شکوۂ مختصر
مورخہ ۲۷ اکتوبر کے روزنامہ جنگ میں ایک مختصر سا واقعہ پچھلے صفحہ پر رپورٹ ہوا۔ اس دن اخباری سرخیوں میں سرجیکل سٹرائیک، کنٹرول لائن فائرنگ ، پاناما لیکس، نیوز لیکس، شہر بند کردیں گے، نہیں کرنے دیں گے وغیرہ کا تذکرہ تھا۔ لیکن اگر یہ معاملات نہ بھی ہوتے تب بھی اس خبر کا یہی دو سطری مقدر طے تھا۔ سوشل میڈیا پر تو اسکی اوقات ایک ٹویٹ یا سٹیٹس جتنی بھی نہیں ہے۔
پھر بھی ،ایک نظر دوبارہ اس تراشے پر ڈالیں۔ ۔۔ اگر یہ بلوچستان یا خیبر پختونخواہ کے کسی دور افتادہ گاؤں کا واقعہ ہوتا تو ہم نے ویسے ہی کندھے اچکا کر آگے بڑھ جانا تھا۔ کہ وہ تو علاقے ہی پسماندہ ہیں، سرداروں، ملکوں کا راج ہے،ریاستی رٹ نہیں ہے ، لوگوں کو شعور نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔لیکن یہ تو لاہور کے نواح کا واقعہ ہے!۔ ہمارے شہروں میں نفرت اور جہالت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور ہم تنکے کا سہارا لیئے باتیں کر رہیں انتہا پرستی سے نمٹنے کی، ضرب عضب ، نیشنل ایکشن پلان، یہود و ہنود کی سازشیں اور پتا نہیں کیا کیا۔ ڈر لگتا ہے کہ ہمارے جوانوں کا مقدس خون کہیں رائیگاں تو نہیں جا رہا۔ جو ہجوم اپنی مدد کو آنے والی نہتی محنت کش عورت پر ہاتھ اٹھانے کو جائز سمجھتا ہے اسے معاشرے میں بدامنی پھیلانے پر اکساناکتنا مشکل ہو سکتا ہے؟ اسطرح کی نفرت کا علاج کوئی ایکشن پلان کیسے کرے گا؟
لاہور میں رجعت پسندی قبائلی علاقوں سے کم تو نہیں
جنگ 27-10-2016
محنت کش عورت سے زیادہ مظلوم طبقہ ہمارے یہاں اگر اور کوئی ہے تو وہ بھی محنت کش عورت ہی ہے ۔۔۔بس اقلیت کی اضافت لگا لیں ۔۔۔ جیسے آسیہ بی بی یا قصور کا وہ مسیحی جوڑا جسے زندہ جلا دیا گیا تھا۔ نچلے طبقے کی محنت کش عورتوں کو کام کے دوران مستقل ذلالت اور بدتمیزی کا سامنا رہتا ہے۔ چھیڑ چھاڑ اور فحش مذاق معمول ہے ۔ اب اسمیں مار پیٹ بھی شامل کر لیں۔
اگر ریاست علاج معالجہ کی اپنی ذمہ داری صحیح طور سے نہیں نبھا رہی تو عوامی غیض و غضب کا رخ حکومتی ترجیحات کی طرف ہونا چاہیے نہ کہ غصہ غریب مزدور پر اتارا جائے۔ ایک طرف تو ہم میزائل تجربوں اور میٹرو منصوبوں کی ڈگڈگی پر ناچتے پھرتے ہیں اور دوسری طرف گھر آئی محنت کش عورت کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ تف ہے!
چشم تصور میں لائیں ۔۔۔جب اس پولیو ورکر کو گھسیٹا جا رہا ہو گا۔۔زدوکوب کیا جا رہا ہو گا۔۔۔شاید وہ سوچتی ہو گی کہ میرا قصور کیا ہے۔ میں تو دیہاڑی کے لیئے نکلی ہوں، بچوں کی روزی روٹی کے لئیے نکلی ہوں۔ کیا میری بدقسمتی یہ ہے کہ مجھے پیٹنے والوں کا بس کہیں اور نہیں چلتا۔۔۔وہ بھی دھونس ، بدمعاشی اور طاقتور کو پوجنے والے سماج کی گھٹن کا شکار ہیں۔۔یا شاید وہ مجاز کی زبان دہراتی ہو!
مجھے شکوہ نہیں ان صاحبان جاہ و ثروت سے
نہیں آئی میرے حصّہ میں جن کی ایک بھی پائی
زمانہ کے نظام زنگ آلودہ سے شکوہ ہے
قوانین کہن، آئین فرسودہ سے شکوہ ہے