پاکستان کے 67 ویں یومِ آزادی پر میں ناکام ریاست پر ماتم یا مست قوم پرستی کے اظہار سے گریز کروں گا۔ ایسی تحریروں کے لیے اس یومِ آزادی کے لیے لکھی گئی کوئی اور تحریر پڑھیں۔ سالگرہ ماضی کے مشاہدے کی بجائے میرے خیال سے مستقبل کے لیے عملِ توثیق ہے۔ (لیکن چونکہ مستقبل ماضی اور حال سے بنتا ہے۔ اس لیے پاکستانی اور اس کی جڑواں بھارتی ریاست اور اس کی جڑواں بھارتی ریاست کی ہیت پر ایک تنقیدی نظر ڈالتے ہیں۔ ہماری فلاح وبہبود، معیشت، ثقافت اور دفاع سے متعلق اکثر توقعات ریاستی اداروں سے وابستہ رہتی ہیں. لیکن میری راۓ میں یہ ریاستی حدوں کے اندر پروان چڑھنے والا سیاسی معاشرہ ہے جو ان امور کی بابت ہماری روزمرہ زندگیوں پر زیادہ اثر انداز ہوتا ہے. میں یہاں پاکستانی ریاست کے اندر پروان چڑھنے والے معاشرے کے متعلق چند خیالات اور تجربات پیش کرنا چاہوں گا۔
مرحوم ڈاکٹر اقبال احمد 30-1920ء کے ہندوستانی قوم پرستوں اور مشہور بنگالی شائر اور دانشور رابندر ناتھ ٹیگور، کے متعلق ایک دلچسپ کہانی بیان کرتے ہیں۔ اپنے پرستاروں میں روبی ٹھاکر کے نام سے جانے جاننے والے ٹیگور مغربی قومی پرست نظریات سے یکسر متنفر تھے۔ بلکہ انہوں نے یہاں تک کہ دیا تھا کہ پہلی عالمی جنگ کا ناقابلِ بیان قتل و غارت یورپی قوم پرست سوچ کا شاخسانہ تھا۔ اس پسمنظر میں یہ تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ بھارت اور بعد میں بنگلہ دیش نے بھی ٹیگور کی نظموں کو اپنے قومی ترانوں کے طور پر استعمال کیا۔
بشمول مسلمان، ہندوستانی قوم پرست ٹیگور کی سوچ کو جانتے ہوئے بھی ان کے اشیرباد کے متمنی رہتے تھے۔ ٹیگور برطانوی راج کے خلاف تھے، اس لئے نہیں کہ وہ سفیدفام لوگوں کا راج تھا، بلکے اس لیے کہ وہ غیر منصفانہ تھا۔ ان کے یہ استدلال تھا کہ قوم پرست سوچ کی بنیاد تفریق کی سیاست ہے۔ اقبال احمد بتاتے ہیں کہ ٹیگور کہتے تھے: “آج اگر سفید اور بھوری رنگت کے انسانوں میں تفریق کی تو، کل ہندو اور مسلمان میں تفریق ہو گی؛ اور اس سے اگلے روز شمالی اور جنوبی ہندوستان میں تفریق ہو گی۔ تفریق کی سیاست کی کوئی حد نہیں”۔ ان کی یہ پیش گوئی بالکل سہی ثابت ہوئی۔ اس دلیل کو یوں آگے بڑھایا جا سکتا ہے کہ، پاکستان بننے کے دوسرے روز ہم نے احمدی اور مسلمانوں میں تفریق کی، اس سے اگلے روز ہم نے مغربی پاکستان اور بنگالی میں تفریق کی، اور اس سے اگلے روز شیعہ اور سنی کے درمیان دیوار کھینچی، اور اس سے اگلےروز بریلوی اور دیوبندی کے درمیان محازارائی شروع ہو گئی . . .
روبی ٹھاکر ایک decentralized ہندوستان میں برطانیہ کا بھی برابری کی بنیادوں پے ایک کردار دیکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے ایک ایسا ہندوستان چاہا تھا جس کا لاچکدار سیاسی ڈھانچہ سماجی انصاف کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اس کے نسلی اور لسانی تنوع کی عکاسی بھی کر سکے۔ روبی ٹھاکر ناکام ہوۓ بالکل اسی طرح جیسے ایک اور مساوات کے علمبردار محمد علی جناح۔ لیکن یہ کہانی پھر کبھی سہی۔ اس کے بجائے فتح مرکزی نہرووین ریاستی ماڈل کی ہوئی، جس کی بھارت اور پاکستان کی ریاستیں دنیا کی پہلی مثال تھیں۔ پاکستان اور نوآبادیاتی دور کے بعد کی دنیا میں کیا غلط ہوا اس کی کئی وجوہات ہیں۔ لیکن ریاستی نظام کا لازم ڈھانچہ، جنرل ضیاء سے بھی زیادہ ہماری موجودہ مشکلات کا موجب ہے.
پاکستانی ریاست کے ڈھانچے میں لازم ہے کہ اس کا سیاسی معاشرہ انتشار کا شکار ہو گا۔ لیکن تمام ناکامیوں کے باوجود میں چند قابلِ ذکر مثبت رحجانات کا ذکر کرنا چاہوں گا۔
پاکستان میں ایک کہاوت ہے کہ یہاں سفارش کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ خاص طور پر نوجوان اس آدھے جھوٹ پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ میرے خاندان کی تعلیمی شعبے کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے مجھے پھل فروشوں، مکینکوں، مزدوروں کے بچوں جیسے 100 کے قریب طالبِ علموں کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ تعلیم ختم کرنے کہ بعد وہ سب کامیابی سے اپنے صنعت، صحافت اور کاروبار کے شعبوں میں مگن ہیں۔ وہ سب اس بات پر قائل تھے کہ ان کی تعلیم عملی زندگی میں کام آنے والی نہیں کیونکہ ان کہ پاس سفارش نہیں۔ ان سب کو تعلیم ختم کرنے کے بعد بغیر کسی سفارش کے روزگار ملا۔ اور وہ اپنے شعبوں میں بغیر کسی سفارش کے ترقی کر رہے ہیں۔ بعض تو اپنی ہی کامیابی پر حیران ہیں۔ پاکستانی معاشرہ اپنی تمام تر کوتاہیوں کے باوجود قابلِ نوجوانوں کو میرے مشاہدے میں ذکر سماجی ترقی کا راستہ دیتا ہے۔ حکومتی ادارے، غیر سرکاری تنظیمیں اور کارپوریٹ دفاتر ایسے لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں جن کے والدین کسان، پھل فروش یا کلرک تھے۔ پاکستان میں انفرادی ترقی کے موقعے ہیں۔ اگر نہ ہوتے تو رہاست اس شکل میں نہ چل سکتی جس میں اب چل رہی ہے۔
ہماری معیشت ہمسایہ ممالک کی طرح اچھی نہیں چل رہی، لیکن اسکی اضافے کی شرح 3 سے 5 فیصد ہے جو کہ دنیا کہ کئی ممالک سے بہتر ہے۔ واضح وجوہات کی وجہ سے ہماری معیشت زیادہ گلوبلائزڈ نہیں ہے لیکن اسی وجہ سے ہماری اندرونی معیشت بین الاقوامی جھٹکوں سے قدرے محفوظ ہے۔ ہمارے ہاں براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری نہ سہی، لیکن معذرت کے ساتھ، مجھے میرے ملک کا بینالاقوامی سرمایاداروں کے ہاتھوں نہ لٹنیں کا کوئی خاص افسوس نہیں۔
ہم بھارتی مستحکم جمہوری نظام پر رشک کرتے ہیں، اور کرنا بھی چاہیے، لیکن ہمیں ان کے مڈل کلاس کے قوم پرست خیالات پر رشک نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان میں آج تک ریاست کی نوعیت اس کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات اور اس کی نام نہاد اسٹیبلشمنٹ کی ریشہ دوانیوں پے کھلی بحث ہوتی ہے۔ ہمارے آزاد میڈیا کی طرف سے اس طرح کی کھلی بحث ہمارے سیاسی ماحول کے لئے آب حیات ہے۔ جہاں قوم پرست اتحاد کی کمی کی اعلامات دیکھتے ہیں مجھے وہیں حیرت انگیز تنوع اور صحتمند بحث دکھتی ہے۔
چار غیر معمولی لوگوں کا ذکر کرنا چاہوں گا جو میرے مشاہدے میں مثالی پاکستانی ہیں۔ نوجوانی میں میں بس فوج میں شامل ہونا چاہتا تھا۔ یہ خیال میرے امریکہ انڈرگریجویٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے جانے کے بعد بھی برقرار رہا۔ میرے والد کی برگیڈیئر اکبر خان کے ساتھ دوستی تھی۔ فوج میں برگیڈیئر اکبر کی مکمل پیشہ ورانہ سلاحیتوں کے باعث بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ اگر انھیں طبعیت کی خرابی کی وجہ سے فوج نہ چھوڑھنی پڑھتی تو شاید ضیاء الحق کی بجائے وہ آرمی چیف بنتے۔ ایک معمول کی ملاقات میں میرے والد نے انہیں میرا بتایا کہ میں فوج میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ ایک لمحے کا بھی توقف کیے بغیر انہوں نے کہا کہ: “یہ اچھی بات ہے، تب کم از کم فوج کے پاس ایک تعلیم یافتہ آدمی ہو گا”۔ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے وہ وجوہات بیان نہیں کی کہ فوج کیوں میرے جیسے آدمی کے لیے ٹھیک نہیں ہے بلکہ وہ اس ادارے کے لیے فوائد کی طرف متوجہ تھے۔ یہ بریگیڈیئر اکبر خان جیسے لوگ ہی ہیں جو اپنے اداروں اور کام سے عشق کرتے ہیں اور فوج اور ملک کے لیے فخر کا باعث بنتے ہیں. نہ کے حمید گل جیسے اوچھے لوگ جو بی۔ایم۔ڈبلیومیں بیٹھ کر غریبوں کو جہاد کی ترغیب دیتے ہیں۔
میری مقالہ تحقیق کے دوران تحصیل کبیروالا میں مجھے درخانہ یونین کونسل میں مقامی سطح کے سیاسی رکن مہر نوشروان سے ملنے کا اعزاز ملا۔ ان کے پاس کوئی رسمی تعلیم نہیں تھی مگر پھر بھی وہ اپنے علاقے کے لوگوں کے لیے فرشتہ رحمت تھے۔ میں نے کئی بار عرض گزاروں کو بڑے جاگیرداروں کے ساتھ اپنے خاندان، زمین یا پولیس سے متعلقہ مسائل بیان کرتے دیکھا تھا۔ مہر نوشروان نے ہمیشہ بڑے جاگیرداروں کو تمام لوگوں کی جانب سے کسی مسافر ٹرین کو مقامی اسٹیشن پر رکوانے، پانی کی اسکیم جیسے اجتمائی مسائل کے حل کے لیے رابطہ کرتے دیکھا۔ آپ نا خواندگی کے باوجود کسی بڑے سیاستدان کے سامنے برابری اور وقار سے کھڑے ہوتے تھے۔ بدعنوان سیاستدان اور سرکاری ملازم ان کے سامنے بھیگی بلی بنتے تھے کیونکے وہ جانتے تھے کے مہر نوشیروان کون ہے، اور وہ خود کیا ہیں۔
بلوچستان میں تحقیق کے دوران مجھے تحصیل مسلم باغ میں کریز یعقوب گاؤں کے سربراہ امان اللہ سے ملنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ میری تحقیق کے دوران میری ٹیم کا دس دیہات میں مقامی طالبان نے یہ سوچتے ہوئے پیچھا کیا کہ میری ایجنسی ‘نیشنل جیو گافک سوسایئٹی’ بد فعلی پھیلا رہی ہے۔ امان اللہ وہ شخص تھا جس نے مقامی طالبان کے اعتراضات کے باوجود اپنے گاؤں میں مخلوط پرائمری سکول بنایا۔ انہوں نے طالبان کی مرضی کے خلاف دو لڑکیوں کو گاؤں میں لڑکوں کے ساتھ مڈل سکول میں پڑھنے کی اجازت دی۔ وہ ایک صاف گو آدمی تھے جن کے بلوچستان اور پاکستان میں گورننس کی ناکامی کے متعلق مدلل اور منتقیانہ تجزیے کے سامنے بڑھے بڑھے شہری دانشور بھی اپنا سا مؤن لے کے رہ جایں۔ وہ ایک سرگرم کارکن اور دانشور ہیں جو اپنے گاؤں اور بلوچستان کی ظلمت پسند فورسز کے سامنے چٹان کی طرح کھڑے ہیں۔
آخر میں میری ساتویں سے نویں جماعت کی جغرافیہ کی ٹیچر مس سلیمہ عزیز ہیں۔ میں نے جغرافیہ میں ڈاکٹریٹ اس لیے کیا کیونکہ انہوں نے مجھے اس مضمون سے محبت کروائی۔ ان کو اپنے مضمون پر عبور تھا. اور انہوں نے کمال مہربانی سے میرے جیسے ناھنجار لڑکے کو پڑھائی میں رام کیا اور میری زندگی پر ایک گہرا اثر چھوڑا. وہ میرے لیے مثال ہیں کی ایک شخص کو کس قسم کا استاد اور سرپرست ہونا چاہیے۔ میرے میں ١٠ سے ١٨ سال کے بچوں سے نبرد آزما ہو سکوں. بس ٢٠-٣٥ سال کے جوانوں کو پڑھا کے ان کی تقلید کرنے کی کوشش کرتا ہوں.
برگیڈیئر اکبر، مہر نوشروان، امان اللہ اور سلیمہ عزیز جیسے لوگ ہی اس ملک کے اصل سرپرست ہیں۔ جب تک وہ ہیں ہم اس اطمینان سے سو سکتے ہیں کہ سرحدوں کا دفاع ہو گا، سڑکیں بنیں گی، لڑکے اور لڑکیاں تعلیم حاصل کریں گے، اور طالبان ہاریں گے۔
دانش مصطفیٰ کنگزکالج لندن کی جغرافیہ کے ڈیپارٹمنٹ میں پڑھاتے ہیں۔ وہ ہمہ وقت قاری کی مصنف پر دھونس کے خلاف سینہ سپر رہتے ہیں۔