محمد عمران | ترجمہ: پلوشہ مشتاق

“فوٹوگرافر: عائشہ مالک | “لاہور ریلوے سٹیشن پر کلی
۱۹۹۰کے آغاز میں جیل ر وڈ پر لاہور کے پہلے انڈر پاس کا افتتاح ہوا- یہ ہماری جوانی کا دور تھا اور ہم نے خوب جشن منایا۔ بڑے فخر سے اسلام آبا د سے آئے ہوئے رشتہ داروں کو اس انڈر پاس کے بارے میں بتایا۔ موٹر بائیک پر اپنے دوستوں کے ساتھ انڈر پاس سے تیزی سے گزرنے کا لطف بھی لیا۔ لڑکپن سے جوانی کا سفر ہم نے پاکستان ٹیلی وژن چینلوں پر امریکی ٹیلی سیریزچپس دیکھتے ہوئے گزارا تھا۔ ا س سیریز کی بدولت ہم لاس اینجلس کی موٹرویز کے جال سے بخوبی واقف تھے۔ چنانچہ لاہور میں اس پہلے انڈر پاس کی تعمیر کو بھی ہم نے ترقی کا ایک معرکہ سمجھا۔
یونیورسٹی آف انجینئرینگ لاہور سے تعلیم حاصل کرنے کے نتیجے میں ہم سڑکوں کو ترقی کی نشانی گردانتے تھے۔ یونیورسٹی میں سکھایا گیا کہ لاہورجیسے بڑی آبادی کے شہروں کی اقتصادی ترقی کا ہائی وے،موٹر وے اور انڈر پاس وغیرہ سے گہرا تعلق ہے۔ ۱۹۶۰ء میں جب گاڑی چلانے والوں کی تعداد بہت کم تھی تب بھی آٹھ لین والی ہائی وے کا خیال بہت بھاتاتھا۔ بیس سالوں میں لاہور کے انڈر پاسوں کی تعداد دو ہندسوں تک پہنچ گئی ہے۔ اس کے علاوہ لاہور کا احاطہ کیے ہوئی رِنگ روڈ شہرکو جدید موٹروے کے نظام سے ملاتی ہے۔ مگر افسوس کہ لاہور کی اقتصادی ترقی بس ایک خواب بن کے رہ گئی ہے۔ بلکہ انڈر پاس اور فلائی اوور میں پیسے جھونکنے کی وجہ سے شہر مزید اقتصادی، معاشرتی اور ما حولیاتی مسائل سے دو چار ہو گیا ہے۔
۱۸۹۰میں برطانوی گارڈن سٹی اورامریکن سٹی بیوٹی فل تحاریک کی طرز پر لاہور میں بھی صحتٍ عامہ اور بڑھتی ہوئی آبادی کے مسائل کے لئے ہاؤسنگ سکیمیں بنائی گئیں جیسا کہ ۱۹۱۰ میں ما ڈل ٹاؤن، ۱۹۵۰ میں ثمن آباد اور گلبرگ۔ یہ کہنا درست ہو گا کہ سڑ کوں پر بے انتہاہ سرمایہ کاری کے باعث ۱۹۹۰ میں ان جگہوں کی آبادی بہت بڑھ گئی۔ زرخیز زمینوں پر ہاؤسنگ سکیم بنانے کی وجہ سے ماحولیاتی مسائل پیدا ہوئے۔ آج کا لاہور کانکریٹ کا جنگل ہے جس نے۱۰۰مربع میل کی جگہ ہڑپ کرلی ہے۔ برِصغیر کے زرخیز ترین زرعی خطہ میں رہائش پذیر لاہوریوں کو اب تازہ دودھ یا سبزیاں تک درکار نہیں۔ بلکہ شہر میں بمشکل پرندوں کی آواز سنائی دیتی ہے۔ لاہوری برسات کے پانی سے بھی تنگ ہیں جو ہر گھر میں گھس جاتا ہے کیونکہ اس کنکریٹ کے جنگل میں نکاسیء آب کا کوئی انتظام نہیں۔ اس سب کی ذمہ داری حکومت، منصوبہ ساز اور ترقیاتی اداروں کے سر پر ہے۔
منصوبہ ساز اداروں نے سڑکوں کی تعمیرپر بے انتہاہ پیسہ جھونکا اور ایسی رہائشی سکیموں کی بھی بھرمار ہے جو رقبہ میں تو بہت بڑی ہیں پرآبادی کے بہت چھوٹے حصہ کی رہائش کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ اس منصوبہ سازی کے نتیجہ میں گاڑیوں کے بغیر شہر میں سفر کرنا، یعنی جینا، ناممکن بن گیا ہے۔ پچھلے دس سالوں میں گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی، قسطوں پر گاڑیاں ملنے اور سی۔این۔جی جیسے سستے ایندھن کی دستیابی سے گاڑیوں کی خرید میں تیزی آئی۔ چناچہ لاہوری جب گاڑیوں میں سوار صبح شام سڑکوں پر نکلتے ہیں تو ٹریفک کے مسائل پیدا ہوتے ہیں، سی۔این۔جی اسٹیشنوں پر لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ لاہوری اپنی ماہانہ آمدنی کا بڑا حصہ ٹرانسپورٹ پر خرچ کردیتے ہیں اور وقت کے ساتھ بڑھتی ہوئی مہنگائی سے یہ خرچہ بھی اسی تناسب سے بڑھتا رہے گا۔
ان رہائشی سکیموں کی تعمیر، سڑکیں اور فلائی اوور بنانے کو ترجیح دینے کی وجہ سے لا ہور معاشی طور پرغیر محفوظ اور ماحولیاتی طور پر ناقابلٍ برداشت بن چکا ہے۔ بلکہ شہر مختلف فرقوں میں بھی تقسیم ہو چکا ہے۔ راقم ۱۹۹۷ء میں مقامی طبی مشیر کا کارکن تھا اور مجھے لاہور کے ماسٹر پلان کا جائزہ لینے کا موقع ملا تو پتہ چلا کہ لاہور کی ۸۰ فیصد آبادی ۷ کلومیٹر کے قطرٍنصف کے اندر رہتی ہے جو پرانے شہرسے کنال روڈ تک پھیلا ہوا ہے جبکہ باقی ۲۰ فیصد لوگ کنال روڈ کے جنوبی حصے میں رہتے ہیں۔ ان حقائق کی روشنی میں اگر گزشتہ کئی سالوں میں کی جانے والی سرمایہ کاری کا جائزہ لیں تو یقین نہیں آتا کہ سڑکوں میں سرمایہ کاری زیادہ تر ان علاقوں میں کی گئی جہاں صرف بیس فیصد لوگ بستے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسّی فیصد آبادی ٹرانسپورٹ میں کی گئی سرمایاکاری سے مستفید نہیں۔ اس سرمایاکاری کے نتیجے میں پراپرٹی قیمتیں بھی بڑھی ہیں جس سے امیر،غریب اور طاقتور،کمزور میں فرق مزید بڑھ گیا ہے۔
تو پھر اس کا کیا حل ہے؟ سب سے پہلے تو لاہور میں میٹرو بس کا جال بچھانےکی ضرورت ہے۔ گزشتہ سال لاہور میں پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے پہلی مرتبہ سرمایاکاری کا اعلان سن کر میں بہت خوش ہوا۔ لاہور میٹرو بس کے قابلِ تعریف پلان کے تصور نے۱۹۷۰ء میں کریتیبا برا زیل میں جنم لیا، لیکن مجھے ڈر ہے کہ پنجاب حکومت سروس اور کارکردگی کے بجائے صرف انفراسٹرکچر پر دھیان دے گی۔ پہلے روٹ کا بنیادی ڈھانچہ مکمل ہو چکا ہے لیکن سہولیات کی کمی اور کئی علاقوں میں سروس نہ ہونے کی وجہ سے لوگ بہت تنگ ہیں۔ اس منصوبے کو کامیاب بنانے کے لئے ضروری ہے کہ لاہور میٹروبس نیٹورک کو پیدل چلنے کے راستوں اور لنک بسوں کے روٹوں کے ساتھ جوڑا جائے تاکہ یہ سسٹم قریب کے علاقوں میں موجود گورنمنٹ کالج یونیورسٹی،ایف سی کالج یونیورسٹی، صوبائی سیکرٹریٹ، جنرل اسپتال او ر اچھرہ، مسلم ٹاؤن اور ماڈل ٹاؤن کے ساتھ منسلک ہو جائے۔
اگر سرمایہ کاری صحیح طریقے سے کی جائے تو بس روٹ اور سٹیشنر برابر کے علاقوں کے لئے ترقی کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔ عام طور پر نجی سرمایہ کار اُن علاقوں میں زمین کی ڈیویلپمنٹ پر سرمایہ لگانے کے لئے کوشاں ہوتے ہیں جہاں ٹرانسپورٹ کا نظام اچھا ہو۔ اگر لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی زمین خرید کر ایک ماسٹر پلان کے تحت منصوبہ سازی کرے تو خاطر خواہ ترقی ہو سکتی ہے۔ اس سے لاہور میں شہر سازی بہتر ہو گی کیونکہ میٹرو بس روٹ شہر کی ترقی کے لئے اچھے موقع فراہم کرسکتا ہے۔ ساتھ ہی۷ کلومیٹر قطر نصف کے اندر رہنے والی۸۰ فیصد آبادی کے لئے رہائشی سکیموں اورذرائع آمدورفت کی ضروریات کو پورا کرنےاور لاہور کو دوبارہ ایک سبزہ وار شہربنانے کا موقع بھی ملے گا۔ لاہور کی تاریخ میں یہ ایک اہم موڑہے اور ماحول دوست شہر بنانے کا موقع بھی۔ لیکن ضروری ہے کہ چند لوگوں کے فائدے کے لیے بنائے جانے والے انڈرپاس اور فلائی اوور بنانے کے بجائے ایک ایسے مجموعی نظام کی ضرورت ہے جس سے سب مستفید ہوں۔
ڈاکٹر محمد عمران میسی یونیورسٹی،نیوزی لینڈ میں پلاننگ پروگرام کے سینئر لیکچرار ہیں اور آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے شائع کردہ کتاب ’ انسٹیٹیوشنل بیئریرز ٹو سسٹین ایبل عربن ٹرانسپورٹ اٍن پاکستان‘ کے مصنف ہیں۔
پلوشہ مشتاق نے قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم اے سیاسیات کیا ہوا ہے۔ انہیں پاکستان میں بڑھتی ہوئی بنیاد پرستی، نوآبادیاتی نظام کا قیام اور تصفیہ، اور سماجی وثقافتی ساخت، خاص طور پر مردوں کی برتری کے افسانوی تصور پر تحقیق کرنے میں دلچسپی ہے۔
[…] حصار بند ہاوسنگ سوسائٹیوں کے بھر مار ہے، اور اسکے ساتھ سڑکوں کا وسیع جال جس کا بنیادی مقصد اشرافیہ کے رہائشی علاقوں کو ایک […]
[…] ردو | Issue V […]