بچے ۔۔۔ ہمارے معاشرے کا ایک مظلوم طبقہ

Child-labour-in-Pakistan

تحریر: نور اکبر گوہر

کہتے ہیں کہ بچے پھول جیسے ہوتے ہیں۔ اس قول کے دوپہلو ہیں۔ ایک یہ کہ بچے پھول کی طرح پیارے اور کسی  بھی گھر یا معاشرے کی رونق ہوتے ہیں ۔ اس کہاوت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بچے ذہنی اور جسمانی  طور پر حساس، نازک اور ناپختہ ہوتے ہیں۔ اس لئے انہیں والدین اور معاشرے کی طرف سے خاص خیال،  پیار اور تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے ۔

کسی بھی سماج اور فرد کے مستقبل پربچپن میں کی جانےوالی تعلیم و تربیت اور تحفظ کی فراہمی کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ زندگی کے اس ابتدائی حصے میں والدین اور معاشرے کی طرف سے برتی گئی عدم توجہی سے بچے کی شخصیت سازی کے تقاضے پورے نہیں ہوسکتے جس کا بحیثیت مجموعی پورے معاشرے پرمنفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اگر ہم بغورجائزہ لیں تو یہ تلخ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ بچے ہمارے معاشرے کا ایک مظلوم طبقہ ہیں ۔ وہ جہاں کھیل کود، تفریح ، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی حقوق سے محروم ہیں وہیں جبری مشقت، اغواء برائے تاوان اور جنسی تشدد جیسے قبیح معاشرتی افعال کا بھی تسلسل سے شکار ہیں۔  جہاں وہ جاگیراور سرمائے کے تحفظ کے لئے بنائی گئی سیاسی پالیسیوں کی وجہ سے غربت میں پیدا ہوتے ہیں وہیں دہشت گردی اور ریاستی مفادات کے نام پر مسلط کردہ جنگوں کا نشانہ بھی بن رہے ہیں۔

پاکستان دنیا میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے موجود بین الاقوامی معاہدوں کا دستخطی ہے مگر جب ان پر عمل درآمد کی بات آتی ہے تو پاکستان کا نام سب سے آخر میں آتا ہے۔ ملکی آئین میں بھی بچوں کے تحفظ کے حوالے سے قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ بحیثیتِ مجموعی بچوں کے لئے انتہائی غیر محفوظ بن کر رہ گیا ہے۔

آئے روز بچوں پر جنسی تشدد اور قتل کی خبریں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں۔  ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اعلٰی حکام نے واقعے کا نوٹس لے لیا ہے اور جلد مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا تاہم ابھی ایک واقعے کی بازگشت کانوں سے جاتی نہیں دوسرا واقعہ سر اٹھاتا ہے۔ 1999ء میں لاہور میں چھہ سے سولہ سال تک کے 100 بچوں کا جنسی تشدد کے بعد قتل اور موجودہ سال کے اوائل میں قصورمیں سامنے آنےوالی 200 سے زائد بچوں پر جنسی تشدد کی ویڈیوز ملک میں بچوں کے عدم تحٖفظ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

غریب بچوں کا تحفظ حکمراں طبقے کی ترجیحات کا کبھی حصہ ہی نہیں رہا۔ جب ملک میں حکمرانوں کا کوئی بچہ اغواء ہوتا ہے تو اس کی بازیابی کے لئے  پولیس، فوج اور ان کے ماتحت کام کرنے والے خفیہ ادارے متحرک ہوجاتے ہیں تاہم ملک میں لاکھوں غریب بچوں کو اغواء کرکے بیرون ملک سمگل کیا جاتا ہے مگر حکمرانوں کے کان میں جوں تک نہیں رینگتی۔  یہی مغوی بچے جہاں عرب کے ریگستانوں میں اونٹ دوڑ کے مقابلے کا سامان بن جاتے ہیں وہیں دیگر ملکوں میں ان کے دل، گردے اور جسم کے دیگر اعضاء نکال کرفروخت کیا جاتا ہے۔

اسی طرح کروڈوں بچے طبی سہولیات ، خوراک کی کمی اور بھوک کا شکار ہیں۔ مزدور اور غریب کسانوں کی محنت پر پیدا کردہ خوراک گوداموں میں گل سڑ رہی ہوتی ہیں مگر یہ فاقوں سے مرتے بچوں کو نصیب نہیں ہوتیں۔ پچھلے دوسال کے دوران پاکستان کے ریگستانی علاقے تھرپارکر اور چولستان میں خوراک کی کمی کے باعث سینکڑوں بچوں کی ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ مختلف اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 5 سال سے کم عمر کے352،000 بچےخوراک کی کمی وجہ سے سالانہ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

تعلیم بچے کا بنیادی حق ہے مگر تعلیم کا حصول غریب بچوں کی پہنچ سے بہت دور ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق  دو کروڈ پچاس لاکھ بچے سکول نہیں جاتے ہیں جبکہ جس طرح کی تعلیم سرکاری سکولوں میں دی جارہی ہے اس کا عملی زندگی میں استعمال بہت کم یا نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے برعکس حکمرانوں اور امراء کے بچوں کے لئےالگ سکول ہیں جہاں ان کے لئے جدید اور معیاری تعلیم و تربیت کا اہتمام ہوتا ہے۔

ہمارے سماج میں زراعت ، صنعت نیز ہر شعبہ ہائے زندگی میں بچوں سے مشقت لینا معمولی سی بات ہے۔ پوری دنیا میں اس وقت مشقت کرنے والے بچوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے مگرہمرے یہاں اس میں کمی کی بجائے اضافہ ہورہا ہے۔ گلوبل سلیوری انڈکس کے مطابق بچوں سے مشقت لینے والے ملکوں میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔ ملک میں پچاس فیصد سےزائد زرعی زمینوں پر گنتی کے چند لوگ قابض ہیں جنہوں نے لاکھوں بچوں کو نسل در نسل جبری مشقت کا شکار بنایا ہوا ہے۔

اس کے علاوہ تفریحی سہولیات کی فراہمی، تشدد سے خالی گھریلو ماحول، بالغ عمری میں شادی بچوں کے بنیادی حقوق ہیں جن کی عدم فراہمی کے باعث  بچے منشیات کے استعمال، خود کشیاں، گھر سے بھاگنے، دہشت گردی، دوران زچگی اموات اور بے پناہ دیگر جسمانی ، ذہنی اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔

بچوں کی بہتر صحت، تعلیم ، تحفظ  ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہیں مگر اس ملک کی اکثریت جو غریب مزدوروں اور کسانوں پر مشتمل ہے انہیں اس نظام نے اس طرح بے بس کررکھا ہے کہ وہ چاہتے ہوئے بھی اپنے بچوں کی نہ اچھی تعلیم و تربیت کرسکتے ہیں نہ انہیں جسمانی، جنسی اور نفسیاتی طور پر تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس غریب اور مزدور طبقات کی محنت اور وسائل کے استحصال پر 2 فیصد
اُمراء و اشرافیہ طبقے  کے بچوں کی تعلیم و ترتبیت اور تحفظ کو یقینی بنایا جاتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *