بائیں بازو کی سیاست میں صنفی امتیاز اب تک کیوں باقی ہے

شمارہ ١٠ | Eng | Issue 10

سیاست  کا محور وہ سب کچھ ہے جو دکھائی دیتا ہے اور وہ باتیں جو ان مناظر کے بارے میں کی جا سکتی ہیں –  سیاست ان لوگوں کا گرد گھومتی ہے جو دیکھنا اور بولنا جانتے ہیں ۔ سیاست زمان و مکان کی خصوصیات اور ان میں موجود امکانات کا نام ہے-  یاک رانسغ  “جمالیات کی سیاست”

کیا میں یہ تجویز کرنے کی جرات کر سکتی ہوں کہ بائیں بازو کو صنفی امتیاز کی سیاست پر غور کرنے  کی بجائے اپنی سیاست کا چلن بدلنے کی ضرورت ہے؟

 جب یہ کہا جاتا ہے کہ “خواتین کو بائیں بازو کی سیاست میں شامل ہونا چاہیئے” تو درحقیقت وہ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ یہ اعلان کس مفروضے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ،”خواتین کو بیدار کرنے یا انہیں انقلابی جدوجہد کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے”؟ یا جب بائیں بازو کی سیاست سے منسلک خواتین یہ کہتی ہیں کہ”ایک عورت ہونے کے باوجود مجھے بائیں بازو کی سیاسی سرگرمیوں کے دوران کبھی ہراساں  نہیں کیا گیا یا میرے ساتھ امتیاز سلوک نہیں کیا گیا” تو ہم دراصل کیا کہہ رہی ہوتی ہیں؟ یا جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ” بائیں بازو کی سایست میں خواتین کی )حیثیت( کا سوال بے احد اہمیت کا حامل ہے”تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟  بائیں بازو کے ان دقیانوسی اور روایتی مغالطوں کی تکرار سے کیا انہی صنفی امتیازی رویوں کا اظہار نہیں ہوتا ہے کہ ایک ہی جیسے خوشحال اور کھاتے پیتے  بورژوائی ماحول سے آنے والے مرد تو طبقاتی جدوجہد کے نمائندہ ہیں جب کے اسی ماحول  سے آنے والی خواتین اگر حقوق نسواں کی بات کریں تو وہ اشرافیہ سیاست ہے ؟

جدید فکر میں جسم اور ذہن کی ثنویت کی طرح نجی اور عوامی کی تقسیم  غیر متوقع مقامات جیسے کے مارکسی مباحث میں بھی پائی جاتی ہے ۔ سیاست مردوں کا کھیل ہے کیوں کہ اس کا تعلق عوامی معاملہ/میدان عمل سے  ہے اور چوں کہ خواتین  کی اس شعبے میں موجودگی محدود ہے اس لیے انہیں اس کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔ اور چوں کہ خواتین کے زیادہ تر مسائل نجی نوعیت کے ہیں اس لیے ان )مسائل( کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اور خواتین کو انقلابی جدوجہد کا حصہ شمار کرنے سے قبل ان میں عوامی اور سیاسی شعور کا بیدار ہونا ضروری ہے۔  چند خواتین اگر کسی نہ کسی طرح سیاسی عمل کا حصہ بن چکی ہیں تو اس سے یقیناً یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین کو سیاست سے دور رکھنے کا کوئی سماجی نظم )باقاعدہ یا غیر منظم( سرے سے موجود ہی نہیں ؟ اور یقیناً بہت سی خواتین محض اسی لیے سیاست میں باقاعدہ حصہ نہیں لیتیں کیون کیہ ان میں سیاست میں باقادہ حصہ لینے کے لیے درکار عزم کی کمی ہے؟ اور یقیناً خواتین کے حقوق کا سوال ہی اس معاملے میں بحث کا موزوں ترین طریقہ ہے کیوں کہ عورت پہلے ایک صنفی وجود ہے اور پھر بعض صورتوں میں ایک محنت کش جبکہ مرد پہلے ایک محنت کش ہے پھر ایک صنفی وجود؟ 

عوامی ورکرز پارٹی اسلام آباد اور گرلز ایٹ ڈھابہ کے اشتراک سے عوامی مقامات پر خواتین کی موجودگی بڑھانے کے حوالے سے گزشتہ ماہ منعقد ہونے والی ایک تقریب نے  درج بالا سوالات  پر مبنی ایک نہ ختم ہونے والی بحث کو جنم دیا۔ تقریب کے بعض شرکاء نے عوامی ورکرز پارٹی کے اندر موجود صنفی امتیاز اور ہراسانی کی بعض صورتوں کا معاملہ اٹھایا جنہیں فوراً ہی خاموش کرا دیا گیا۔ اس تقریب پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ہونے والی تنقید کے تناظر میں فیمینسٹ کولیکٹو نے “بائیں بازو اور ترقی پسند سیاست میں صنفی امتیاز” کے موضوع پر لاہور میں ایک مذاکرے کا انعقاد کیا)مذاکرے کی رودا پڑھنے کے لیے چے میگزین میں کائلہ پاشا کی تحریر “میں بولوں، تم سنو” پڑھیے(۔ اس مذاکرے کے ذریعے ترقی پسند سیاست میں بالخصوص اور عوامی مقامات پر بالعموم پیش آنے والے صنفی مسائل پر عوامی بحث کا آغاز ہوا جس کی ضرورت ایک عرسے سے تھی۔

———————————————————————————————————————————

پاکستان کی کہانی سنانے کے لیے آزاد میڈیا کی تشکیل میں ہماری مدد کیجیے۔

سبسکرائب کیجیے یا چندہ دیجیے

———————————————————————————————————————————

حقیقت یہ ہے کہ بائیں بازو کی جماعتوں کی تنظیی سرگرمیوں، حتیٰ کہ ان جماعتوں کے زیراہتمام خواتین کے مسائل پر منعق کرائے جانے والی تقاریب میں بھی اس حوالے گفتگو یا تنقید سے گریز کیا جاتا ہے۔ یقیناً ہمیں اس رحجان کی مخالفت کرنی چاہیئے اور صنفی بنیادوں پر ہراسانی، امتیاز اور گریز کو جن پر توجہ دینےکا رواج نہیں ،سامنے  لانا چاہیئے۔

لیکن میری دانست میں اس مسئلے میں بنیادی ضرورت خود احتسابی کی ہے ۔ اس ضمن میں سیاسی عمل سے متعلق ہمارے تصورات اور طرز عمل میں وسعت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ درج بالا اقتباس میں رانسغ نے ہمیں سیاسی جمالیات اور ہئیت کی مرکزیت سے خبردار کیا ہے۔ جب سیاست محض انتخابات کے ذریعے ریاستی اقتدار تک رسائی تک محدود نہ ہو بلکہ ہماری دنیا کے موجودہ سیاسی ڈھانچے کا انہدام اور اس کی تنظیم نو مقصود ہو تو کیا سوچنا، دیکھنا اور کہنا ممکن ہو جاتا ہے؟ جب ہم اپنے طرز عمل کے نتائج اور اپنی تنظیم سے متعلق چوکس رہنے کی اہمیت سے واقف ہو جاتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟

 اگر ہم نے اپنی سیاسی جدوجہد کے جمالیاتی پہلوون کو نظر انداز کرنا، خود بینی کے ہر مطالبے کو مابعد جدیدیت کی فکری پراگندگی یا بورژووائی اور  لبرل خبط قرار دے کر جان چھڑانا، تنظیم کے اندر اور باہر سے ہونے والی تنقید سے بدکنا، اور تنظیم میں شامل اور تنطیم سے خارج کا دوہرا پن اور  خود کو  صحیح ثابت کرنا جاری رکھا تو ہم کس قدر مواقع  اپنے ہاتھو ں  سے گنوا دیں گے؟

جدید سوچ  کے دیگر مکاتب فکر کی طرح بائیں بازو کی سیاسی سرگرمیاں بھی متن کی قائل ہیں مگر اس کی پیش کش کو اتنی اہمیت نہیں دیتیں۔ خواتین کے حقوق کا دعویدار بننے کے لیے بائیں بازو کی تحاریک خواتین کو موقع دیئے بغیر حقوق نسواں پر بے دریغ بات کرتی رہتی ہیں۔  یہ تحریکیں خوتین کی بامعنی شمولیت کے بغیر خواتین کے کام حتیٰ کہ ان کی تنقید کو بھی اپنی تقاریب کی تشہیر)اور حقوق نسواں کا علمبرداد بننے( کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ بائیں بازو کی مجالس میں صرف مرد مقررین خطاب کرتے ہیں، اور خواتین کی رائے جانے بغیر ان کے لیے مطالبات اور قراردادیں پیش کی جاتی ہیں۔  بائیں بازو کی جماعتیں خود کو صنفی امتیاز کے خاتمے کا علمبردار بنا کر پیش کرتی ہیں ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنے طرز عمل کے ذریعے  جذباتی سطح پر کام کرنے کا بوجھ خواتین کے کندھون پر ڈال دیتے ہیں۔ 

“بائیں بازو اور ترقی پسند سیاست میں صنفی امتیاز”  کے مباحثے میں اگر کسی بات کی کھل کر نشاندہی کی گئی تو وہ یہی تھی کہ متن کے ساتھ اس کی پیشکش بھی اہم ہے۔ یہ مذاکرہ سماج میں موجود  اس تاریخی ناانصافی اور طاقت کے عدم توازن کی آگہی کے ساتھ منعقد کیا گیا تھاجس کے باعث صنفی غیرجانبداری/مساوات کی حامل جگہو ں  پر خواتین کا آواز اٹھانا ناممکن ہو چکا ہے۔ مرد خواہ وہ حقوق نسواں کے قائل ہوں یا نہ ہوں، عموماً خواتین  سے متعلق بات کرتے ہیں، خواتین کو بولنے کا موقع نہیں دیتے اور ان کی موجودگی کو غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ حقوق نسواں سے متعلق اپنی ساکھ کو جواز بنا کر ایسے حضرات خواتین کی تنقید کو غلط، جذباتی، غیر حقیقت پسند اور غیر سیاسی قرار دیتے ہیں۔  وجود زن کا محض تصویر کائنات کا رنگ قرار دے کر، یا اپنا نقطہ نظر حقوق نسواں کا حامی قرار دے کرترقی پسند جماعتیں اپنی سیاست کی جمالیاتی جہات پر غوروفکر کی ذمہ داری سے فرار کی راہ اختیار کرتی ہیں۔

انہی مسائل کے پیش نظر یہ مذاکرہ منعقد کیا گیا تھا۔ )سیاسی پیغام کی( پیشکش کی اہمیت تسلیم کرنے کا مطلب ہے کہ ہم اپنی انتظامی ترتیب، ہماری تقاریب کے خاموش بیک ڈراپ، شرکاء اور مقررین کی ترتیب، ہمارے مباحث کے بنیادی قواعد اور مفروضہ جات، عوامی سطح پر نظر آنے والا ہمار رسمی اور غیر رسمی تنظیمی ڈھانچہ وہ عوامل ہیں جو معاشرتی میل جول پر اثرانداز ہوتے ہیں اور ہمارے سیاسی پیغام کی نوعیت طے کرتے ہیں۔  اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارا تنظیمی ڈھانچہ فطری ہے، جیسا کہ کیلر ایسٹرلنگ نے کہا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارا تنظیمی ڈھانچہ ہماری تگ و دو کی وجہ سے نہیں بلکہ ہماری سیاسی فکر پر استوار تنظیمی روابط کے فطری ارتقاء کے باعث فعال ہے۔

———————————————————————————————————————————

یہ مضمون آپ تک پہنچنے کے لیے ہمارے خون پسینے کے علاوہ روپیہ پیسہ بھی خرچ ہوا ہے۔

سبسکرائب کیجیے یا چندہ دیجیے

———————————————————————————————————————————

انہی عوامل کے پیش نظر  خواتین مقررین اور مرد سامعین کی یہ نشست منعقد کی گئی جہاں خواتین گھیرا  ڈال کر بیٹھیں اور مردسامعین کمرے کے پچھلے حصے میں بیٹھے۔ مردوں کی معاونت سے خواتین کے لیے آمدورفت اور بچوں کی نگہداشت کی سہولیات فراہم کی گئیں۔ بہت سے مردوں نے جہاں اس تجربے کو چشم کشا قرار دیا وہیں بہت سے اصحاب نے اس تقریب کے فیس بک صفحے پر اسے “عدم ماوات” کہہ کر اس کی ہنسی اڑانا شروع کر دی۔ مرد حضرات کے ردعمل کے برعکس خواتین کھل کر بولیں اور انہوں نے اسے زنجیر شکن تجربہ قرار دیا۔ پہلی مرتبہ ان کی بات کاٹی نہیں گئی اور ان کے نقطہ نظر کو غیر اہم نہیں قرار دیا گیا۔  بلکہ خواتین کو زندگی کا جبر کاٹنے، اپنی جدوجہد کو ایک بڑے مقصد کا ضمیمہ قرا دیئے جانے اور فعال کارکنان کی بجائے محض شامل باجہ سمجھے جانے کے باعث پیدا ہونے والا غبار نکالنے کا موقع ملا۔

حقوق نسواں کے لیے سنجیدہ ہونے، بائیں بازو کی سیاست کو انقالابی، تعمیری اور سب کی سیاست بنانے کے لیے ضروری ہے کہ متن کے ساتھ اس کی پیشکش پر بھی توجہ دی جائے اور تحریک نسواں کے نعروں کے ساتھ ان کے طریقہ کار کو بھی اپنایا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم حالات کو جوں کا توں چلنے دینے کے قائل نہیں بلکہ تبدیلی چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ ہم منبر پر چڑھ کر خواتین کو حقارت سے مخاطب کرنے کی خواہش ترک کریں، اور اپنے ہی نقطہ نظر کی باز گشت سننے کی بجائے خواتین کو شامل کرنے اور ان کی بات سننے کی عادت ڈالیں۔ اس حقیقت ک اادراک بھی ضروری ہے کہ تمام خواتین ایک سی نہیں ہوتیں، خواتین کے مختلف طبقات، علاقائی شناخت اور نسل سے ہونے کے باعث ان کے مطالبات اور تحفظات مختلف ہو سکتے ہیں۔  اس کا مطلب یہ سمجھنا بھی ہے کہ پدرسری ہر سطح پر مجود ہے اور ہماری جڑوں میں بیٹھ چکی ہے، اس لیے سیاست کی “مردانہ بیٹھک” میں شمولیت کے لیے عورتوں پر )مردوں کی طرح(  سخت جان، سخت کوش، خود مختار اور خطروں کا کھلاڑی بننے کی شرط کا نفاذ بہت سے مسائل کا باعث ہے۔ اور آخر میں اس سے مراد یہ سمجھنا بھی ہے کہ تحریک نسواں اور صنفی مسائل ) بشمول مردوں اور ہیجڑوں(سبھی کو متاثر کرتے ہیں، مردانگی اور نسائیت سے وابستہ تصورات کی تحلیل و تفہیم سے صرف مردانہ اور زنانہ وجود ہی نہیں بلکہ تمام زمریات فکر) مثلاً عقل اور مردانگی، نسائیت اور جذباتیت جیسے مغالطے( متاثر ہوں گے، اور اس عمل سے ہم  مروجہ سیاست  کابہتر تجزیہ کر کے لوگوں کو بہتر انداز میں آگاہ کر سکیں گے۔  

سونیا قادر  محقق اوروکیل ہیں۔ آپ عوامی ورکرز پارٹی کی رکن اور فیمنسٹ کولیکٹو کے بانیوں میں شامل ہیں۔ 

Tags: , , ,

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *