غیر ملکی قبضہ اورافغان ثقافت پر سیاست

شمارہ ٩Eng | Issue 9

مصور: امن موجددی”

Artist: Aman Mojadidi “The Rebel Fell”

فروری ؁۲۰۱۳ء کی ایک خنک سہ پہر کو ، میں اور افغان نژاد امریکی  تصویر نگار  امن مجددی کابل کے پرانے فلاور سٹریٹ  کیفے کے سموکنگ روم میں بیٹھے  بدمزہ کافی پی رہےتھے۔  ؁۲۰۱۴ء کی آمد کے مہیب سائے افق پر ابھی سے پھیلے تھے اور مستقبل کے حوالے سے چھائی  بے یقینی افغانستان میں اور ہر جگہ افغانستان سے متعلق ہونے والی گفتگو کا مستقل موضوع تھی۔

ہماری گفتگو بھی ان خدشات سے عاری نہیں تھی۔  افغانستان کا مستقبل کیا ہوگا اس حوالے سے رائے عامہ منقسم تھی: زیادہ ترلوگوں کا خیال تھا کہ انٹرنیشنل سیکیورٹی اسسٹنس فورس(ایساف) کا انخلاء ملک کی معاشی و سیاسی صورت حال کے لیے تباہ کن ہوگا۔  دوسروں کی راے میں ؁۲۰۱۴ء افغانستان کی تاریخ میں نہایت اہم سال ثابت ہوگا۔ ہر لمحہ بدلتی صورت حال کے پیش نظرزیادہ ترمقامی اور  بین الاقوامی مبصرین، ماہرین ، دانش ور اور صحافی سبھی پیشن گوئی کرنے سے کترا رہے تھے اور تبصرے کے بجائے  مشاہدہ کو ترجیح  دے رہے تھے۔  فوجی انخلاء کے بعد معاشی استحکام کے حوالے سے بھی تحفظات موجود تھے۔ افغان معیشت کے ایک بڑے حصے کا انحصار غیرملکی امداد پرتھا۔ اس  وجہ سے یہ نتیجہ نکالا جارہا تھاکہ بین الاقوامی افواج میں کمی امداد دہندہ ممالک کو خدشات میں ڈال سکتی ہے اور بیرونی امداد کی فراہمی کم ہوسکتی ہے۔ 

“کابلی وضع داری” اور ثقافتی پیداواریت کی سیاست

اس لامتناہی جنگ کے چودہ سال گزرنے کے باوجود بھی ہر طرف افغانستان کا جونقشہ   کھینچا جاتا ہے  وہ اب بھی بے حد سادہ نگار، مبتذل اور تنگ نظر ہے۔  افغانستان سے متعلق بیانیے اور منظر نگاری دقیانوسی اور مفروضیات پر مبنی تصورات کی تجسیم کرتے رہے ہیں۔  برقع پوش عورتوں کے غول اور یاس آمیز مظلومیت کی اشک شوئی کا رحجان اس لمبی فہرست کی دو نمایاں مثالیں ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں دکھائی دینے والے افغانستان سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ پندرہ برس کے دوران پہلے سے “معلوم شدہ” افغانستان کی مزید تصدیق کے علاوہ ہم نے بہت ہی کم سیکھا ہے۔ یہ سب لعنتِ مستشرقیت   کی ایک  مثالی علامت ہے؛ ایک خودپرور  اور اپنی برحقیت آپ ثابت کرنے والا نقطہ نظر جو خود پرتنقیداور سوالات سے بالاتر رہ کرمحض اپنی تصدیق کے شواہدپیدا کرسکتا ہے۔ 

ان تحفظات کے تنقیدی پس منظر میں یہ مضمون افغانستان کی (ثقافتی)  نقشہ کشی و نمائیندگی خصوصاًثقافتی پیداوار یت کے لیے دی جانے والی امداد ، اس کی رپورٹنگ اور  تشریح کے جائزے پر مبنی ہے۔ تنازعات کے شکار ممالک میں ثقافتی اقدار کے کردار پر اپنی دس سالہ تحقیق کےدوران میں نے ثقافتی اظہار کے مقامات اور مواقع کا جائزہ لیا ہے۔ اس دوران میں نے اس عمل پر اثراندازعالمی دباؤ اور توقعات کے ساتھ ساتھ مقامی تعاملات آشکار کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔

ثقافتی پیداواریت کی نوعیت کی تصریحات اکثر زبان اور رسائی کے سوالات کے تابع ہوتی ہیں۔ افغانستان میں یہ تصریحات انگریزی دان اشرافیہ میں مقبولیت کے مدِّنظر کابل سےنظر آنے والے افغانستان اور اس کے شہری تصورات  کو فروغ دیتی ہیں جو ہماری سمجھ بوجھ کے لیے محدود کن ہے۔

کابل میں مقیم ایک غیر ملکی اور ثقافتی میدان میں کام کرنے والی کی حیثیت سے میں  خود کو ایک متضاد جگہ پر دیکھتی ہوں۔  مضمون کے بقیہ حصے میں میں افغان ثقافت کی نقشہ کشی اور پیداواریت کے اس پریشان کن  پہلو کی نشاندہی کرنے اور اس پر سوال اٹھانے کی کوشش کروں گی۔  اس مقصد کے لیے میں افغانستان جیسی جگہ پر “کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے” کی بنیاد پر اوسط درجے (کے ثقافتی اظہار )کوجواز فراہم کرنے اور تخلیق کاروں پر اعتراض نہ کرنے کی “کابلی وضع داری” کے خلاف استدلال کروں گی۔ 

———————————————————————————————————————————

پاکستان کی کہانی سنانے کے لیے آزاد میڈیا کی تشکیل میں ہماری مدد کیجیے۔

سبسکرائب کیجیے یا چندہ دیجیے

———————————————————————————————————————————

نئی شروعات  کا لامتناہی سلسلہ

اس شعبے سے وابستہ افراد کی حیثیت سے میں اور امن  ثقافتی منصوبوں کے لیے امداد بند ہوجانے کے بعد کی صورت حال سے متعلق قیاس آرائی  کرنے لگے۔  ہم دونوں  کئی برس سےمعاصر فنکار حلقوں میں خودانحصاری اور آزاد روی کی سرگرمی سے وکالت کرتے آ رہے ہیں۔  معاشی بدحالی کے دوران ،بے پناہ ہنگامی نوعیت کے مسائل اور محدود وسائل  کے باعث ثقافتی امور (انفرادی اور اجتماعی) ترجیحات میں  بہت جلد سب سے کمتر حیثیت اختیار کرلیتے ہیں۔  گزشتہ دس برس کے دوران فنونی اور ثقافتی  عالمی تنظیموں کے رویےمیں ہم نے بتدریج تبدیلی دیکھی ہے۔  مجددی کے مطابق دس برس قبل “امداد دہندگان اور مختلف منصوبوں پر عمل درآمد کرنے والے ادارے فنون اور ثقافتی امور سے متعلق بے حد گرم جوشی کا مظاہرہ کرتے تھے اور یہ سب افغانستان میں عالمی برادی کے کردار میں آنے والی تبدیلی کا حصہ تھا۔”(امن مجددی کے ساتھ یہ گفتگو  ہیمال ساوتھ ایشیئن کے خصوصی شمارے ” ریکلیمنگ افغانستان(احیائے افغانستان)” والیوم 27 نمبر1، ؁۲۰۱۴میں بھی شائع ہوچکی ہے)۔ کہا جا سکتا ہے کہ”مقامی ثقافت کے تانے بانے میں جدت متعارف کرانے کے لیے” آرٹ  اور ثقافت کو  استعمال کیا جا رہا تھا۔

درحقیقت ؁۲۰۱۰ کے   لگ بھگ کابل میں بھاری غیرملکی امداد سے منعقد ہونے والی”معاصری” ثقافتی تقاریب کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ دیکھا گیا۔ ایک ایسا ملک جس کی نصف  سے زائد آبادی  ۲۵ برس سے کم عمر ہو(انڈیکس مُنڈی ؁۲۰۱۴ء کے  آبادی سے متعلق اعدادوشمار کے مطابق افغانستان کی آبادی کا ۴۲ فیصد چودہ سال سے کم عمر جبکہ ۲.۲۲ فیصد پندرہ سے چوبیس سال کے نوجوانوں پر مشتمل ہے) ہر نئے منصوبے کا مرکزومحور نوجوان ہی تھے۔  درحقیقت زیادہ تر توجہ انگریزی بولنے والے پڑھے لکھے شہری نوجوان پر تھی کیوں کہ یہ طبقہ عالمی تنظیموں کی آسان رسائی میں تھا۔  چند ہی سالوں میں لاکھوں ڈالر کی امداد سے کابل میں دھڑادھڑ ہیوی میٹل موسیقی کے میلے، سٹریٹ آرٹ کی تقاریب، گرافیٹی سکھانے کی تربیتی نشستیں اور ایسے ہی دیگر منصوبے پھیل گئے ۔  تاہم ان کا وجودوقتی پھلجھڑی ثابت ہوا:  معاشرے میں انقلابی تبدیلی لانے کی ان سے امیدیں تب تک ہی قائم رہیں جب تک عالمی ذرائع ابلاغ ان منصوبوں کو جگہ دیتے رہے۔  شہ سرخیوں کا آغاز “باوجود ” کے لفظ سے ہوتاتھا( مثلاً ،طالبان کی موجودگی کے باوجود جنگ زدہ افغانستان میں فیشن کی چکاچوند)۔  اخباری مضامین اوردستاویزی فلموں میں ہر ثقافتی تقریب  طالبان کے دور جہالت کے پس منظر اور اسکے موازنے میں پیش کی جاتی تھی۔ حکایت کا لہجہ ہمیشہ مخاصمانہ اور مخالفانہ ہوتا تھا،  خاصکر اگر   خواتین کا ذکر ہو۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی تھی کہ گویا مغرب کی لشکر کشی سے قبل یہاں ثقافت کا وجود تک نہ تھا اور ثقافتی احیاء کا تما م تر سہرا مغربی تنظیموں کی  بے لوث موجودگی کے سر ہے۔  اسی زمانے میں افغانستان بالخصوص کابل میں ہر امر میں “پہلا” ہونے کا چلن عام ہوا:  پہلی خاتون گرافیٹی نگار،  پہلی خاتون ریپر، پہلا راک بینڈ، فلم سازوں کا پہلا  اشتراک۔ یہاں تک کے  طالبا ن کو یوگا سکھانے کی ایک ناکام کوشش بھی کی گئی ، یہ سوچتے ہوئے کہ یوگی طالبان ملک میں امن لانے کا باعث بنیں گے۔

ندرت، جدت اورنوجوان طبقے  پر اس توجہ  سے موعود تبدیلی تو برپا نہ کی جاسکی تاہم  ثقافتی و نسلی تفاوتات کا آغاز ضرور ہوگیا۔ اکثرکوبیرونی ثقافت کی یلغار کا ڈر تھا اور بزرگوں نے اقداراور خیالات کو مغربی رنگ دینے کی کوششوں کی مذمت کی۔ اگرچہ یہ خدشات غیر ضروری اور خوف پرور قیاس آرائیاں تھیں جنہوں نے چند معمولی اور غیر منظم منصوبوں کو بے جا اہمیت دی۔ محدود اثرات کے حامل ان منصوبوں سے کسی بھی طرح معاشرے میں روایت و جدد کی تقسیم کا امکان نہیں تھا۔

امن مجددی پر یہ صورت حال پوری طرح واضح تھی: “میں ہمیشہ سخت خشک زمین کی مثال دیتا ہوں جس پر ایک بالٹی پانی انڈیل دیا جائے۔ جدت، ثقافتی سرگرمیوں، فنون لطیفہ، موسیقی ، انٹرنیٹ، انگریزی اور دولت کا یہ پانی خشک زمین کے ایک بڑے حصے پر پھیل توجاتا ہے، اسکو اپنے اندر ڈھانپ تو  لیتا ہے  لیکن اس میں جذب ہونے سے پہلے ہی اُڑ جاتا ہے۔ میرے خیال میں افغانستان میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران یہی کچھ ہوا ہے۔”

عام لفظوں میں اسے یوں بیان کیا جاسکتاہے کہ کہ غیر ملکی امداد سےمنعقد کرائی جانے والی ثقافتی تقاریب غیر سرکاری تنظیموں(این جی اوز) کے نقطہ نظر سے تشکیل دی گئی تھیں، جن کے لیے افراد کی استعداد کار بڑھانا،  ، چندمخصوص مستفیدین کی ضروریات پوری کرنا، اور واضح مقاصد اور متعینہ اہداف کے تعین کرنا ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ ان منصوبوں کے نتائج  قابل پیشگوئی ہونا اور ان کے اثرات قابل پیمائش ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔  امداددینے  کی ترجیحات متعین کرنے کا یہ طرزعمل افغانستان سے باہر تیار کیے گئے ترقیاتی ایجنڈے کے ساتھ مل کر پہلے سے جاری منصوبوں کی تنظیم اور افزائش جیسے غیر دلچسپ امور کی بجائے مزید نئے منصوبوں کے آغاز کا باعث بنتا ہے۔ اس رحجان کے باعث نت نئے منصوبوں کا ایک  لا متناہی سلسلہ شروع ہوگیا ہے:  پہلے سے جاری منصوبوں میں شمولیت کی بجائے نئے منصوبوں  کا آغاز زیادہ سہل معلوم ہوتا ہے۔  در حقیقت  کسی نئے ثقافتی مرکز  کے قیام ، کسی نمائش کے انعقاد یاکسی تقریب کے اہتمام  کے لیے پیسے ڈھونڈنا نسبتاًآسان  تھا، جبکہ اس کے بر عکس کسی  جاری  منصوبے کے چھ ماہ بعد کے کرائے کا بندوبست کرنا قریب قریب ناممکن ۔

جس ڈگر پر امدادمہیا کرنے کے نظام چل رہا تھااس سے یہ واضح تھا کہ امدادی تنظیموں کی ترجیح  دوررس، دیر پا اور مستحکم  ثقافتی منصوبوں میں سرمایہ کاری نہیں تھی۔ اس پس منظر میں،  میں اور مجددی اسی سوچ میں پڑے تھے کہ مستقبل میں بیرونی رقم کی عدم دستیابی ثقافتی پیداواریت کی کیا صورت پیدا کرے  ۔

امن”امدادی اداروں کی ترجیحات یقیناً دوسری سمتوں میں منتقل ہو جائیں گی، ” امن مجددی نے مجھے بتایا۔  ان کا کہنا تھا”؁۲۰۱۴ء کے بعد  جب غیر ملکی  ہماری امداد بند کردینگے تب یہ دیکھنا یقیناً دلچسپ ہو گا کہ کیا (افغان) آرٹ اور ثقافت اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل ہیں یا نہیں۔”

———————————————————————————————————————————

یہ مضمون آپ تک پہنچنے کے لیے ہمارے خون پسینے کے علاوہ روپیہ پیسہ بھی خرچ ہوا ہے۔

سبسکرائب کیجیے یا چندہ دیجیے

———————————————————————————————————————————

برقعے اور بارود

انخلاء کے آخری مرحلے میں میں نے دیکھا کہ  امدادبتدریج ایک مخصوص حکمت عملی کے تحت تقسیم کی جانے لگی۔ ؁۲۰۱۴ء کے قریب آنے پر عدم استحکام کی پیشن گوئیاں طویل المدت منصوبہ بندی کی راہ میں روکاوٹ بننے لگیں۔  امدادی اداروں کی دلچسپی اپنی اپنی حکومتوں کے لیے قابل فہم سماجی و سیاسی پیغام  پر مشتمل آرٹ اور ثقافتی اظہار میں بڑھنے لگی۔عیار لیکن ملفوف پراپیگنڈے پر مبنی یہ پیغامات  افغانستان پر قبضے کے دوران حاصل کی گئی کامیابیوں کو نمایاں کرنےکے لیے  تھے۔ غیر ملکی سفارت خانوں اور اقوام متحدہ کے اداروں نے “فن برائے مقصد” کوفروغ دینا شروع کیا۔  ان منصوبوں کی “شرائط و ضوابط” اکثر  اتنی کڑی ہوتی تھیں کہ فی البدیہہ تخلیقی اظہار کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں بچتی تھی۔ ایک طرف جہاں “عمومی” تصویری نمائش کے لیے امداد ملنا تقریباً ناممکن ہو چکا تھا وہیں  خواتین کے لیے مخصوص آرٹ سکولوں کی طالبات کے کسی خاص موضوع پر فن پاروں ( یا خاکہ کشی کہیے؟) کی نمائش کے لیے امداد با آسانی دستیاب تھی۔  ایسی نمائشوں میں سستے چینی ایکری لک رنگوں سے بنی ایسی تصویروں کی بہتات نظر آنے لگی جن میں تشدد اور خون کو ظاہر کرنے کے لیے نیم تجریدی سرخ  دھبوں والے پس منظر  کے ساتھ برقع پوش عورتوں کے غول دکھائے گئے ہوں ۔کسی خاص  موضوع پہ “آرٹ تخلیق کرنے” کے غرض سے برپا کی جانے والی نمائشوں اور ثقافتی تقاریب  کی تعداد میں بے تحاشا  اضافہ ہوا،  جن میں  بدعنوانی کے خلاف جدوجہد، عالمی یوم امن  یا  عالمی ماحولیاتی دن منانے، اور تعلیم کے فروغ اور عورتوں پر تشدد کے انسداد جیسےموضوعات پرآرٹ کے نمونے پیش کیے جاتے تھے۔ 

عالمی اداروں کا یہ رحجان موثر ثابت ہوا اور بہت جلد(افغان معاشرےنے بھی) خطرناک حد تک اسے غیر شعوری طور پر اپنا لیا۔  جولائی سے نومبر ؁۲۰۱۳؁؁ءکے دوران میں نے معاصر افغان مصوری کے چوتھے مقابلے (Afghan Contemporary Art Prize, ACAP) کا اہتمام کیا۔  ملک بھر کے ۱۶۰ درخواست گزاروں میں سے  ۱۰  منتخب مصوروں اور فوٹوگرافروں نے ایک بھرپور تربیتی پروگرام اور  اساتذہ کی نگرانی میں سرانجام پانے والے تخلیقی عمل میں حصہ لیا۔ ان تخلیق کاروں کےفن پاروں کی نمائش  کابل کےباغِ بابر  میں ہوئی۔میں چونکہ شرکاء کے تربیتی عمل کا قریب سے مشاہدہ  کر رہی تھی، مجھے فنون لطیفہ  پر غیرسرکاری تنظیموں کے گہرے اثرات کا شدت سے احساس ہوا۔  ان میں سے ایک فنکارمحمد داؤد (جو انعام جیتنے والے تین فنکاروں میں سے تھا) نے اپنا کاغذ خود تیار کیا اور اسے کالی چائے سے دھویا۔ داؤد ان کاغذات پر  ایک ایسی ڈرائینگ سیریز بنا رہا تھا جو  کچھ بہت پیچیدہ الگورتھموں سے متاثر  اور متعین تھیں ۔ عام لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان  تصاویر کا مقصد کائنات اور انسان کی موجودہ حالت کا اظہار  تھا۔  افغان سیاق و سباق میں بنائی گئی ان تصاویر کے مشینی انسانوں اور کارٹونوں سے ملتے جلتےکرداروں میں اس ملک کے وہی مصائب مجسم تھے جو مغربی ممالک کےطرز فکر کے ساتھ مخصوص ہیں۔ ان تصاویر میں دکھائے گئے  چار کردارایک بھکاری،  ایک علامتی جسم، روتے ہوئے بچے کو اٹھائے ایک برقع پوش عورت اور ڈیٹونیٹر اچھالتے ایک نوجوان پر مشتمل تھے۔ داؤد کے ابتدائی خیال کے بے حد دقیق و نفیس ہونے کی وجہ سے میں اس قدر مبتذل علامتی اظہار دیکھ کر حیران ہوئی۔  جب میں نے داود سے ان کرداروں کے چناو ٔکی وجہ پوچھی تو وہ اپنے فیصلے کے محرکات سے متعلق اسے کوئ تردد نہ  تھا۔ اس کا کہنا تھا:”میں نے ان کرداروں کا انتخاب اس لیے کیا کیوں کہ نمائش دیکھنے والے غیر ملکی انہیں سمجھ سکتے ہیں۔ وہ فنکاروں کو اسی قسم کی تصاویر بنانے کو کہتے ہیں اور وہ اسی قسم کے کردار دیکھنا چاہتے ہیں۔”  ACAP  نمائش  کے دوران میں نے  شرکاء کواپنے خیالات کے اظہار کے لیے  برقعے یا ایسی ہی دیگرتوضیحی علامتیں استعمال کرنے سے منع کیا تھا۔ میں روایتی علامتوں کی تکرارکی بجائے فنکاروں کے ذاتی اظہار میں تجربے اور لطافت اپنانے کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتی تھی۔ ACAP کے پس منظر میں یہ نقطہ نظر ہونے کے باوجود بھی داؤد کی گفتگو یقیناً میری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھی۔ 

“قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے”

 یہ جون ؁۲۰۱۵ء  ہے۔ میں جب یہ مضمون لکھ رہی تھی  اس وقت افغان پارلیمان پر حملہ جاری تھا۔  بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اس حملے کی ذمہ داری افغان طالبان نے قبول کی ہے۔  عدم استحکام کی بیشتر پیشنگوئیاں حقیقت ثابت ہوئی ہیں اور ہر لمحہ مخدوش ہوتی صورت حال نے ان خدشات میں اضافہ کیا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران غیر ملکیوں پر ہونے والے حملوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے عالمی امدادی ادارے اب آسان ہدف ثابت ہونے والی عوامی تقریبات کی سرپرستی  کرنے میں محتاط ہوگئے ہیں۔  (ثقافت کے شعبے میں فعال عالمی تنظیموں کے کارکنان سے ہونے والی گفتگو سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دسمبر ؁۲۰۱۴ء میں فرانسیسی ثقافتی مرکز میں ہونے والا خود کش دھماکہ اس سلسلے میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ ایک تھیٹر ڈرامے کے دوران    خود کش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا ۔ اس واقعے میں ۱۵ افراد زخمی ہوئے تھے)۔  “حباب کابل” پھوٹ چکا تھا۔  سیاسی امکانات میں اس تبدیلی کےثقافتی پیداواریت پر سنگین اور بعض حوالوں سے مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

———————————————————————————————————————————

وقف نہیں۔ خیرات نہیں۔ بیرونی امداد نہیں۔ صرف آپکی مدد درکار ہے۔

سبسکرائب کیجیے یا چندہ دیجیے

———————————————————————————————————————————

بلاتفریق عالمی امداد کے فقدان نے  نچلی سطح پر  استحکام  کے ایک خودروعمل کا آغاز کر دیا ہے۔ ذرائع ابلاغ  پر دکھائی دینے والے”کابل کے ثقافتی منظرنامے” کا امتیازی جوش و جذبہ ماند پڑ چکا ہے۔ اس دور کے کئی مرکزی کردار ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ باقی بچ جانے والے فنکاراپنی جڑیں مضبوط کررہے ہیں۔ یہ فنکار “قطرہ قطرہ دریا  بنتاہے” کے سیاسی فلسفے پر کاربند ، ذرائع ابلاغ  کی چکاچوندسے بسااوقات دانستہ دوررہتے ہوئے  اپنے وجود اوراپنے فن کے جواز سے متعلق رہتے ہیں۔ اپنے سرمائے، محنت اور وقت سے شروع کیے گئے کئی کامیاب منصوبوں کی مثالیں موجود ہیں جن میں فنکار اپنے فن اور ثقافتی سرگرمیوں کو اپنے بل بوتے پر سامنے لارہے ہیں۔  یہ منصوبے مختلف النوع ہیں مگر ان سب کی جدوجہد ایک سی ہے۔  موسیقار، شاعر اور مصور اپنے خیالات و افکار کے اظہار کا اپنا بیانیہ مرتب کرنے میں اپنے آپ کو وقف کر رہے ہیں۔ یہ زبان بیرونی ایجنڈے کے زیراثر رہنےکی  بجائے اپنے ماحول پر خود ردعمل ظاہر کرنے کی زبان ہے۔  معاشی امداد کے حصول کے لیے مقابلہ بازی کم ہونے کی وجہ سے اشتراک عمل کا ایک نیا احساس جنم لے رہا ہے ۔  نتائج دینے اور کارکردگی ظاہر کرنے کا دباو ٔ نہ ہونے کی وجہ سے (فنکاروں کا )یہ اشتراک اپنے زمان و مکان کے تعین پر قادر ہے۔  مضافات میں چھوٹے پیمانے پر شروع کی گئی سرگرمیاں جاری ہیں اور ثقافتی اظہار کے مواقع  کی گنجائش نئے سرے سےپیدا کی جارہی ہے۔  

گزشتہ ایک برس سے میں کابل میں  فنکاروں کے ایک آزاداشتراک بیرنگ کے ساتھ مل کر معاصر فنون کا کتب خانہ قائم کرنے کے لیے کوشاں ہوں۔ کیوں کہ کابل میں ایسی کتب کی دستیابی محال ہے۔کتب خانے کے لیے  کرائے پر مستقل جگہ حاصل کرنے کے لیے رقم موجود نہیں  اس لیے اس لیے یہ کتب خانہ گشت میں رہتا ہے اور آجکل اس کی میزبانی کا شرف حال ہی قائم ہوئے ایک آرٹس کیفےکوحاصل ہے۔   کتب خانے کے قیام اور ترقی کے لیے ہم نے دانستاً ایک نیا طریق عمل اپنایا ہے:  اس کتب خانے کے لیے  کوئی بھی کتاب خریدی نہیں گئی بلکہ تمام کتب دنیا بھر میں موجود دوستوں اور ہمدردوں نے عطیہ کی ہیں۔ یہ کتابیں کابل پہنچانے کے لیے بھی کابل کا سفر کرنے والےاحباب اور دوستوں کی مدد لی گئی ہے۔  غیر ملکی امداد کی فراوانی کے زمانے میں ایسا طریق کار اپنانا مشکل تھا۔  پیسے کی قلت نے لوگوں کو اپنی مدد آپ کے تحت  کام کرنے پر مجبور کر دیا ہے جس سے ثقافتی اظہار کے  اگرچہ بہت پرکشش نہیں لیکن  زیادہ  صادق وحقیقی اور دیرپا ذرائع پیدا ہو رہے ہیں۔

معاصر فنون کا یہ کتب خانہ اکلوتی مثال نہیں۔ جب میں نے افغان ادیب مجیب مشعل سے اس  قیاس  پر ان کی رائے  پوچھی تو ان کا کہنا تھا کہ ( معاصری افغانستان میں ) شاعری ہمیشہ سے ایسی ہی صورت میں پنپتی رہی ہے: “میرے خیال میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران فنون کی ایک صنف جومغربی اثرونفوذ سے سب سے کم متاثر ہوئی ہے، وہ شاعری ہے۔ شاعری آج بھی اتنی ہی پرجوش، اہم اور ارزاں ہے (جتنی مغربی قبضے سے پہلے تھی)۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شاعری تاحال کوئی منافع بخش فن نہیں بن سکی اور نہ ہی اس کے  اوپر امدادی منصوبے ترتیب دیے گئے ہیں۔  شاعری ابھی بھی دل کی آواز ہے جو چھوٹی موٹی بیٹھکوں میں سنائی جاتی ہے۔ ماضی کی طرح اب بھی شعرگوئی سے دولت نہیں کمائی جاسکتی۔  لیکن فیس بک جیسے ذرائع سے مقامی شعراء کے سامعین  اورقارئین میں  خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے۔  یہ وہ واحد فن ہے جس کے بارے میں میں نے آج تک نہیں سنا: میں نے فلاں غیرسرکاری تنظیم کو اپنے منصوبے سے آگاہ کیا ہے اور اب میں  شعر کہنے کے لیےرقم ملنے کے انتظار میں ہوں۔”

فرانچیسکا ریکیا افغانستان میں مقیم ایک آزاد محقق اور لکھاری ہیں۔  ثقافتی امور کی جغرافیائی ا ور سیاسی  جہات ان کی  دلچسپی کے خاص موضوعات ہیں۔ حالیہ برسوں میں  ان کی تحقیق کا  محور جنگ زدہ ملکوں میں شہری علاقوں اور آبادیوں میں آنے والی تبدیلیاں اور تخلیقی اقدار رہی ہیں۔ فرانچیسکا  جدیدافغان مصوری کے چوتھے انعامی مقابلے کی ڈائریکٹر بھی رہی ہیں۔ آپ تین کتابیں، دی لٹل بک آف کابل (شریک مصنف لورینزو تگنولی)، پکنک ان اے مائن فیلڈ ،اور  ڈیوائیسز فار پولیٹکل ایکشن (جس میں لیو نوویل کا تصویری مضمون بھی شامل ہے) تصنیف کر چکی ہیں۔ آپ کابل کے ایک مقامی  ثقافتی تہوار کاروان سرائے کی ڈائریکٹر ہیں۔ آپ  @kiccovich کے ٹویٹر ہینڈل سے ٹویٹ کرتی ہیں۔ 

Tags: , , , , , , ,

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *