خدائی گورکن: فرقہ پرستی کی سیاست

۵ شمارہ

میتھیو گرین | ترجمہ: انعم ناز

Makeen Shah with his son-800px
فوٹوگرافر: عائشہ ملک | مکین شاہ اپنے بیٹے کے ساتھ

پاکستانی شہر کوئٹہ کے ُامّت پبلک سکول میں پڑھنے والے 600 طلباء کی حفاظت کے لیے سکول کی عمارت کے باہر لوہے کا ایک دروازہ نصب ہے۔ یہاں کے نو عمر طلباء اور طالبات نہایت پر اعتماد ہیں اور ان کی تربیت کے لیے مختص اساتذہ مخلص اور محنتی ہیں۔ اسکول کا ماحول خوشگوار ہے۔ ایک کلاس روم کی دیوار پر پانی کے قدرتی چکرکو وضع کرتی ایک تصورلگی ہے اور ایک پوسٹر پر لکھا ہے کہ “زمین پھولوں میں ہنستی ہے”۔

پچھلے سال کی گرمیوں کی ایک دوپہر اسکول کی طالبات دو دو کی ٹولیوں میں سروں پر سفید سکارف پہنے، جس سے ان کی چہروں کی گولائی مزید واضع ہو جاتی ہے، اپنی میزوں پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان کی استانی فروا نے کالے رنگ کا سکارف پہنا ہوا اور جس کی آنکھوں میں شفقت کی چمک تھی۔ استانی کا نرم لہجے طالبات کی حوصلہ افزائی کر کے ان کی جھجک کم کرنے میں اس حد تک کامیاب ہوا کہ انہوں نے رفتہ رفتہ کلاس میں بات بات چیت میں حصّہ لینا شروع کیا۔

رفتہ رفتہ ان کی آوازیں بلند ہوتی گئیں پر شور میں اضافے کے باوجود اس بات کا تعین کیا جا سکتا تھا کہ گفتگو چار پہلووں پر مرکوز تھی: والدین کے ساتھ تعلقات، پیشے کا انتخاب، یونیورسٹی میں کامیابی کے امکانات اور قتل ہو جانے کے خطرات۔

“ہمارے خاندان میں سب ہی خوفزدہ ہیں” 15 سالہ آمنہ نے کہا۔

یہ اگست 2012 کا ذکر ہے۔  اسکول کے گیٹ کے باہر مرّی آباد کی، جو کوئٹہ شہر کی مغربی کنارے پر ہزارہ برادری کا اینکلیو ہے،  خوابیدہ اور صاف ستھری گلیاں موجود ہیں۔ ہزارہ قوم کے آباواجداد انیسویں صدی میں افغانستان سے ہجرت کر کے آئے تھے، اور آج یہ کوئٹہ شہر کی بیس لاکھ نفوس کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ ہیں۔ اس کمیونٹی کے ارکان اپنے ایشیائی خدوخال کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ لیکن یہ صرف ایک قومیتی اقلیت ہی نہیں۔ ہزارہ پاکستان کی اہلِ تشیع مسلمان ہیں۔ اور اسی وجہ سے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ہر روز پاکستان کے مختلف علاقوں میں مختلف وجوہات کی بنا پر مختلف گروہ ایک دوسرے پر فائرنگ اور بم دھماکوں کے ساتھ حملے کرتے ہیں۔ جن حملوں میں جانی نقصان زیادہ ہو جب ان کی خبر چند گھنٹوں کے لیے شہ سرخیاں بن کر میڈیا پر چلتی ہیں تو لوگ اس کی خوب مزمت کرتے ہیں لیکن تھوڑی ہی دیر بعد زخمیوں اور سوگ منانے والوں کے علاوہ باقی سب لوگ بھول بھال کر اپنی زندگیوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ تشدد کے پہ در پہ واقعات پریشان کن تو ہیں لیکن غم و غصہ کے اس مختصر اظہار کے پیچھے ایک اور ایجنڈہ بھی ہے۔ اور وہ ہے کہ اس بات کی پیشن گوئیاں کی جا سکیں کہ پاکستان کس سمت جا رہا ہے ۔ البتہ شیعہ برادری پر بڑھتے ہوئے ظلم و ستم کی منظم مہم مستقبل کے اس دھندلےپن کو دور کر کے حالات کی سمت کی صاف نشاندہی کر رہی ہے۔

غیر انسانی انداز میں کیے جانے والی قتل و غارت اب بہت عام ہو گئی ہے۔ مسلح افراد بسوں کو روکتے ہیں، شیعہ مسافروں کو باہر نکال کر انہیں گولی مار دیتے ہیں۔ نوعمر خودکش بمبار تیار کیے جاتے ہیں اور پھر ان کو شیعہ اکثریتی علاقوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ شیعہ بنکاروں، اساتذہ یا ڈاکٹروں کو کام سے واپسی پر موٹر سائیکل سوار نا معلوم افراد قتل کر جاتے ہیں۔ گزشتہ چند دہائیوں سے شیعہ برادری پر ہونے والے حملوں میں ان کو اس طرح سے نشانہ کبھی نہیں بنایا گیا تھا۔

اسلام آباد میں ایک صحافی کے طور پر رہتے ہوئے مجھے اس مسئلے کی اہمیت جاننے میں تھوڑی دیر لگی۔ یہ اس قسم کی خبر نہیں تھی جو عام طور پر پیش کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر مجھے عسکریت پسند پاکستانی طالبان جو کہ افغان سرحد پر تھے ان کے بارے میں لکھنا زیادہ آسان لگتا تھا۔ میرے پاس کوئی طریقہ نہیں تھا کہ میں ان لوگوں سے مل سکوں ان سے بات کر سکوں اس لئے یہ لکھنا آسان تھا کہ وہ پاکستانی ریاست کہ ساتھ جنگ پر تھے، وہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کو مارنے میں ماہر تھے اور انہوں نے مغرب پر کئی دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کی۔

پھر مجھے شیعہ برادری پر حملوں کا مزید پتہ چلنا شروع ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ کیا کچھ داؤ پر تھا۔ مجرم  پاکستان کے دہاتوں، قصبوں اور شہروں میں قانون کی کھلے عام خلاف ورزی کر رہے تھے۔ انہوں نے جو خوف کی فضاء قائم کی وہ تھوڑے حصے میں سہی لیکن اس کی شدت نے پورے ملک کو نفسیاتی گھٹن میں گھیر لیا۔ کھلے عام تعصب نے شیعہ برادری کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیں۔ برداشت کے اصولوں پر بنایا جانے والا پاکستان  ہر نئے قتل کے ساتھ اپنی ہم آہنگی کھوتا گیا۔ مسلح افراد قومی کردار کو اپنے نفرت سے بھرے ہوئے تصور جیسا کرنے میں مشغول ہیں۔ لیکن کیا وہ کامیاب ہوں گے؟

روئٹرز کے رپورٹر کی حثیت سے میں نے جوابات کی تلاش کے لیے پاکستان بھر میں سفر کیا۔ بھولے بسرے بلوچستان کے شہر کوئٹہ سے میں نے سفر شروع کیا پھر ساحلی شہرکراچی کا دورہ کیا اور پھر آخر میں جنوبی پنجاب کے میدانی علاقے میں گیا۔

جلد ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ تشدد میں مذہب کا صرف نام استعمال کیا جاتا ہے، اصل میں یہ سب صرف طاقت حاصل کرنے کے لیے ہے۔ پاکستانی فوج ملک کی تخلیق سے ہی ایک اہم فیصلہ ساز ادارہ ہے جس نے افغانستان اور کشمیر میں اپنے اثرورسوخ کو بڑھانے کے لیے ان عسکری گروپوں کو مضبوط بنایا۔ تاہم مختلف اوقات میں مختلف مقاصد اور مخصوص طریقوں کے ذریعے ایران، امریکہ اور سعودی عرب نے بھی کچھ حد تک یہاں عسکریت پسندی کو بڑھانے میں کردار ادا کیا۔ ایک شدت پسند یہ سمجھتا ہے کہ وہ جس قدر انتہا پسندی پھیلائے گا اس سے اسے حوصلہ افزائی ملے گی اور اتنا اسکا خوف پھیلے گا۔ ان کے خیال میں قتل و غارت کرنے کے بہت سے فائدے ہیں۔

جتنا زیادہ میں نے سفر کیا اتنا ہی مجھے احساس ہوا کی شدت پسندوں کا پاکستان پر زیادہ اثر اس لیے نہیں ہے کیونکہ وہ بہت طاقتور ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاست کمزور ہے۔  پاکستان کی فوج، حکومتی اداروں اور سیاسی جماعتوں کا عسکریت پسندی کی طرف ابہام اسکے سکیورٹی سٹیٹ ہونے کی وجہ سے اس کا جہاد سے تعلق ہے۔ بالائی درجوں کے سیاسی اور فوجی عہدے داروں کو شاید ابھی تک یہ احساس نہیں ہوا کہ اس سے محض پاکستان کا مستقبل ہی نہیں بلکہ اسکی روح داؤ پر ہے۔

زیادہ تر سیاستدان عہدہ جیتنا ہی سب کچھ سمجھتے ہیں۔ لیکن عبدالخلیق ہزارہ کا الگ خیال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جتنے دن وہ زندہ رہتے ہیں یہ ان کی جیت ہے۔ کوئٹہ کے ایک نمایاں سیاست دان ہونے کی وجہ سے خلیق کی جان کو خطرہ ہے۔ ان کے پیش رو، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین حسین علی یوسفی کو 26 جنوری 2009 کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے دفتر میں مقتول کا لگا پوسٹر اس خطرے کو واضح کرتا ہے۔ ہزارہ برادری کے لیے خلیق ایک اہم کردار کے طور پر ابھرا۔ اس بات پہ کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ عسکریت پسندوں کی ہٹ لسٹ میں سب سے اوپر خلیق ہی ہو گا۔

یہ گولیاں چلانے والے عسکریت پسند لشکرِ جھنگوی کے ارکان ہیں جو پاکستان کو شیعہ برادری سے چھٹکارا دلانے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ لشکرِ جھنگوی 1996 میں جنوبی پنجاب میں قائم کی گئی تھی جو کہ ایک زرخیز علاقہ ہے اور جہاں کی آبادی اٹھارہ ملین ہے۔ یہ پاکستانی سکیورٹی فورسز کی طرف سے دیے جانے والے جہادی ماحول اور خلیجی ریاستوں کی طرف سے ملنے والے پیسے کی وجہ سے بہت جلد بڑی ہوئی اور یس کے کارکن پورے ملک میں پھیل گئے۔ اس گروپ نے شیعہ برادری پر ہونے والے حملوں خاص کر کوئٹہ کے حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ میرے بلوچستان کے دورے سے کچھ ماہ قبل لشکرِ جھنگوی کی طرف سے ایک خط تقسیم کیا گیا جس میں اہلِ تشیع کو واجب القتل قرار دیا گیا تھا۔ ” پاکستان کا مطلب پاک زمین ہے، ہمارا مقصد اس ناپاک فرقے اور اس کے لوگوں شیعہ اور ہزارہ کو پاکستان کی ہر گلی ہر گاؤں سے ختم کرنا ہے۔ ہم پاکستان کو انکا قبرستان بنا دیں گے۔ ان کے گھروں کو بم اور خودکش دھماکوں سے تباہ کر دیا جاۓ گا۔ ہم تب ہی سکھ کا سانس لیں گے جب ہم حقیقی اسلام کا جھنڈا اس سر زمین پر لہرایں گے۔

کوئٹہ میں یہ گروپ اس قدر بے باک ہو گیا تھا کہ ان کے خیال میں ان کے مسلح افراد کو جیسے قتل کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہو گیا ہو۔ خلیق نے بیان کیا کہ کیسے مسلح افراد موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر شہر سے گزرنے والے یا پھر بس سٹاپ پر انتظار کرنے والے ہزارہ برادری پر گولیاں برساتے اور پھر پولیس یا ایف سی جس پر بلوچستان کی سکیورٹی کی ذمہ داری ہے ان کی نظروں میں آئے بغیر غائب ہو جاتے۔ کچھ حملے ایف سی کی چیک پوسٹوں کے قریب ہوئے اور حملہ آوروں نے چہرے بھی نہیں ڈھانپے ہوئے تھے۔ جب میں نے کوئٹہ کا دورہ کیا تب تک وہاں انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق 2012ء کے شروع سے قریباَ سو ہزارہ برادری کے افراد قتل ہو چکے تھے۔ اگست کی صبح جب میں وہاں پہنچا اس دن بھی وہاں مسلح افراد نے ایک ٹیکسی پر فائرنگ کر کہ تین شیعہ ہزارہ کو موقع پر ہی جاں بحق کر دیا، مگر کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔

خلیق نے ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے دفتر میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ” اگر حکومت ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کر رہی تو اس کا کیا مطلب ہے؟ اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ حکومت اس خطے میں مذہبی انتہا پسندی چاہتی ہے”

ہزارہ برادری کو یہ شک تھا کہ سکیورٹی فورسز لشکرِ جھنگوی کو ان کی کمیونٹی پر یہ سب کرنے کی چھوٹ دیتی ہیں تاکہ ان کی آڑ میں بلوچستان میں فوج کی سرگرمیوں کو چھپایا جا سکے۔ 2001ء میں امریکہ کی طرف سے جنگ شروع کرنے کے بعد یہ صوبہ افغان طالبان کے لیے جنت ثابت ہوا تھا۔ افغان اور امریکن حکام کو یہ یقین تھا کہ پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسیاں ان کا کوئٹہ میں ساتھ دیتی رہیں گی۔ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے لیے شہر میں ہزارہ مخالف تشدد اس بات سے دہان ہٹانے کے لیے مددگار تھا۔

سکیورٹی فورسز کا لشکرِ جھنگوی کے لیے کوئی ردِ عمل بلوچ باغیوں سے نبٹنے کے عمل میں دھندلا گیا۔ بلوچ گوریلا بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کر کہ ایک آزاد ریاست بنانا چاہتے تھے لیکن ین کی تحریک آپس کی لڑائی کی وجہ سے دھری رہ گئی۔ پاکستانی انٹیلی جینس نے اس ایک دہائی پرانی بغاوت کو ختم کرنے کہ لئے قتل کر کے پھینکنے کی مہم شروع کی۔ سکیورٹی فورسز نے سینکڑوں بلوچ کارکنوں جن میں دانشور، شاعر اورصحافی شامل تھے ان کو اغوا کر لیا اور پھر ان کی مسخ شدہ لاشوں کو سڑک کے کنارے پھینک دیا۔ لیکن فوج یس بات کی تردید کرتی ہے۔ لیکن لشکرِ جھنگوی کے کارکنوں کو ایسے کسی کرک ڈاؤن کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ خلیق نے بتایا کہ 2008ء میں کوئٹہ جیل سے لشکرِ جھنگوی کے دو کمانڈرفرار ہو گئے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے ہمدرد کتنے طاقتور ہیں۔

ہزارہ برادری کا اعتماد ریاست سے اٹھ گیا اور پاکستان کی سیاسی قیادت کا بھی اس معاملے میں کوئی خاص کردار نہیں تھا۔ ان کو حکومت اور میڈیا دونوں کی طرف سے کوئی کوریج نہیں دی گئی۔ بے حسی کا اندازہ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ کے اس تبصرے سے کیا جا سکتا ہے جو کہ انہوں نے ہزارہ کمیونٹی پر حملے کے بعد کیا تھا کہ وہ سوگواروں کے آنسو پونچھنے کے لیے رومال بھیجیں گے۔

خلیق نے مئی کے انتخابات میں بلوچستان صوبائی اسمبلی میں کوئٹہ سے حصّہ لیا لیکن وہ نشت حاصل نہ کر سکے۔ خلیق اپنی جان خطرے میں ڈال کر ہزارہ برادری کو قیادت دینا چاہتے تھے لیکن وہ امید کے علاوہ اور کچھ نہیں دے سکے، لیکن ان کے ہامیوں کے لیے یہ بھی کافی تھا۔

قبرستان کی خاموشی سے اس کے الگ ہی دنیا ہونے کا احساس ہوتا ہے جو زندہ لوگوں کی زمین سے مختلف جگہ ہے، لیکن کوئٹہ میں ایسا نہیں ہے۔ مری آباد کے ساتھ 1896ء میں بننے والا ہزارہ قبرستان مسلسل استعمال میں ہے۔ فائرنگ اور دھماکوں میں اتنے لوگ مارے جا چکے ہیں کہ قبرستان کی توسیع کرنی پڑی۔ تازہ قبروں پر پھول اور مرنے والوں کی تصویریں نظر آتی ہیں۔ میرے وہاں آنے سے دو ماہ پہلے کئی نئی قبریں بنیں جن میں ایک بس ڈرائیور، ایک جوس کی دکان پر کام کرنے والا، ایک فارمیسی میں کام کرنے والا اور ایک سول سرونٹ شامل تھے۔ سوگواروں نے پانی کے پیالے قبروں پر رکھے ہوئے تھے کہ پرندے ان سے پانی پینے آئیں تو مردوں کو دعا دیتے جائیں۔

یہ قتل و غارت صرف ہزارہ برادری کے ساتھ حادثہ نہیں تھا بلکہ اس سے کوئٹہ شہر کے حالات بدل رہے تھے جو کہ کبھی ایک تجارتی مرکز تھا جہاں بلوچ اور پشتون ؛ پنجابی، ہندوؤں اور سندھیوں کے ساتھ رہتے تھے۔ ہزارہ تاجر مخلوط علاقوں میں اپنی دکانیں بند کر کے اب اپنے محصور زدہ علاقوں میں رہتے ہیں۔ ہزارہ طالبِ علموں نے یونیورسٹی جانا چھوڑ دیا کیونکہ ان کو راستے میں گولی مار کر ہلاک کیا جا رہا تھا۔ فرق بڑھتا جا رہا تھا، یہاں تک کہ ہزارہ برادری میں آپس میں بھی تقسیم تھی وہ جو خلیق اور اس کی ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کی سیکولر سیاست کی حمایت کرتے تھے اور وہ جو اپنے شیعہ تشخص کے لیے جلوس اور خطابات کر رہے تھے۔ ایک اور مسئلہ تب کھڑا ہوا جب گوریلا بلوچوں نے پنجابی تاجروں کو اپنے استحصال کی وجہ سمجھتے ہوئے قتل کرنا شروع کر دیا۔ کوئٹہ پوشیدہ رکاوٹوں کا شہر بن گیا تھا جس کے حصّے پورے ملک میں کام کر رہے تھے۔

جب میں قبرستان پہنچا تو وہاں ایک درمیانی عمر کی عورت شال میں اپنے آپ کو چھپائے ہوئے’ پانی کی بوتل لئے قبر کی طرف جا رہی تھی۔ اس نے قبر پر لگے سنگِ مرمر پر جمی مٹی کو صاف کیا۔ اس عورت کا نام عزرا صفدر تھا اور وہ اپنے بیٹے کی قبر پر روز کی طرح فاتحہ کے لیے آئی تھی۔ 32 سالہ نوجوان ہائی کورٹ کے ایک جج کا اسسٹنٹ تھا اور اسے مسلح افراد نے مری آباد سے ہزارہ ٹاؤن جانے والی بس پر فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ اس کی کچھ ہی عرصے تک شادی ہونے والی تھی۔ عزرا قبر سے لگ کر روتی رہی۔ “میں نے اپنے بیٹے کے اچھے مستقبل کے لیے اپنی ساری عمر لگا دی اور دہشت گردوں نے اسے مار دیا۔ اب اپنے بیٹے کے بغیر میں زندہ نہیں رہنا چاہتی۔ میرے گھر کی خوشیاں چلی گئی ہیں” اپنے آنسو چھپانے کے لیے اس نے اپنی چادر منہ پر لپیٹ لی۔

ایسے حالات سے بچنے کے لیے کچھ خاندان کراچی یا اسلام آباد چلے گئے۔ ماؤں نے اپنے زیور  بیچ دیے تاکہ وہ ان پیسوں کو اسمگلروں کو دے کر اپنے بیٹوں کو سو کلومیٹر کا ایک خطرناک سفر کروا کر آسٹریلیا بھیج سکیں جہاں ہزارہ کمیونٹی کے لوگ کئی شہروں میں رہائش پزیر ہیں۔ سینکڑوں ہزارہ اس سفر میں ہلاک ہو چکے ہیں لیکن پھر بھی ان لوگوں کو کوئٹہ میں ایسی زندگی گزارنے سے یہ سفر منظور ہے۔

میرے شہر چھوڑنے کے کئی مہینوں کے بعد شہر میں ایک بار پھر تشدد کی لہر اٹھی۔ جنوری میں خلیق کے دفتر کے قریب مری آباد کے علاقے میں ایک سنوکر ہال میں خودکش حملے میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔ جائے وقوعہ پر لوگ جب مدد کے لئے پہنچے تو دوسرا دھماکہ ہو گیا۔ پانچ ہفتوں کے بعد لشکرِ جھنگوی کے عسکریت پسندوں نے ایک ٹینکر کو ٹریکٹر سے جوڑ کراس میں دھماکہ خیز مواد ڈال کر ہزارہ ٹاؤن کی مارکیٹ میں لا کردھماکہ کر دیا، اس میں بھی کئی افراد ہلاک ہوئے۔

گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال کے پہلے کے چند ماہ کے دوران ہونے والی ہلاکتیں بہت زیادہ ہیں۔

ہزارہ برادری نے اپنے ُمردوں کو دفنانے سے  انکار کر دیا تاکہ حکومت کو کوئی حکمتِ عملی اپنانے کے لیے مجبور کیا جا سکے۔ کمیونٹی نے پاکستان فوج کو صوبے کی انتظامیہ دینے کا مطالبہ کیا، یہ مطالبہ ایف سی پر غم و غصہ ظاہر کرنے کے لیے تھا۔ بہرحال، اس طرح کی تجویز بلوچ قوم پرستوں کو قبول یہ تھی جو پاکستانی سیکورٹی فورسز کو قابضین سمجھتے ہیں۔

ایک بیس سالہ غم ذدہ نوجوان جو امت پبلک سکول میں سائنس کا استاد ہے اس نے کہا کہ: “ہم نے اپنا خون دیا ہے، ہمارے لوگ شہید ہوئے ہیں، ہم نے اپنا سب کچھ اس ملک پر قربان کر دیا ہے، پھر بھی لوگ یہی سوچتے ہیں کہ ہم پاکستانی نہیں ہیں۔ ہم آخر کس طرح یہ ثابت کریں کہ ہم پاکستانی ہیں؟

پاکستان کی پچھلی نسل میں فرقہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ زیادہ تر پاکستانی سنی ہیں، اور ایک وقت تھا جب محرم کے سالانہ تحوار جس میں حضرت محمدؐ کے نواسے امام حسین اور ان کے خاندان اور دوستوں کی کربلا کی 680ء میں ہونے والی جنگ میں شہادت کو یاد کرتے ہوئے ہونے والے جلوسوں میں سب شرکت کرتے تھے۔ شیعہ اور سنی کی آپس میں شادیاں بھی قابلِ قبول ہوتی تھیں، اور ایک دوسرے کے جنازوں پر بھی جایا جاتا تھا۔ یہ ہم آہنگی تب ختم ہوئی جب سیاسی رہنماوں نے اپنے آپ کو طاقتور بنانے کے لئے اسلام کا نام استعمال شروع کر دیا۔ 1971ء میں پاکستان سے مشرقی پاکستان الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے صدر ذوالفقار علی بھٹو جو کہ سیکولر اقدار کے لیے بہت ممتاز سمجھے جاتے تھے انہوں نے مذہبی جماعتوں میں اپنے لیے تیزی سے بڑھتی ناپسندیدگی کو ختم کرنے کے لیے اسلامی نظام کی مہم کا آغاز کیا۔ بھٹو کے نشانے پرایلِ تشیع نہیں تھے بلکہ ایک قدرے چھوٹا گروپ احمدی تھے۔ 1972ء سے احمدیوں کے خلاف فسادات شروع ہو گئے جو کہ 1974ء تک پورے پنجاب میں پھیل گئے۔ حکومت نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا، تب سے یہ کمیونٹی ظلم و ستم کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ احمدیوں کے خلاف اس امتیازی سلوک نے ایک تباہ کن مثال قائم کر دی۔ تب سے پاکستانی سیاست دانوں کی طرف سے مذہبی اقلیتوں کو قربانی کا بکرا بنایا جانے لگا۔

1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے ایک فوجی بغاوت میں بھٹو کی حکومت گرا دی۔ ضیاء نے اپنی مشتبہ قیادت کو عوام میں مقبول کرانے کے لئے قانون اور اخلاق میں اسلام کا نام استعمال کیا۔ اس منصوبے نے برداشت کو مذہب سے بالکل ختم کر دیا۔

ضیاء اس وقت اقتدار پر گرفت پکی کر رہا تھا جب ایران میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں شیعہ انقلاب آیا جس سے پاکستان سمیت پوری مسلم دنیا حیران رہ گئی۔ اس انقلاب نے پاکستانی شیعہ برادری کی حوصلہ افزائی کی۔ اگرچہ کوئی نہیں جانتا کہ پاکستان میں کتنے شیعہ موجود ہیں لیکن وہ احمدیوں کے مقابلے میں ایک بڑی اور طاقتور کمیونٹی ہیں۔ شیعہ رہنماؤں نے ضیاء کی سنی راسخ الاعتقادی کی مہم کی مخالفت پرامن احتجاج سے شروع کی۔ 1980ء میں پچاس ہزار اہلِ تشیع نے اسلام آباد میں جمع ہو کر شہر کی سب سے بڑی احتجاجی ریلی نکالی جو کہ ضیاء کے زکوٰۃ کو لازمی قرار دینے کے خلاف تھی۔ ان کے مطابق زکوٰۃ لینے کا یہ طریقہ صیح نہیں تھا۔  اس وقت سکیورٹی فورسز کو شیعہ علماء پر انقلابی ایران کے ساتھ تعلق کا شبع ہوا۔

جلد ہی پاکستان سعودی عرب جو کہ سب سے بڑی سنی طاقت کے طور پر جانا جاتا تھا کہ ساتھ ایران کے خلاف کھڑا تھا۔ ضیاء نے سعودی امداد حاصل کرنے کے لیے  بخوشی پاکستان کو فصیل کے طور پر کھڑا کر دیا۔ آمر کے حکم کے مطابق پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے عسکریت پسند گروپوں کی پشت پناہی شروع کر دی۔ تکفیری دیوبندی سنی اسلام کا حصہ ہوتے ہوئے بھی پاکستان کی ایک چھوٹی سی اقلیت ہے جس کہ ماننے والے شیعہ کو کافر سمجھتے ہیں۔

پاکستان کے خفیہ اداروں نے ان مسلح گروپوں کو ملک کے اندر اور خطے میں اثر انداز ہونے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ پاکستان میں وہ ایران کی مدد سے شیعہ تنظیموں کے قیام کو روک سکتے تھے۔ ریاست کی طرف سے سپانسر شدہ عسکریت پسند کشمیر کے متنازعہ علاقے میں بھارتی فوج سے لڑائی کرتے اور امداد کی بھی کوئی کمی نہیں تھی۔ امریکی اور سعودی 1979ء کے افغانستان پر روسی حملے کو روکنے کے لیے پاکستانی آئی ایس آئی پر انحصار کر رہے تھے کیونکہ وہ مجاہدین تک فنڈز پہنچاتی تھی۔ اتحادیوں کی طرف سے ملنے والی رقم سے آئی ایس آئی کے پاس شدت پسندی کو بڑھانے کا بھرپور موقع تھا۔

تکفیری دیوبندی گروپ میں ایک سپہ صحابہ پاکستان تھا جو پاکستانی انٹیلی جنس کے لیے ایرانی شیعہ تنظیموں کے مقابلے میں تھا۔ یہ تنظیم جو عسکریت پسند اور سیاسی پارٹی دونوں کے طور پر کام کرتی تھی، یہ 1985 میں جنوبی پنجاب کے ضلع جھنگ کے مولانا حق نواز جھنگوی نے قائم کی تھی۔ اس گروپ نے شیعہ جاگیرداروں اور سنی کسانوں کے درمیان ناراضگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مال و دولت، طاقت اور کلاس کے فرق کو نظریاتی اختلاف کے طور پر پیش کیا۔ پاکستان میں کئی جگہ متشدد سیاسی تاجروں کو سپہ صحابہ میں شامل ہونے اور مقامی تنازعات کو فرقہ ورانہ رنگ دے کر جھگڑوں کو بڑھاتے رہے۔ اور یہ تنازعات شیعہ گروپوں، جیسے کہ سپہ محمد کو ایرانی پیسے جبکہ تکفیری دیوبندی تنظیموں، جیسے کہ سپہ صحابہ کو سعودی اور دیگر خلیجی ممالک کی طرف سے دیے جانے والے پیسے سے بڑھ رہے تھے۔

ضیاء 1988ء میں ایک طیارہ حادثے میں ہلاک ہو گیا اور ایک سال کے بعد جب روسیوں نے علاقے کو چھوڑا تو امریکہ بھی افغانستان کو بھول گیا۔ لیکن 1980ء میں شروع کی گئی عکسریت پسندی اگلی دہائی میں بڑھنا شروع ہو گئی جب شیعہ عکسریت پسندوں نے اپنے اوپر ہونے والے حملوں کے لیے جوابی کاروائی کی۔ 1990ء میں مشتبہ شیعہ عسکریت پسندوں نے سپہء صحابہ کے بانی کا قتل کر دیا۔ اگلی دہائی میں تشدد کم ہوا، پنجاب کے ضلع جھنگ اور گلگت کے ہمالیہ کے علاقوں میں کچھ واقعات ہوئے۔

تشدد کی اہم خصوصیت میں ریاست کا ردعمل تھا۔ شیعہ عسکریت پسندوں کو منظم طریقے سے ختم کیا گیا جبکہ تکفیری دیوبندی تنطیمیں انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ساتھ منسلک رہیں اور خلیجی سرپرست ان کو بڑھاتے رہے۔ آہستہ آہستہ سپہ صحابہ جیسے گرہوں نے اپنے آپ کو اس قدر مضبوط کر لیا کہ وہ فوج کی سر پرستی سے نکل کر خود مختار ہو گئے۔ لیکن ابتدا میں پراکسی جنگ لڑنے کی وجہ سے ان کو اب پکڑنا مشکل ہے۔

ایک اہم موڑ 1996ء میں آیا جب سپہ صحابہ کے زیادہ تر عکسریت پسندوں نے لشکرِ جھنگوی بنا لی۔ انہوں نے اپنے مقتول بانی کے نام پر شیعہ برادری سے پاکستان کو آزاد کرانے کے لئے مہم شروع کرنے کا عزم ظاہر کیا۔ اگرچہ لشکر جھنگوی نے اہلِ تشیع پر حملے 1990ء کی دہائی کے آخر میں شروع ک دیے مگر 2001ء میں افغانستان میں طالبان کی حکومت کا تختہ  الٹنے کے بعد انہوں نے اپنے ہدف پر کھل کر حملے شروع کیے۔ بین الاقوامی افواج کی آمد سے القائدہ اور دوسرے عسکریت پسند پاکستان آگئے اور اس طرح پاکستانی عسکریت پسند گروپوں میں دوبارہ اتخاد ہو گیا۔ تحریک طالبان بن گئی لیکن لشکر جھنگوی ایک خطرناک جزو تھا وہ باغیوں کو شہری علاقوں میں قابض ہونے کی اجازت دیتا رہا۔ امریکہ کے افغانستان پر حملے سے یہ عسکریت پسند اور طاقتور بن کر پاکستانی ریاست پر ہی چڑھ دوڑے جس نے ان کو پالا تھا۔

کراچی پاکستان کا واحد شہر ہے جہاں آپ کسی مال (مارکیٹ) میں جا کر شراب خرید کر آرام سے پی سکتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہں قریب کوئی جنگجو طالبان بھی ہو سکتا ہے۔

جب میں فروری میں کرچی پہنچا اس وقت شیعہ قتل و غارت کے تازہ واقعات ہو رہے تھے۔ اس فرقے کے درجنوں اراکین گلیوں میں گولیاں مار کر ہلاک کیے جا چکے تھے جن میں پیشہ ور افراد بھی شامل تھے جن کو شیعہ اشرفیہ کو ختم کرنے کے لیے نشانہ بنایا گیا۔

اٹھارہ ملین لوگوں کے ساتھ کراچی ایک ایسا شہر ہے جہاں پاکستان کا بہترین اور بدترین آپس میں جڑا ہوا ہے۔ سیاست اور گینگ وار میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ پانی اور زمین کے معاملات مافیا مختص کرتی ہے اور پولیس غنڈا گردی میں ملوث ہوتی ہے۔ کراچی میں سماجی انصاف کے لیے آواز اٹھانے والے بہت سے کارکن کام کر رہے ہیں جن میں سے کچھ کو اس کام کی داد انہیں گولی مار کر دے دی جاتی ہے۔

کراچی کے رش میں فرقہ واریت کے شور کے کم ہو جانے کی امید کی جاتی ہے لیکن یہاں معاملات اس کے برعکس ہیں۔ شہر کا حجم اس مسئلے کو بڑھانے کا کام کر رہا ہے، جسے ‘ادرائزیشن’ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ لفظ میں نے پہلی بار کراچی میں ہی سنا تھا۔ ایک ڈنر پارٹی میں ایک خاتون نے یہ اصطلاح انتہا پسندوں کی بات کرتے ہوئے استعمال کی کہ وہ فرقوں کے درمیان موجود فرق کو اُبھارتے ہیں اور اقلیتوں کو ‘دوسرا’ کہتے ہیں۔ تیزی سے بڑھتے ہوئے یکطرفہ ماحول میں تشدد بڑھ رہا ہے اور انتہا پسندی عام سی بات ہو گئی ہے۔

کوئٹہ کی طرح اب کراچی میں بھی یہ ادرائزیشن ہر کونے میں پھیل رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے رہنما، جرائم پیشہ گروپ یا عسکریت پسند تنظیمیں دوسرے فرقوں یا نسلی گروہوں کو ایلین قرار دے رہے ہیں۔ ایک گروپ کے رکن کا قتل لا محالہ دوسرے گروپ کے رکن کے قتل کی طرف لے جاتا ہے۔ جتنی زیادہ لاشیں ہوں خبر اتنی بڑی ہوتی ہے۔ لوگ جتنا زیادہ ڈر محسوس کریں گے اتنا ہی وہ کسی طاقتور کے تحفظ میں جانے کی کوشش کریں گے۔ چاہے سیاستدان ہوں یا پھر گینگ اور بنیاد پرست علماء، سب ہی تشدد میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ لاشوں کو ایک حد کے اندر رکھنے کا جو ان کا پیرامیٹر تھا وہ اب تحلیل ہو چکا ہے۔ کاچی میں قتل کی شرع ہر سال اور بلندی پر جا رہی ہے۔

ان متنازعہ حرکات کو نوٹ کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔  فروری میں جمعہ کی ایک شام کو پریس کلب کے سامنے کچھ مشتعل افراد جمع ہو گئے۔ کلفٹن  میں یہ عمارت نوآبادیاتی دور کی ہے۔ سو کے قریب ٹوپی اور داڑھی والے مرد سڑک پر کھڑے ہو کر ایک مولوی کو سن رہے تھے۔ کچھ سامعین سپہ صحابہ کے کالے، سرخ، سفید اور سبز رنگ میں تھے۔ ان کا پیغام بہت واضح تھا کہ اہلِ تشیع حقیقی اسلام کی توہین ہے۔ اس مجمع نے مل کر نعرے لگائے “شیعہ کافر، شیعہ کافر” اور ایک کپڑے کا پتلا بنا کر جلایا۔

کراچی میں شیعہ مخالف مہم چلانے والے شخص کا نام اورنگزیب فاروقی ہے۔ جو کہ سپہ صحابہ کراچی کا سربراہ ہے۔ یہ جماعت اب اہلِ سنت و ال جماعت کے نام سے جانی جاتی ہے۔ سپہ صحابہ پر 2002ء میں پابندی عائد ہو گئی تھی۔ 9 ستمبر 2001ء کے بعد اس وقت کی صدرِ پاکستان پرویز مشرف نے امریکہ کے ساتھ اتحاد کیا  اور عسکریت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا۔ اس گروہ نے تب اپنا نام تبدیل کر لیا تھا۔

فاروقی کے پیروکار مشرف کے دورمیں چھپ گئے تھے لیکن 2008ء کے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جیت اور حکومت میں آنے کی بعد وہ اور طاقتور بن کر واپس آئے تھے۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ فوج نے شیعہ مخالف عسکریت پسند پیدا کیے لیکن ایک جرنیل اپنے دور میں سیکولر جانشینوں کے مقابلے میں ان کو عام گھومنے پھرنے سے روک سکا تھا۔ فاروقی کے لوگ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں زیادہ طاقت میں رہے کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت اس وقت عدلیہ اور فوج کے درمیان مصروف تھی۔

فاروقی کا ہیڈ کواٹر مشرقی کراچی کے ضلع لانڈھی کے صنعتی مضافات میں  واقع ایک مدرسے میں ہے۔ مدرسے میں گارڈ بندوقیں اٹھائے کھڑے تھے۔ ہمیں چھت پر لے جایا گیا جہاں نرسری کی عمر کے لڑکے چٹائی پر بیٹھے تھے۔ چھت پر سورج سے بچنے کے لیے ایک بڑی لوہے کی چھتری لگائی گئی تھی۔ میرے خیال سے نظم و ضبط بہت سخت تھا اور طالبِ علم قرآن حفظ کر رہے تھے۔

ہمیں ایک تنگ دفتر میں لے گئے جہاں کتابوں کی الماری اسلامی کتابوں سے بھری ہوئی تھی۔ ہمیں فرش پر پڑے کشن پر بیٹھ کر انتظار کرنے کو کہا گیا۔ کچھ دیر کے بعد فاروقی آیا۔ وہ سفید شلوار قمیض میں ملبوس تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کی وہ مجھے شک کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے لیکن کچھ دیر کے بعد ہمیں پاکستانی مہمان نوازی کے طریقے کے مطابق چائے پیش کی گئی۔ پھر فاروقی نے اپنا پسندیدہ موضوعِ بحث شروع کیا کہ: اہلِ تشیع اصل میں مسلمان نہیں تھے، ہمارا نہیں خیال کہ ان کو مارنا درست ہے، ہم لوگوں کو دلائل سے قائل کریں گے تو وہ کبھی کسی شیعہ سے ہاتھ تک نہیں ملائیں گے۔

تمام لیڈروں کی طرح فاروقی بھی اپنی پارٹی کے ساتھ ہوئی زیادتیاں بتانا چاہتا تھا۔

تمام بازاری لیڈروں کی طرح فاروقی ظالموں کے اندھا دھند ہنگامہ کو چھپانے کے لئے سرگرم تھا اے۔ایس۔ڈبلیو۔جے نے شیعہ ادب سے بے خرمتی کا اظہار کر کے اپنی روایت کا اظہار کیا جو کہ نبی محمدؐ کے اصحاب، ابوبکر،عمر اور عثمان کی توہین ہے۔۔تاریخی اعدادو شمار فاروقی کے مریدوں کے لئے باعثِ اخترام ہیں۔لیکن فاروقی کے مطابق کچھ شیعہ کتابوں پر غم و غضہ ایک لیورڈ کو نسپریسی میں تبدیل ہوا جس نے ایرانی طرز کے انقلاب کو ترقی دینے کی کو شش میں پورے فرقے کو ایک پانچویں کالم کے طور پر تشکیل کیا۔

فاروقی کے مطابق ’شیعہ ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔یہاں تک کہ اگر دفتر میں ایک کلرک مصیبت میں ہے تو اس کے لئے وزیر اعظم کی طرف سے کال ہو جائے گی‘۔ ’وہ خود کو تعلیم دلواتے ہیں پھر خود کو اہم عہدوں پر فائز کرتے ہیں تاکہ مستقبل میں وہ کارآمد ہو سکیں۔یہ تمام کام ایرانی انقلاب کو مضبوط بنانے اور اجاگر کرنے کے لئے ہے‘۔

فاروقی کے بیا ن کا مقصد ۷۰کے وسط میں احمدیوں کے خلاف مرحوم صدر بھٹو کے اقدام کی پیروی کرتے ہوئے شیعہ کو غیر مسلم قرار دینے کے لئے حکومت کو لابی کرنا ہے۔مزید یہ کہ فاروقی حکومت اور ملٹری کے اہم عہدوں میں شیعوں پر پابندی عائد کرنا چاہتا ہے،ان کے مذہبی جلوسوں کے رجحان کو محدود اور غیر شیعہ کو ان کے کاروبار کا بائیکاٹ کرنے کا بھی قائل ہے۔یہ یورپ میں فار رائٹ موومنٹ کی طرف سے استعمال کیا گیا کلاسک کھیل تھا۔ایک شہری انڈر پاس کی اندرونی محرومیوں کو ان کے ’دوسرے‘ کے اوپر مقید غضے کی حوصلہ افزائی کے ذریعے تھپتھپایا گیا۔فاروقی کے ’دوسرے ‘ سے مراد شیعہ ہونا ہے۔

’جو میں کہہ رہا ہوں اس کا مطلب یہ ہے کہ انھیں مارنا حل نہیں۔عالم نے بات، بخث اور لوگوں کو قائل کرنے کے ذریعے انھیں غلط قرار دینے کا کہا۔جب کسی کا سماجی بائیکاٹ ہو جائے تو وہ مایوس اور الگ تھلگ ہو جاتا ہے۔وہ یہ مانتا ہے کہ اس کے عقائد صحیح نہیں کہ لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں‘۔

کوئی حقیقت پسندانہ امکان نہیں کہ فاروقی کی شیعہ کو غیر مسلم قرار دینے کی مہم پاکستانی سیاست کی طرف سے کسی قابلِ قیاس مستقبل کی طرح کوئی تفریح ہوگی۔اگر چہ شیعہ ایک وسیع کمیونٹی تشکیل دیتے ہیں، ان کا نہتے احمدیوں سے کئی زیادہ مجموعی اثر و رسوخ ہے۔لیکن فاروقی کو اپنے الفاظ کو اثر انداذ کرنے کے لئے قانون میں مجبوراَ تبدیلی کرنے کی ضرورت نہیں۔

فاروقی امن پسند تبدیلی میں یقین رکھنے پر اصرار کرتے ہیں لیکن یہ تصور کرنا خوش فہمی ہے کہ کراچی میں اپنے آدمیوں کی بڑھتی ہوئی ادعائیت اور شیعوں پر لشکرِ جھنگوی کے حملے محض ایک اتفاق ہے۔یہ فرض کرنا منطقی لگتا ہے کہ عسکریتی تشدد اور سٹریٹ پاور خوف کی فضا قائم کرنے کے لئے ایک ہی حکمتِ عملی کے یکے بعد دیگرے دو پہلو ہیں جس میں تعصب کے ابار کو فاروقی جیسے سیاستدان کو مزید بولسٹر کیا جاتا ہے۔بلا آخر مخالف شیعہ انتہا پسند ردِ عمل کو طول دینا چاہتے ہیں اور وسیع خون بہا کو محرک کرنا چاہتے ہیں۔سب سے پُر عزم ہمت یہ امید کرنا ہے کہ نئی خلافت پاکستان کی راکھ سے طلوع ہوگی۔

یقیناّ فاروقی کو کبھی ان کے لہجے سے اس طرح نہیں جانچا گیاجس طرح وہ ہماری گفتگو کے دوران تھے،جیسے ہی مجھے فیس بک پر پوسٹ شدہ وڈیو سے پتہ چلا تھوڑی دیر بعد مسلح افراد نے انھیں قتل کرنے کی کو شش کی۔

۲۵ دسمبر کو عالمِ دین کے تین کار قافلے نے کراچی ایکسپریس وے کے ٹرن آف پر یو ٹرن لیا تو شوٹر نے فائرنگ شروع کر دی۔ فاروقی کے اس حادثے میں شہید ہونے پر اس کے مریدوں کے پیدا کردہ خرابی کے خوف سے اسے بچانے کے لئے فاروقی کے چھ پولیس مخافظ جاں بحق ہو گئے۔عالم نے خود کو ران میں ایک چھ انچ زخم لیتے ہوئے بچایا۔

ہسپتال ہی سے فاروقی نے اپنے اوپر ہونے والے حملے کے نتیجے میں اپنے مریدوں کو شعیوں کے خلاف صفوں کو بند کرنے کے لئے ایک جامع اور مختصر تاکید کی۔انھوں نے کہا ’میں سنیوں کو شیعوں کے خلاف اتنا طاقتور کر دوں گا کہ کوئی بھی سنی شیعہ نے ہاتھ تک نہیں ملائے گا۔وہ اپنی موت آپ مریں گے ہمیں انجیں نہیں مارنا پڑے گا۔

اب بھی فرقوں میں کافی خد تک یکجہتی پائی جاتی ہے۔کراچی میں کچھ سنیوں نے قتل و غارت پر شیعہ مظاہروں میں شمولیت اختیار کی اور متاثرین کے جنازوں میں بھی شرکت کی۔لیکن ان دنوں کراچی میں مخالف شیعہ کی بیان بازی کی گونج بلند آواز میں کہے جانے والے قوانین کو دوبارہ لکھ رہی ہے۔یہاں ایک خاموش تبصرہ،وہاں ایک مخالفانہ نظر اور تعصب کا ظاہر اظہار اب ممنوع نہیں ہیں۔عسکریت پسندوں کی حکمتِ عملی اب کام کر رہی ہے۔

ایک شام میری کراچی ریڈیو سٹیشن میں کام کرنے والی شیعہ خاتون،سندس سے ملاقات ہوئی۔ہم نے پورٹ لینڈ میں چائے پی۔کرینس اور کراچی بندرگاہ کی روشنی سے پانی جگمگا رہا تھا۔رشید نے بتایا کہ کچھ ہفتے پہلے وہ اپنی بہن اور بھتیجے کے ساتھ ہےئر سیلون گئی تھی تو وہاں ایک عورت نے بچے کو پیار کیا اور پھر نام پوچھا۔جب اس نے شیعوں والا نام سنا تو اچانک وہاں سے چلی گئی۔

ڈراؤنی بات یہ ہے کہ یہ چیز اب دہشتگردوں تک محدود نہیں رہی بلکہ ہر جگہ پھیل رہی ہے۔رشید نے کہا کہ لوگ سوچتے ہیں کہ ایک دوسرے کی ذاتیات پر حملہ کرنا اور لوگوں کو لیکچر دینا درست ہے۔’ تمھیں کچلا جا رہا ہے اور اب مزید تمھارے لئے کوئی جگہ نہیں‘۔

اس نے ماں کا دیا ہوا چاندی کا تعویذ اس ڈر سے ہٹا دیا کہ یہ اس کے شیعہ ہونے کا نشان ہے۔ اس نے کہا کہ شیعہ اور سنی کے درمیان فاضلہ بڑھ رہا ہے اور اب ان میں سے کسی ایک کو چننا پڑ تا ہے۔میں نے پاکستان میں اتنی نفرت پہلے کبھی نہیں دیکھی اور مجھے نہیں پتہ کہ یہ کہاں سے آئی ہے۔

فاروقی جیسے آدمیوں نے پاکستان کے مرکزی دھارے میں موجود تعصب کے ذریعے شیعوں کو بُرا قرار دینا آسان بنا دیا ہے۔مذہبی رویوں کی جامع سر وے کے مطابق ۶۵ فیصد مدعا نے کہا کہ سنی مسلمان شیعوں سے بہتر اسلام کے پیروکار ہیں۔

پھر بھی فاروقی اور اس کے مرید یہ بھول جاتے ہیں کہ شیعوں کی طرح وہ بھی مذہبی اقلیت کے رکن ہیں۔ان کے انتہائی تکفیری دیوبندی خیالات پاکستان کی اکثزیت کی بڑ ی تعداد کے نا موافق ہے جو کہ اکثر خیال کے برعکس زیادہ تر حصوں میں بنیاد پرستی کے لئے پختگی کئی کم ہے۔سروے کے مطابق صرف اقلیت ہی کی دیوبندی یا وہابی سے شناخت کی جاتی ہے فر قہ و رانہ روایات اکثر عسکریت پسند کے ساتھ منسلک ہوتی ہے۔

پاکستانی شدت پسند تشدد کے جوش کے ذریعے پورے معاشرے پر غیر تناسب اثر کو مخلوب کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور پاکستان ملٹری۔انٹیلی جنس کے سوتیلے بیٹوں کے طور پر سرکاری منظوری کے وینیر اپنے اصل کی طرف لوٹ رہے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ اس سرکاری منظوری کی میراث نے خو ن ریزی پر حقیقی نفرت اور اندرونی احکام،قومی سوچ میں دبی آمرانہ آواز میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو چھوڑ دیا تھا جو کہ ہر نئے غم و غضے کے بعد اپنا منتر دہراتے ہیں ’ یہاں دیکھنے کے لئے کچھ نہیں۔برائے مہربانی ساتھ چلے‘۔

فاروقی مدرسے کے قریب آدھی ساختہ شیعہ مسجد واقع ہے۔اس کے مہراب کو چمکتے شیشوں اور چراغوں سے سجایا گیا ہے۔ساتھ ہی میں نئی شیعہ پارٹی ،مجلس وحدت مسلمین کا دفتر ہے جس نے کراچی میں شیعوں پر حملوں کے خلاف آواز اٹھانا شروع کر دیا ہے۔میں نے اوپر کمرے میں انتظار کیا جہاں ایران میں شیعہ انقلاب کے رہنما،آیت اللہ خمینی کی تصویر لگی ہوئی تھی۔سفید پکڑی اور کالے چغے میں ملبوس ایم ڈبلیو ایم کے نوجوان رہنما،اعجاز حسین بہشتی کمرے میں داخل ہوئے۔

بہشتی نے کہا کہ ہمارے مذہب اور فرقے میں ہم اگر مارے جا رہے ہیں تو ہمیں جوابی حملے نہیں کرنے چاہےئے کیو نکہ اگر ہم بھی ہتھیار اٹھا لیں تو پھر اس ملک کا کوئی حصہ دہشتگردی سے محفوظ نہیں رہے گا۔۔لیکن یہ حرام ہے۔

بہشتی کے بیا ن میں واضح خطرے کو پڑھنا پٍُرکشش تھا۔لیکن شیعہ پاکستان میں اپنی فرضی حیثیت سے با خبر ہیں کہ کھلے عام وار کرنا ممنوع ہے۔وہ چند ہی لوگ ہیں جو معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں اور خاموشی اور اختیاط سے اپنے اہداف کا انتخاب کرتے ہیں۔
پو لیس نے مہدی فورس کے نام سے ایک نئی شیعہ عسکریت پسند گروہ کی نشاندہی کی ہے جو کہ ان کے خیال میں کافی مقدار میں علماء اور فاروقی کے پیروکار کے قتل کے ذمے دار ہیں۔شہید نامی کٹھور شخص اس گروہ کی قیادت کر رہا ہے۔لیکن اس کے تقریباٌ ۲۰ رضاکا ر بنیادی طور پر بدلے کی تلاش میں، خودکاراور درمیانے طبقے کے شوقین ہیں۔ان کے پاس وسائل کی کمی ہے جسے وہ لوگوں کو نشانہ بنا کر پورا کرتے ہیں۔

سپر ٹینڈنٹ آف پولیس،راجہ عمر خطاب نے کہا:وہ رضاکار ہیں ان کے پس منظر کا دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں۔لیکن انھوں نے شیعوں کو مارنے کے بعد گروہ میں شمولیت اختیار کی اور اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کوشش کی اور انھوں نے علماء کو قتل کیا۔
پولیس نے نومبر میں کراچی میں احسن القرآن دارالعلوم مدرسے پر ہونے والے حملے کے لئے مہدی فورس کو ذمہ دار ٹھرایا،جہاں فاروقی کئی پیروکاروں پر اعتماد کر سکتے ہیں۔چھ طالبِ علم مارے گئے تھے۔اگلے مہینے مدرسے کے سکالر کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔جنوری میں دوسرے طالبِعلموں کو مارا گیا۔اے ایس ڈبلیو جے کے مطابق ان کے کئی پیروکار مارے گئے۔کراچی میں تنظیم کے ترجمان اکبر سعید فاروقی نے سٹی ز نز پولیس رابطہ کمیٹی کی طرف سے فراہم اعداد و شمار کے تخت کہا کہ موجودہ مہینے پارٹی کے درجنوں ارکان مارے گئے۔یہ جاننا نا ممکن تھا کہ کتنی ہلاکتوں کو شہر میں سرگرم دھڑوں یا شیعہ دستوں کے نیچے رکھ دیا گیا ہے۔یقینی طور پر مہدی فورس کی طرف سے جوابی کاروائی کا پیمانہ شیعوں پرسراسرحملے کی درندگی کی وجہ سے کم ہو گیا تھا لیکن اس کا ظہور ایک یاد دہانی تھا کہ ایک کمیونٹی بات کو بدلے میں تبدیل کرنے سے پہلے بہت کچھ کر سکتی ہے۔

پنجاب کی سڑکوں کا معیار خواب آور ہے،نظارہ معمولی تغیرکے ساتھ بنیادی سیٹ کے اجزاء پر مشتمل ہے۔چمکتے ہوئے فلیٹ لینڈذ،صاف بیشے اور ذیلی ڈشس سے جڑے ہوئے ناپائیدارگاؤں اور سیب یا خربوزے سے لدے ہوئے سٹالز شا مل ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ چمکیلے رنگین ٹرکوں کے پاکستان کے آدر نیبی بیڑے کے ایک رکن کو پاس کیا گیا۔ان کے پینلز سنتروں کی میزوں سے بھرے ہوئے تھے۔نیلے اور سبز:شیروں اور موروں کی طرف سے رینے والی مخلوق میں پیٹرول ٹنک مہیا کئے گئے تھے۔پنجاب کی وسیع کھلی جگہیں کوئٹہ کی پریتوادت یا کراچی کی بے صبر افراتفر ی کی تیار تریاق ہیں۔لیکن مخالف شیعہ عسکریت پسند گروہ سب سے پہلے اس پرسکون جگہ میں ابھر کے سامنے آئیں اور پورے پاکستان میں ان کی جڑیں کاٹنے کے بعد ان کے چھوڑے ہوئے وائرس دوبارہ واپس آگئے۔

جولائی ۲۰۱۱ء میں لشکرِ جھنگوی کے بانی،ملک اسحاق جیل سے رہا ہوا۔اس طاقتورشدت پسند نے قتل،موت کی دھمکیوں اور خوف پھیلانے کے کئی الزامات کے تحت ۱۴ سال جیل میں گزارے لیکن ججز نے ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے اس کے خلاف مقدمات کو مسترد کر دیا۔کئی پریس رپورٹز کے مطابق اسحاق نے ۱۹۹۷ء میں۱۲ لوگوں کے قتل میں ملو ث ہونے کا اعتراف کیا تھا۔اپنی رہائی پر اسحاق نے اپنے ساتھیوں کو پہلا بیان یہ دیا کہ ہم نبی کریم کے اصحاب کے لئے اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔اسحاق رحیم یار خان میں اپنے گھر لوٹا جہاں مسلح افراد اس کے گھر کی حفاظت کر رہے تھے اور ان کو اندر آنے کی اجازت دی گئی تھی جو کہ شیعہ کے کافر ہونے کے سوال پر بحث کرنا چاہتے تھے۔ان کی رہائی کے کچھ عرصے بعد ہی شیعوں پر حملے شروع ہو گئے۔

لیکن میں جب فروری میں رحیم یار خا ن پہنچا تو اسحاق خان دوبارہ سلاخوں کے پیچھے تھا۔سال کے شروع میں کوئٹہ میں تباہ کن بم دھماکوں نے کراچی اور دوسرے شہروں میں بڑے شیعہ احتجاج کو متحرک کیا بالکل اسی طرح جس طرح اسلام آباد میں فرقے کے اراکین نے ضیاء کے دور میں زکوۃ کے نفاذ کو چیلینج کیا تھا۔کاروائی میں شرم کے باعث پنجاب کی صوبائی حکومت نے عارضی طور پراسحاق اور اس کے پیروں کاورں کو قدیمی عوامی نظام قوانین کے تحت حراست میں لیا تھا۔اسحاق کا رحیم یار خان میں رہناکا ؤنٹی جیل میں رہنے کے برابر تھا۔

رحیم یار خان میں خواب آلود اور چھوٹے شہر کا احساس تھا۔لیکن نچلی سطح پر کشیدگیاں بڑھ رہی تھیں۔ ابتدائی ۲۰۱۲ء میں شہر کے باہر گاؤں میں شیعہ جلوس پر بم دھماکے میں ۲۰ لو گ مارے گئے ۔اس دھماکے کے بعد شیعہ کمیونٹی نے پیش گوئی کے بڑھتے ہوئے احساس کے ساتھ پاکستان کے دوسرے شہروں میں اپنے فرقے کی تباہی کو دیکھا۔دیہی علاقوں میں اسحاق کی ریلیوں کے انعقاد نے ان کے خوف کو مزید بڑھا دیا۔ایک شیعہ شخص نے مجھے بتایا کہ اس کے گاؤں نے اپنی خفاظت کے لئے خدائی فوجداروں کے ایک مسلح گروہ کو تشکیل دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

میں نے شیخ منظور حسین جو کہ فرقوں کے درمیان تعلقات استوار کرنے کے لئے مانے جانے ایک مشہور شیعہ عالم ہیں،کی قیادت میں مسجد کا دورہ کیا۔ ہم ایک دھاتی گولڈ کے ساتھ چمکتے ہوئے اونچے چھتے دار راستے کے اندر کمپاؤنڈ میں داخل ہوئے۔میں نے یہ ماننا شروع کر دیا تھا کہ جس نے بھی شیعہ مسجد کو ڈیزائن کیا اسے روشنی سے کافی لگاؤ تھا۔وہاں ایک ٹوکن گارڈ تھا لیکن کوئی حقیقی تحفظ نہیں تھا۔جب تک اسحاق جیل میں رہا تب تک رحیم یار خان محفوظ تھا۔

ایک فکری،چھوٹی داڑھی اور نیلی ٹوپی پہنے منظور اس بارے میں فکر مند تھا کہ اگر اسحاق کو بے روک ضلع میں گشت جاری رکھنے کی اجازت دی جائے تو کیا ہوگا۔

میٹنگ روم میں مالٹے اور سیب کھاتے ہوئے منظور نے کہا کہ اس کی کوئی مقبول حمایت نہیں ہے لیکن ایک تنظیم کے طور پر وہ زیادہ اثر انداز ہو رہے ہیں۔اگر اسے کھلے عام چھوڑ دیا گیا تو تب بہت خون بہا،ہلاکتیں اور انتشار ہوگا جو کہ پہلے سے ہی شروع ہو گیا ہے

میرے پہنچنے سے چند ہفتے پہلے اسحاق کے پیروکاروں کا ایک گروہ پورے شہر میں موٹر سائیکلوں پر چلا اور کئی شیعوں کو مارر ہا تھا۔منظور نے کئی متاثرین کو مجھ سے ملنے کے لئے مسجد بلایا۔

سید عباس ر ضا رضوی نامی ٹریول ایجنٹ نے کہا کہ وہ اپنے تین بچوں کے ساتھ شہر میں گاڑی چلا رہا تھاکہ اس کے ساتھ چلتے ہوئے موٹرسائیکلوں پر سوار ٹھگوں نے اسے روکا۔نقوی نے کہا کہ ان میں سے ایک چلایاکہ یہ بھی شیعہ ہے اسے مار دو۔وہ یقیناٌ مارا جاتا اگر اس کے بچے رحم کی بھیگ نہ مانگتے۔اس کے بعد گروہ نے ہےئر ڈریسر سیلون پر حملہ کیا اور نسیم عباس کو زمین پر گرایا۔اس کے سر پر پستول رکھتے ہوئے چلائے کہ شیعہ کافر ! شیعہ کافر! دونوں آدمی شدید غصے میں تھے یہ کراچی اور کوئٹہ میں حملوں کے مقابلے میں چھوٹی ڈھگی تھی لیکن پہلی بار تھی کہ جب اسحاق کے آدمیوں نے اپنے آبائی شہر میں دیدہ کام کیا تھا۔منظور پریشان تھا لیکن وہ کیا کر سکتا تھا؟

رحیم یار خان میں امن قائم رکھنے کا کام ضلعی پولیس آفیسر،سپرٹینڈنٹ سہیل ظفر چٹھہ کے ذمے ہے۔چٹھہ ایک طاقتور،ایک مکمل آدمی اور پر سوچ اور انسانی سو چ رکھنے والا پولیس آفیسر تھا۔وہ سول سروسز اکیڈمی کا گریجویٹ تھا جہاں سے پاکستان کے سب سے زیادہ گریڈ کے افسران نکلتے ہیں۔وہ رحیم یار خان میں ہابس اور لاک کے سیاسی فلسفے کو اپنے کام میں اپنانے کا ذمہ دار ہے۔حتی کہ آرام کے وقت بھی اس کے چہرے پر ایک مخصوص رو کھا پن برقرار رہتا ہے۔رحیم یار خان میں بے عقل کے لئے کوئی شکست نہیں۔

چٹھہ نے کہا کہ ’میں ایک منصفانہ ریفری ہوں جو کہ ریڈ کارڈ بھی ظاہر کرتا ہے۔جو قانون توڑے گا اس سے پوچھ گچھ کی جائے گی۔میں خوش نصیب تھا کہ میں چٹھہ سے ملا کیونکہ یہ اس کا آخری دن تھا۔اس کی پنجاب کے مرکزی شہر لاہور میں پوسٹنگ ہو گئی تھی اور وہ تقریباٌ اداس تھا۔ہرن کی ایک چھوٹی جھوبڈ نے ہمیں دیکھا جب ہم اس کے سرکاری رہائش گاہ کے زائرین کمرے میں بات کر رہے تھے۔چٹھہ نے اپنے بہترین کارناموں کی فوٹو البم دکھایا جو کہ ’آپریشن کلین اپ ‘ کے متعلق تھا۔جس میں اس نے دریائے سندھ پر قابض ڈاکوؤں پر فوجی طرز کا حملہ کیا تھا۔ایک بدنام اغواہ خواندہ کا گروہ،ڈاکو اور رسٹلرز بھاگ گئے جو کہ ان کے اپنے سٹیٹ لیٹ کے لئے مؤثر تھا۔لیکن ۳۷ سالوں میں کسی بھی حکومت کے نمائندے نے اپنے ٹاپو پر قدم نہیں رکھا تھا۔۲۰۰۹ء میں اپنے عہدے کو سنھبالنے کے کچھ ہی عرصے کے بعد چٹھہ نے لٹیروں کو ٹھکانے لگانے کا فیصلہ کیا۔اس کا حل ڈی۔ڈے لینڈنگز تک رحیم یار خان کے جواب میں ہوگا۔چٹھہ کے پاس اپنے آدمی کا بنایا ہوا ایک تیرتا ہوا بنکر تھا۔اس کے کانسٹیبل نے چار یاماہا انجنوں سے بجری پر ریتی تھیلے میں بندوق رکھنے کی جگہ بنائی۔اس کے ہتھیاروں میں طیا رہ شکن بندوقیں شامل تھیں۔چٹھہ نے اپنی تخلیق کو ’رحیم یار خان شارک’ کا نام دیا۔

ایک صبح چٹھہ نے اپنے آدمیوں کو مارٹر گولے سے جزیرے پر بمباری کرنے کا حکم دیا جبکہ جنگی بجرے نے دریا میں خطرناک راستہ بنایا جو کہ سفید جھنڈے سے جگہ کی نشانڈہی کر رہا تھا۔چٹھہ نے گھوڑے کی پیٹھ پر کنارے سے آپریشن کی نگرانی کی۔ڈاکو آگے جھکے۔چٹھہ نے کہا کہ اس نے مجرموں کے پورے خاندانوں کو دریا میں کودتے اور مہارت سے تیرتے ہوئے دیکھا۔رحیم یار خان میں ۲۰۱۰ء میں اغواء کی شرح ۴۵۶ سے پچھلے سال صفر ہوگئی۔

چٹھہ کی قانون نافذ کرنے والی مضبوط نقطہ نظر نے اس کے لئے کچھ ماخوذ کمایا جس نے رحیم یار خان میں اسے مقامی ہیرو کا درجہ دیا۔وہ اتنا مشہور تھا کہ اس کے روانگی کے دن رہائشیوں نے مرکزی سڑک کو بند کر کے احتجاج کیا تھا۔اس کے کام سے واضح جذبے کے باوجود اور ہماری گفتگو کے اختتام پر میں نے سوچا کہ جانے سے پہلے اس کے چہرے پر سکون کا تھوڑا سا عنصر دیکھ سکتا۔جب اس نے سمندری ڈاکوؤں کا کام جلد حتم کیا تو اسحاق کے چیلوں سے نمٹنے کے لئے کم طول بلد(ہمت) چاہئے تھا۔

جند ہفتے پہلے اسحاق کے آدمیوں نے حد درجے کی کشیدگی شروع کر دی۔انھوں نے شیعہ گاؤں کے باہر ایک ریلی نکالی جہاں مسلح رہائشیوں نے چھتوں پر اپنی پوزیشن کو سنھبالا۔فائرنگ شروع ہوئی اور اسحاق کے دو آدمی زخمی ہوگئے۔چٹھہ نے دونوں اطراف کے درمیان بفر تشکیل دینے کے لئے بکتر بند اہلکاروں کو تعینات کیا۔صورتحال آسانی سے خراب ہو جاتی اگر دونوں اطراف سے خریف کو جیل میں نہ ڈالا جاتا۔

پولیس کا کام اسحاق کی پرگومیوں کو حدود میں رکھنا ہے۔ چٹھہ نے اندازہ لگایا کہ رحیم یار خان میں اسحاق کے چند ہی سرشار پیروکار ہیں جن میں سے کچھ کو ہی سنگین ہتھیاروں کی تربیت حاصل ہے۔چٹھہ کو گاؤں کے اکڑ بازوں سے زیادہ مصیبت سازوں اور موٹر سائیکلوں پر سوار ٹھگوں کی شناخت تھی لیکن وہ اتنا ہی کر سکتا تھا جتنا کہ لاہورمیں صوبائی حکومت کے اعلی افسران اسے اجازت دیتے۔اسحاق کا لاہور کی جیلوں سے ایک پرانا تعلق تھا۔لشکرِ جھنگوی پر مروجہ قوانین کا اچانک اور سخت نفاذ ہمیشہ سے ایک یادگار احساس تھا۔

پنجاب کی صوبائی حکومت،پاکستان مسلم لیگ نواز پارٹی کے رہنما اور سابقہ وزیرِ اعظم ،نواز شریف عسکریت پسندی پر نرم رہنے کے تاثر کو ہلانے کے قابل نہیں تھے۔کچھ کے مطابق حکومت نے خاموش تفہیم میں اسحاق کی سرگرمیوں پر آنکھ بند کر دی ہے کہ اسحاق کے پیروکار پنجاب میں حملے نہیں کریں گے لیکن ان کی مخالف شیعہ مہم کو کراچی اور کوئٹہ جیسی جگہوں تک محدود کر دیا گیا۔

۲۰۰۸ء کے انتخابات میں لاہور میں نواز پارٹی کے برسرِاقتدار آنے کے بعد واقعات کے ایک سلسلے نے اس تاثر کو مزید تقویت دی کہ اس نے عسکریت پسندوں کے لئے گنجائش نکالنے کو ترجیح دی۔پنجاب کے وزیرِ قانون ،رانا ثناء اللہ نے ۲۰۱۰ء کے ضمنی انتخابات میں ضلع جھنگ میں اے۔ایس۔ ڈبلیو۔جے کے رہنما احمد لدھیانوی کے ساتھ مل کر کھل کر مہم چلائی تھی۔کچھ لوگوں کو شبہ تھا کہ نواز کے پیروکار آنے والے عام انتخابات سے قبل اپنے خامیوں کے الگ ہو جانے کے ڈر سے جس سے ان کی جیت ممکن تھی،انتہا پسندوں کو چیلنج کرنے سے کتراتے تھے۔

اس کے باوجود بھی اگر صوبائی حکومت نے لشکرِجھنگوی کے خلاف کاروائی کا فیصلہ کیا تھا تب بھی یہ واضح نہیں تھا کہ پولیس اور عدالتوں کی مشینری کافی حد تک مضبوط ہے یا نہیں۔عسکریت پسندوں کے خلاف مقدمات کرنا مشکل تھا کیونکہ گواہوں کو آسانی سے ڈرایا جاتا تھا۔کسی عسکریت پسند کو جیل میں ڈالنا جج کو ان کے بچوں کے لئے موت کے وارنٹ جاری کرنے کے مترادف تھا۔جب تک پاکستان نے نقاب پوش ججوں کی طرف سے چلائے جانے والی مضبوط انسداد دہشتگردی کی عدالتوں کی نئی قسم کو متعارف کرایا تھا تب تک یہ دیکھنا مشکل تھا کہ کب تک کاروائی چلے گی۔

شاید پنجاب میں اسحاق کے پیروکاروں کو قابو کرنے والی صرف قابل تنظیمیں پاکستان انٹیلی جنس ایجنسیاں تھیں جو کہ دشمنوں سے نمٹنے کے طریقے جانتی تھیں۔بلوچستان میں آزادی کے لئے سرگرم مشتبہ کارکنوں کی لاشیں اس بے رحمی کا عہدنامہ تھی جس کا عہدنامہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو اپنے دشمنوں کو کچلنے کے لئے کرنا چاہےئے تھا۔لیکن جب ایجنسیاں اسحاق پر کڑی نظر رکھتی ہیں تو وہ بھی اس کی سرگرمیوں کو ختم کرنے سے کتراتی نظر آتی ہیں۔

پاکستانی شہریوں کی حفاظت کے ذمہ دار ریاست کے مختلف اعضاء خود غائب ہیں،چٹھہ کو امن قائم رکھنے کے لئے اکیلا چھوڑ دیا گیا تھا۔ہماری میٹنگ کے دوران وہ کال لینے باہر گیا۔واپسی پر اس کے تاثرات افسردہ سے تھے۔اس کی منتقلی کی گئی تھی۔اس نے مجھے ایک ٹیکسٹ میسج دکھایا جو کہ رحیم یار خان میں جس کے بہت سے خیر خواہوں میں سے ایک نے کیا تھا:اس نے کہا ’ سر میں نے آپ کی منتقلی کی بری خبر سنی اگر یہ سچ ہے تو یہ رحیم یار خان کی بد قسمتی ہے۔خوش رہیں‘

پاکستان کے بانی محمد علی جناح کا نظریہ ایک ایسے مسلمان وطن کا قیام تھا جہاں کوئی بھی فرقہ آزادانہ طور پر عبادت کر سکتا ہے لیکن بے ضبط عسکریت پسندوں کے گرہوں کے عروج اور ان کے سیاسی ساتھیوں نے ایسے خوفناک سائے پیدا کردےئے ہیں کہ اب ان کے الفاظ کسی دوسرے تصوراتی ملک کی وضاخت کرتے ہیں۔

یکم اگست کو شیخ منظور اور اس کے بیٹے کو گھر کے باہر رحیم یار خان میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔شہر کے مشتعل نوجوان طیش میں آ گئے اور تاجروں نے دکانیں بند کر دیں۔ذمہ داری کا کو ئی دعوی نہیں تھا اور کوئی بھی یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ خونی کون تھا۔پاکستان میں ہر روز قتل ہوتے ہیں۔ایک بڑی تعداد میں خاندان تناز عات سے منسلک ہوتے ہیں اور یہ زیادہ تر عسکریت پسندی کی وجہ سے نہیں ہوتے۔بہت کو شک تھا کہ لشکر جھنگوی ذمہ دار تھی۔لیکن اس طرح کی پرفریب دلیلیں کچھ معنی نہیں رکھتیں۔منظور کی موت نے رحیم یار خان کی معزز رواداری اور اعتدال پسندی کو لوٹ لیا تھا اور لائن پار ہو گئی تھی۔

پورے پاکستان میں یہی پیٹرن دہرایا گیا۔گزشتہ سال شیعوں پر حملے بربریت کی ایک نئی سطح پر پہنچ گئے تھے جس نے پہلے کبھی نہیں کے طور پر کمیونیٹیر کو تقسیم کر دیا۔محدود طریقے سے شیعہ عسکریت پسندوں نے بھی کراچی میں دشمنوں کے خلاف کاروائی کی(اگست میں نا معلوم فرد نے اے۔ایس۔ڈبلیو۔جے کے ترجمان،اکبر سعید فاورقی کو قتل کیا)۔اسلام آباد میں کوئی ارجنسی(فوری ضرورت) میں نے نہیں دیکھی۔مخالف شیعہ مہم کی تیزی سے بدلتی نویت بامشکل سیاسی طبقے میں رجسٹرڈ ہوتے دکھائی دیتی ہے۔لیکن خاموشی کی قیمت ہر قتل کے ساتھ بڑھتی گئی۔طلسم ربا ریاست خفاظت کے بنیادی کام کو انجام دینے میں ناکام رہی تھی۔پاکستانیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد فرقے،نسلیت،سیاسی پارٹی یا علاقے کی بنیاد پر فرقہ ورانہ شناخت کی طرف واپس آ رہی ہے۔تمام فام کے انتہا پسند فائدے میں ہیں کیونکہ معاشرہ خطرناک ہوجاتا ہے،لوگوں کو خفاظت کے لئے بندوقیں پکڑائی جاتی ہیں چنانچہ سخت گیروں کی ہمت مزید بڑھ گئی ہے۔جبکہ پاکستان کی جنرلز ٹیسٹ فائر بیلسٹک میزائل یا غیر حقیقی ٹنک لڑائیوں کے لئے پنجابی میدانوں میں مشق کا انعقاد،تعصب خاموشی سے ٹھوس کھانے والے جراثیم کی پرجاتیوں کی طرح پاکستان کی بنیادوں کو کھا رہا ہے۔ پاکستان آرمی نے افغان بارڈر پر عسکریت پسند طالبان کے خلاف جنگ میں جو قربانیاں دیں اس پر خطرے کا ردِعمل کھوکھلا دکھائی دیتا ہے۔اس ابہام کے تخت کہ ملٹری نے واقعی اپنی سابق پراکسی جنگ کو ترک کر دیا یا نہیں۔

لیکن ابھی بھی میں ملک بھر میں دوروں کے بعد پاکستان کے مستقبل کے بارے میں پر امید ہوں۔شاید اس میں محالِ مجسم کا ایک ذریعہ پو شیدہ ہے۔

عسکریت پسند اتنے طاقتور نہیں جتنے وہ دکھائی دیتے ہیں۔ ریاست کی کمزوری ان کی طاقت ہے نہ کہ ان کی اپنی موروثی طاقت ہے۔ملک کے سول اور فوجی قیادت کی طرف سے اجتماعی کوشش کے ساتھ لشکرِ جھنگوی کے حملے کرنے کی صلاحیت کو محدود کرنے کا مقصد اس کے بر عکس نہیں ہونا چاہے۔ تقسیم،بنیادپرستی اور بدلے کے فاسق سائیکل کو کم کرنا چاہئے۔ بجائے مرضی کے یہ صلاحیت کا سوال نہیں۔

پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اس کی لسٹنگ ہے،خود جذب ادارے بھی سادہ مسائل جیسے بجلی کی فراہمی یا ٹیکس جمع کرنا،کو حل کرنے میں دو لخت ہیں۔سویلین بیوروکریسی کو عسکریت پسندوں کے بے پرواہ قتل کی سبمشن کرنے میں ڈرپوک رہی ہے۔لیکن فوج انتہا پسندی کے لئے امداد دینے جس سے وہ لشکرِجھنگوی کے خلاف منظم تنظیم شروع کرے،کے اپنے دھندلے ریکارڈ پر اپنی نا گزیر روح کی تلاشی سے ہوشیار دکھائی دیتی ہے۔ایک چھوٹے جھالر کو باہر چلانے کی اجازت ہے کیونکہ چند ریاست کی طاقت بنانے والے لوگ اجتماعی اچھے کے مفاد کو اپنانے کے لئے تیار ہیں۔

ان ناکامیوں کے باوجود ان افراد کی سراسر طاقت،جن سے میں ملا کو چھٹکارا پانے کی امید ہے۔سیاستدانوں، پولیس افسران ا ور صاف گو شہریوں نے حقیقی خطرات کا سامنا کرنے کے باوجود خوف زدہ ہونے سے انکار کر دیا۔ ان لوگوں نے ۱۱ مئی کے عام انتخابات میں اپنے وٹ کے ذریعے اس بات کی تصدیق کر دی۔الیکشن سے پہلے دہشت گردوں کے حملوں کے باوجود پاکستان کی پہلی جمہوری تبدیلی کا میاب رہی۔پاکستان کو گرداب سے نکالنے میں ابھی بھی بہت دیر نہیں ہوئی ہے۔
لیکن جب تک اس کے رہنما کام شروع نہیں کرتے،تشدد کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔

میتھیو گرین روئٹرز نیوز ایجنسی کے لیے پاکستان اور افغانستان پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے روئٹرز کے لیے افریقہ کے مختلف علاقوں سے بھی رپورٹنگ کی ہے اور یوگانڈا کی لارڈ مزاحمتی آرمی کے سربراہ جوزف کانئیے پر ایک کتاب دا وزرڈ اآف نائل (نیل کا جادوگر) بھی لکھی ہے۔ گرین نے دا ایکونومسٹ، دا ٹائمز، اور اسکوائر کے لیے بھی لکھا ہے۔ 2007 سے 2010 تک انہوں نے فائنانشل ٹائمز کے لیے افریقہ، پاکستان اور افغانستان میں کام کیا۔


One Response to

خدائی گورکن: فرقہ پرستی کی سیاست

  1. […] اپنے مردہ بیٹے کی لاش — اس موضوع پر میتھیو گرین کا مضمون خدائی گورکن […]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *