مصنف : ولیم جے گلوور| مترجم : حافظ صوفی
اگست ١٩٤٧ کی دھندلی یادیں آج بھی بزرگوں کی اس نسل پر بھاری گزرتی ہیں جسے اپنے گھر بار چھوڑنا پڑے۔ ہجرت کے دوران ظلم و تشدو کی وہ داستانیں رقم ہوئی جو سننے والے کے رونگھٹے کھڑے کر دیں۔ لاکھوں افراد قتل ، کروڑوں کی نقل مکانی ، گاؤں ، قصبے ، خاندانوں کا اجاڑ اور دہائیوں سے ساتھ رہنے والوں کا ایک دوسرے پرناقابل بیان ظلم۔ کچھ لوگ تشددکے اس بخارکی کوئی اور توضیح نہ پاتےہوئے اسے ایک انسانیت سوز لمحے سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ دوسروں کے نزدیک فرقہ وارانہ مقاومت کا یہ انجام ناگزیر تھا۔
تقسیم کے دوران دہشتگردی کی جو بھی وجہ رہی ہو(اور وجوہات کئی ہیں ) نئی غیر ملکی حدبندیوں نے آبادی کے بڑے حصّے کودو طرفہ نقل مکانی پر مجبور کیا۔ لاکھوں پریشان حال لوگ بے گھر ہوےٴجنھیں زمانے کے رحم و کرم پر لا کر چھوڑ دیا گیا۔ اس ماہ جب ہم آزادی کی سالگرہ منا رہے ہیں لازم ہے کہ دھیان بٹوارے کی افراتفری کی طرف بھی جا ئے گا۔ غور کیجیے گا کہ تقسیم کی اکثر کہانیاں لوگوں اور عمارتوں کے تعلق پر ہوتی ہیں۔ جیسے کہ کہانیاں جن کا مرکز ایک پرانا ،بھولا بسرا، گھر، محلہ یا گاؤں ہوتا ہے۔ یا پھر مہاجرین کی تیسری نسل آج جن ‘گھروں’ میں مقیم ہے، ان کے قصے کہ پہلےوہاں کبھی مندر، مزار یا مسجد ہوا کرتے تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ تقسیم کی کہانیاں زمین کھونے اور پھر نئی جگہ کےحصول کے گرد گھومتی ہیں۔ میزبانوں کی کشادہ دلی، غمِ ہجرت، بستی والوں کی پناہ گیری اور ذاتی مفاد و لالچ ان کہانیوں میں ڈرامائی رنگ تو بھر دیتے ہیں۔ لیکن وہ جذبات اور اعتقادات جوان کہانیوں کا منبع ہیں ریڈکلف کی لکیر سے کہیں پرانے ہیں۔ شہر میں جگہ پکّی کرنے کے چکر میں لوگوں نے جن ترکیبوں اور تدبیروں کا سہارا لیا بشمول دوسروں کو انکے گھروں سے بیدخل کرنے کے، میں انھیں”مستقل مکانی کا گورکھ دھندہ” کہوں گا۔
بڑے شہروں میں پناہ لینے والے مہاجرین کیلیے بندوبستی علاقے کسی کام نہیں آئےتھے۔ تقسیم کے فوری بعد لاہور میں آنے والے مہاجرین کو شہر کے کئی حصّوں تک فسادات کی وجہ سے رسائی ہی نہیں ہو سکی تھی۔ جلے ہوئے شاہ عالمی بازارکی باقیات عدم تحفظ میں مزید اضافہ کر رہی تھی۔ جن لوگوں نے واہگہ کے قریب پناہ گزین کیمپ میں ڈیرا ڈالا وہ بھی محفوظ نہیں تھے۔ کئی لوگ رات کو نشانچیوں کی گولیوں کا شکار بنے۔ واہگہ کے کیمپ کو تومغرب میں دو میل دور نسبتا ًمحفوظ مقام پر منتقل کیا گیا۔ لیکن لاہور کی گلیاں اور بازار تو جگہ نہیں بدل سکتے تھے لہذا ان کی آباد کاری ایک سست اور پیچیدہ عمل ثابت ہوئی۔
کچھ پیچیدگیاں تو اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ لوگوں نے شہر کی غیر آباد اور بیکار جگہ پر عارضی رہائشیں ڈال لی تھیں۔ دہلی میں جہاں تقسیم کے مہاجرین کی تعداد سب سے زیادہ تھی (تقریبا دس لاکھ کے لگ بھگ ) لوگوں نے سکولوں، گوداموں میں، سڑکوں پر، پلوں کے نیچے اور مزاروں کے سا یےمیں پناہ لی۔ سب سےمشہورکیس شکستہ حال پرانے قلعےکا تھا جہاں دہلی ہی کے پاکستان جانے والے متاثرہ مسلمانوں کو ٹھہرایا گیا۔ ان میں سے کچھ لوگوں کو ایک سال تک قلعےمیں انتظار کرنا پڑا- جو خوش قسمت لوگ اس شہر کی گھاٹیوں اور شگافوں میں سر چھپانے کی جگہ بنا پا ئے، وہ صرف وہاں کھانا پینا سونا اور آرام ہی نہیں کرتے رہے بلکہ جلد ہی روزی روٹی کے لئے اسی شہر کی سڑکوں پر سرگرداں ہو گئے۔ اس تلاش میں اکثر ان کا برا ہ راست مقابلہ شہر میں رہ جانے والوں سے ہوا۔
١٩٤٧ کے موسم سرما تک دہلی کے ڈپٹی کمشنر کا دفتر ان شکایتوں سے اٹاپڑا تھا کہ پرانے شہر کے مضافات سے بھکاری، فراڈیے اور پھیری والے نئی دہلی میں امڈرہے ہیں۔ اس وقت کی پولیس عرضداشتیں بتاتی ہیں کہ لوگ ان جگہوں میں رہ رہے تھے جو انسانی آبادی کے لئے بنائی ہی نہیں گئی تھیں۔ مقامی لوگ مہاجرین کی زمینوں پر حق جتا رہے تھے۔ کچھ اور رپورٹس میں بڑھتی ہوئی گندگی، بنیادی سہولتوں کے فقدان اور سکول آتے جاتے بچوں کے لئے خراب سڑکوں کا بیان ہے۔
جسمانی تشدد تو ایک طرف، تقسیم کے حالات نے بڑے پیمانے پر تکلیف دہ اور نقص صحت حالات زندگی کے ساتھ ساتھ فراڈ اور خود غرضی کو خوب فروغ دیا۔ لاکھوں لوگوں کے لمبے عرصہ تک بے سروسامانی کےعالم میں پڑے رہنے سے حالات مزید خراب ہو ئے لیکن فراڈ اور دو نمبری کا نشانہ صرف تقسیم کے مہاجرین ہی نہیں بنے۔
تارا چند ریلوے کلرک تھا جس نے ١٩٤٦ میں کرول باغ دہلی میں ایک مکان خریدا۔ اس کا اراد اہ گلے سال ریٹائرمنٹ کے بعد اس گھر میں منتقل ہونے کا تھا۔ لیکن مکان خریدنے کے کچھ ہی دیر بعد اسکا تبادلہ امبالہ ہو گیا۔ اپنے خاندان کے ہمرا ہ دہلی چھوڑنے سے پہلے اس نے وہ مکان ایک ہندوستانی عیسائی کو کرایہ پر دے دیا۔ جون ١٩٤٧ میں جب کرایہ دار نے یہ مکان چھوڑ دیا تو تارا چند نے تالا بندی کرنے کے لئے دہلی کا چکر لگایا۔ جس وقت تک تارا چند اور اسکا خاندان امبالہ سے آنے کے لئے تیار ہوئے دہلی میں فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ گرمیوں اور افراتفری کے موسم میں قریبی علاقے کے ایک دکاندار نے تارا چند کے مکان کا تالا توڑا اور خود وہاں شفٹ ہو گیا۔ حالت کچھ بہتر ہونے پر جب تارا چند دہلی پہنچا تو دکان دار بڑےسکون سے گھر میں رہ رہا تھا۔ دکان دار کے رشتہ دار مقامی انتظامیہ اور کرول باغ تھانے میں تھے، وہی لوگ جن کے پاس تارا چند اپنی شکایات لے کر گیا۔ دکان دار کے کچھ جاننے والے پناہ گزینوں کی جائیداد کے نگران ادارے میں بھی تھے۔ لہٰذا وہاں بھی تارا کی کوئی شنوائی نہیں ہو سکی۔ مارچ ١٩٤٩ میں جا کر تارا چند کی فائل ڈپٹی کمشنر کے سامنے پیش کی گئی لیکن تب تک مکان تارا کی دسترس سے اور دور نکل چکا تھا۔ ڈپٹی کمشنر کے نام آخری حربہ کے طور پراپنی درخوا ست میں تارا چند نے لکھا کہ “انصاف کا صرف ڈھنڈورا پیٹاجاتا ہے حقیقت میں چلتی صرف رشوت، سفارش اور اقربا پروری ہے-” تارا نے یہ بھی لکھا کہ “اس سارےعرصے اسکا خاندان بنا چھت کے امبالہ میں پڑاہے۔” بہرطور ڈی سی نے اس کیس پر کوئی کاروائی نہیں کی۔
مہاجرین اور تقسیم کے دوسرے متاثرہ لوگوں کے برعکس تارا چند کے پاس اپنے مکان کی قانونی دستاویز تو تھیں لیکن باقیوں کی طرح اسکی حرکت پذیری، چاہے وہ سرکاری ملازمت کے سلسلے میں تھی، نقصان دہ ثابت ہوئی۔ شہر میں اسکی غیر موجودگی کا فائدہ ان عناصر نے اٹھایا جو لوگوں کو بے دخل کر کے خود مستقل مکانی کے’ گورکھ دھندے'(جیسے کہ میں نے پہلے ذکر کیا) کے ماہر بن چکے تھے۔ تقسیم کی کہانیوں کے عام فہم ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی زمینیں ہتھیا نے کے طریقے ١٩٤٧ میں دریافت نہیں ہوئے بلکہ یہ دھوکہ دہی برصغیر میں شہری زندگی کا پرانا خاصا ہیں۔
قبضہ گیری کے یہ طور طریقے بیسویں صدی کی پیدائش بھی نہیں لیکن یہ ضرور ہے اس صدی کی شروع کی دہایوں میں ان کا استعمال خوب بڑھا۔ یہ وہ عرصہ تھا جس میں بھارت کے بڑے شہروں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ نتیجے میں شہری زمین کی مارکیٹ وجود میں آئی۔ پھر بھی مکانوں کی قلت ایک عام بات تھی۔ زمین ڈھونڈ نے، ہتھیا نے اور پھر پلاٹ پر جمے رہنے کے لئے جو حربے درکار تھے وہ محدود ذرائع والے افرا د کی پہنچ سے دور ہوتے گئے۔ لاہور میں آبپاشی، ریل، تعلیم اور قانون کے محکموں میں نئی ملازمتوں نے ہزاروں لوگوں کو شہر کی طرف متوجہ کیا۔ ١٩١٤ میں چھپی اے ایچ پوک کی لاہور گائیڈ جو فلیٹیز ہوٹل سے دستیاب تھی میں لکھا ہے کہ “لاہور میں رہائشی مکانات نئے تعمیر شدہ دکھائی دیتے ہیں، بہت سے گھر پچھلے پندرہ بیس برسوں میں بنائے گئے ہیں”۔
ہندوستان کے باقی بڑے شہروں میں بھی ملتا جلتا رحجان دیکھا گیا۔ ١٩١١ میں برطانوی راج کے اس اعلان کے بعد کہ دہلی ہندوستان کا دارلحکومت بنے گا، شہر کی طرف نقل مکانی کی ایک لہر اٹھی۔ بہت سے لوگ اس عظیم الشان پراجیکٹ میں کام کرنے آئے جو بعد میں نئی دہلی کہلوایا۔ شہر اسقدر تبدیلیوں کی زد میں تھا کہ چیف کمشنر نے ایک خصوصی مردم شماری کروانے سے اس لیے انکار کر دیا کیونکہ اس کے نتائج چند ہی مہینوں میں آبادی کے حجم اور تقسیم میں تبدیلیوں کی وجہ سے بیکار ہو جاتے۔ ١٩١٢ کے آغاز میں نو آبادیاتی حکومت نے شہر کے آس پاس پینتیس ہزار ایکڑ رقبہ بشمول ١٢٠ دیہات کے خریدنا شروع کیا۔ اس سلسلے کو مکمل ہونے میں چار سال لگے۔ شہر میں آج جو جگہ ایک کروڑ روپیہ ایکڑ ہے راج نے وہ زمین اوسطاً١٦٤ روپے فی ایکڑ کے حساب سے خریدی۔ لیکن سبھی لوگ اس لین دین سے مطمئن نہیں تھے۔ قریبا ً ٣٢٠ مالکان نے عدالت میں معاوضے کو ناکافی قرار دیا۔ لیکن پھر بھی چار سال کے دور میں سارے کیس نمٹ گئے۔ حکومت کو صرف چالیس ہزار مزید خرچنا پڑے۔
ہنرمند اور غیرتربیت یافتہ مزدوروں کی آمد، نو آبادیاتی دارلحکومت چلانے کیلئے درکار سرکاری، تکنیکی اور منیجرز کی پوری کھیپ نے شہر میں رہائش گاہوں کی سخت قلت پیدا کر دی جس کے اثرات ہر طبقے کے لوگوں نے محسوس کئے- یہ صورت حال ابتک موجود ہے- حکومت کی ایک حالیہ رپورٹ (اکنامک ٹائمز دسمبر ٢٠١١) میں بتایا گیا ہے کہ دہلی کے ماسٹر پلان ٢٠٢١ سال تک شہر میں پچیس لاکھ مکانوں کی کمی ہو گی۔ ماضی میں ایسے اندازے بہت کم کر کے بتائے گئے اور کوئی وجہ نہیں کہ اصل قلت اب بھی اس سے کہیں زیادہ ہو۔ مستقل مکانی کے گورکھ دھندے آج بھی دھڑلے سے چل رہے ہیں۔
تاریخ کی اس چھوٹی سی تصویر کو دیکھ کر ہم یہ سیکھتے ہیں کہ بٹوارے کے مہاجرین کی آمد پرچار دیواری اور زمین کی کشمکش شہری علاقوں میں اچانک پیدا نہیں ہوئی تھی۔ اپنی خود کی ایک جگہ تلاش کرنا ہماری زندگی کا اتنا اہم مرحلہ ہے کہ اسکے بارے بات کرنا شہری زندگی سے علیحدہ نہیں سمجھا جاتا۔ فراڈ اور خود غرضی ہمارے شہروں میں زمین کےلین دین کا لازمی جزو ہے۔ بحران کے دوران بس اس میں متناسب بڑھوتی ہو گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ تقسیم کی کہانیوں میں لوگوں اور عمارتوں کے متعلق جو نا انصافی نظر آتی ہے اسے وقتی اخلاقی انحطاط پر قیاس کرنا درست نہیں۔ یہ روزمرہ کی غلط کاریاں تھیں ، انہیں انجام دینے والے لوگ منظم تھے اور اسی لیے انہوں نے موقع کا خوب فائدہ اٹھایا۔
مزید وضاحت شا ید یہ سوال پوچھنے پر ہو سکے کہ بٹوارہ سےذرا پہلے کے سالوں میں جب کسی کو آنے والے حالات کا اندازہ نہیں تھا مالک مکان کرایہ داروں سے کس طرح کا برتاؤ کر رہے تھے ؟ اور جوابا ً انھیں کس قسم کے سلوک کا سامنا تھا ؟ دہلی کے ڈپٹی کمشنر کو ١٩٤٤ – ١٩٤٦ کے عرصہ میں لکھی گئی عرضداشتوں کے تین پرانے گرد آلودہ پلندے شاید ان سوالوں پر کچھ روشنی ڈال سکیں۔ یہ پلندے بہت سالوں پہلے کسی اور چیز کی تلاش کے دوران دہلی کے سرکاری دستاویزات میں مجھے ملے تھے۔ کچھ عرضداشتیں ٹائپ شدہ تھیں، مشینوں کے چھوڑے ہوۓ نشان تک محفوظ تھے۔ کچھ درخواستیں خوش خطی سے لکھیں گئی تھیں لیکن بہت سی استعمال شدہ چھپے کاغذوں کے پیچھے بھی ٹائپ کی گئی تھیں جس سے یاد آتا ہے کہ جنگ کے دنوں میں باقی چیزوں کی طرح کاغذ کی بھی کمی رہی ہو گی۔ بہرحال ان دستاویزات سےبڑھتے کرایہ اور کرایہ کے مکانوں کی کمیابی کا منظر ابھر کر سامنے آتا ہے۔ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ جو لوگ گورکھ دھندے سے بچنا چاہتے تھے مارکیٹ انکو مواقع فراہم کرنے میں تقریبا ً ناکام تھی۔
مثال کے طور پہ حوض خاص گاؤں میں ایک محدود ذرائع کے ٹیلیفون آپریٹر رومیش ورما نےشکایت کی کہ اسکی مالکہ مکان غیر معمولی کرایہ وصول کرنے پر مصر ہے۔ ورما نے اپنی درخوا ست میں لکھا ‘ جناب عالی آ گاہ ہیں کہ دہلی میں رہائش کتنا بڑا مسئلہ ہے -ما لک مکان اسکا ناجائز فائدہ اٹھا تے ہوئے کرایہ کے نام پہ لوگوں کو لوٹ رہیں ہیں’۔ ورما کو نکا لنے کیلئے مالکہ نے چھت میں سوراخ کیے جن سے وہ باقائدگی سے کوڑا پھینکتی تھی۔ یہی نہیں بلکہ صبح سے شام تک وہ گالیاں بھی برساتی رہتی۔ ورما کی شکاتیوں سے آخر تنگ آ کر مالکہ کا ایک جاننے والا، امر داس ،غصہ میں ڈنڈا لےکر ورما کو پیٹنے والا تھا کہ محلے کے نوجوانوں نے بچ بچا کرایا۔ درخواست پر ان نوجوانوں کے انگھوٹھوں کے نشان بیان حلفی کے طور پر موجود تھے۔
روشن آرا روڈ کے رہائشی محمد یامین نے کرایہ دگنا یا گھر خالی کرنے کا مطالبہ مسترد کر دیا- مطالبہ میں وزن ڈالنے کے لئے مالک مکان کے میونسپلٹی میں موجود دوست ایک دن یامین کے گھر آئے اور اسکا کچن اور لیٹرین گرا گئے۔ باہر نکلتے ہوئے وہ فلیٹ کی سیڑھیاں بھی توڑ گئے۔
ایس ایم مہتا کی شکایت تھی کہ اسکے مالک مکان نے گھر میں چار اہم بجلی کے پوا ئنٹ، باتھ روم ، لیٹرین ، سیڑھیوں اور ڈیوڑھی سے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہٹا دیے تھے۔ پی ڈی سولو پہاڑ گنج میں کرایہ دار تھے- انکا مالک مکان وہ فلیٹ بیچنا چاہتا تھا۔ اپنی درخوا ست میں وہ لکھتے ہیں کہ “پچھلے ہفتے مالک مکان کے بیٹے نے میری چارپائیوں کے پائے توڑ دئے ، اسکی بیوی نے دھوپ میں سوکھتے میرے کپڑے پھاڑ ڈالے اور پانی تو اکثر اوپر سے بند رہتا ہے۔ اس گرمی کے موسم میں پانی کی بندش سے ہونے والی تکلیف کا صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے”۔
شیخ ذاکر حسین نے کرول باغ میں ایک مہنگا مکان کرایہ پے لے رکھا تھا۔ ایک دن انہوں نے نوٹ کیا کہ مالک مکان گندے پانی کی نکاسی انکے صحن میں کر رہا ہے۔ جب شیخ صاحب کو اس سے کچھ افاقہ نہیں ہوا تو مالک مکان نے ایک نئی لیٹرین اس برآمدے میں تعمیر کر لی جسے ذاکر کے خاندان کی خواتین پردہ کے لیے استعمال کرتی تھیں ۔ شیخ صاحب نے اپنی عرضداشت کے آخر میں یہ بھی لکھا کہ مالک مکان جان بوجھ کر بتی اسوقت منقطع کر دیتا تھا جب ان کا بیٹا اور بیٹی ایم اے کے امتحانات کی تیاری کرنے بیٹھتے تھے۔ بقول ذاکر اسکا بیٹا ذہنی پریشانی کی وجہ سے پورے پرچے بھی نہیں دے پایا۔
چھوٹے خان ایک سرکاری ملازم تھا۔ اسےگھر سے بے دخل کرنے کے لئے مالک مکان نےدو عورتیں اسکی طرف بھیجیں جن کا کام اسکے مکان میں چرس رکھنا تھا ۔ لیکن اس دن غیر متوقع طور پر چھوٹے خان جلدی گھر آ گیا اور یہ پلان ناکام ہو گیا۔ حسن اتفاق سے اسی وقت ایک پولیس پارٹی جس میں ایک سپاہی مالک مکان کا بھائی تھا ، ممنوعہ اشیاء کی تلاش میں وہاں آ پہنچی ۔ بدقسمتی سے انھیں وہاں سے کچھ بھی نہیں مل سکا۔
چھوٹے خان تو بے گناہ نکلا لیکن مالک مکانوں کی بہت سی درخواستیں کرایہ داروں کی غیر قانونی سرگرمیوں کے بارے میں تھیں۔ منشیات کا استعمال ، بدکرداری ، وقت پہ کرایہ نہ دینا اور بغیر اجازت کمروں پہ قبضہ کرنے کی شکایات عام تھیں۔ پردہ دار خواتین ، خصوصا بیوائیں فراڈی کرایہ داروں اور بدتمیز مالکوں کا آسان نشانہ تھیں۔ اسی طرح بوڑھے اور کمزوروں کا استحصال زیادہ ہوتا تھا۔ دہلی کنٹونمنٹ سے ایک بزرگ درخوا ست گزا ر ، ٹکا رام نے ڈی سی کی مدد چاہی کیونکہ اسے اپنی زندگی کو مالک مکان کی طرف سے خطرہ محسوس ہوتا تھا جس نے ٹکا کی زندگی ‘بغیر وجہ کے اجیرن بنا رکھی تھی۔’
چھیاسٹھ سال بیت گئے جب لٹےپٹےاور بے گھر مہاجرین پناہ ڈھونڈھتے ہمارے شہروں میں آئے تھے لیکن مستقل مکانی کے گورکھ دھندوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔ بلکہ جگہ حاصل کرنے کے طریقے ، فراڈ ، ترکیبیں اور دھوکہ دہی اتنی ترقی کر چکے ہیں کہ انھیں شہری زندگی سےالگ کرنابہت مشکل ہے۔ لیکن بہرحال یہ سب تقسیم کےمشکل سالوں سے پہلے بھی چل رہا تھا اور بعد میں بھی چلتا رہا۔ بٹوارے کے حالات نے بس اس کی شدت میں اضافہ کر دیا تھا۔ تقسیم کی اکھاڑ پچھاڑ اور اسکے اثرات آج بھی نہ صرف تاریخ دانوں بلکہ ان تمام لوگوں کیلئے سوچ و فکر کا موضوع ہیں جن کے خیال میں حال کی تشکیل میں ماضی کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ جس طریقے سے افراد شہر میں رہتے ہیں وہ اس بات پر بہت حد تک منحصر ہوتا ہے کہ ان سے پہلے کے لوگوں کا شہر سے کیسا تعلق تھا۔ اس لحاظ سے مستقل مکانی کے گورکھ دھندے اس سوچ کی کوئی مدد نہیں کرتے جو ١٩٤٧ کے انسانیت سوز واقعات پر وقتی جنون کا پردہ ڈالنا چاہتی ہے۔
ولیم جے گلوور امریکہ کی مشی گن یونیورسٹی میں تاریخ اور فن تعمیر کے پروفیسر ہیں۔ انکی کی کتاب ‘جدید لاہور: ایک نو آبادیاتی شہر کا تخیل اور تعمیر’ امریکی سوسائٹی برائےمطالعہ پاکستان کا انعام جیت چکی ہے۔ پروفیسر ولیم آجکل جنوبی ایشیا میں دیہی اور شہری منصوبہ بندی کے ملاپ پر ایک کتاب لکھ رہے ہیں۔
حافظ صوفی پیشے کے اعتبار سے انجنیئر ہیں جو حسب توفیق ترجمے میں طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں۔
[…] سرمایہ، قوم، طاقتور اور بالادست طبقات کی مجبوری ہے۔ یہی المیہ تاریخِ جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت کی […]
[…] اردو | Issue V […]