برگر اور چرغے کے مابین دال روٹی کہاں ہے؟ | دانش مصطفیٰ

٢٠١٣ کے عام انتخابات نے بہت سوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ واقعی پاکستانی عوام نے ووٹ ڈالے اور کیوں؟ کیا مسلم لیگ نواز نے واقعی ووٹ چراۓ جیسا کہ تحریک انصاف کے مداحوں کا دعوٰی ہے؟ کیا مرکز سے بائیں بازوں کی قوتیں مر چکی ہیں؟ کیا پاکستان میں بائیں بازوکی کوئی نمایاں سیاسی جماعت باقی نہیں؟ میرۓ حساب سے سوال یہ نہیں کہ پاکستان نے انتخابات میں کس طرح ووٹ دیا بلکہ یہ ہے کہ یہ انتخابات پاکستان کے بارے میں کیا میرے لیے بنیادی طور پر بایئں بازو کی ترقی پسند جماعتوں مثلا مرکز میں پاکستان پیپلز پارٹی اور چاروں صوبوں میں بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکنے والی قوم پرست جماعتوں کی شکست غور طلب ہے۔ یقینا میں اتنا خوش باور نہیں جو یہ سوچوں کہ پی- پی- پی، عوامی نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی یا جیۓ سندھ پاکستان میں بایئں بازو کی ترقی پسند سیاست کی حقیقی نمانیدے ہیں۔ اس کے برخلاف میں جانتا ہوں کہ یہ جماعتیں جاگیرداروں، صنعتکاروں اور کاروباری مفاد پرستوں کے لیے خاندان اور قبیلے کے مخالفین کے خلاف انا کی جنگ لڑنے کا ایک ذریعہ ہیں۔ پی پی پی اور اے-این-پی کی اپنے اپنے حلقہ اختیار میں بد عنوانی یا اس مطلق مضبوط نقطہ نظر سے انکار نہیں بلکہ ان کے معاملات میں مالی بد عنوانی شاید ایک حقیقت ہے۔ حتی کہ ان تمام بایئں بازو کی ماضی یا حال کے کسی رہنما کو بحیثیت انسان کم تر پایا ہے۔

لیکن پھر بھی یہ بات مجھے اچھی لگتی ہے کہ تمام تر خامیوں کے باوجود ، یہ جماعتیں کم از کم ماضی ءِ قریب میں کسی ظالمانہ ، عورت مخالف، اقلیت مخالف یا مزدورمخالف قانون سازی کا حصہ نہیں اگرچہ اپنی حکومت کے چھوٹے معاملات میں مذھبی گروہوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر یہ برابر کی مجرم ہیں، یوٹیوب اور توھین رسالت کے فسادات تو آپ کو یاد ہی ہونگے۔

شاید بہتر وضاحت نہیں ہو پائی، میں مزید وضاحت کروں۔ میرے خیال میں ایک مثالی دنیا میں ہمیں انتخابی امیدواروں کی شخصیت کے بجائے ان کے نظریات کی بنیاد پر ووٹ دینا چاہیئے۔ انسان نا مکمل ہوتے ہیں اور انسانوں کی دیگرانسانوں کے متعلق خیالات مزید ناقص ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں دوسروں کی شخصیت پر توجہ دینے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ شخصیت عموما ایک سمجھدار ووٹر کو مایوس کر دیتی ہے یا پھر کم دانشمند مقلّدین کو خود فریبی کے جال میں پھنسا دیتی ہے۔ اسی لئے تونوجوان مقلّدین کی جانب سے  جناب عمران خان کے لئے(تقریباھم جنسی کشش کی) مثال پرستی سے میں بیزار ہوں۔ لیکن جیسا کہ انسان ہیں، اس طرح نہیں بنائے گئے کی انسانی جسمانی وجود سے خیال کی کشید کر سکیں ۔ ایک انسانی ھئیت لازما خیالات کی شکل میں قائم رہتی ہے اسی لئے  ہمیں رہنماؤں اور ان میں کمال کی تلاش رہتی ہے۔

نظریاتی لحاظ سے اپنے قدامت پسندانہ شبیہہ کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریک انصاف میں فرق کرنا مشکل ہے۔ دونوں درمیانی طبقے اور اس سے اوپر کے طبقات کو راغب کرنا چاہتے ہیں۔ تحریک انصاف سماجی طور پر روشن خیال اور نظریاتی طور پر قدامت پسندوں کو زیادہ متوجہ کرتی ہے اورپاکستان مسلم لیگ ن دونوں لحاظ سے، سماجی اور نظریاتی قدامت پسندوں  کو راغب کرتی ہے۔  دونوں جماعتیں  مغرب مخالف حاسدانہ قوم پرستی  پر پنپتی ہیں۔ عوامی حلقوں میں دونوں یہی دعوٰی کرتی ہیں کہ طالبان واقعی ہمارے بھولے بھٹکے (قاتلانہ حد تک) بھائی ہیں اور انھیں عمران خان اور نواز شریف سے گلے لگنے کی دیر ہے کہ وہ زار و قطار روکر اپنی اصلاح کر لیں۔ دونوں کا یہی کہنا ہے کہ وہ لوگ  جوہمارے بچوں کو قتل کرتے ہیں اور ان کے سکول تباہ کرتے ہیں، سے لڑنے کے بجائے ان کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر امریکی نا گُھس آتے تو ہم ان قاتلوں کے ساتھ پہلو بہ پہلو ہنسی خوشی زندگی بسر کرتے جب تک یہ بھارتیوں،  افغانیوں، امریکیوں اورکچھ شیعوں اور جو بھی ان سے اختلاف کرنے کی جسارت کریں ، کے خلاف اپنے ہنر کی مشق کرتے رہتے۔ دونوں وعدہ کرتے ہیں کہ وہ اس عظیم الشان ملکی حالت کی طرف واپس رجوع کریں گے  جیسا کہ پہلے تھا، جب امریکیوں نے ہمیں طالبان یعنی ہمارے اصلی دوستوں کے خلاف جنگ لڑنے پر مجبور نہیں کیا تھا۔

ان تمام مماثلتوں کے بعد بندہ حیران ہوتا ہے کہ پی ایم ایل ن اور پی ٹی آئی آپس میں کیوں اس قدر مخالف ہیں، یہ مخا لفت اپنی اپنی جماعتوں میں دو وجیہہ مردوں کی ذاتی چپقلش یا ان کے مقلّدین کی متعصّبانہ ذائقہ پرستی سے پرے ہیں۔ ایک گورا کشمیری مرد روائتی لاہوری پہلوانی لباس میں دلکش، دوسرا ایک گورا پٹھان سپورٹس-مین جو  لندن، میلان اور پیرس کے شہری حوالوں سے پر کشش ہے۔ پھرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ متوسط طبقے کی ترجیحات، جیسا کہ سرمایہ داری کا فروغ، کرپشن سے پاک حکومت اور قومی وقار کی سربلندی،  ہماری قومی سوچ اور اب سیاسی اقتدار پر مکمل طور پر قابض ہو گئی ہے۔

میں یہ مانتے ہوئے حیران ہوں کہ پنجاب اور خیبرپختونخواء میں پی-پی-پی اور اے-این-پی کو کیسے مکمل طور پرشکست ہوئی۔ لیکن اس کے برعکس میں یہ سمجھتا ہوں کہ پی-ایم-یل۔کیوکی غیر موجودگی میں پی-ایم-ایل۔این اور پی-ٹی-آئی کے لیے ان کے ووٹرز کو متوجہ کرنا ناگزیر تھا۔ لیکن اس کے علاوہ میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ زیادہ تر پاکستانی عوام اگر مالی لحاظ سے نہیں تو  کم از کم ثقافتی اور سیاسی طور پر متوسط طبقات میں شامل ہو رہے ہیں۔ میں نے اس موضوع پر

 اپنی پچھلی تحریر میں عرض کیا تھا۔ میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ سلسلہ اگلے کچھ انتخابات کے بعد واضح ہو گا، لیکن یہ تو اسی انتخابات میں دیکھنے کو نظر آئی۔ دیکھا جائے تو یہ ریاست اور لوگوں کے درمیان سماجی انصاف کی فراہمی، اختلاف کے لیے سیاسی گنجائش، اقلیتوں اور کمزور ترین طبقات کی ضروریات کے تحفظ کے عمرانی معاہدے کو الوداع کہنے کا وقت ہے۔ در حقیقت یہ آزاد منڈیوں، موٹروے، اونچی عمارتوں، پیلی ٹیکسیوں، ڈیموں اور دولت پیدا کرنے کے لیے ریاست کے معاون ہونے کو خوش آمدید کہنے کا وقت ہے۔

غریب اور لا چار بد قسمتی سے ہمارے درمیان ابھی بھی موجود ہیں اگرچہ ان کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ بایاں بازو مقامی سیاست میں گونجنے والے خیالات سے عاری ہے۔ اب غریب میڈیا پر بجنے والے مصرف پرستی کے جال میں کیوںکر نا پھنسیں؟ وہ طاقت کے مقامی دلالوں  اور سرپرستوں سے کیوں الجھیں جب نظریات کے کھا تے میں انہیں کچھ بھی پر کشش اور بھروسے کے قابل نظر نہ آئے؟ حالیہ انتخابات میں پی۔ٰایم-ایل-این اور پی۔ٹی۔آئی کی کا میابی دائیں بازو کی سیاست کی جیت نہیں بلکہ بائیں بازو کی نا کامی ہے۔  یہ انتخابات بائیں بازو کے لیے دعوت فکر ہے کہ نیم آزاد خیال روایت پرستوں کے لیے میدان چھوڑنے کی بجاۓ نئے خیالات اور نئی تدابیر وقت کی ضرورت ہیں۔ برگر اور چرغہ شاید برژوا کے مختلف طبقات کےمن بھاتے خوراک ہو لیکن سیاست کے لیے اس سے بہتر کچھ نہیں کہ سیاسی ممکنات میں ایک امکان یہ بھی ہوں کہ کم از کم دال روٹی ہی سہی، لیکن سب کو میسر ہوں۔

دانش مصطفیٰ کنگزکالج لندن کی جغرافیہ کے ڈیپارٹمنٹ میں پڑھاتے ہیں۔  وہ ہمہ وقت قاری کی مصنف پر دھونس کے خلاف سینہ سپر رہتے ہیں۔ 

سجاد حسین چنگیزی پیشہ سے انجنیئر ہیں اور پیس اینڈ کانفلکٹ سٹڈیز کے طالبِ علم بھی۔ ان کا تعلق عالمدار روڈ کوئٹہ سے ہے۔

Tags:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *