حیرت | صوفی کا بلاگ

صوفی_بلاگ

“Doctor admits playing role in Lahore attacks.”

یہ ان دنوں کا قصّہ ہے جب پرویز مشرف کا ستارہ عروج پر تھا۔ ایک لمبے عرصہ کی تگ و دو کے بعد دفتری بابوؤں نے پتا چل لیا تھا کہ پاکستانی پسماندگی کی اصل وجہ ا علی تعلیم کی کمی ہے ۔ ایچ ای سی کا ادارہ قائم ہوا جس کا بنیادی مقصد ملکی جامعات میں تحقیق کو فروغ دینا تھا ۔ باقی باتوں کا تو پتہ نہیں لیکن جامعات میں پہلی دفعہ پیسے کی فراوانی دیکھی گی لہذا نئے نئے تحقیقی گروپ بنائے گئےجس نے بہت سے ایسے تازہ کالج یونیورسٹی سے نکلے نوجوانو ں کو کھینچ لیا جو ورنہ ملازمت کی منڈی میں جوتیاں چٹخا رہے ہوتے ۔ میرا شمار بھی انہیں نوجوانوں میں ہوتا تھا جو ریاست کی نئی تحقیقی گنگا میں ہاتھ دھونے چلے آئے تھے ۔

’’یہ نصر ہیں ہمارے ڈپارٹمنٹ میں نئے ریسرچ اسسٹنٹ ، آپ سب کے ساتھ اسی کمرے میں کام کریں گے۔‘‘ پروفیسر نوید نے ایک درمیانے قد کے نوجوان کا تعارف کرواتے ہوۓ کہا۔ نوارد پچیس اور تیس کے درمیان ،گھٹے ہوئے جسم کا مالک ، باریش اور دفتری پتلون قمیض میں ملبوس تھا لیکن اس کی آنکھیں جوانی کی چمک سے عاری تھیں۔ خوش حال طبقے میں اپنی روشن خیالی کے لئے مشہور نجی جامعہ کا یہ ایک تنگ سامستطیل کمرہ تھا جس میں کرسی میز سمیت کل چھ افراد کے بیٹھنے کی جگہ تھی۔  بشمول میرے ، پانچ نوجوان اس میں پہلے سے ہی موجود تھے ۔ ناصر چپ چاپ میرے ساتھ والی کرسی پر آ کر بیٹھ گیا اور کمپیوٹر پر لاگ ان کر نے لگا ۔

نصر کی تعارف وغیرہ میں کوئی دلچسپی نہ دیکھ کر ہم لوگ کچھ حیران ہوئے لیکن پھر اپنے کاموں میں لگ گئے ۔حسب معمول اس دن بھی ہنسی مذاق ، کھیلوں اور فلموں پر تبصرے اور کمپیوٹر پر بازیاں چلتی رہیں ۔ جس کے دوران نصر یا تو اپنی سکرین پر نگاہیں جمائے بیٹھا رہا یا پھر کمرے سےبا ہر گھومتا پھرتا رہا۔

میں باقی لڑکوں کی نسبت صبح جلدی آ جاتا تھا۔ اگلے دن جب میں کام پر آیا خلاف توقع نصر پہلے سے ہی کمرے میں موجود تھا۔  پہلے میں نے سوچا کہ پوچھوں آپ کب سے آئے ہوئے ہیں لیکن گزرے دن کا تجربہ یاد تھا لہٰذا سلام پر ہی اکتفا کیا۔ ابھی میں ای میل  پڑھ ہی رہا تھا کہ نصر بول اٹھا۔ ’’آپ آ ج سے بارہ سال پہلے فلاں مدرسے سے قران حفظ کر رہے تھے  نا!‘‘ نا !”

’’ہاں ! لیکن آپ کو کیسے پتا ہے؟‘‘ میں حیران تھا یہ کونسا میرا پرانا واقف نکل آیا ہے۔

 پہچانا ۔۔۔ میں نے آ پ کی آواز سے ہے۔ آپ کے داخلے کے ایک ہفتہ بعدہی میں وہاں سے چلا گیا تھا۔‘‘ نصر نے مسکراتے ہوۓ کہا۔ اب جو میں نے ذہن پر زور ڈالا توایک ملتی جلتی لڑکپن کی شکل ذہن میں ابھری۔ ی

چائے کی پیالی پہ  پتا چلا کہ مدرسے سے فارغ ہونے کے بعد اسنے ایف ایس سی کی۔ پھر پرائیویٹ کمپیوٹر سائنس کی ڈگری حاصل کی۔ پڑھائی کاسلسلہ بیچ میں منقطع بھی رہا۔ ‘بس کچھ حالات ایسے ہو گئے تھے ، اب اسی سال ڈگری پوری کی ہے۔  پھر نوکری مل گئی ، ویڈیو فارمیٹس پر کچھ تجربہ ہو گیا تھا۔ دوست نے یہاں کا بتایا، میں نے اپلائی کیا اور نوید سر نے مجھے اپنے گروپ میں رکھ لیا‘‘ ۔ ا

’’اچھا تو تحقیق کا شوق جناب کو یہاں تک لے آیا ہے۔‘‘ میں نے تھوڑا چونا لگایا۔

 ’’بس یہی سمجھ لو‘‘ نصر مسکرایا۔

اس دن کے بعد نصر مجھ سے کچھ کھل گیا۔ لیکن باقی لوگوں سے وہ اب بھی فاصلہ ہی رکھتا تھا۔ اس کے رویے کی وجہ سے میرا خوب مذاق بن رہا تھا۔ ا

 اگلی شام ہمارے تحقیقی کمرے میں حسب معمول ڈراینگ روم دانشوری کا دور چل رہا تھا ۔ سواۓ نصر کے سب لوگ اپنا حصہ ڈال رہے تھے ۔  منصور با آواز بلند خبریں پڑھ رہا تھا

’’لو بھئ ! ہندوستان سے تعلقات بہتر کرنے کی اگلی کڑی۔۔۔ مشرف صاحب نے اعلان کیا ہے کہ آزاد اور مقبوضہ کشمیر میں بس سروس شروع کی جائے گی‘‘

’’یار تو کبھی سری نگر بھی جا سکیں گے!‘‘ اسامہ اچھل پڑا۔

’’پتا نہیں پہلے مرحلے میں تو صرف تجارتی ٹریفک کی بات ہو رہی ہے‘‘ ۔ منصور نے مزید تفصیلات پڑھتے ہوئے بتایا۔

میں نے نصر پر اچٹتی نظر ڈالی۔  اسکے چہرے پر ناگواری کے تاثرات نمایاں تھے۔

’’سری نگر جانے کے خواہش مند پہلے مظفر آباد تو ہوآؤ!‘‘ فواد نے اسامہ کا مذاق اڑایا۔

 ’’یہ فوجی ہزاروں شہیدوں کے خون کا سودا کر رہا ہے ۔  دیکھنا اس کا  انجام کیا ہو گا‘‘  نصر نے کسی سے نظریں ملائے بغیر زہر خند لہجے میں اونچی آواز سے کہا۔

  اسکا چہرہ غصے سے لال ہو رہا تھا۔

 اسامہ جواب میں کچھ کہنا چاہ رہا تھا لیکن پھر کچھ سوچ کر سر جھٹک کر رہ گیا۔

کمرے میں تناؤصاف محسوس ہو رہا تھا۔  میں نے وقت دیکھا ۔  چھٹی ہونے والی تھی۔ میں کمپیوٹر بند کر کے جانے کے لئے کھڑا ہو گیا۔ ’’مجھے بس سٹاپ تک چھوڑ دو گے؟‘‘ نصر نے پوچھا۔

ہم پارکنگ کی طرف چلنا شروع ہو گئے۔ ’’اسامہ کی کس بات پرتمہیں غصہ آ گیاتھا؟‘‘  میں اپنی طرف سے معاملہ ٹھنڈا کرنا چاہ رہا تھا۔

’’ تم لوگوں کو کچھ پتاتوہے نہیں بحث کیوں کرتے ہو؟‘‘

 میں سٹپٹا گیا۔ یہ بندہ اپنے آپ کو کچھ زیادہ ہی نہیں سمجھتا۔

’’یار اگر تمہیں کچھ پتا ہے تو ہماری معلومات میں اضافہ کر دو  لڑنے کی کیا بات ہے‘‘ میں نے مذاق کرنے کے انداز میں کہا۔

 ’’مجھےبہت کچھ پتا ہے کیوں میں کشمیر میں جہاد کر تا تھا‘‘۔ ایک لحظے کے لئے تو میں اسکے انکشاف پر ہکا بکا رہ گیا۔

یہ کوئی رنگ بازی تو نہیں کر رہا بعد میں میرا توا لگاتا پھرے- یہ سوچ کہ میں نے کہا

’’جہاد کرنے گئے تھے تو شہید کیوں نہیں ہوۓ؟‘‘ میں نے مذاق جاری رکھنے کی بھونڈی کوشش کی۔

وہ چلتے چلتے ایک دم رک گیا۔ ابھی ہم پارکنگ سے کچھ دور تھے۔

اسنے اپنی قمیض کے بٹن کھولنے شروع کر دئے۔ میں حیران و پریشان تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ ایک جھٹکے سے قمیض اتار کر اسنے اپنے دائیں شانے کے نیچے زخم کے نشان پر ہاتھ رکھا۔ ‘ایک گولی یہاں سے نکل گئی تھی’۔  تیزی سے مڑ کر اسنے اپنی بنیان اٹھادی۔  کمر پر بھی بے شمار زخموں کے نشان تھے۔ ے

’’اگر الله کو میری شہادت منظور ہی نہیں تھی تو میں کیا کر سکتا ہوں‘‘۔ وہ انتہائی جذباتی انداز میں بول رہا تھا۔

میرے پاس کچھ کہنے کی ہمت نہیں تھی۔ بس سٹاپ آنے تک نصر بتاتا رہا کہ وہ کالج میں پڑھائی کرنے کے دوران ایک جہادی تنظیم میں شامل ہوا تھا۔  چار بھائیوں میں تیسرا نمبر ہونے کی وجہ سے گھر میں تو کوئی اسے پوچھتا نہیں تھا ۔ لیکن تنظیم میں پہلے دن سے اسے اہمیت دی گئی۔ ٹریننگ کرائی گئی۔ پرانے جہادیوں کے کارنامے سنائے گئے۔ اسکے ساتھیوں میں پورے پاکستان کی نمائندگی تھی جس میں زیادہ تر پڑھے لکھے نوجوان تھے۔  تھوڑا بہت احوال اسنے کشمیر میں اپنی کاروائیوں کا سنایا۔  بارڈر کیسے کراس کیا جاتاتھا۔  دیہاتیوں میں پناہ کیسے لی جاتی تھی وغیرہ۔  میں کئی سوال کرنا چاہتا تھا جیسے کہ زخمی ہونے پر اسکی واپسی کیسے ہوئی لیکن میری زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی۔  سٹاپ آ گیا۔  نصر موٹر سائیکل سے اتر کر کھڑی بس میں سوار ہو گیا۔ ا

میں نے نصر اور اپنی گفتگو کا ذکر تو کسی سے نہیں کیا تھا۔  دیکھنے میں سب کچھ ویسا ہی تھا لیکن نصر کی موجودگی میں کمرے میں مذہبی سیاسی گفتگو نہیں ہوتی تھی۔  پھر ایک دن نصر غائب ہو گیا۔  اسکے پروفیسر نے ہم سے پوچھا لیکن وہ کچھ بتا کر تو گیا نہیں تھا۔ نوید صاحب نے اسکی پرانی کمپنی سے پتا کیا تو وہاں بھی سب لا علم تھے۔  فون لگ نہیں رہا تھا۔  سر نوید نے وقت ضائع کرنے کی بجائے ایک اور لڑکا بھرتی کر لیا۔  ا

کوئی دو ماہ بعد میرے محلے میں فوتگی ہو گئی۔  مسجد کے ا علان سے پتا چل کہ کچھ روز قبل ہی جو فیملی منتقل ہوئی تھی مرحومہ اسکی خاتون خانہ تھیں۔  جنازہ پڑھنے والوں میں محلے والے تو کم ہی تھے لیکن پھر بھی لوگوں کے لئے مسجد کا پائیں باغ چھوٹاپڑ گیا تھا۔  یہ سب رشتہ دار ہوں گے میں نے سوچا۔  جنازے کے بعد دعا کے لئے لوگ ٹولیوں میں بٹ گئے۔ے

 میں جس ٹولی میں  کھڑا تھا وہاں ایک لڑکا جو نئے آنے والوں کا پرانا  ہمسایہ تھا کہہ رہا تھا۔

’’آنٹی کاخاوند فوت ہو چکا ہے۔  بیٹا پانچ سال پہلے گھر سے جہاد کرنے نکل گیا تھا اور پھرواپس نہیں آیا سنا تھا کہ  شہید ہو گیا۔  میٹرک میں بڑے اچھے نمبر تھے۔  ماں ڈاکٹر بنانا چاہتی تھی ۔اسکی شہادت کے بعد سے ذہنی بیمار ہو گئیں۔  اس محلے میں آنے سے پہلے بیٹی کی شادی کی تھی اور اب نئی جگہ پر بس ایک ملازمہ کے ساتھ رہ رہی تھیں۔‘‘ ں

و”ویسے کمال ہے پانچ سال بعد بھی تنظیم نے یاد رکھا ہے۔  دیکھو کتنے مجاہد آئے ہیں۔  سنا ہے جو شہید ہو جاتا ہے اسکا وظیفہ بھی مقرر کیا جاتا ہے۔  کفن دفن کا انتظام بھی انہوں نے کیا ہے۔  ے

اردگرد کھڑے لوگ حیرت سے سنتےجا رہے تھے اور ساتھ ساتھ سربھی دھن رہے تھے۔

لیکن میرا دھیان  جنازے میں لوگوں کو دلاسا دیتی نوجوان شخصیت کی طرف تھا- پتا نہیں کیوں اسے دیکھ کر میں حیران نہیں تھا – لیکن شدید مایوسی میرا دل ڈبو رہی تھی۔

حافظ صوفی پیشے کے اعتبار سے انجنیئر ہیں جو حرف و قلم سے وابستگی رکھتے ہیں اور حسب توفیق ترجمے میں طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں۔

Tags: , ,

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *