صدر آصف علی زرداری کے پولیٹیکل پارٹی ایکسٹینشن ایکٹ کے تحت پہلی بار پاکستان کے وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں سیاسی جماعتوں کو کام کی اجازت دی گئی ہے جو کہ ایک تاریخی اقدام ہے۔ لیکن طالبان کی پورے شمالی وزیرستان میں کرفیو کی دھمکی سے یہ موقع پھیکا پڑ گیا ہے۔
لیکن طالبان نے ایسا کرنے کی صرف دھمکی دی ہے مگر پاکستانی فوج نے اُن سے آگے نکل کر یہ اصل میں کیا ہے: پاکستانی فوجیوں پر حملے کے بعد شمالی وزیرستان میں اپریل کے آغاز سے سیاسی انتظامیہ کی طرف سے ۲۴ گھنٹے کرفیو ہے جو کہ مہم کے عمل کو ناممکن نہ سہی مگر مشکل ضرور بنا رہا ہے۔
عسکریت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان فاٹا کے رہنے والے ایک جمہوری اور سیاسی عمل کو مکمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔سکیورٹی کی غیر یقینی صورتِحال نے مقامی لوگوں کی تشویش بڑھا دی ہے‘ وہ انتخابی عمل سے دور ہوتے ہوئے اپنی جان، مال اور عزت کی حفاظت پر متوجہ ہو گئے ہیں۔
یہ قابلِ فکر بات ہے کہ لوگ انتخابات کے دوران سکیورٹی انتظامات سے مطمئن نہیں ہیں‘‘ بریگیڈیر اسد منیر نے کہا جو ایک سکیورٹی تجزیہ کار ہیں اور فاٹا میں کام کر چُکے ہیں کہ ’اگر فوج اپنی چیک پوسٹوں کو نشانہ بننے سے محفوظ نہیں رکھ سکتی تو پھر عوام انتخابات کے دن کیسے محفوظ ہو سکتی ہے؟‘ اپریل میں ایک چیک پوسٹ جو کہ فوجیوں اور خاصاداروں کے رہائشی بیرکوں کے قریب ہے، پر خود کش حملے میں ۲۰ پاکستانی فوجی اور ۴ شہریوں کی موت ہوئی۔
فاٹا کے عام رہائشیوں کے لئے اب انتخابات میں حصہ لینا عسکریت پسندوں کے غصہ کو دعوت دینے کے مترادف ہے، جو کہ ذبردستی کی نکل مکانی، جائیداد کی تباہی یا پھر جسمانی حملے ہو سکتے ہیں جسکی وجہ سے آزاد انتخابات ہونا ممکن نہیں۔
ہم کہاں ہیں
جبکہ شمالی وزیرستان کرفیو سے دوچار ہے، خیبر ایجنسی میں انصار الاسلام، طالبان اور لشکرِاسلام کے درمیان جھڑپوں سے وادیَ تیراہ تباہ ہوئی ہے۔ علاقے سے ہزاروں لوگ فرار ہو گئے ہیں۔ بہت سے پناہ گزینوں کا یہ کہنا ہے کہ لیویز سمیت سکیورٹی فورسز نے اُن کے لئے صورتِحال کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ ان بے گھر افراد کے لئے انتخابات بہت کم اہمیت رکھتے ہیں۔
شمالی وزیرستان کے پناہ گزین جو ڈیرہ اسماعیل خان میں رہ رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ان کو چند ماہ پہلے اشیاء کی تقسیم کے دوران نظم برقرار نہ رکھنے پر سکیورٹی فورسز کی طرف سے بُری طرح مارا پیٹا گیا تھا۔ اس واقع نے ان بے گھر افراد کے دل میں سکیورٹی فورسز کے لئے بد اعتمادی کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ اُن کی بھی آئندہ انتخابات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
فاٹا میں سیاسی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے آئیندہ انتخابات جمہوری سیاست کے لئے ایک حقیقی مشق نہیں ہوں گے۔ خان نانگے کی مثال لیں جو جنوبی وزیرستان کے دارالحکومت وانا میں ایک معروف سماجی ہیلتھ ورکر ہیں۔ ۲۰۰۸ کے انتخابات میں نانگے نے سیکولر سیاسی امیدواروں کی حمایت کی تھی، اسکی قیمت یہ تھی کہ اس سال عسکریت پسندوں نے انہیں تب قتل کرنے کی کوشش کی جب وہ ایک سیکولر پارٹی اے این پی سے نظریاتی طور پر وابستہ امیدوار کی حمایت کرنے جا رہے تھے۔
اصل میں تحریکِ طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اُللہ احسان نے سیکولر پارٹیوں کی انتخابی مہم اور ریلیوں میں شرکت کرنے والے سب افراد کو وھمکی دی ہے۔ ان پارٹیوں میں حکمراں جماعت پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ اے این پی اور ایم کیو ایم بھی شامل ہیں۔طالبان نے اپنے اس مؤخرالذکر دونوں جماعتوں کے دفاتر پر حملوں سے کیا ہے۔
تجزیہ نگار ذوالفقار علی نے مشاہدہ کیا کہ اگرچہ فاٹا ۲۰۱۳ انتخابات کی تیاری سب سے پہلے شُروع کرنے والے علاقوں میں شامل تھا مگر طالبان کی ایک دہائی سے یہاں موجودگی نے ’لفٹ ونگ کی سیاسی جماعتوں کی حمایت کرنے والے امیدواروں کے لیے بہت کم جگہ چھوڑی ہے‘۔
سیکولر پختون خواء ملی پارٹی کے رہنما محمود خان اچکزئی نے عسکریت پسندوں کے خوف سے اپنے پارٹی کے کارکنوں کو فاٹا میں مہمات میں شمولیت سے پرہیز کرنے کو کہا ہے۔
اپنی طرف سے باغیوں نے اپنے پسندیدہ امیدواروں کی پیچھے سے حمایت کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے جیسے کے مولانا عبدالمالک جو جمعت علمائے اسلام کے جنوبی وزیرستان سے امیدوار ہیں۔ عبدالمالک ایک مذہبی رہنما ہیں اور زلی خیل قبیلے سے ہیں جو علاقے کا سب سے بڑا قبیلہ ہے اور جس سے عسکریت پسند اپنا تعلق جوڑتے ہیں۔
باغیوں کی اسطرح کی کچھ صورتوں میں ملوث ہونے کا یہ مطلب ہوا کہ کم از کم وہ انتخابی عمل میں رکاوٹ نہیں بنیں گے لیکن اسکے ساتھ دوسرے امیدوارجن کی وہ مخالفت کرتے ہیں ان کو باز رکھنے پر کچھ لوگ پریشانی کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس سے انتہابی عمل تشدد اور دھاندلی کا شکار ہو جائے گا۔
اگلا راستہ
پاکستانی حکومت کی فاٹا اور اسکی پالیسیوں میں شمولیت ضروری ہے جو آزاد، منصفانہ، شفاف اور سب سے اہم محفوظ انتخابات یقینی بنائے۔یہ دو طرح کے معاہدوں کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ سب سے پہلا معاہدہ حکومت اور شہریوں کے درمیان فرنٹئر کرائمز ریگولیشنز اصلاحات لانے پر ہونا چاہیے، کچھ قوائدوضوابط ۱۹۰۱ سے برطانیہ کی طرف سے لاگو ہیں۔دوسرے نمبر پر قوم جو کہ قبائیلی لوگ ہیں اورعسکریت پسند وں کے درمیان بات چیت کا سلسلہ ہے،قوم کا یہ لشکر عام لوگوں کو عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ میں شامل کرتا ہے لیکن یہ لشکر ایک مستحکم فاٹا نہیں بنا سکتا۔
انتخابات کے ساتھ یا بغیر، لیکن یہ وقت قبائلی علاقوں کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لئے جرات مندانہ اقدامات کا ہے۔
مہران وزیر جنوبی وزیرستان کے ایک محقق اور تجزیہ کار ہیں۔
[…] Issue IV | اردو […]