اسلام آباد کے ایک ایلیٹ سکول کے بچے کا لباس، زبان ،کورس ،کلاس روم سیٹنگ، تفریح، خوراک سب اسی سکول کے چوکیدار کے بچے کے مقابلے میں یورپ یا امریکہ کے ایک بچے سے زیادہ ملتا جلتا ہے. اسے اور چوکیدار کے بچے کو اگر اکٹھا دیا جائے تو یہ دونوں مل کر ایک نظم نہیں گا سکتے ایک کھیل نہیں کھیل سکتے۔ شاید ایک چیز پر بات کرنا بھی ان کے لیے مشکل ہوتا اگر وہ بچے نہ ہوتے۔ 20 سال بعد یہ بچے اسی معاشرے میں ہوں گے اور ایک دوسرے کے لیے بالکل اجنبی ہوں گے…
زندگی کتنی بهاری تھی یہ بتانے کو ڈیڑھ ٹن وزنی لوہے کی چادر کے نیچے دبا احمد علی اب زندہ نہیں. وہ احمد علی جس کے حلق میں ٹپکانے کو اس کے ساتھیوں کے پاس پینے کے قابل پانی کے چند قطرے بهی نا ہوتے اگر وہ اسے نکال سکتے. لیکن یہ اگر کوئی واحد اگر نہیں ہے. اگر فائر بریگیڈ وقت پر پہنچ جاتی. اگر آگ بجهانے والی گاڑی میں آگ بجهانے جوگا پانی ہوتا. اگر احمد علی کو حفاظتی سامان ملا ہوتا. اگر نزدیک ترین ہسپتال 80 کلومیٹر دور نا ہوتا. اگر نزدیکی ڈسپنسری میں دوا مل جاتی. اگر زندگی کاٹنے کے لیے ویلڈنگ مشین ایجاد ہو چکی ہوتی اگر احمد علی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے سے پہلے کالی عینک لگائے اس دیو ہیکل جہاز کے ٹکڑے روٹی کے ٹکڑوں میں نا بدل رہا ہوتا اگر اگر اگر… لیکن کیا کیجیے کہ جہاز میں آگ کبهی کبهی لگتی ہے اور پیٹ کا جہنم روز ایندھن مانگتا ہے.
میں قتل ہونے والوں اور قتل کرنے والوں کی شناخت پر اصرار کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا. پاکستانی اور مسلمان کی شناخت اس لیے ادھوری ہے کہ اس میں قاتل اور مقتول ایک صف میں کھڑے نظر آتے ہیں. یہ جنگ ہے اس میں کم سے کم میں قاتلوں کے ساتھ نہیں ان کے مقابل ہوں. آپ پاکستانی یا مسلمان کہ کر مقتول اور قاتل کو ایک صف میں کھڑا کرنا چاہیں تو بصد شوق لیکن یہ یاد رکھیے کہ اس صورت میں آپ بھی اُسی صف میں ہیں جس میں قاتل ہیں۔ میں مقتولین کی شیعہ بریلوی احمدی شناختوں پر مصر رہوں گا اور ہاں قاتلوں کی تکفیری دیوبندی شناخت پر بھی۔ مجھ سے ریاست کے کردار کی پردہ پوشی کی توقع رکھنا بھی عبث ہے. ریاست اور حکومت کے درمیان فرق کرنا بھی میں جانتا ہوں سو اسے فساد فی الارض کہیں یا فرقہ واریت، لبرل ازم سے دغا سمجھیں یا وطن دشمنی۔
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں
میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں…
سلمان حیدر
۲۴ جون ، ۲۰۱۶