک مخصوص لہجہ اور اصطلاح میں مختلف ادبی روایات اور ادیبوں کو خراج تحسین بھی پیش کرتے ہیں اور ان سے گفتگو بھی کرتے ہیں۔ انطون ناول کے طویل ابواب میں مختصر یادوں اور خوابوں کو جس مؤثر تکنیک کے ساتھ ٹکڑوں میں پیش کرتے ہیں اس سے بورخیس اور بعد میں آنے والے نجیب محفوظ کی اچھوتی اور سمیٹی ہوئی تحریروں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ جذباتیت سے عاری ہونے کی بنا پر اور عراق کے نوآبادیاتی آقاؤں کے ساتھ ساتھ عراقی لوگوں کی تنقید سے بھی نہ کترانے کی وجہ سے دی کورپس واشر اچیبے کے کلاسیکی فن پارے تھنگز فال اپارٹ کا ہم پلہ ہے۔
روایتی دانش یہ بتاتی ہے کہ دورحاضر کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ماضی کی سودھ بودھ مددگار ہوتی ہے۔ جیسا کہ انطون کے ناول میں بیان کیا گیا ہے، دورحاضر کی سمجھ دنیا کے نوآبادیاتی ماضی کی پیچیدگیوں کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے۔ نوآبادیاتی نظام کی بربادی کے محیط کو اس عمل سے سمجھا جا سکتا ہے جس کو دی کورپس واشر کا کردار ایک معاشرے کی “معدومی” کا نام دیتا ہے (85)۔ تباہ ہونے والی زندگیوں سے وابستہ نوآبادکاروں کی اخلاقی ذمہ داری اور نوآبادیاتی نظام کے تشدد کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے، نوآبادیاتی ماضی اور آج کے عراق کے گرد معذرتوں اور فراموشیوں کا ایک مہیب صنعتی ڈھانچہ کھڑا کر دیا گیا ہے۔ عراق پر حملے سے لے کر اب تک کی دہائی میں، یہ ماورائے حقیقی نسیان اور اخلاقی ذمہ داری سے دستبرداری کا یہ عمل لامتناہی طور پر امریکی (اور ایک حد تک، بین الاقوامی) میڈیا، سیاست اور پالیسی مباحثوں میں دوہرایا جاتا رہا ہے۔ ان مباحثوں کا محرک امریکیوں کے مفادات کے ساتھ ساتھ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں رہا کہ جنگ پر جانے والے امریکیوں کی دقت، امریکی سپاہیوں کی سرفروشی، نیویارک ٹائمز اور دوسروں کے جنگ کو ہوا دینے والے جھوٹ کی صفائی میں می کلپس (میں اعتراف جرم کرتا ہوں) کے نحیف اعترافی بیان، اور ساتھی عراقی انسانوں کی نیک نیتی سے مدد کے تاثر کا اعادہ کیا جاتا رہے۔ جیسا کہ ایک عظیم فن پارے کی شان ہوتی ہے، انطون کا ناول سچائی کو طاقت اظہار دیتا ہے اور لوگوں پر بن بلائے نازل ہو جانے والے ہولناک مصائب کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے عراقیوں کو بات کا محور بنانے والا رد بیانیہ فراہم کرتا ہے۔ عظیم افسانوی ادب کی تشویشناک اور خاموش قوت کے ذریعے دی کورپس واشر ہمارے اجتماعی انسانی شعور سے لاتعداد عراقیوں کے بے غسل و کفن لاشوں کو دھو ڈالنے کے دعووں کو مسترد کرتا ہے۔
روہیت چوپڑا سانتا کلارا یونیورسٹی میں ابلاغیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔
اسد فاطمی ایک سماجی کارکن ہیں اور نوجوانوں کے ذولسانی ماہنامے ” “لالٹین” کے اردو حصہ کے مدیر بھی ہیں۔ نثراور شعر لکھنے کے علاوہ ترجمے اور مطالعے میں اردو، ہندی، فارسی، انگریزی اور پنجابی [شاہمکھی+گرمکھی] میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
مندرجہ حوالہ
ایم۔ کے۔ گاندھی۔ ‘ہند سوراج’ اور دیگر تحاریر، ادارت؛ انتھونی جے۔ پاریل۔ سالگردی اشاعت۔
کیمبرج برطانیہ: مطبع کیمبرج یونیورسٹی، 2009۔
[…] دا کارپس واشر پر تبصرہ کرتے ہوئے روہیت چوپڑا مصنف کے انکار کی خوبصورتی کا ذکر کرتے ہیں جو امریکی قبضے کی امریکی داستانوں سے […]