Artist: Madiha Hyder
مدیر اعلی:
ماہوش احمد اور مدیحہ طاہر
مدیران:
اسد ہاشم | احسن کمال | فہیم شیخ/حافظ صوفی | سلمان حسین | سلمان حیدر | خواجہ حمزہ سیف | کرسٹن زپپرر
رضاکار مدیران:
مہرین کسنا | ربیع محمود | احسانللہ ٹیپو محسود
اردو مترجمین:
فہیم شیخ/حافظ صوفی | شیبا بھٹی | احسن کمال | سلمان حیدر | انعم ناز | پلوشہ مشتاق
سماجی میڈیا:
انٹرنز:
بارہ فروری 2015 کو چار دن انتہائی نگہداشت میں رہنے کے بعد سید مرتضیٰ شاہ ان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا جو کہ ساتھی طالبِ علموں کے ساتھ جھگڑے میں لگے۔ وہ سولہ سالہ لڑکا میرا شاگرد بھی تھا۔
پولیس کے تفتیش کاروں کے مطابق مرتضیٰ اور سابق پولیس کانسٹیبل سجاد کے بیٹوں ملزم ہمایوں اور رضا کا جھگڑا اس وقت ہوا جب ان دونوں نے مرتضیٰ کے دوست اور ہمسائے سیف کے خاندان کی ایک خاتون کو چھیڑا
دونوں فریقوں میں اس بات پر شدید تکرار ہوئی۔ آٹھ فروری کو، قتل ہونے سے چار دن پہلے مرتضیٰ اور سیف بازار میں تھے جب ہمایوں اور رضا اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہاں پہنچے۔ دھاتی سلاخوں سے مسلح ایک ملزم نے مرتضیٰ کے سر پر وار کیا جس سے اس کی کھوپڑی چٹخ گئی. مرتضیٰ زمین پر گر کے بےہوش ہو گیا جبکہ اس دوران ملزمان نے اس کو مارنا جاری رکھا۔ سوشل میڈیا پر ملزموں کی گرفتاری کی مہم کے لئے ایک سی سی ٹی وی فوٹیج بھی دی گئی .
موقع واردات پر مرتضیٰ کی موجودگی اتفاقیہ ہو سکتی ہے، اس نے شائد دو گروپوں میں کشیدگی کم کروانے کی کوشش بھی کی ہو مگر یہ صورت حال اس کے لئے نئی نہیں تھی۔ سکول میں اس کا نام ایسی کئی لڑائیوں میں شامل رہا ہے۔ ہمیشہ جارحیت اس کی طرف سے نہیں ہوتی تھی، لیکن بہت سے دوسرے بچوں کی طرح اس نے بھی جان لیا تھا کہ تشدد ہی وہ راستہ تھا جس پر چل کروہ سکول کے اس ظالمانہ ماحول میں اپنی بقا یقینی بنا سکتا تھا۔
بلاشبہ، یہ کہہ کہ میں اس کے خاندان کے غم میں اضافہ نہیں کرنا چاہتا۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ مرتضیٰ اس کا مستحق تھا، نہ ہی میرا مقصد اس کی پرورش میں خلا ڈهونڈنا ہے، وہ ایک خوش باش، سمجهدار اور اچھی تربیت والا لڑکا تھا جو کہ ذہانت اور قابلیت کا مظاہرہ کرتا تھا۔ میں صرف اشرفیہ کے سکولوں میں نوجوانوں کے تشدد کے بارے میں وسیع سوالات پر توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ ایک نوجوان شخص باقاعدگی سے ذہانت دکھانے کے ساتھ ساتھ کس طرح اندھے تشدد میں مشغول ہو سکتا ہے؟ کیوں لبرل نجی تعلیم ، جو کہ سب سے مہنگی ہےاور اس ملک کی بہترین تعلیم خیال کی جاتی ہے ، سکول کے میدان کے تشدد کو روکنے میں ناکام کیوں ہو رہی ہے؟ قانونی اور سماجی استثنیٰ رکهنے والے بچے ایسے ظالمانہ ارادے کیسے رکھتے ہیں؟
پاکستانی اشرفیہ کے سکولوں میں استاد کے طور پر ذاتی تجربے سے میرے سامنے سینکڑوں واقعات آئے ہیں جہاں بچے سماجی نظام کو مضبوط بنانے یا اس کے خلاف مزاحمت کرنے کے لئے تشدد کو استعمال کرتے ہیں۔ میرے تجربے کے مطابق تشدد میں ملوث ایک بچہے کے والدین کو جب اس واقعے سے مطلع کیا جاتا ہےتو ان کا ردّعمل بہت جانا بوجھا ہوتا ہے.
———————————————————————————————————————————
پاکستان کی کہانی سنانے کے لیے آزاد میڈیا کی تشکیل میں ہماری مدد کیجیے۔
———————————————————————————————————————————
وہ والدین جن سے میری ملاقات ہوئی وہ کھیل کے میدان میں روائتی قدروں کی غیر موجودگیی کا شکوہ کرتے یا سکولوں پر اپنا کام مناسب طریقے سے نا کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ کچھ والدین اپنے بچوں کو مار پیٹ عدم تشدد کے فضائل سکھاتے ہیں۔ باقی والدین اپنے “معصوم” بچوں کے سرکش اور بدماش بچوں کا شکار ہونے کو تشدد کا ذمے دار قرار دیتے ہیں۔ ان کے لئے یہ تسلیم کرنا مشکل ہے کہ مرتضٰی کی طرح کے اچھے بچوں کو اس ماحول میں فٹ ہونے کے لئے بری چیزوں کا سہارا لینا پڑتا ہے.
مسئلہ روائیتی اقدار کی عدم موجودگی سے بڑه کر ہے۔ اصل میں، سکولوں میں تشدد اپنی قدروں کو چھوڑنے کی نہیں بلکہ اشرفیہ قدروں کو اپنانے کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ طالبِ علموں کا اشرفیہ کے نظریاتی تشدد کو اپنانے کی تشانی ہے۔ جن لڑکوں نے مرتضٰی کو قتل کیا وہ ہمارے معاشرے کی روائیتی تربیت کے عین مطابق کام کر رہےتھے۔ وہ غیرت کے نام پر عمل پیرا ہو کر رشتہ داری نظام کے قیام اور سماجی نظام میں بچاؤ کے روائیت اپنائے ہوئے تھے۔
لیکن سکول کیمپس میں تشدد کی جڑیں کیا ہیں؟ پاکستان میں کھیل کے میدان میں تشدد پر تحقیق محدود ہے مگر دستیاب اعدادوشمار سے اس سنگین حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے۔
پلان انٹرنیشنل اور خواتین پر تحقیق کے بین الاقوامی مرکز کی طرف سے کئے گئے حالیہ تجزیے سے پتہ چلا ہے کہ پاکستان میں تینتالیس فیصد طالبِ علم سکول میں تشدد کی مختلف اقسام کا نشانہ بنتے ہیں۔ پلان انٹرنیشنل کے ایشیا ریجن کے ڈائریکٹر مارک پیٹرس کے مطابق یہ تعداد اصل سے بہت کم ہے کیونکہ بہت سے واقعات میں تشدد اس قدر عاام ہے کہ یہ بچوں کے لئے معمول بن جاتا ہے اور ان کوغلط اور غیر معمولی نہ سمجھتے ہوئے ان کو رپورٹ نہیں کرتے اور اکثر خود ملزم بن جاتے ہیں۔
یہ شرح تشویشناک حد تک بلند ہے۔ رپورٹ کے مطابق، مردانگی اور صریح طاقت کے مقبول عام خیالات کی وجہ سے پُرتشدد کاروائیاں نوجوانی کی عمر سے ہی معمول ہوتی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ لڑکوں کو دوسروں پر طاقت کے استعمال کو اچھا سمجھنا سکھایا جاتا ہے۔
رپورٹ یہ نتیجہ اخذ کرتی ہے کہ جب تک تشدد کا یہ تصور رشتوں جیسے کہ دوستوں، بڑوں اور مستقبل کے رشتوں میں مرکزی رہتا ہے تب تک تشدد کو روکنے کے اقدام نامکمل رہتے ہیں۔
نوعمری کے تشدد پر ایک اور جائزے میں جھگڑالو رویے اور نفسیاتی تکلیف کے درمیان تعلق دکھایا گیا ہے۔ (گھر میں تشدد اور جذباتی حمایت کی کمی طلباء کے لئے اپنے خیالات کا سامنا اور اظہار کرنا مشکل بنا سکتے ہیں) بُری تعلیمی کارکردگی بھی اس مسئلے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ طالب علم معاشرے میں علمی ناکامی کی تلافی سماجی میدان میں کرتے ہیں جہاں توثیق اور احترام اکثر پُر تشدد صلاحیت سے حاصل کیا جاتا ہے۔
تاہم، اگر ان لڑائیوں کے محرکات کو گہرائی میں دیکھیں تو ایک پریشان کن مسئلہ سامنے آتا ہے۔ امریکہ میں کیے گئے سروے کے مطابق تشدد کا عام ترین مقصد سزا تھا، اور جو جواز اور بہانے پیش کئے جاتے وہ اس بات کا اشارہ تھا کہ یہ اقدار کے نہ ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ مکمل قدری نظام ہے جہاں تشدد قابلِ قبول ہے۔
تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایلیٹ سکولوں کی اقدار کہاں سے آئی ہیں؟ نوجوانوں میں تشدد کیسے ، ایک وسیع اشرفیہ نظریے کی علامت ہے جس نے وسیع سماجی ماحول میں طاقت کے حصول کی کشمکش کو کھیل کے میدان میں برتری کی مصنوعی جدوجہد میں ڈهال دیا ہے؟ میں اس مضمون میں اس کا جواب تلاش کروں گا۔ میں پھر سیکولر تعلیم اور مذہبی حکام کے درمیان متنازعہ تعلقات اور کس طرح مذہبی ادارے پر خطر غلط تشریخ اور رجعتی سنسنی پھیلانے اور تعلیم کے بنیادی مقصد کو(مذہبی یا دوسری صورت میں) کمزور کرنے، ضدی اور کمزور نظریات کو جانبداری اور انصاف پر مشتمل آدرشوں کے ساتھ تبدیل کرنے پر عمل پیرا ہیں، ان کا تجزیہ کروں گا۔ “چیزوں کو ایک سا رکھنے کے لئے سب کو تبدیل ہونا پڑتا ہے”
اشرفیہ سکولوں میں بہت سے طالبِ علم طاقتور، اکثر جاگیردار، خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ مرتضٰی کے قاتلوں کی طرح اس سماجی اور اقتصادی کلاس کے لوگ اپنے آپ کو عدالتی سزا سے مستثنٰعی سمجھتے ہیں۔
اس گھناؤنے واقعے کے کچھ روز بعد سوشل میڈیا پر کچھ تصویریں سامنے آئیں جن میں ملزمان احسن اقبال ، جوکہ منصوبہ بندی، اصلاحات اور ترقی کے موجودہ وزیر ہیں، کے ساتھ تھے۔ احمد، جو کہ اس واقع کے خلاف مہم چلا رہے ہیں ان کے مطابق پولیس کے تمام مجرموں کو گرفتار کرنے میں ناکامی کی اصل وجہ یہ ہے کہ پولیس کے تفتیشی انصاف کے کٹہرے میں لانے کے بجائے ان بااثر قاتلوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ “وہ (مبینہ قاتل) کھلے عام گھوم رہے ہیں لیکن پولیس ان کو گرفتار کرنے سے قاصر ہے۔” ایک اور احتجاجی نے کہا کہ وزیرِاعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی واضح ہدایت کے باوجود پولیس افسران اس مقدمے کو سنجیدگی سے نہیں لےرہے۔
چاروں طرف پھیلی سماجی نا انصافی کا یہ خیال ہی بچوں کے گروہوں کے درمیان مخاصمت کی پہلی وجہ ہے۔ سرکش انا دو طرح سے طاقت کے بارے میں سوچتی ہے: ایک تو نظریے کے حامی استحقاق کےاحساس کے ساتھ (جو کہ مرتضٰی کے قاتلوں نے کیا) یا پھر بدلہ لینے کا ظالمانہ تصور (جس کا مرتضٰی نے اکثر اظہار کیا)۔ اور ایک ایسا ملک میں جہاں ریاست کا فلاحی کردار یا تو ہے ہی نہیں یا پھر ظالمانہ ہے، سماجی عدم تخفظ ہر فرد کو تادیبی کاروائی کا اصولی حق دیتا ہے (مافیا طرز کا فرزندی کا مرتبہ اور متبادل انصاف کے لئے بیانات)
غیر جذباتی طاقت کی کشش پاپ کلچر میں مسلسل دوبارہ پیدا ہو رہی ہے جو کہ آخر کار بچے ہی جذب کرتے ہیں۔ ٹی وی شو میں ایسے ان گنت مناظر دکھائے جاتے ہیں جہاں ملازموں کو بغیر کسی جواز کے ذلیل کیا جاتا ہے۔ غصّہ اتارنے کے لئے محنت کش طبقہ ٹیلی ویژن میں نظریے کے حامیوں کا پسندیدہ ہدف ہے جو کہ ہمیشہ پریشانی کے لمحے میں مرکزی کردار ہوتے ہیں۔
بچے طاقت کے اس غیر جذباتی منظر کو جذب کر لیتے ہیں۔ میں نے ان کو سکول میں چپڑاسیوں، چوکیداروں اور نگرانوں کے ساتھ اس طرح سلوک کرتے دیکھا ہے۔ لیکن ہم ان سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں جب ہم خود ان کو یہ سب سکھا رہے ہیں کہ سماجی حثیت کا حصول ایک دن ان کو اس قابل بنائے گا کہ وہ ان خیالات کو روک سکتے ہیں جو کہ ان کے استحقاق کے لئے خطرناک یا اس کے منافی ہوں۔ ہم ان سے یہ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ ذاتی مقاصد جنہیں نیکی کی اعلٰی ترین شکل کے طور پر پم نے سکھایا ہے ان کو چھوڑ کر معاشرتی جذبے پر عمل پیرا ہوں؟
———————————————————————————————————————————
یہ مضمون آپ تک پہنچنے کے لیے ہمارے خون پسینے کے علاوہ روپیہ پیسہ بھی خرچ ہوا ہے۔
———————————————————————————————————————————
اس وقت اشرفیہ سکولوں کی تاریخ کی گہرائی میں جانے کی ضرورت ہو سکتی ہے، یہ دیکھنے کے لئے کہ ان میں اداروں کے طور پر ایسا کیا ہے جو کہ اس قسم کا تشدد پیدا کرتا ہے جس کا شکار مرتضٰی ہوا۔ بعداز نوآبادیاتی پاکستان میں تعلیم ایک منافع بخش کاروبار کے طور پر سامنے آیا۔ اپنی “ہندوستانی تعلیم پر تفصیل” میں انگلیسسٹ تھامس بیبنگٹن میکالے نے ایک ایسا طبقہ بنانے کا کہا جو کہ رنگ اور خون میں ہندوستانی مگر ذوق، رائے، طور طریقے اور ذہنی طور پر انگریز ہو۔ اس نے یہ محسوس کیا کہ انگریزی بھارتی حکمران طبقے میں بولی جاتی تھی اور اس کے خیال میں انتظامی مقاصد میں مددگار ثابت ہو سکتا تھا۔
“ہمیں اس وقت ایک ایسا طبقہ بنانے کے لئے پوری کوشش کرنی چاہئے جو ہمارے اور ان لاکھوں افراد جن پر ہم حکومت کر رہے ہیں، ان کی ترجمانی کر سکے۔۔۔ اس طبقے پر ہم ملک کے مقامیوں کو بہتر بنانے کی ذمہ داری ڈال سکتے ہیں۔”
اٹھارہ سوستاوّن میں مدراس یونیورسٹی تربیت یافتہ بیوروکریٹس کو بھرتی کیا جاتا تھا۔ تعلیم نے ان لوگوں کو خصوصی سماجی حثیت عطا کی جنہوں نے سامراجی انتظامیہ اور اس کے ساتھ ساتھ جنوبی شاہی ریاستوں میں اثر دیکھا۔ دوسری جانب ہٹوکر جھا کی جانب سے “بنگال اور بہارمیں نوآبادیاتی دور میں گاؤں کی برادری کی مادری زبان میں تعلیم کے زوال”کی نشاندہی کی گئی۔ تعلیم اور زمین کے قبضے کے حوالے سے برطانوی پالیسیوں نے دیہاتی اداروں اور ساخت دونوں کو متاثر کیا۔
برطانوی پالیسی تعلیم کے فلٹریشن کے اصول کے حق کی طرف مائل تھی (اعلیٰ طبقے کے لوگوں سے نچلے طبقے یا عام لوگوں تک)، اور ایسا لگتا ہے کہ نیچلے سے متوسط طبقے میں داخلے کو روکنے کی کوشش تھی۔
مقامی اشرفیہ کے لئے یہ سوشل سٹیٹس عوام الناس سے چھٹکاراتھا لیکن اُن لوگوں کے لئے جو کہ مایوس کن سماجی نظام میں گھرے ہوئے تھے، تعلیم نے آبادیاتی غلامی کی ذلت سے بچایا۔ یہ ایسی چیز نہیں تھی جو آپ کو مکمل نجات دلائے بلکہ اس کی وجہ سے آقاؤں سے فائدے ملیں۔ پالیسی کے اس خلاء نے گہرا سماجی و اقتصادی تقسیم پیدا کیا اور “تعلیم یافتہ” طبقہ جلد ہی نوآبادیاتی انتظامیہ کے ساتھ منسلک کیا جانے لگا۔ اس کی وجہ سے ناراضگیاں بڑھ گئیں۔ آج تک مغربی تعلیم کو برّصغیر میں بہت سے لوگوں کی طرف سے اخلاقی اقدار کا باطل سمجھا جاتا ہے۔
طاقت کا اس طرح کا استعمال نفرت کو ہوا دے سکتا ہے لیکن یہ اس کو حاصل کرنے کے لئے خواہش بھی جگا سکتا ہے۔ اپنے مضمون “موضوعی اور مبہم” میں پارتھ چیٹرجی قوم پرست سوچ کے دوسطحی عمل کی تحقیقات کرتے ہیں جس میں بعداز روشن خیالی کی سوچ کے غالب اثرات کی مخالفت کرتا ہے لیکن ایک اور سطح پر اس تسلط کو قبول کرنے لگتا ہے۔
زیادہ تر والدین جو میری نظر میں آئے ہیں ان کی اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے بے ربط سی خواہشات ہیں۔ وہ غیر واضح اور تذبذب میں ہیں کہ کمرہ جماعت میں جدید تعلیم کے کون سے عناصر چھوڑ کر متبادل کے طور پر کون سی قدریں ہونی چاہیں۔ اس کے علاوہ، مغرور اونچا طبقہ، جو جدیدیت اور خاندان، نسب اور روایت کی طرف وفاداری اور رشتہ داری نظام کا مطالبہ کرنے والوں کے درمیان تنازع کو حل کرنے کے بارے میں کوئی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے۔ دوسرے الفاظ میں طالبِ علموں کو جدید دنیا کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے مگر ان کے ساتھ دانشورانہ مشغولیت کی اجازت نہیں۔ بہت سے نوجوان ہمارے نظام کے اس غیر واضح اور غیر تسلیم یافتہ خلاء میں کھوئے ہوئے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ جب میں نے مرتضٰی سے اس کی زندگی میں تعلیم کی اہمیت اور کام کا پوچھا تو اس کا جواب (زیادہ تر طالب علموں کی طرح) اس کے طبقے کے لحاظ سے یہ تھا کہ ایک اچھی تنخوا والی ملازمت، اعلیٰ معیار کی زندگی اور ایک طاقت ور خاندان سے بیوی لانے کی خواہش شامل تھی۔
شازونادر ہی طالب علم کسی موضوع کی طرف یا تعلیمی تلاش کے وسیع تر کمیونٹی کے لئے فائدوں پر غور کرتے ہیں۔ بظاہر پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد تعلیم کو منصفانہ معاشرے کی تعمیر کے لئے ضروری خصّہ نہیں سمجھتے، بلکہ یہ پرانی طاقت کو پاس رکھنے کا طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ اشرفیہ خاندانوں کے بچوں سے ایسی تعلیم حاصل کرنے کی توقع کی جاتی ہے جو اقتصادی رحجانات کے مطابق ہو، جس سے انہیں منافع بخش ملازمت ملے، ان کو ایسا سماجی جواز فراہم کرے جس کے ذریعے وہ اپنے طبقے کی روائیتی طاقت کو اور مضبوط بنا سکیں جو کہ روائیتی قرابت داری کے نیٹ ورک کی بقا کے لئے ضروری ہے۔
موجودہ پاکستان میں “سٹیٹس” ایک شائستہ اصطلاح بن گئی ہے، جو اوپری طبقے کو نا خواندہ نچلے طبقے پر نظریاتی تشدد جس کا اظہار سیاسی الزام، سماجی شرمندگی اور اپنے فائدے کے مستحق اور غیر شہریوں کے تصورات کے ذریعے کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
اس تناظر میں، یہ حیرت انگیز نہیں ہے کہ پاکستانی اشرفیہ کی تعلیم پر ردّعمل دو الگ رنگوں کا امتزاج ہے۔ پہلا قدامت پسند مذہبی گروپوں میں پایا جاتا ہے۔ اس گروپ کے لوگ جنہیں ہم گروپ اے کہہ سکتے ہیں وہ فوراَ جدیدیت کی طرف نفرت کا اظہار کریں گے اس شبے کے ساتھ کہ وہ سامراجی سازش کے ساتھ منسلک ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ کی یہ محکومی سیاسی کی بجائے ثقافتی ناکامی سمجھی جاتی ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ اس وجہ سے کیونکہ انہوں نے خدا کو ناراض کیا۔ شاید غیر ملکی خیالات نے مسلم عقیدے کے نظام کے بنیادی اصولوں کو کمزور کر دیا۔ اس لئے ہمیں نوآبادیاتی نظام سے پہلے والی ثقافت کو اپنانا چاہئے جس سے ہمارے تمام تر مسائل معجزانہ طور پر غائب ہو جائیں گے۔
دوسرے ، جنہیں ہم گروپ بی کہہ سکتے ہیں، جو مغربی لبرل تعلیم کو اپنائے ہوئے ہیں، جو اکثر ٹوٹے ہوئے سماجی تعلقات پر ایسا قدری نظام بناتے ہیں جو ان کے ذاتی خیال کے مطابق ہوتا ہے کہ معاشرہ کیسے کام کرتا ہے تو، تعلیم ایک ایسا ادارہ بن جاتی ہے کس کے ذریعے طاقت کا دعوٰی جائزہ بن جاتا ہے کہ میں تعلیم یافتہ ہوں جس سے میرے پاس طاقت ہے، اس لئے میری ضروریات ناخواندہ عوام پر ترجیح رکھتی ہیں۔
اس گروپ کے ارکان کے خاندان کے بہت سے لوگوں نے امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں منتقل ہوکر خوشحال ہوئے۔ جو پیسے وہ لوگ گھر بھیجتے ہیں ان سے یہاں مغرب کا اب مثبت تصور بنتا ہے کہ وہ ایسی جگہ ہے جہاں قابل لوگوں کو ان کی محنت کا اجر ملتا ہے۔ خاندان کے رکن کی کامیابی کے لئے اقدار کی درآمد کی اجازت نوآبادیاتی ثقافت کی وراثتی تصوارت کے ساتھ، دورِحاضر کی انگریزی ثقافت اور ثقافتی حوالہ جات الجھ سکتے ہیں ایک متوازی اور منقطع اشرفیہ کے ساتھ جو کہ دیسی زبانوں میں سے بھی کسی کو لکھ پڑھ نہیں سکتے۔ درحقیقت، بچوں کی نئی نسل دیوار پر لکھی اردو بھی مشکل سے ہی پڑھ سکتی ہے۔ دیوار پر کچھ لکھا ہوا ان کے لئے لکیروں سے زیادہ کچھ نہیں۔
بلاشبہ دیگر تنظیموں کا بھی ڈھیر ہے۔ ملالہ یوسفزئی اور اس کے والد کی طرح کے بہت سے نیک نیت لوگ تعلیم کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں لیکن اس مضمون کے لئے میں مندرجہ بالا دوگروپوں کا ہی معائینہ کروں گا کیونکہ مجھے پاکستان میں یہی مسئلے کی اصل اور بڑی وجہ نظر آتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ اول الزکر گروہ کو ثقافتی سامراج کے خلاف جنون پیدا ہو گیا ہے جو کہ پال گل کے مطابق قوم کو نسلی طور پر یکساں چیز کی تعمیر کی طرف لے جاتا ہے۔ بلاشبہ، افریقی غلامی اور نوآبادیاتی نظام کا تجربہ پیچیدہ اور مختلف نوعیت کا ہے مگر قوم پرستی کے لحاظ سے کچھ نظریاتی موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ یوگیتا گوئل سے اقتباس ہے: مولیفی اسانتے کی دی ایفروسینٹروآئیڈیا 1987 کا ذکر کرتے ہوئے گل رائے کہتا ہے کہ ثقافتی قوم پرست خیالات غلامی کے تاریخی تجربے کو نظر انداز کرتے ہوئے ماقبل تاریخ کے عہد کے صوفیانہ افریقہ کے وقت تک پہنچتے ہیں۔ افریقہ کو وطن کے طور پر سوچتے ہوئے اس طرح کے خیالات یورپ کی طرف نسل پرستی کے اسیر رہتے ہیں کیونکہ وہ اس کی افریقہ اور مغرب کے درمیان تقسیم کے مفروضوں کو قبول کرتے ہیں۔ مزید، ایک شاندار ماضی کی خواہش میں افریقہ کے ساتھ جدییدیت کے آگے کرنے کو ترجیح دی اور غلامی کی تاریخ کو دبانے یا نظر انداز کرنا کیونکہ ان کے خیال میں گل رائے سمجھتا ہے کہ غلامی سیاہ لوگوں کے لئے ظالمانہ دور کی نشاندہی ہے اور اس لئے روایت ان کو مٹانا چاہتی ہے۔ جب افریقی مرکزیت کے لوگ روایت کے خیال کو اجاگر کرتے ہیں تو وہ افریقہ کو متعبری اور تاریخ کے بے قاعدہ بہاؤ اے الگ استعمال کرتے ہیں۔ ان کا بنیادی مقصد علاج اور تلافی ہے، جیسے وہ نسل کی سالمیت اور سیاہ لوگوں کی طاقت کی سالمیت کو حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اس لئے روایت ان کا نام کھویا ہوا ماضی اور تلافی کی ثقافت جو اس تک رسائی کو بحال کر سکے۔
میرے خیال میں یہ ردِعمل جدید پاکستان میں بھی کچھ سیاسی گروپوں میں بعدازنوآبادیاتی شعور نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ، گروپ اے کا نقطہؑ نظر خود عکاسی کی حمایت نہیں کرتا، یہ اس لئے کہ ثقافتی سامراج کے تصور کو اپنے اعمال پر کبھی لاگو نہیں کرتا، جو کہ خود میں ایک سامراجی عمل ہے۔ بلکہ یہ ثقافتی سامراج کو اپنے خلاف سازش تصور کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اسطرح کا سامراج صرف قبل از نو آبادیاتی نظام کے ثقافتی جلال کے حصول سے مسترد کر سکتے ہیں جو کہ کھوتے ہوئے رسوم و رواج کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ، اسلامی سامراج کی ریاست جس میں ہم رہتے ہیں جب یہ اصول اس پر لاگو نہیں ہوتا تو پھر ایسا معاشرہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں جس پر یہ اصول لاگو ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ ثقافتی صفائی کا تجربہ شروع کرتا ہے اور مخالفین کے زمرے میں آنے والے عیسائیوں، شیعہ اور احمدیوں کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ مغربی تعلیم نظریاتی نہیں ہے۔ میں نے پہلے ہی نشاندہی کی ہے کہ میرے خیال سے مغربی تعلیم کی برآمد اقدار کے فروغ کے ساتھ منسلک ہے جو کہ مغربی مفادات کا جواب ہے۔ شکاگو سکول کی طرف سے نیو لبرل معاشیات مانگنا اور لاطینی امریکہ میں تباہی کے سرمانہ دارانہ نظام میں اس کا ملوث ہونا تعلیم اور سیاست کے درمیان تعلق ہونے کا شاید مضبوط ترین ثبوت ہے۔ میری یہ دلیل ہے کہ گروپ اے کا موقف مغربی تعلیم کے غالب پہلوؤں کو نہیں صرف جدیدیت پر بیان بازی کر کے مقابلہ کرتا تھا۔ قومی ریاست کے نظریات کے لئے حمایت، آئین کے تقدس یا ریاستی اداروں کا حوالہ جو اپنی مخالفت کرنے والے لوگوں پر طاقت کا ستعمال کرتے ہیں، جو زیادہ مینڈیٹ کے ذریعے قانونی حثیت حاصل کرے۔ یہ جدیدیت کے متعلق جواز میں لیکن وہ اکثر روائیتی تسلط کی حمایت میں کام کر رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے فرید پراچہ دعوٰی کرتے ہیں کہ یہاں پاکستان میں مذہبی تعلیم کا مطالبہ کرنے کا یہ طریقہ ہے کہ ہمارے نصاب، ہمارے تعلیم کے نظام کو ہمارے آئین کا عکاس ہونا چاہئے۔ کو ایجوکیشن کی کوئی ضرورت کوئی مطالبہ نہیں ہے، حتٰی کہ خواتین کی طرف سے بھی نہیں۔
ثقافتی سامراج صرف ایک منفرد سازش نہیں ہے، جو کہ مغربی مفادات کے لئے تمام مسلم اُمّاہ کے خلاف کی جا رہی ہے۔ یہ نقطہ نظر رکھتے ہوئے تاریخ کے اہم حوالے کو نظر انداز کرنے کا خطرہ ہے جو کہ ہماری تشخیص کو پیچیدہ کرتا ہے۔ ثقافت اقتدار کے تناؤ میں قدرتی مورچہ ہے جو مختلف نظریات اور سیاسی مفادات کے درمیان ہے۔ پنجابی جو کچھ پشتونوں اور بلوچوں کے ساتھ کرتے ہیں وہ بھی ثقافتی سامراج ہے۔ بنگالی زبان کے فسادات بھی ثقافتی سامراج کی پیداوار تھے۔ ہم خوش کلامی کی آڑ لئے ہوتے ہیں جب ہم خود اسی تعریف کو الزام دیتے ہیں۔ ہم اپنے نظریات کے مضمرات سے خود کو دور کر سکتے ہیں۔ جیسے کہ بُش حکومت نے تشدد کو بڑے تفتیشی طریقوں کا نام دیا اور ہم اپنی سامراجی شرارت کو قومی استحکام کے مقاصد کے لئے ثقافتی مرکزیت کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن اس سے حقیقت نہیں بدلتی، ثقافتی سامراج کے خلاف خود کا دفاع کرنے کی کوشش میں گروپ اے اس کا سب سے بڑا مبلغ بن گیا ہے۔
اس علاوہ، ماضی کی خیالی اور رومانوی ثقافت کی بازگشت اپنے ہی مسائل لاتی ہے کیونکہ یہ جدید ضروریات کو پورا نہیں کر سکتی۔ یہ بات اجاگر کرتا کہ آج کے پاکستان میں نئی ثقافت کے تعمیر کی اشد ضرورت ہے جو ماضی پر مبنی ہو لیکن نئے خیالات، نئی ضروریات، نئے مفادات، نئے طرح کے جبر اور نئے طریقوں کی مذاحمت رکھے۔
اسی لئے گروپ بی کے لئے تعلیم بہت ضرورت ہے کیونکہ یہ ان کو ملک کے نیچلے طبقے سے الگ کرتی ہے اور انہیں بے اختیاری کی ذلت سے بچاتی ہے۔ یہاں بے اختیاری جمود کو تبدیل کرنے کی محرومی سے منسلک نہیں لیکن جمود کو اپنانے اور اسی میں ترقی کرنے میں ناکامی سے جڑا ہوا ہے۔
اگرچہ یہ ہندوؤں پر غلام ہونے اور انقلاب کے خلاف ہونے کا الزام لگاتا ہے مگر پاکستانی اشرفیہ نے نوآبادیاتی تجربے کے بہت سے انقلاب مخالف پہلو وراثت میں لئے ہیں۔ ہمارے حکمران طبقے کے لئے غیرت اور اثر رسوخ کی کمی جابرانہ نظام کی علامت کے طور پر نہیں بلکہ انفرادی دوش تصور کیا جاتا ہے جس کی سزا ان کو نہ نظام دے رہا ہے۔
یہ دونو ں کیمپ اسی طاقت کی جدوجہد کا حصہ ہیں۔ ایک مستند اور خیالی ماضی میں تاریخی اقتدار میں واپس جانا چاہتا ہے۔ اس کیمپ کا خیال ہے کہ کھوئی ہوئی ثقافتی پاکیزگی ہمیں خیالی جنت میں لے جائے گی جہاں انسان قانونِ الٰہی کو مان کر جادوئی ریاست میں رہیں گے۔ دوسرے کا مقابلہ اشرفی شہزادے گیٹوپارڈودوم کے ساتھ کیا جا سکتا ہے جس کا دعٰوی تھا کہ چیزوں کو جب رکھنے کے لئے سب کچھ تبدیل کرنا پڑے گا (اس کے خود کے لئے ایک جمہوریاتی انقلاب کے ذریعے طاقت برقرار رکھنے کے لئے) صرف اتنا کہنا کہ روائیتی طاقت برقرار رکھنے کے لئے ہمیں جدیدیت کا لبادہ اوڑھنا ہوگا۔
چند سال قبل، غیر معمولی طور پر مرتضٰی کے سکول کی ایک شاخ میں تقابلِ ادیان نامی ایک کورس متعارف کروایا گیا۔ پاکستان کا سنسنی خیز دائیں بازو کا میڈیا سادہ مزاج والدین کی فکرمندی کا استحصال کا موقع ملتے ہی اس خبر پر ٹوٹ پڑے۔ ٹی وی اینکر مبشر لقمان سکول پر اسلامیات کے کورس کی جگہ تقابلی مذہب کا کورس شروع کرنے کا الزام لگایا۔ یہ سچ نہیں تھا۔ اس نے دعٰوی کیا کہ ایسے سکول اس ملک کے نوجوانوں کی اخلاقی نسل کشی کر سہے ہیں۔ والدین نے احتجاج کیا کہ اس طرح کی تعلیم پاکستان کے طالبِ علموں کی نظر میں ایک مسلمان ملک کی حثیت ختم کر دے گی۔ اسکول کی پرنسپل نے اپنے فیصلے کا دفاع انٹرنیٹ پر کیا: “ہمارے بچے ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں صبح اٹھتے ہی ان کو پتا چلتا ہے کہ ان کا ایک نوجوان ہم جماعت کسی ایک مخصوص اسلامی مقطبہ فکر سے تعلق ہونے کی وجہ سے قتل کر دیا گیا ہے۔ ہمارے بچوں کو پہلے سے زیادہ اب دیگر عقائد کو سمجھنے کی ضرورت ہے اس لئے تا کہ وہ اپنا عقیدہ بہتر طور پر سمجھ سکیں۔ ان کو عقیدہ سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس کی حفاظت کر سکیں، ان سے جو اسے ظلم کے ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گے۔
کچھ دنوں بعد حکومت نے تمام متعلقہ مواد کو ضبط کرنے کے کورس پر پابندی لگانے کا حکم دے دیا۔ مختلف مذہبی گروپوں نے دھمکیاں دیں۔ سکول پیچھے ہٹ گیا۔ ایک سال بعد، اسی سکول میں استاد کے طور پر کام کرتے ہوئے کچھ تبلیغیوں نے اسی حوالے سے رابطہ کیا، سکول نے مجھے اپنی رائے دینے سے منع کر کے امتحان سے متعلق تعلیم دینے پر کہا۔ تاہم، اپنے ایک طالبِ علم کو کھونے پر غمزدہ ہونے کے ساتھ مجھے افسوس ہے کہ ہم اساتذہ نے طالبِ علموں کی رہنمائی میں اپنے وقت کے اہم مسئلے پر بحث جاری نہ رکھ کر دائمی ناکامی کا مظاہرہ کیا گیا۔ ہمارے اس بزدلانہ عمل نے طالبِ علموں کو بدترین سبق سکھایا گیا۔
ہم کس کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں؟ اس خیال کے سامنے کے تعلیم اسلامی دائرے تک ہی محدود ہونی چاہئے؟ کون سااسلامی دائرہ؟ جب نبیﷺ نے اپنے پیروکاروں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے چین تک جانے کا کہا تو کیا وہ اسلامی تعلیم کے حصول کے بات کر رہے تھے؟ اس وقت تک اسلام چین تک نہیں پہنچا تھا! جب انہوں نے کہا کہ دین میں کوئی جبر نہیں، سچ عیب کے بغیر ہوتا ہے۔ کیا وہ شناختی سیاست کے حق میں بات کر رہے تھے؟ یا وہ اشارہ دے رہے تھے کہ ایمان شک کے بغیر فتنہ اور اس کے ساتھ امید ہے۔
———————————————————————————————————————————
وقف نہیں۔ خیرات نہیں۔ بیرونی امداد نہیں۔ صرف آپکی مدد درکار ہے۔
———————————————————————————————————————————
تقابلی ادیان کے مطالعے کا مقصد وہی ہے جو تعلیم حاصل کرنے کا ہے، یعنی الگ نقطہ نظر کو قبول کرنا، خود ساختہ دنیا کی سمجھ سے آگے جانا، اور دنیا کو ایک جیسا دیکھنے کی بجائے فرق سے دیکھنا، یہ عظیم خیالات ہیں اور آج ہمیں ان پر پہلے سے زیادہ دھیان دینے کی ضرورت ہے۔
مبشر لقمان کے مطابق، جذبات اور سوچ کے اختلاف کی حوصلہ افزائی اخلافی نسل کشی ہے۔ وہ تاریخ کے سبق سے المناک حد تک لاعلم ہیں کہ نسل کشی ان کی طرف سے کی جاتی ہے جو دوسرے انسانوں کے جذبات اور خیالات کو قبول نہیں کر پاتے، دوسرے الفاظ میں: اس کی طرح کے لوگ
اختلاف کی کمی باہمی تعلقات پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ مجھے تفصیلات معلوم نہیں مگر افواء کے مطابق ایک لڑکی کی عزت کی خاطر مرتضیٰ لڑائی میں شامل ہوا، اس کا خاندان اس کی تردید کرتا ہے شاید اس کی وجہ سے کہ جو لوگ گزر جاتے ہیں ان کے بارے میں ایسی بات کرنا ممنوع ہے۔
میں ذاتی طور پر لڑکوں کی ایسی لڑائی کا عذر بننے پر فخر محسوس کرتا ہوں۔ اکثر ایسی لڑائیوں میں عذر لڑکی ہوتی ہے۔ جس قدر آپ اس لڑکی کے گرد محسوس کرتے ہیں اتنی ہی خطرناک لڑائی ہوتی ہے۔
میں اور مرتضیٰ اکثر اس بارے میں بات کرتے تھے کہ مخلوط تعلیم بہتر ہے یا نہیں۔ وہ بھی دوسرے بہت سے نوجوانوں کی طرح اپنے ساتھیوں کی توثیق کی کوشش کرتا تھا کیوں کہ اسے سماجی طور پر نظرانداز ہونا پسند نہیں تھا۔ زیادہ تر نوجوانوں کی طرح اسے بھی صنفِ مخالف سے متعلق خواہش رکھنے کے لئے مجرم محسوس کروایا جاتا تھا، خواہشات جو کہ میرے سامنے بات کرتے ہوئے معصوم اور دوستوں کے سامنے دکھاوے کی ہوتی تھیں۔
گروپ کی نفسیات سے متعلق مجھے یہ تعجب ہوتا ہے: ذاتی تجربے کے لحاظ سے، بچے ان خاص اخلاقی نتائج تک پہنچتے ہیں جو کہ سماجی سطح پر تصور کیے جانے والوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ ان کے ذاتی خیالات کبھی بھی بڑوں کے سماجی نظریات کے ساتھ مکمل طور پر نہیں ملتے۔ وہ ذاتی طور پر لڑکی کا احترام کرتے ہوں مگر سماجی طور پر ان کو جذباتیت کو دبانے اور صنفی امتیاز پر عمل پیرا ہونے کو معاشرے کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ یہ مسئلہ ان کی تربیت کا اہم جزو ہے۔
جب ہم مخلوط تعلیمی اداروں کو دیکھتے ہیں تو وہاں عجیب قوائد نظر آتے ہیں۔ لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ بیٹھ نہیں سکتے، ان کی دوستی اور محبت کرنے کی اجازت نہیں ہوتی جیسے وہ محبت میں ایک دوسرے کا احترام کھو دیں گے۔ اس کے علاوہ استاد ان سے جنسی تعصب پر مذہبی اور ثقافتی جمود جو کہ شادی کے بغیر محبت کو غیر اخلاقی حرکت سمجھتے ہیں اس کو چھیڑے بغیر با معنی بحث نہیں کروا سکتا۔ ہمارے ہاں کاغذی کاروائی کو بہت رومانوی سمجھا جاتا ہے۔
یہ مشکل کیوں ہے کہ دو جوان افراد ایک دوسرے کے لئے نوعمری کی عارضی محبت میں احترام تلاش کرنے کے قابل ہونے چاہیں۔ اور ہمیں کیسے یقین ہو سکتا ہے کہ ہمارے لڑکے مخالف جنس کے لئے عزت رکھتے ہیں جب تک کہ ہم خود ان کو یہ ابتدائی مراحل میں نہیں سکھائیں گے۔ اگر ہم محبت کے سوال پر ایسی خاموشی برقرار رکھیں گے تو ایک طرح سے وہ بھی نفرت کی توثیق ہو گی۔ اور اگر ایسا ہی ہے توکیا ہم ان کو انتہا پسندوں میں تبدیل نہیں کر رہے؟ ایک مدرسے اور مشہور نجی سکول کے درمیان صرف یہی فرق ہے کہ نجی سکول انتہا پسندوں کا ایک مختلف طبقہ پیدا کر رہا ہے۔
تدریس کو اگر آپ سنجیدگی سے لیں تو یہ ایک عجیب مگر کردار کی تعمیر کا کام ہے۔ زیادہ تر صبح میں تیس بچوں سے بھرے ایک کمرے میں داخل ہوتا ہوں جن کی زندگی کا مقصد مجھ سے چھٹکارا ہے۔ میری شراکت کے اثرات کبھی واضح نہیں ہوتے کیونکہ میرے کام میں فوری توثیق ایک غیر معمولی معجزہ ہے۔ میں اپنے عقیدے پر انحصار کرتا ہوں کے ایک دن یہ طلباء میرے تجربے اور نتائج کو اپنے تجربے بڑھانے کے لئے استعمال کریں گے کہ ایک دن ان کے دماغ یہ بات سمجھیں گے اور وہ دن انسانیت کے لئے حوصلہ افزاء ہوگا۔ لیکن مرتضٰی کے قتل سے اب میرے پاس ایک دماغ کم ہو گیا ہے۔ اگر ہم اس پر عمل پیرا ہیں کہ بچے ہمارا مستقبل ہیں تو پھر مرتضٰی کی موت ہمارے اجتماعی عقیدے پر حملہ ہے۔
وہ ملالہ ہو، سانحہ پشاور کے متاثرین یا مرتضٰی، ان طالبِ علموں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم ان کی دانشورانہ اختلافات کے درمیان شریک ہونے کی صلاحیت پر بھروسہ رکھیں۔ اگر ہم اس نقطہ نظر کی پرورش کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں قلم اٹھانا چاہئے اور ایسے نظام پر وار کرنا چاہئے جو شدت پسندوں کو بناتا ہے۔
فرہاد مرزا ایک مصنف، صحافی اور معلم ہیں، وہ پاکستان، یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کی مختلف اشاعتوں میں باقاعدہ لکھتے ہیں۔
اسکول میں کچھ لڑکوں کے ساتھ لڑائی کے دوران میرا ایک طالبِ علم ہلاک ہو گیا۔ پاکستان کے نجی اسکولوں میں تشدد بگڑتی… http://t.co/g9A3sn3JQH