کراچی کینوس پر : مدیحہ حیدر کے ورلڈ ميڈمیں خبروں، تشدد اور شہرکی عکاسی

ایشیا ٹائپ نسخ یا نستعلیق فونٹ میں پڑھنے کے لیے ان ہدایات پر عمل کریں۔

شمارہ ٩Eng | Issue 9

Artist: Madiha Hyder, "Perfect Crime"| oil on digital print

مصور: مدیحہ حیدر | پرفیکٹ کرائم

Artist: Madiha Hyder, "Perfect Crime" |  oil on digital print

مصور: مدیحہ حیدر | پرفیکٹ کرائم


“اب دنیا میں اس دنیا سے کوئی جائے مفر باقی نہیں۔ دنیا آغاز صبح سے ہی ہمارے ایک بے آرام نیند سے بیدار ہونے کی منتظر رہتی ہے؛ یہ بین البراعظمی پروازوں پر ہمارا پیچھا کرتی ہے؛ یہ ہمارے بچوں کے سونے کے وقت ہماری توجہ یرغمال بنانے کے لیے گھات لگائے بیٹھی رہتی ہے۔ خبروں کی یہ بھنبھناہٹ اور یہ تکرار ہمارے ذات کی تہوں میں اتر چکی ہے۔” مدیحہ حیدر نے الین دی بوٹن کی’ دی نیوز: اے یوزرز مینیول’ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا۔

خبروں کی دنیا ہماری زندگی کے ایک بڑے حصے کا احاطہ کرتی ہے۔ ہماری توجہ اور وقت کا ایک بڑا حصہ اخبار بینی میں صرف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زمانے سے اور اس زمانے میں اپنی ذات سے متعلق ہمارا نقطہ نظر اخبارات کی مرہون منت ہے، ذرائع ابلاغ ہمارا نقطہ نظر اگرتشکیل نہیں بھی دیتے تو اسے متاثر ضرور کرتے ہیں۔ اپنے تصویری سلسلے ورلڈ ميڈمیں مصورہ مدیحہ حیدر فرد/وجود اور( اس کی) دنیا کی تشکیل اورذرائع ابلاغ کے مابین تعلق دریافت کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ مدیحہ کا کام ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ تشددپیما ذرائع ابلاغ کس طرح کراچی میں ہونے والے ا فسوسناک واقعات کی بے جاترویج سے کراچی والوں کی زندگیاں مزید تاریک کرتے ہیں۔ تنقید سے گفتگوکرتے ہوئے مدیحہ نے اپنے تصویری سلسلے کے پس پشت موجود عوامل کا ذکر کرتے ہوئے کہا:’’اخبار میرے صبح کے معمولات کا لازمی حصہ رہا ہے۔ میں ہمیشہ خبروں کو کسی قدرلاتعلقی سے پڑھتی آئی ہوں۔ لیکن پھر ایک ایسا وقت آیا جب پریشان کن خبروں نے مجھے متاثر کرنا شروع کردیا۔ خبریں پڑھنے سے مجھ میں غصے، مایوسی، تھکاوٹ، خوف، اور بیزاری کی کیفیات نے جنم لینا شروع کردیا جو بالآخرفرار کی خواہش پر منتج ہوئیں۔ ورلڈ ميڈمیری انہی جذباتی کیفیات کا حاصل ہے۔‘‘ "Mad World." Graphite and charcoal powder, pencils, conte, newspaper clippings on canvas. مدیحہ نے انڈس ویلی سکول آف آرٹ اینڈ آرکيٹيکچر سے 2006 میں اپنی تعلیم مکمل کی اور اب وہیں مصوری اور آرٹ کی تدریس کے لیے ورکشاپس کے انعقاد میں مشغول ہیں۔ ان کا کام کراچی کی حقیقی صورت حال کا ردعمل ہے۔ کراچی ،جو ان کا گھر ہے اورجہاں انہوں نے پرورش پائی، سے متعلق ان کی تشویش کا اظہار ان کے کینوس کی گہری پرتوں میں مصور ہے۔ خبروں کا اثر قبول کرنے اور ان خبروں میں مذکور تشدد نے ان کی تصاویر کو ایک سنگین رخ دیا ہے۔ ان کی تصاویر نہ صرف کراچی کے حالات پر ایک سیاسی تبصرہ ہیں بلکہ تشدد اور دہشت پر مبنی شہری ثقافت کے پروردہ اور متاثرہ وجودکا اظہار بھی ہیں۔ ورلڈ ميڈکی پہلی نمائش کراچی کی پوپی سیڈ آرٹ گیلری میں منعقد ہوئی جسے بے تحاشا عوامی پذیرائی ملی۔ اس نمائش میں مدیحہ نے پہلی مرتبہ اخباری متن کو ڈیجیٹل انداز میں استعمال کیا تھا جس کے بعد انہوں نے اس تکنیک کو دیگر تصویری سلسلوں کر۱يم پرفقٹاوريو ۱يٹ لکنگ مي ۱يٹ لکمیں بھی استعمال کی ہے۔ یہ دونوں تصویری سلسلے تشدد کی ارتقاء پذیری کی عکاسی کرتے ہیں۔ تاہم ورلڈ ميڈسے لیا گیا دیوانگی کا استعارہ تمام سلسلوں میں ’سماجی ضبط کی تخریب‘ کے مستقل اظہار کے طور پر موجود ہے۔ پريپير کر۱يم پرفقٹسے ۱کزيکيوٹ کر۱يم پرفقٹ ‘ تک پريپير کر۱يم پرفقٹنامی تصویر میں مدیحہ ناظرین کوایک ایسے پس منظر پر نظر ڈالنے کی دعوت دیتی ہیں جس میں ایک دیوار کےنچلے آدھے حصے پر پُرتشدد جرائم کی خبروں کے تراشے چسپاں ہیں۔ اوپر کے حصے پر آئل پینٹ سے بنی ایک لڑکی کو دیوار پراخباری تراشے پوسٹروں کی طرح چپکاتے دکھایا گیا ہے۔ اس تصویر کو دیکھتے ہی آپ کی نظر ان پھیلی ہوئی سرخیوں اور ان کے پیغام پر پڑتی ہے۔ ’’ایم کیو ایم کا کارکن ہلاک، دو دیگر زخمی‘‘۔’’غیرت کے نام پرقتل‘‘۔ ’’ساتھی وکیل کی ہلاکت پر وکلاء کا احتجاج‘‘، ’’لیاقت آباد میں پیٹرول پمپ کا خزانچی قتل‘‘اور ایسی ہی دیگر خبریں جن میں اغوایافتگان، مقتولین اور ہلاک ہونے والوں کی اطلاع دی گئی ہے۔ اگلی تصویر میں اسی لڑکی کو اخباری تراشوں سے اٹی دیوارپرسرخ رنگ انڈیل کر اسے مسخ کرتے دکھایا گیا ہے ۔ دیوار سے بہتا سرخ رنگ ان خبروں کی وحشت ناکی میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ مدیحہ نے اس تصویر کو۱کزيکيوٹ کر۱يم پرفقٹکا نام دیا ہے۔ آیا یہ تصویر فنکار کی بے بسی کا بے ساختہ اظہار ہے یا ایک فعال احتجاج کی علامت ہے، مدیحہ اس کا فیصلہ ناظر پر چھوڑتی ہیں تاہم اس کا پیغام بہت واضح ہے۔ سرخ رنگ کے مشاق استعمال کے ذریعے مدیحہ شہر میں جاری تشدد اور پاگل پن اور اپنی دنیا پر اس کے اثرات پر اپنا ردعمل ظاہر کرتی ہیں۔ سرخ دھبے صرف سیاہ وسفید پس منظر پر آویزاں ہونے کی وجہ سے ہی متاثر کن نہیں بلکہ یہ خون کی بصری علامت بھی ہیں۔ مدیحہ اس طرح شہر کے بدن سےبہتے خون کو نمایاں کرتی ہیں۔ مدیحہ کا کہنا ہے،’’قتل و غارت کے مناظر اور درپیش ہلاکت مجھے ہر روز گھیر لیتی ہے۔ لیکن ایک فنکار کے طور پر میں اطلاعات کے اس بوجھ کا جواب تخریب یا تخریب کی عکاسی کے ذریعے دیتی ہوں۔ میں اس سب کا جواب دینے اور آواز اٹھانے کے لیے خود کو اوہام ، مسخ کرنے، تباہ کرنے اور صورتیں بگاڑنے جیسےتخریبی خیالات کی طرف مائل دیکھتی ہوں۔ یوں تخریب کی عکاسی میرا حفاظتی حصاراور میری نجات کا باعث بن جاتی ہے۔‘‘ ’’خطائے کامل‘‘فطرتاً بلاشبہ جارح اور بے باک ہے۔ اس میں مزاحمت کا عنصر نمایاں ہے۔ اس سلسلے کی تصاویر ان عناصر کے دستاویزی اظہار سے متعلق ہیں جبکہ ’’جہان خراب‘‘کی ابتدائی تصاویر مصورہ کے اپنے جذبات کی عکاسی کرتی ہیں۔ تاہم ورلڈ ميڈکی شدت سے انکار نہیں۔ درحقیقت یہ خارجی پاگل پن کو اپنانا ہے۔ تشدد کی عمومیت مدیحہ جن اخباری تراشوں کو استعمال کرتی ہیں وہ کچھ نیا نہیں بتاتے۔ مدیحہ جن احساسات کا اظہار کرتی ہیں وہ تشدد کے تذکرے سے واقف زمان و مکاں میں فوری طور پر کوئی اضافہ نہیں کرتے۔ ہم سب اپنی آنکھوں کے سامنے یہ ہوتا دیکھتے ہیں، اس کے بارے میں سنتے ہیں اور اس سے متعلق اخبارات میں پڑھتے ہیں۔شام کے خبرنامے میں ہم شہر میں ہونے والے خود کش دھماکے ہلاک ہونے والوں سے متعلق جائے وقوعہ سے براہ راست نشر کی جانے والی خبریں سنتے ہیں۔ اگلے روز ہم اخبارات میں ہلاک ہونے والوں کی تجہیزوتکفین کی خبریں پڑھتے ہیں۔ بے بسی اور غم کی ایک کیفیت ہمیں گھیر لیتی ہے اور پھر بس ہم صفحہ پلٹ کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ تشدد کا تسلسل ہمیں بے حس بنا دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کراچی میں ہونے والی بے پناہ ہلاکتوں کے باوجود بھی کوئی تحریک یا غم و غصہ دکھائی نہیں دیتا۔ مدیحہ کے لیے آج ہونے والا اندوہناک واقعہ کسی اور پر نہیں بلکہ اس پر اور ہم سب پر بیتا ہے، اسی لیے وہ ایسے واقعات کو قسمت کا لکھا قرار دے کر قبول کرنے کو تیار نہیں۔

Mad World .Graphite and charcoal powder, pencils, conte, newspaper clippings on canvas.

مصور: مدیحہ حیدر | پرفیکٹ کرائم

عکس نمبر 3
گریفائٹ اور چارکول سے کھینچے گئے ذاتی خاکے میں وہ ایک مسلے ہوئے اخبار کو استعمال شدہ ٹشو پیپر کی طرح تھام کر اسے پھونک رہی ہے۔ یہ تصویر ورلڈ ميڈمیں شامل ہے۔ یہ تصویرتشدد کے معمول بن جانے کی عکاسی کرتی ہےجیسے (تشدد) ہمارے ساتھ ہوتے ہوئے بھی نہیں ہے۔ مدیحہ کوایسی خبروں کی عمومیت کا احساس ہے اور اسے اجاگر کر کے وہ ہمیں اس رویے سے باز رکھنا چاہتی ہیں۔ ایک فنکار کے طور پر وہ نہ صرف حقیقت کا اپنے نقطہ نظر سے جمالیاتی اظہار کرتی ہیں بلکہ اپنے ناظرین سے ایک مبصر، رابطہ کار، ناظر اور احساس دلانے والے کی حیثیت سے بھی ہم کلام ہوتی ہیں۔ ان کا اپنے نظر کے ساتھ یہ جدلیاتی تعلق ان کے فن کو محض ایک ذاتی اظہار کے درجے سے بلند کر دیتا ہے۔ وہ اپنے ناظرکو یہ احساس دلاتی ہیں کہ ان کی تصاویر محض ان کے لیے نہیں بلکہ سب کے لیے اجتماعی اہمیت کی حامل ہیں۔ وہ تشدد کے حوالے سے پائے جانے والے عمومی رویے پر خود بھی سوال اٹھاتی ہیں اور ہمیں بھی ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ تشدد کا استعمال يو ۱يٹ لکنگ مي ۱يٹ لکنامی سلسلے کی تصویر’میری دیوار پرٹنگی تصاویر‘ میں تشدد کے روز مرہ زندگی پر ہونے والے اثرات کے اظہار سے مدیحہ کے فن کی پیچیدگی سامنے آتی ہے۔ ان کی دیوار پر ٹنگی تصاویر بھی شہر میں ہونے والے دلدوز واقعات کی عکاسی کررہی ہیں۔ ورلڈ ميڈسلسلے کی اس سے مشابہ ایک تصویر کی مرکزی کردار ،دائرے میں ترتیب دیے گئے اخباری تراشوں کے درمیان بیٹھی ہے۔ اخباری تراشوں میں گھری لڑکی کے دیکھنے کے تاثرات سے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ یہ پوچھنا چاہتی ہے کہ ’وہ کہاں جائے؟‘ یا پھر یہ کہ’کیا اس شہر سے متعلق کسی اور حوالےسے بھی بات کی جاسکتی ہے یا نہیں؟‘یہ لڑکی اس تصویر کے ناظرین کو بھی یہی سوال کرنے پر اکساتی ہے۔ تشدد کے واقعات کی اصل تصاویر کی بجائے مدیحہ کے تصاویر میں اخباری تراشوں کی ہر جگہ موجودگی ہمیں بھی ایسا ہی تصور کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ہر ناظر کو اخباری سرخیاں پڑھنے پر مجبور کر کے وہ دراصل کراچی سے متعلق (ایک مختلف انداز میں)پڑھنے پر مجبور کرتی ہیں۔ کراچی ان کے تصویری سلسلوں کا محض بصری جزونہیں بلکہ ایک لفظی بُنت بھی ہے۔ ہر سرخی ہمارے لیے خوف کی ایک شبیہہ بناتی ہے۔ یہ ہماری آنکھوں کے سامنے ایک منظر کا روپ دھار لیتی ہیں۔ ماضی کے واقعات سے متعلق پڑھ کر ہم حال کا سامنا کرنے اور اس بات کا احساس کرنےپرمجبور ہو جاتے ہیں کہ کچھ تبدیل نہیں ہوا۔ بلکہ حقیقت میں حالات پہلے سے کہیں زیادہ بگڑ گئے ہیں۔ "Pictures On My Wall," 2013. Oil on digital print. ورلڈ ميڈایک دروں بین دنیا ہے جہاں فرد صرف خارجی دنیا اوراس سے متعلق خبروںمیں موجود تشدد ہی کا مشاہدہ نہیں کرتا بلکہ اپنی ذات میں اس تشدد کے داخلی اثرات /نفوذکا جائزہ بھی لیتا ہے۔اپنے تصویری سلسلے کے عنوان پر بات کرتے ہوئے مدیحہ نے بتایا: ’’ہم واقعی ایک ورلڈ ميڈمیں رہتے ہیں! لیکن اس کاایک ذاتی پہلو بھی ہے؛ میرے احباب مجھے ’سودائی‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ اور چوں کہ میرا کام میرے ذاتی جذبات کا بھی عکاس ہے اس لیے مجھے یہ لقب بے حد موزوں معلوم ہوتا ہے!‘‘ اس تناظر میں یہ تصویری سلسلے ایک ذاتی تجربے کی واردات بھی ہے جس میں وہ خود کو پاگل ہوتا دکھاتی ہے۔ اس (تخلیقی سفر) کا دباؤ یقینی ہے کیوں کہ وہ خود کو کم زوری، کوفت، غصے حتیٰ کہ خوف کے عالم میں بھی پیش کرتی ہے۔ ایک تصویر میں وہ کرب اور بے بسی کے عالم میں اخباروں میں لپٹی دکھائی دیتی ہے۔ مدیحہ کاکام صرف سیاسی نہیں بلکہ نفسیاتی نوعیت کا بھی ہے۔ اس کا کہنا ہے: ’’میرے لیے ذرائع ابلاغ کا کردارجس قدر خبررساں، معلم اورمحافظ کے طور پر ہے اسی قدرذہنی سکون تباہ کرنے والا کا بھی ہے۔‘‘ ورلڈ ميڈمیں خبریں اور بیانیہ دو الگ تصورات نہیں بلکہ ایک دوسرے کے مترادفات ہیں۔ مدیحہ کے نزدیک وہ شہر میں ہونے والے تشدد کی خبروں سے علیحدہ نہیں ہیں۔ وہ ان خبروں کا حصہ ہیں اور یہ ان کی کہانی بھی ہے۔ وہ صرف تشدد آمیز خبروں کی قاری، سامع یا ناظر ہی نہیں بلکہ اس کے نفسیاتی اثرات کا شکار بھی ہیں۔ یوں ان کے تصویری سلسلوں میں شہر میں جاری تشدد کئی حوالوں سے فرد کے وجود کی توجیہہ بھی بن جاتا ہے۔ ورلڈ ميڈمعاصر فنون میں آنے والی تبدیلیوں کا ایک مظہر بھی ہے۔ سیاسی فنون کی اس موجود ہ لہر میں فنکار اپنے عہد کے مسائل کو موضوع بنارہے ہیں جن میں سے تشدد ایک اہم موضوع ہے۔ مدیحہ کے مطابق،’’کراچی میں تشدد کے واقعات میں دس گنا اضافے اور لوگوں کو روزانہ کی بنیاد پر ان کاسامنا کرنے کے باوجود آج کے فنکاروں کے کام پرذرائع ابلاغ کا ا نمایاں اثر ہے۔ ٹی وی، اخبار اور انٹرنیٹ پر سماجی، سیاسی؛ خانگی اور معاشی ناانصافی کی مسلسل کوریج سے لوگوں میں گزشتہ ادوار کی نسبت کہیں زیادہ آگہی اور شعور پیدا ہوچکا ہے۔‘‘ مدیحہ کا کام حقیقت کی ترجمانی کے زمرے میں آتا ہے۔ وہ اپنے کام کی صنف /نوعیت کو نمایاں حیثیت دیتی ہیں۔ اگرچہ تشدد کی شدت ان کے نقطہ نظر میں ڈھل کےسامنے آتی ہے تاہم بالآخران کے جذبات باقی تمام کراچی والوں کے محسوسات کی ترجمانی کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح ان کے کام کا دائرہ اثر کراچی کے اندوہناک حالات میں بسنے والے انسانوں کی حالت زار تک پھیل جاتا ہے۔ ورلڈ ميڈکو اس کا پرتشدد معروضی نقطہ نظر دلچسپ بناتا ہے۔ مدیحہ کے کام کی طاقت صرف کراچی میں جاری تشدد کی عکاسی میں ہی مضمر نہیں۔ ان کا کام اس تشدد کی تفہیم کی ایک حقیقت پسندانہ مگر بتدریج تفہیم کی کوشش ہونے کی وجہ سے بھی اس قدر پراثر ہے۔ اس طرح مدیحہ کے تصویری سلسلے خود فنکار کو تشدد سے متعلق اس بیانیے کا محور بنادیتے ہیں۔ مدیحہ کی تخلیق کردہ دنیا بے حد ذاتی سہی لیکن اس کی اساس خالق کے دیکھنے اور پڑھنے پر ہے۔ یہ ایک ایسی دنیا ہے جس کے لیے وہ فکر مند بھی ہے اور اس سے پریشان بھی۔ اس انتشار میں گھِرکر وہ اپنے آرٹ میں تسکین تلاش کرتی ہے۔ وہ امن کی خواہاں ہے مگر اس کے لیے کوئی حل تجویز نہیں کرتی۔ درحقیقت وہ اپنے ناظرین سے سوال کرتی ہے،’’اس پاگل پن کی حد کیا ہے؟‘‘ وہ ہمیں حقیقت کا سامنا کرنے کا ایک موقع دیتی ہیں۔ وہ ہمیں جھنجھوڑتی ہیں۔ وہ ہمارے ضمیر پر دستک دیتی ہے اور ہمارے جذبات کو ابھارتی ہے۔ وہ ہمیں احساس دلاتی ہے کہ ہم بھی اس جال میں پھنس چکے ہیں اور ۱ندرہی اندر پاگل پن کا شکار ہو رہے ہیں۔ ہم بھی اس مسلسل تشدد کو مزید برداشت نہیں کر سکتے۔ مدیحہ کی فنکارانہ مہارت اور حقیقت پسندی کی ستائش کے دوران ہی ہم یہ سوچنے لگتے ہیں کہ کس طرح اس کی کہانی اور اس کی حقیقیت اس شہر کے ہر فرد کی کہانی اور حقیقت ہے۔ سمن طارق ملک لمز میں انگریزی اور تاریخ کی طالبہ ہیں۔

Tags: , , ,

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *