سندھ قوم پرست اورالیکشن

شمارہ4 | English 

Artist: Zahra Malkani | Dadu 1960 series

Artist: Zahra Malkani | Dadu 1960 series

حال ہی میں سندھ میں الیکشن کے حوالے سے دس پارٹیوں کا اتحاد ہوا جس میں سندھ کی کئی قوم پرست جماعتوں نے مسلم لیگ نون سے مل کر اس سطح پر پہلی دفعہ ووٹوں اور الیکشن کی سیاست میں شمولیت کا اعلان کیا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کا پلڑہ ہمیشہ بھاری رہاے ہے اور نون لیگ نے اس کے مقابلہ کے لئے اس اتحاد میں شمولیت کی، اس بات کی تو ہمیں سمجھ آتی ہے۔ پر قوم پرست جماعتوں کے مقاصد کیا ہیں اور اس دس تنظیمی اتحاد کی انہیں کیا ضرورت پڑی ؟ اور پھر پنجاب کی ایک بڑی پارٹی سے اتحاد کے نتائح کیا ہوں گے، اور آنے والے الیکشنوں میں ان کی کارکردگی کیا رہے گی؟

ان سوالوں کے جواب کے لئے ہمیں سند ھ میں قوم پرست سیاست کے تاریخی پسِ منظر کو سامنے رکھنا ہو گا اور اس تناظر میں آج کے پاکستان کی الیکشن کی سیاست کے پیچ و خم کو بھی سمجھنا پڑے گا۔ اس مضمون میں میں انہیں چیزوں پر بات کروں گا۔

قوم پرست سیات کا تاریخی پسِ منظر
ویسے تو سندھ میں قوم پرست اور وطن دوست سیاست کی تاریخ بہت پرانی ہے لیکن اگر ہم جدید ریاست کی تشکیل کے حوالے سے برطانوی دورِ حکومت پر نظر ڈالیں تو انیسوں صدی میں نوآبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد کرنے والوں میں افریقی نژادتالپور وں کے سپہ سالار ہوشو شیدی کا نام سہرِ فہرست ہے۔ جب برطانوی فوجوں کوپہلی افغان جنگ میں بری شکست کا سامنا کرنا پڑا تو اپنے غصے کا اظہار انہوں نے چارلز نیپیئر کی سربراہی میں سندھ پر حملہ کر کے کیا۔ ہوشو شیدی نے اپنے وطن کی حفاظت کرتے ہوئے نعرہ بلند کیا تھا کہ ’’مرسوں مرسوں پر سندھ نہ ڈے سوں‘‘۔

اسی طرح بیسویں صدی میں جب پورے انڈیا میں قوم پرست سیاست کا رجحان تھا تو سند ھ میں جی ایم سید کا کردار بہت اہم رہا ۔ ان کی کوششوں سے سندھ اسمبلی نے سب سے پہلے قرارداد پاس کی تھی کہ سندھ، پنجاب، بلوچستان، سرحد ، بنگال اور آسام کو ملا کر ایک ملک بنا دیا جائے۔ تو اسی نقشہ سے ملتے جلتے ملک کی قرارداد لاہور میں ۱۹۴۰ میں پاس کی گئی تھی۔ جی ایم سید کا اثر آج بھی سندھ کی قوم پرست جماعتوں پر نظر آتا ہے۔ خاص طور پر جئیے سندھ کے مختلف دھڑوں پر، جن کا تذکرہ اس مضمون کے اگلے حصے میں ہے۔

پاکستان بننے کے بعد قوم پرست سیاست کو غداری کی علامت تصور کیا جانے لگا اور قوم پرست سیاست کے گناہ کی سزا سندھ، بلوچستان، اور خیبر پختونخوا کے قوم پرست لیڈروں کو بھگتنی پڑی۔ ہر اس جدوجہد کو کچلا گیا جس میں صوبائی خود مختاری یا پاکستان میں شامل اقوام کے حقوق کی بات کی گئی۔ اس کی واضع مثال ۱۹۵۴ میں ملتی ہے جب گورنر جنرل غلام محمد نے ون یونٹ کی تشکیل دی اور مغربی پاکستان میں سندھ، بلوچستان، اور سرحد کو ایسا ضم کیا کہ ان کا علحدہ وجود بھی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔پنجاب کے دوستوں نے تو ہندوستان سے علیحدگی کے فوراََ بعد ہی اپنی پنجابی شناخت ختم کر کے خود کو صرف مسلمان اور پاکستانی کہلوانا شروع کر دیا تھا۔ پر جب سندھ، بلوچستان، اور سرحد کے قوم پرست رہنماووں نے ایک ہو کر اس فیصلہ اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کی تو دیکھتے ہی دیکھتے ملک کی ساری جیلیں سیاسی قیدیوں سے بھر گئیں۔

سند ھ کے قوم پرستوں اور پاکستان پیپلز پارٹی کا ایک دوسرے کے ساتھ الحاق اور اختلافات کی بھی ایک طویل داستان ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد اور خاص طور پر ۸۰ کی دہائی میں شروع ہونے والے ایم آر ڈی تحریک کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کو قوم پرست لیڈران اور تنظیموں کی یکجہتی کی ضرورت پیش آئی تو ان میں اتحاد اور مشترکہ جدوجہد کا جذبہ نظر آیا۔ مگر ۱۹۸۸ کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کو بھاری مینڈیٹ ملا اور قوم پرست پارٹیوں اور مظلوم اقوام کی حمایت حاصل رہے، مگر پیپلز پارٹی نے ضیاء الحق کے ایک قریبی ساتھی غلام اسحاق خان کو ملک کا صدر بنا دیا۔ جب پیپلز پارٹی کو اسٹیبلیشمنٹ نے دو بار حکومت سے خارج کیا تو انہیں پھر سندھی قوم پرستوں کی حمایت کی ضرورت پیش آئی۔ یعنی جب پیپلز پارٹی اقتدار سے باہر ہوتی تو وہ سندھ اور سند ھ کی مظلوم عوام کی ہمدرد پارٹی بن جاتی ہو اور لاٹھی چارج یا جیل جانے سے بھی نہیں کتراتی۔ مگر حکومت کا حصہ بنتے ہی وہ ’’سب سے پہلے مفاہمت‘‘ کا گیت گاتے ہوئے اپنے اقتدار کو طول دینے کی غرض سے سندھ اور سندھ کی عوام کو قربان کر دینے کے لئے تیار ہو جاتی ہے۔

اس سے پہلے کہ ہم پاکستان کی بڑی سیاسی پارٹیوں، خاص طور پر پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور ایم کیو ایم کی سیاست اور سندھ قوم پرستوں کے اس اتحاد پر نظر ڈالیں ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ آجکل کے قوم پرست کن دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔

سندھی قوم پرستوں کون ہیں؟
سندھ میں پاکستان کے بننے کے بعد قومیت پرست کی مختلف شکلیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایک وہ قوم پرست ہیں جو بلوچ علیحدگی پسند قوم پرستوں کی طرح سندھ کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ ان میں جی ایم سیّد کے کچھ پیروکار بھی ہیں جیسے کہ : جیئے سندھ قومی محاذ (جسقم )۔ بشیر خان قریشی گروپ، جس کی سربراہی بشیر خان کے فرزند سنان قریشی کر رہے ہیں؛ جسقم ۔عبدالواحد آریسر گروپ؛ڈاکٹر صفدر سرکئی کی سربراہی میں جیئے سندھ تحریک ، ریاض چانڈیو کی سربراہی میں جیئے سندھ محاذ؛ اور شفیع برفت کی سربراہی میں جیئے سندھ متحدہ محاذ شامل ہیں۔ اور دوسری طرف وہ قوم پرست ہیں جو سندھ کی علیحدگی نہیں چاہتے اور پارلیمانی سیاست میں یقین رکھتے ہیں ۔ یہ چاہتے ہیں کہ ۱۹۴۰ کی قرار دادِ لاہور کی بنیاد پر پاکستان کی عوام اور ریاست کے درمیان ایک نیا عمرانی معائدہ تشکیل دیا جائے جس میں صوبوں کو خود مختاری دی جائے۔ ان قومیت پرست جماعتوں میں شامل ہیں: ایاز پلیجو کی زیرِصدارت قومی عوامی تحریک، ڈاکٹر قادر مگسی کی سندھ ترقی پسند پارٹی، علی حسن چانڈیو کی سندھ نیشنل مووومنٹ اور سید حلال محمود شاہ کی زیرِ صدارت تنظیم سندھ یونائٹیڈ پارٹی وغیرہ شامل ہیں۔

ان قوم پرست جماعتوں میں تضادات بھی موجود ہیں اور ان کے منشور میں بھی فرق نظر آتا ہے۔ لیکن کچھ ایشوز پر نظریاتی یا حکمتِ عملی کے طور پر اتفاقِ رائے ہونا بھی کوئی بہت اچھنبے کی بات نہیں۔ اس کی ایک مثال کالاباغ ڈیم ہے جس کی مخالفت میں ہمیں سب سندھ قوم پرست تنظیمیں یکجا نظر آتی ہیں۔ اسی طرح جب پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں نے سندھ اسمبلی میں سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس۲۰۱۲ء کا بل پاس کیا تو سارے قوم پرست، چاہے وہ پارلیمانی سیاست میں یقین رکھتے ہوں یا نہیں، سب اس کے خلاف متحد تھے۔ اور ان کی مشترکہ مزاحمت کے باعث پیپلز پارٹی حکومت کو یہ بل واپس لینا پڑا۔

دس پارٹی اتحاد اور الیکشن
اسی تناظر میں ہم حال ہی میں ہونے والے دس پارٹی الائینس کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ اس میں مسلم لیگ نون، مسلم لیگ فنکشنل، جماعتِ اسلامی، جمیعتِ العلماء اسلام، پاکستانی سنی تحریک، جمیعتِ العلماء پاکستان، نیشنل پیپلز پارٹی، سند ھ یونائٹیڈپارٹی، سندھ ترقی پسند پارٹی، اور قومی عوامی تحریک شامل ہیں۔ اس اتحاد کا مقصد سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے خلاف الیکشن لڑنے کے ساتھ ساتھ سندھ میں متفقہ طور پر الیکشن لڑنا ہے۔ مطلب اگر ایک حلقے سے ایک پارٹی کا امیدوار الیکشن لڑے گا تو دوسری پارٹیوں والے اسے سپورٹ کرینگے۔

جہاں ہر اس اتحاد کی پڑی پیمانے پر سندھ کے اندر حمایت کی جا رہی ہے وہاں اس کی مخالفت بھی زور و شور سے جاری ہے۔ اگر ہم اس اتحاد کی مخالفت پر غور کریں تو ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس اتحاد میں شامل تنظیموں کا منشور مکمل طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ کیونکہ اس اتحاد میں مذہبی جماعتیں بھی شامل ہیں اور وہ جماعتیں بھی جو اپنے قیام سے اب تک بائیں بازو اور ترقی پسند ہونے کا دعوٰی کرتی آرہی ہیں جیسے کہ ایاز پلیجو کی زیرِ صدارت قومی عوامی تحریک ۔ سندھ کے قوم پرستوں کو اس حوالے سے پورے ملک میں تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ یہ ویسے تو ہر وقت پنجاب اور پنجابیوں کے خلاف بات کرتے رہے ہیں اور اب نہوں نے نواز لیگ کے ساتھ اتحاد کر لیا ہے۔

جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا کہ ہر اتحاد نظریات میں ہم آہنگی کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ اسی حوالے سے میں اپنا نکتہ نظر پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اول یہ کہ اس اتحاد میں شامل قومی عوامی تحریک ، سندھ ترقی پسند پارٹی، اور سندھ یونائیٹیڈ پارٹی نے کبھی بھی پنجاب یا پنجابی عوام کے خلاف بات نہیں کی بلکہ وہ ہمیشہ پنجاب کے حکمران طبقے اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بولتے رہے ہیں۔ کیونکہ ان کے مطابق پالیسی ساز وہ ہیں جو پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک سندھ کو لوٹتے آرہے ہیں۔ جو سندھ قوم پرست پنجاب یا پنجابی عوام کے خلاف بولتے آرہے ہیں وہ اس اتحاد کا حصہ نہیں بلکہ ان کا تعلق جیئے سندھ اور اس کے دھڑوں سے ہے۔ دوم یہ کہ ۱۹۹۹ء میں نواز شریف کی حکومت ہر قبضہ کرکے اسے جلا وطنی پر مجبور کرنے کے بعد سے میاں نواز شریف کی سوچ میں کافی مثبت تبدیلی نظر آتی ہے۔ لیکن پھر بھی یہ بات مکمل یقین کے ساتھ نہیں کی جا سکتی کہ وہ سندھ کی عوام کو انصاف فراہم کریں گے۔ کیونکہ پیپلز پارٹی کے دوست بھی حکومت سے باہر ہوتے وقت تو بڑے عوام دوست دعوے کرتے نظر آتے ہیں مگر حکومت میں آتے ہی اپنی بات سے پھر جاتے ہیں۔ تو نواز شریف کا اصل امتحان الیکشن کے بعد ہی ہو گا۔ ایک رائے یہ بھی ہی کہ قوم پرست اس اتحاد کی بنیاد پر اسمبلیوں میں آنا چاہتے ہیں کیونکہ کچھ قوم پرست پہلی بار الیکشن لڑنے جا رہے ہیں اور اس بار نواز شریف کا پلڑا بھی بھاری نظر آ رہا ہے۔

اتحادیوں کے اختلافات

اب اس اتحاد کے اندر کی دراڑوں پر بھی نظر ڈالتے ہیں۔ سندھ اسمبلی کے حلقہ پی ایس47 قاسم آباد،حیدر آباد میں قومی عوامی تحریک کے سربراہ ایاز پلیجو اور سندھ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر قادر مگسی دونو ں امیدوار تھے۔ ڈاکٹر قادر مگسی نے اتحادی پارٹیوں کے دباؤ میں آکر اپنی نامزدگی واپس لے تو لی۔ پر اس مضمون کے تحریر کہ وقت پی ایس۴۷ میں ایک اور اتحادی پارٹی سندھ یونائیٹیڈپارٹی کے سید جلال محمود شاہ نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اپنی پارٹی کی طرف سے لطیف جونیجو شامی کو امیدوار کھڑا کیا ہے۔

میرے خیال سے ان اتحادی قوم پرست پارٹیوں کو ’’سندھ پراونشل نیشنلسٹ الائینس (سپنا)‘‘ کے نام سے الیکشن لڑنا چاہیے تھا کیونکہ اس میں قومی عوامی تحریک، سندھ ترقی پسند پارٹی، اور سندھ یونائیٹیڈ پارٹی بھی شامل ہیں۔ اسی الائینس نے جب کراچی میں شروع ہونے والی مہاجر صوبہ تحریک اور سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈنینس ۲۰۱۲ کی مخالفت کی تو ان کو عوام کی بھر پور حمایت حاصل تھی۔ البتہ اس تمام جدوجہد کا فائدہ مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر پگاڑہ کو ملا اور وہ اس اتحاد میں ایک بڑا لیڈر بن کے سامنے آیا ہے، حالانکہ ان کی کوئی خاطر خواہ خدمات تو نہیں۔

بہرحال اس اتحاد کا مقصد یہ بتایا جاتا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو آنے والے الیکشن میں شکست دی جائے اور کراچی کے ساتھ ساتھ پورے سندھ کے اندر شفاف الیکشن ہوں۔ میرے نزدیک یہ کافی نہیں بلکہ ماضی کی حکومتوں کی زیادتیوں اور نا انصافیوں کا ازالا کرنا بھی مقصود ہونا چاہیے۔ الیکشن کے بعد کسی بھی بلیک میلنگ کے نتیجے میں ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل ہونے سے روکنا، کالا باغ ڈیم ایشو کو ہمیشہ کے لئے دفن کرنا، یہ سب اس اتحاد کی مقاصد میں شامل ہونا چاہیے۔ کیونکہ کالاباغ کی تعمیر کی مسلم لیگ نواز نے ہمیشہ حمایت کی ہے اور ان کی پالیسی بھی یہی رہی ہے کہ ایک بھائی یعنی شہباز شریف لاہور میں کہتا ہے کہ وہ کالاباغ ڈیم ضرور بنائیں گے اور دوسرا بھائی یعنی نواز شریف سندھ آکر کہتا ہے کہ دوسرے صوبوں کی حمایت کے بغیر ڈیم نہیں بنے گا۔

ہر الیکشن سے پہلے امیدوار بہت دعوے کرتے ہیں۔ اس اتحاد میں شامل تنظیموں نے بھی عوام سے بڑے وعدے کئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کو عوام کی سپورٹ بھی مل رہی ہے۔ یہ اتحاد آنے والے الیکشن میں پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دے گا۔ قوم پرست جماعتوں کا الیکشن میں حصہ لینا عوام کو ایک نیا آپشن فراہم کر رہا ہے۔ اگر یہ کلین سویپ نہ بھی کریں تو کچھ نشستیں تو ضرور لیں گے۔ جہاں تک ان کی عوام دوستی کا تعلق ہے تو یہ پتا الیکشن کے بعد ہی چلے گا کہ آیا وہ عوام کے مثائل پر کام کرتے ہیں یہ پیپلز پارٹی کی طرح مفاہمت کی سیاست کر کے صرف اپنے مفادات کی فکر کرتے ہیں۔

محمد قاسم سوڈھر قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں مطالعہپاکستان میں ماسٹرز کر رہے ہیں۔ یہ سندھی زبان میں چھپنے والے اخبارات میں مضامین بھی لکھتے ہیں۔ 

Tags: , ,