قدرت سے سماج وقدرت تک
اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ قدرتی آفات کو ایک سماجی وقدرتی عمل سمجھا جائے۔ اور سیلاب سے نمٹنے کی حکمتِ عملی میں ریزیلئنس (استحکام) اور اڈاپٹیشن (مطابقت) سے آگے کی بات کی جائے۔ تنقیدی سوچ رکھنے والے سماجی سائنسدانوں اور کارکنان کو اس بات پر دھیان دینا ہو گا کہ کس طرح دریائے سندھ کا مخصوص استعمال غیر مساوی سماجی تعلقات کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ایسی پالیسیاں ناکافی ہیں جومحض دریائے سندھ پر قابو پانے یا اس سے اپنے آپ کو بچانے تک محدود ہوں۔ یہی نظریہ ہمیں ریاستی دستاویزات میں اورروزمرہ کی عام فہم گفتگو میں ملتا ہے۔
اس کے برعکس ہمیں ایسی نئی اور جامع پالیسی مرتب کرنی چاہیے جس میں ہم اس بات کا اعتراف کریں کہ قدرت اور سماج ایک دوسرے سے جڑے ہیں ۔ اسی نظریہ کہ تحت ہمیں دریائے سندھ کے بارے میں اپنی سوچ کوبدلنا پڑے گا۔
مثال کہ طور پ اگر ہم پانی تک رسائی اور زمین وپانی کے حقوق کے آپس کے تعلق پر تحقیق کریں تو یقیناََ ہم ایک مساوی زرعی نظام مرتب دے سکتے ہیں۔ ایسے نظام میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات ایک مخصوص طبقہ تک محدود نہیں رہیں گے۔ بلکہ عمودی اور افقی اعتبار سے، یعنی جگہ اور اقتصادی حیثیت کے حوالے سے یہ اثرات ہر ایک پر یکساں ہوں گے۔
جب ہم اس بات کا اعتراف کر لیں کہ یہ آفات ایک سماجی و ماحولیاتی عمل سے پیدا ہوتی ہیں تو پھر ہم یہ بھی سمجھ جائیں گے کہ سوسائٹی میں کوئی ایسی قدرتی کیفیت یا حالتِ معمول ہے ہی نہیں کہ جس کی جانب لوٹا جاسکے۔ بلکہ ہمارے سامنے مستقبل کے تمام راستے کھلے پڑے ہیں۔
ماجد اختر یونیورسٹی آف ایرازونا کے جغرافیہ ڈیپارٹمنٹ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کررہے ہیں۔ ماجد اپنے تحقیقی مقالہ میں دریائے سندھ کی سیاست کا تاریخی جائزہ لے رہےہیں ۔