Drowned by Design

Dec 2012

ڈیزاین یا ڈبونے کی منصوبہ بندی | مشتاق گاڈی

ترجمہ: خالد باجوہ

English | اردو

لاکھوں لوگوں کے گھروں اور زمینوں کو زیرآب لانے میں، کروڑوں روپے کی تعمیرات کے کردار کے بارہ میں ہمیں کچھ کرنا ہو گا۔

دوران موسم سرما، جنوب مغرب پنجاب،شمالی سندھ، اور مشرقی بلوچستان میں آنے والے سیلابوں نے ایک دفعہ پھر سندھ ڈرینج بیسن کے آبی وسائل کی انجینرئنگ میں موجود شدیدخامیوں کو بے نقاب کیا ہے۔

بیراجوں کو محفوظ کرنے کی نیت سے بنائے جانے والی حفاظتی رکاوٹوں (حفاظتی ڈایئکس اور محدود بنڈس) نے ایک تاریخی نوعیت کی سیلابی تباہی کو جنم دیا ، جس کے نتیجے میں ۲۰۱۰ میں  پاکستان کا پانچواں حصہ زیر آب آیااور دو کروڑ سے زائد لوگ براہ راست متاثر ہوئے۔

لیفٹ بینک آوٹفال ڈرین میں موجود بنیادی نقائص۲۰۱۱ میں شدید سیلاب اور سندھ کے نچلے علاقوں میں وسیع پیمانے پر تباہی کے باعث بنے ۔ بنیادی طور پر سندھ کی ۲۰ لاکھ ایکڑ زمین سے پانی کی نکاسی کے لئے بنائے جانے والے اس نظام نے شدید تباہی مچائی ہے۔ مون سون کی بھاری بارشوں کے باعث بہنے والے اس پانی کو جب لیفٹ بینک آوٹفال ڈرین میں داخل ہونے کے لئے رستہ نہیں ملا تو اس نے پورے خطے کو ایک قسم کی آبی قبربنا دیا۔

اور اب اس سال دریائے سندھ کے دائیں جانب آبپاشی کے نظام نے سلیمان اور کرتھار رینج سے آنے والے طاقتور ریلوں کا رستہ روک دیاا ور فطری نکاسی کے بجائے ا ن ریلوں نے دریا کے بند توڑ ڈالے جس کی نتیجے میں مرکزی پاکستان کے کئی علاقےزیر آب ہو گۓ۔

انجنئیر سوچ سے سیلابوں کا خطرہ کیوں بڑھ رہا ہے
گزشتہ تین سالوں میں آنے والے سیلابوں کے پیچھے وہ نظام آبپاشی ہے جسے مقامی علاقوں سے دور تعلیم حاصل کرنے والے انجینیروں نے بنایا۔  اس بات کو سمجھنے کے لئے ہمیں اس نظام کے دو پہلؤں پر نظر ڈالنی پڑے گی۔ اول، جدید دوامی کنالیں جو ڈیموں اور بیراجوں سے آب پاشی  کا پانی ترسیل کرتی ہیں۔  دریاے سندھ کے دائیں کنارے پر آنے والے سیلابوں کی شدّت اور وسیع تباہی میں ان دوامی کنالوں کا کلیدی کردارہے۔

صفحات: ١  ٢

Pages: 1 2 3 4

Tags: , , ,

One Response to Drowned by Design

  1. Usman Qazi on Dec 2012 at 7:04 AM

    چشمہ رایٹ بینک کینال اور لیفٹ بینک آوٹ فعال ڈرینیج قسم کے منصوبوں کے واضح منفی اثرات پر بحث کو اکثر اس نوع کے بلند بانگ بر خود غلط بھاشن سے نمٹانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ قوموں کے مجموعی فائدے کے لئے کچھ لوگوں کو قربانی دینا ہی پڑتی ہے. اس قسم کے جواب کا اخلاقی دیوالیہ پن اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلا تخصیص قربانی دینے والے اور لوگ ہوتے ہیں اور فایدہ اٹھانے والے اور.. اگر اس ملک میں سماجی پالیسی بنانے اور اس پر عمل درامد کرنے کا عمل اتنا مؤثر ہوتا کہ اس طرز کے منصوبوں سے حاصل ہونے والے فواید کا کچھ حصہ ان سے متاثر ہونے لوگوں کی تکالیف کے مداوا میں استعمال ہوتا، تب بھی منصوبہ سازوں کو شک کا کچھ فائدہ دیا جا سکتا تھا مگر یہ سمجھ نہیں آتی کہ یہ منطق صرف کنکریٹ سے بننے والے عظیم الشان منصوبوں پر ہی کیوں لاگو کی جاتی ہے. مثلا پہاڑی ندیاں یا “رود کوہی” جن کی جانب محترم گاڈی صاحب نے اشارہ کیا ہے، صدیوں سے مقامی آبادی کے لئے زرعی روزگار کا اہم ذریعہ ہیں. سرکاری عدم توجہی کے سبب ان کی پیداوار اسی مقام پر کھڑی ہے جہاں صدیوں قبل تھی. بلکہ کئی مقامات پر کم یا ناپید ہو چکی ہے. ان رود کوہی نظام ہاے آبپاشی کو بہت کم خرچ سے بہتر بنایا جاسکتا ہے . اس سے نہ صرف لوگوں کو روزگار اور غذائی تحفظ ملے گا بلکہ دامان کے علاقے میں سیلابی خطرے کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی. مگر ان کا کم خرچ ہونا اور ان میں کنکریٹ کا استعمال نہ ہونا ہی شاید ان کا قصور ہے. اس جانب سرکاری عدم توجہی کی تین بڑی وجوہات ذہن میں آتی ہیں اور تینوں ہی ترقی کے عمل کی “سیاست اقتصادیات” یا پولیٹیکل اکانومی میں پیوست ہیں. پہلے تو یہ کہ ان رود کوہیوں پر انحصار کرنے والے کسان اکثر غریب اور سماجی طور پر کمزور لوگ ہیں. ان کی شنوائی لاہور اور اسلام آباد میں بیٹھے پالیسی سازوں تک نہیں ہے. دوسرے یہ کہ رود کوہی نظام کی بحالی اور ترقی کم خرچ ہے لہٰذا اس پر دیے جانے والے ترقیاتی ٹھیکے بھی کم مالیت کے ہوں گے. ان کم مالیت کے ٹھیکوں سے محکمانہ اہل کاروں کو بہت کم کمیشن ملنے کی امید ہو گی. چنانچہ ان پر وقت کیوں ضایع کیا جاے. تیسرے یہ کہ ہمارے تمام تر تعلیمی ادارے، خصوصا انجینیرنگ پڑھانے والے ادارے اپنے نصاب میں نام نہاد “جدید” یا “ماڈرن” ٹیکنالوجی کو ہی شامل کرتے ہیں. بیچلرز کی سطح کا تمام تر نصاب غیر ملکی ماہرین کی کتب سے ماخوذ ہے. اگر آب پاشی یا اریگیشن کا مضمون ہے تو تمام تر بڑے نہری نظام سے متعلق . مٹی کے بنے ہوۓ بندات، یا دیگر روایتی اور مقامی ٹیکنالوجی مثلا “کاریز” وغیرہ کا سرے سے ذکر ہی نہیں ہے. سیلاب کو بطور ایک آفت پڑھایا جاتا ہے جب کہ یہ رود کوہی پر انحصار کرنے والے لاکھوں لوگوں کے لئے ایک رحمت ہے.
    اب اگر اس نظام سے فارغ التحصیل انجینیر کو کہا جاے کہ وہ ہائی وے یا نہر کے ڈیزاین میں اس کا خیال رکھے کہ رود کوہی نظام آبپاشی اس سے متاثر نہ ہو، تو وہ اسے ایک فرسودہ چیز سے رومانوی وابستگی کا اظہار سمجھ کر رد کر دے گا. اس تجزیے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پانی کا انتظام اور آبی وسایل کی ترقی کوئی سراسر تکنیکی مسلہ نہیں ہے بلکہ اس پر سیاسی و سماجی عوامل اور ان کے نتیجے میں وجود میں آنے والی “مساوات قوت” یا “پاور بیلنس” کا گہرا اثر ہوتا ہے. لازم ہے کہ اس ترقیاتی عمل کی نام نہاد پر اسراریت کو ہٹا کر اسے عوامی بحث مباحثے کا موضوع بنانے کے لئے رسمی اور با قاعدہ قوانین بناے جائیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *