میں اس عقیدے کی اوسط عمر پار کر چکا ہوں
جو میرے شناختی کارڈ پر لکها ہے
محبت کی نظمیں لکهنے کا وقت
چوراہوں پر پلے کارڈ تها میں
زندہ رہنے کا حق مانگنے میں خرچ ہو گیا
گاڑیاں میرے پاس سے گولی کی طرح گزرتی رہیں
زندگی 120 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے کم پر چلانا منع ہے اس لیے
کوئی یہ پوچهنے کو نہیں رکا
کہ میرے حلق کے کاسے میں نعروں کے سکے ہی کیوں کهنکتے ہیں
میں بینروں کے لٹهے پر لکهنے کو وہ مقدس لفظ کہاں سے لاؤں جو پیدا ہونے کا گناہ بخشوا سکیں…
سلمان حیدر