سرپرستی، جاگیرداری کی سیاست اور الیکشن

4 شمارہEnglish

Artist: Zahra Malkani | Dadu 1960 series

مترجم : حافظ صوفی

اگرچہ الیکشن میں اب کچھ ہی دن باقی ہیں لیکن لگتا نہیں کہ ١١ مئی کا سورج کسی فیصلہ کن گھڑی پر غروب ہو گا-   ملک کے بیشتر حصوں بشمول پنجاب کے کچھ علاقوں میں تو الیکشن مہم بلکل پھیکی ہے- ادھر تشدد کے واقعات میں بھی روز بروز اضافہ ہو رہا ہے-  لیکن پاکستان میں بڑے سیاسی مرحلوں سے پہلے بے یقینی اور سراسیمگی کا ماحول کوئی نئی بات نہیں- الیکشن ہونے یا نہ ہونے کا سوال بھی اب بے معنی ہے کیونکہ التوا کا فیصلہ عوام کا نہیں بلکہ ہمارے ان مقدس نگہبانوں کا ہو گا جنھیں اکثر ملکی مفاد میں ناگزیر اقدامات اٹھانا پڑجاتے ہیں-

ویسے بھی ان ممکنات پر غور و فکر ہمارے نام نہاد دانشوروں کا کام ہے- عوام اور انکی نمائیندگی کے دعویدار تاریخی نظریات میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے- انکے لئے روزمرہ سیاست  کا محور ‘کیا ہونا چاہیے؟’ کی بجائے ‘کیا چلتا ہے؟”۔ ‘ کی حقیقت ہے

پھر  حقیقت کے کئی پہلو ہیں جو اسے خاصا  پیچیدہ بنا دیتے ہیں- سچ یہ ہے کہ طبقاتی تفریق  سیاسی اور انتخابی نظام کی  تہہ تک موجود ہے- ملک کے ہر  حصے میں مالکان اور مزدوری بیچ کر بمشکل گزارا کرنے والوں کے مابین فرق گہرا ہوتا جا رہا ہے- اس صورت حال میں متوسط طبقے کا نمائندہ ہمیں یہ باور کروارہا ہے کہ اس طبقاتی خلیج کی وجہ سماج کا ان پڑھ ہونا اور دیہاتیوں کا جاگیرداروں کے زیر اثر ہونا ہے- لیکن یہ حقیقت کا صرف ایک پہلو ہے-

پچھلی چند  دہائیوں کے دوران پورے ملک خصوصاّ پنجاب کے ترقی یافتہ علاقوں میں کاروباری اور ثقافتی طور پر منہ زور متوسط طبقے نے معیشت اور سیاست میں اپنی جگہ بنا لی ہے- اس طبقے نے اشرافیہ کی جگہ تو نہیں لی لیکن اسی سیاسی نظام کو اپنا یا  ہے جس کی مدد سے شروع کے سالوں میں اشرا فیہ یہاں حکمرانی کرتی رہی-

دوسرے لفظوں میں جاگیردار کا ایسا خاکہ جس میں وہ سرپرستانہ سیاست کا بےتاج بادشاہ دکھائی دےادھورا لگتا ہے- اہم بات یہ ہے کہ متوسط طبقہ، نو آبادیاتی نظام میں جنم لینے والے سرپرستی کے نیٹ ورک کا لازمی جزو بن چکا ہے-  یہ نیٹ ورک کیسے کام کرتا ہے اور یہ اشرفیہ سے مڈل کلاس تک کیسے پہنچا ، اسے سمجھنے کے لئے شروعات سے رجوع کر نا پڑے گا-

برطانوی راج کی سرپرستانہ سیاست

انگریزوں نے اپنے  دور میں سماجی و سیاسی نظام کی بنیاد حق جائیداد پر رکھی- اس اصول کی رو سے زمین داروں اور قدرتی وسائل (جیسے جنگلات)کے مالکان کو یہ طاقت دی گئی کہ وہ بے زمین  ہاریوں، مزدوروں اور ریاست کے درمیان پل کا کردار ادا کریں- ریاست نے بہت سے پیداواری وسائل اپنے قبضے میں بھی لئے جس کی ایک مثال پنجاب اور سندھ میں آبپاشی کا نیٹ ورک بھی ہے-

سرپرستی کی بنیاد پر کھڑے کیے جانے والی اس سیاسی و سماجی نظام نے اس خطے کے لوگوں کی روزمرہ ضروریات اور صلح صفائی کے معاملات پر گہری چھاپ چھوڑی-  آج بھی تھانے اور کچہری کی اہمیت اسی نظام کا شاخسانہ ہے- وہ با اثر افراد جو پہلے سے ہی سماجی طاقت رکھتے تھے، انھیں انگریز نے ذاتی جائیداد کو قانونی شکل دے کر اور بھی طاقتور بنا دیا-

اسطرح زمیندار طبقے کو ایک لمبے عرصہ تک غریب عوام پر تسلط جما نے کی کھلی چھوٹ ملی-

طبقاتی فرق کو چھپانے کے لئے نو آبادیاتی ریاست نے  مذھب، ذات اور برادری کی شناختوں کو مقامی ثقافت کہہ  کر خوب پذیرائی دی- جبکہ ریاست کے مقامی سرپرست ان شناختوں کو استعمال کر کے پیداواری وسائل پر اپنا کنٹرول بڑھاتے رہے-

بقول راناجیت گوہا:

 “زمیندار ، ساہوکار اور افسر علیحدہ  طاقتیں ہوا کرتے تھے لیکن نو آبادیاتی نظام نے انھیں یکجا کر دیا- اس سے عام کسان پر سرکار کا زور اور بھی پکا ہو گیا- سرکار ، ساہوکار اور زمین داری کی غلامی اصل میں سیاسی نوعیت کی تھی ، معاشی استحصال جس کا صرف ایک پہلو تھا-“

بٹوارے کے بعد

1947 کے بٹوارے نے ایساانقلاب برپا کیا جس کا آج تک تجزیہ کار مکمل احاطہ نہیں کر پائے- پاکستان بننے کے چند سال بعد ہی نئی سلطنت میں آبادی کی ترکیب  برطانوی راج کے دنوں سے یکسر مختلف ہو چکی تھی-  اور ظاہر ہے کے آبادی میں ردوبدل کا سماجی اور طبقاتی اثر بھی ہوا – انگریز نے سرپرستی کا جو نظام مقامی سطح پر چلا یا ہوا تھا ، سماجی تبدیلیوں نے پاکستانی ریاست کے لئے وہی نظام چلانا مشکل بنا دیا – شاید یہی وجہ تھی  کہ  بٹوارہ کے فورابعدکے سالوں میں فوج اور افسرشاہی نے سیاسی طریقه کار سےجان چھڑانے کی بھرپور کوشش کی –

پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں آنے والے سبز انقلاب نے سیاست میں ایک نئی روح پھونک دی- اینٹی ایوب تحریک نے اسٹبلیشمنٹ مخالف شکل اختیار کر لی جو کہ پاکستان کے پہلے آزاد الیکشن پر منتنج ہوئی-

1947 سے 1977  کے دس سالوں میں یوں لگتا تھا جیسے سرپرستی کی سیاست تباہی کے دھانے پر کھڑی ہے- بائیں بازو اور قوم پرست سیاست کا عوام اور متوسط طبقے پر خاصا اثرورسوخ تھا ، لیکن ضیاء الحق کے آنے سے سیاست کی ترقی کا سفر ایک دم رک گیا-  ضیاء کے دور میں سرپرستی پر مبنی سیاسی و معاشی نظام ایک تجدید شدہ شکل میں پھر سے سامنے آیا جوآج تک جاری ہے-

ضیاء حکومت نے سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت کاروباری سیاست دانوں کی ایک کھیپ پروان چڑھائی- ان  سیاست دانوں نے حکومتی شہ پا کر سسٹم مخالف جدوجہد کو خوشی سے  کوڑے دان کی نذر  کیا-  ان کے لئے سیاست صرف مقامی سطح پر حکومتی سرپرستی حاصل کرنے کا مقابلہ بن کر رہ گئی- ان حالات میں جو سیاسی شخصیت سامنے آئی وہ اس جاگیردار کے برعکس تھی جسے برطانوی راج میں کلیدی حیثیت حاصل ہوئی تھی- اسی اثنا میں ریاست نے زور زبردستی سے عوام پر دباؤ ڈالا کہ وہ نظام کی تبدیلی کے خواب چھوڑیں اور مقامی سرپرستوں کے ذریعے اپنے مسائل حل کروائیں- یعنی سسٹم نےمفاد پرست سیاست کو فروغ دیا-

متوسط طبقہ کی اٹھان

ضیاء کی حکومت نے جو سیاسی انجینیرنگ کا منصوبہ شروع کیا تھا وہ اس لحاظ سے کامیاب رہا کہ کاروباری اور متوسط طبقہ کو بھی سیاست میں جگہ ملی- اسکے ساتھ ساتھ مشرق وسطی میں کام کرنے کا  رحجان پنجابی اور پشتون گھرانوں میں  خوشحالی  لایا- مڈل کلاس نے زراعت کے شعبوں سے نکل کر مواصلات ، پراپرٹی اور تعمیرات میں پر پھیلاۓ- لیکن جوں جوں متوسط طبقہ نے ترقی کی اسی حساب سے سرپرستانہ سیاست کو فروغ ملا-

آج متوسط  طبقہ کی خواہش ہےکہ اپنے معاشی زور کے حساب سے اسے سیاسی حصّہ بھی ملے- اور اس کوشش میں انھیں جمہوری ، سسٹم مخالف یا سیکولر ہونے کا کوئی دعویٰ بھی نہیں- بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ پاکستانی مڈل کلاس، خصوصا وہ جنہوں نے بہت کم وقت میں پیسہ بنا لیا ہے ، دولت اورطاقت اکٹھی کرنے کے لئے کوئی بھی سیاسی نظریہ اور پارٹی اپنانے کو تیار ہیں-

یہی وجہ ہے کہ سیاسی طور پر طاقتور زمیندار کا خاکہ گمراہ کن ہے- موجودہ نظام میں آگے بڑھنے کا انحصار تعلقات بنانے اور ریاستی اداروں میں سرپرستانہ  سیاست کے بے شرم  استعمال میں ہے- اور اس کھیل میں متوسط طبقہ زمینداروں سے بہتر کھلاڑی بن چکا ہے-

الیکشن2013

الیکشن کے دنوں میں سرپرستانہ سیاست کے معاشی خدوخال واضح ہو کر سامنے آتے ہیں- لیکن پھر بھی جو کچھ آجکل ہمارے سامنے چل رہا ہے وہ روزانہ کی بنیاد پر  ہونے والی کشمکش کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے ، جس میں جیتنے  اور ہارنے والے کا تعین اب بھی طبقاتی بنیادوں پر ہوتا ہے-

میں یہ بلکل نہیں کہہ  رہا کہ بڑے سیاسی دنگل میں نظریاتی لڑائی کی جگہ نہیں اور نہ ہی  میں قوم اور نسل پرست سیاست کے مزاحمتی کردار کو نظر انداز کر رہا ہوں- یقیناّ پاکستان پر ایک عرصے سے قابض ڈھانچہ اپنے اندرونی تضادات کے بوجھ تلے لرز رہا ہے  لیکن روز مرہ کی سیاست کوئی زیادہ متاثر نہیں ہوئی ہے-

سیاسی عمل میں عوام کی اکثریت اب بھی غیر فعال انداز میں شریک ہے- ضیاء نے سرپرستی کی جس سیاست کو سہارا دیا تھا اس کا مقصدہی عوام کے سیاسی اور سماجی شعور کے آگے بند باندھنا تھا- آج تین دہائیوں بعد نسبتا متنوع اشرافیہ اس بارے میں فکرمند ہے کہ ان کی بمشکل گزرا کرنے والی  رعایا کب تک پرانی تنخواہ پر کام کرتی رہے گی؟

حتمی تجزیہ میں کوئی ایسا شارٹ کٹ نظر نہیں آتا جس سے موجودہ استحصالی نظام جھٹ پٹ لپیٹا جا سکے- لیکن پاکستانی سیاست و معیشت کو منجمد جان کر ہم  متوسط طبقہ کی مفاد پرست سیاست ، ریاستی اداروں کی بدلتی ساخت ، رعایا  اور اشرافیہ کے درمیان سماجی تعلق کو نا سمجھنے کی فاش غلطی کا ارتکاب کریں گے- آخر کو عوام نے ہی اس نظام کی قسمت کا فیصلہ کرنا ہے- اب یہ  سماج میں انقلابی تبدیلی کے خواہشمندوں کی ذمہ داری ہے کہ و ہ عوام کے سامنے ایسی متبادل سیاست کا نقشہ پیش کریں جس میں اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت ہو-

عاصم سجاد اختر سیاسی کارکن ہیں ، عوامی ورکرز پارٹی پنجاب کے جنرل  سیکرٹری ہیں اور قائداعظم یونیورسٹی میں سیاسی اقتصادیت پڑھاتے ہیں

Tags: , , ,

2 Responses to

سرپرستی، جاگیرداری کی سیاست اور الیکشن

  1. The Rules of the Game | Tanqeed on May 2013 at 4:00 AM

    […] Issue IV | اردو […]

  2. […] کا کیا درجہ کیا حثییت ہے؟ ابھی بھی حمائتی سیاست ہے یا […]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *