بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی

ایشیا ٹائپ نسخ یا نستعلیق فونٹ میں پڑھنے کے لیے ان ہدایات پر عمل کریں۔

 شمارہ ۸ │ Issue 8

ریاض سہیل

پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی میں ہر دورِحکومت میں بلوچستان کو ایک نیا زخم ملا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگی کا سلسلہ شروع ہوا اور نتیجے میں نئی مزاحمت کار تنظیمیں میدان میں آئیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے آغازِحقوق بلوچستان پیکیج دیکر صوبے کی محرومیاں دور کرنے کی کوشش تو کی لیکن اسی دور میں لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہونے لگیں۔

موجودہ حکومت کے دور میں بلوچستان میں آپریشنز میں اضافہ اور شدت دیکھی گئی ہے، جس کو سرچ آپریشن قرار دیا جاتا ہے۔ فرنٹیئر کور کے اعلامیوں کے مطابق ان آپریشنز کے دوران گزشتہ سال 164 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

ان آپریشنز کا ہدف خاص طور پر آوران، تربت، سوئی، ڈیرہ بگٹی، قلات اور خضدار کے علاقے رہے ہیں، یعنی وہ علاقے جہاں سے مزاحمت کاروں کی قیادت کا تعلق ہے۔

صحافی بشیر بلوچ کا کہنا ہے کہ گزشتہ ادوار میں لوگ اٹھائے جاتے تھے بعد میں ان کی مسخ شدہ لاشیں ملتی تھیں۔ ابھی یہ رجحان ختم ہی نہیں ہوا تھا کہ سرچ آپریشن کا نیا رجحان آیا ہے، جس پر متعلقہ فریقین شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔ اس صورتحال کے باعث مکران اور آوران ضلع سے اب لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

بی ایس او کی رہنما زر گل بلوچ کہتی ہیں کہ ڈیرہ بگٹی، سوئی، کوہلو، کاہان ،چمالنگ، اور گرد ونواح کے علاقے کی اکثریت پہلے سے نقل مکانی کرچکی ہے اب شاپک، شاہرک، ہوشاپ، ہیرونک، ڈنڈار، گیشکور، آواران اور مشکے کے لوگ فورسز کی کارروایوں کے وجہ سے تیزی سے نقل مکانی کررہے ہیں۔

بقول ان کے گذشتہ سال آواران کے زلزلے کے بعد آرمی اور ایف سی نے علاقوں کو فوجی چھانیوں میں بدلنے کے لئے درجنوں کیمپ بنائے اور آئے روز عام آبادیوں پر زمینی و فضائی بمباری جاری رہتی ہے۔

تمپ، تربت، بیلہ اور مشکے میں کارروایوں اور جلے ہوئے گھروں کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر عام ہوئیں، جبکہ بلوچ تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ ان کارروایوں کے دوران معصوم بچے اور خواتین بھی ہلاک ہوئی ہیں۔

بی ایس او آزاد کی چیئرپرسن کریمہ بلوچ کہتی ہیں کہ عسکریت پسند سرمچار پہاڑوں میں ہوتے ہیں اپنے گھروں میں نہیں فورسز عام آبادی کو نشانہ بنا رہی ہیں۔

ایف سی کے اپنے دعووں کے مطابق دس ماہ میں ان سرچ آپریشنز کے دوران مزاحمت کاروں سے مقابلے میں ایک صوبیدار سمیت تین اہلکار ہلاک اور بائیس زخمی ہوئے، جبکہ جنوری میں سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو آئی جی ایف سی نے آگاہ کیا تھا کہ دو ہزار سات سے لیکر جنوری 2014 تک 360 اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں۔

بلوچستان کے صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے کسی کونے میں کوئی آپریشن نہیں ہو رہا ہے، لیکن یہ اختیار وہ کسی بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے سے نہیں لے سکتے کہ ان پر حملہ ہو اور وہ جوابی کارروائی بھی نہ کریں۔ بقول ان کے جب ایف سی، لیویز یا فوج کے قافلے گذرتے ہیں تو ان پر حملے ہوتے ہیں اور وہ جوابی کارروائی کرتی ہیں۔

انسانی حقوق کمیشن کا خصوصی مشن موجودہ حکومت کے دور میں دو بار کوئٹہ کا دورہ کرچکا ہے لیکن اس کو آگے جانے کی اجازت نہیں مل سکی۔ انسانی حقوق کمیشن کے رہنما اسد بٹ کہتے ہیں کہ دنیا میں جہاں بھی فوجی آپریشن ہوتے ہیں وہاں آزاد میڈیا کو رسائی حاصل ہوتی ہے جس سے یہ حقیقت معلوم ہوجاتی ہے کہ کیا ہورہا ہے اور کیا نہیں۔ یہاں حکومتی ادارے پریس رلیز جاری کردیتے ہیں یا جو زرخرید لوگ ہیں وہ خبر بتاتے ہیں، جس وجہ سے اصل حالات اور واقعات سامنے نہیں آتے۔

———————————————————————————————————————————

وقف نہیں۔ خیرات نہیں۔ بیرونی امداد نہیں۔ صرف آپکی مدد درکار ہے۔

سبسکرائب کیجیے یا چندہ دیجیے

———————————————————————————————————————————

گزشتہ سال انیس فروری کو آواران ضلع کے علاقے جھاؤ کے گاؤں ملا زئی میں ایف سی نے پانچ علیحدگی پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ ہلاک ہونے والوں میں محمد نواز بھی شامل تھا جو کراچی کے قریبی صنعتی شہر حب میں ایک فیکٹری میں مزدوری کرتا تھا اور شادی کے سلسلے میں گاؤں آیا تھا۔ اس آپریشن کے دو ہفتوں کے بعد ہمارا اس گاؤں میں جانا ہوا، جہاں کچھ جلے ہوئے مکانات ، مردہ بکریوں کی باقیات کے علاوہ استعمال شدہ گولیوں کے خول اور ان کا بیلٹ موجود تھا۔

ایک کچے گھر میں رخصتی سے قبل ہی بیوگی کا سامنا کرنے والی سترہ سالہ گلشن سے ملاقات ہوئی، جس کا اس مبینہ آپریشن میں دولہا نواز، بھائی اور کزن ہلاک ہوگئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ رات کو وہ سوئے ہوئے تھے کہ انہیں اہلکاروں نے نیند سے اٹھاکر تشدد کا نشانہ بنایا اہلکاروں کو دیکھ کر مردوں میں افراد تفری پھیل گئی۔

مقامی لوگوں نے گاؤں کے ساتھ موجود برساتی نالے کی وہ جگہ دکھائی جہاں نوجوانوں کی صبح کو انہیں لاشیں ملی تھیں، یہ پانچوں نوجوان تعلیم یافتہ نہیں تھے۔ مال مویشی اور بارش کے پانی پر کاشت کرتے تھے۔

پچاس سے زائد گھروں پر مشتمل گاؤں میں کہیں سے بھی سیاست کی وابستگی نظر نہیں آئی۔ وال چاکنگ، کسی جھنڈے یا سیاسی مزاحمتی رہنما کی کسی گھر میں تصویر نہیں تھی لیکن مذہب کی طرف رجحان ضرور تھا شاید یہی وجہ ہے اس کو مولویوں کا گاؤں کہا جا رہا تھا۔

ایف سی نے ہلاک ہونے والے پانچوں افراد کا تعلق بلوچستان لبریشن فرنٹ سے ظاہر کیا لیکن کسی بھی عسکریت پسند تنظیم نے انہیں اپنا قرار نہیں دیا۔ ایف سی کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ شدت پسندوں نے ایف سی کی چیک پوسٹ پر حملہ کیا تھا جس کے جواب میں یہ کارروائی کی گئی۔

جھاؤ میں ایف سی کا کیمپ موجود ہے تاہم جھاؤ سے ملازئی گاؤں کے کچے اور ناہموار راستے پر کہیں بھی کوئی چیک پوسٹ نظر نہیں آئی۔

ملازئی گاؤں میں کارروائی کے دوران اڑتالیس افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔ان میں ایک ملا عیسیٰ بھی شامل تھا جنہیں بعد میں رہا کردیا گیا، انہوں نے بتایا کہ ان کی آنکھیں اور ہاتھ باندھ کر کیمپ میں منتقل کردیا۔ جہاں وہ شور شرابہ سنتے رہے بعد میں آٹھ عمر رسیدہ افراد کو رہا کردیا گیا۔

ملازئی گاؤں سے تقریبا پندرہ کلومیٹر دو کھوڑو گاؤں میں بھی اسی صبح سرچ آپریشن کیا گیا تھا، جہاں بھی نصف درجن کے قریب مکانات کی دیواریں سیاہ نظر آئیں جیسے انہیں آگ لگی ہے۔ ایک نوجوان نے بھی اپنا ایسا ہی گھر دکھایا جس کی چھت سلامت نہیں تھی جبکہ ملبہ زمین پر پڑا تھا۔ کمرے کی دیواریں سیاہ ہوچکی تھیں اور باہر کچھ لوہے کے بکس موجود تھے جن کی کنڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔

نوجوان نے بتایا کہ فجر کا وقت تھا گاڑیوں کے شور پر انہیں گھر والوں نے نیند سے اٹھایا انہوں نے فرار ہوکر پہاڑوں میں جاکر پناہ لی، اسی وجہ سے گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔

*                                    *                                    *

گزشتہ سال بلوچ عسکریت پسندوں نے آواران ضلع میں ایف سی کے قافلوں پر حملے کیے، ڈیرہ بگٹی اور سوئی میں گیس پائپ لائنوں کو نقصان پہنچایا۔ اسی طرح ڈیرہ بگٹی، ڈیرہ مراد جمالی اور سندھ کے شہر جیکب آباد میں ٹرینوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اسی عرصے میں پسنی میں ریڈار نظام پر حملہ کیا گیا۔

وزیر علیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کا دعویٰ ہے کہ صورتحال میں بہتری آئی ہے۔ کوئٹہ، قلات، مستونگ، خصدار اور نصیرآباد میں اکا دکا واقعات پیش آتے ہیں جس میں کبھی پائپ لائن کو اڑایا جاتا ہے تو کبھی ٹرین پر حملے ہوتے ہیں لیکن مجموعی طور پر ان علاقوں میں حالات بہتر ہے۔ عسکریت پسندوں کی کارروایاں تربت، کیچ اور پنجگور تک محدود ہیں، بقول ان کے خصدار اور مکران میں اب بازار اور دکانیں کھلی رہتی ہیں جو اس سے پہلے وبد ہوتی تھیں۔

کراچی میں سرگرم بلوچ یکجہتی کؤنسل کے رہنما وہاب بلوچ نے الزام عائد کیا کہ شاید موجودہ حکومت کو بلوچ تحریک کو کچلنے یا کاونٹر کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے اسی لیے وہ تیزی کے ساتھ آپریشن کر رہے ہیں، اسی حوالے مشکے، پنجگور، گوادر، ڈیرہ بگٹی، خصدار میں یہ سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے۔

وائس فار مسنگ پرسنز کا دعویٰ ہے کہ موجودہ حکومت میں ایک ہزار سے زائد عام شہریوں اور سیاسی کارکنوں کو جبری لاپتہ کیا گیا ہے۔ تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر مالک کی نام نہاد قومپرست حکومت میں صورتحال پیپلز پارٹی کی دور سے بدتر ہوئی ہے۔ ایک طرف آپریشنز میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری طرف لوگ اب درجنوں کی صورت میں اٹھائے جاتے ہیں۔ پسماندہ علاقے میں میڈیا کو رسائی حاصل نہیں جبکہ ان کے پاس بھی درست اعداد وشمار نہیں پہنچتے۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ بلوچستان میں فوج کسی آپریشن کا حصہ نہیں لیکن وہاں کے حالات اس کی نفی کرتے ہیں۔ رواں سال سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو اس وقت کے آئی جی ایف سی میجر جنرل اعجاز شاہد نے بریفنگ میں بتایا تھا کہ ان کے پاس صرف ایک ہیلی کاپٹر ہے، جس کی وجہ سے صوبے کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں جانے کے لیے دو سے تین روز لگ جاتے ہیں۔

آئی جی ایف سی کے اس دعوے کے برعکس ایف سی کی اپنے اعلامیے میں مبینہ سرچ آپریشن کے دوران بیلہ، قلات، پنجگور، تربت ، سوئی ، گندیاری اور خضدار میں ہیلی کاپٹروں کا استعمال کیا گیا۔ ایف سی کے مطابق فورسز کی سپلائی اور رسد، زخمیوں کی منتقلی کے لیے ہیلی کاپٹروں کا استعمال کیا گیا۔

ایف سی ان آپریشن کے تین وجوہات بیان کیں ہیں جن میں ٹرینوں، گیس پائپ لائنوں کو نقصان پہنچانا، یوم پاکستان یعنی 23 مارچ اور یوم آزادی یعنی 14 اگست کی تقریبات میں حصہ لینے والوں کے گھروں پر حملے، تبلیغی جماعت اور مذہبی رہنماوں کو نشانہ بنانا۔ جن کے بارے میں بلوچ تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ شدت پسند فرقہ وار تنظیمیں ہیں جو سیکیولر بلوچ کو ذکری اور نمازی میں تقسیم کر رہی ہیں۔

———————————————————————————————————————————

یہ مضمون آپ تک پہنچنے کے لیے ہمارے خون پسینے کے علاوہ روپیہ پیسہ بھی خرچ ہوا ہے۔

سبسکرائب کیجیے یا چندہ دیجیے

———————————————————————————————————————————

آواران میں زلزلے میں مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں کو بحالی کے مرحلے میں حصہ لینے کی اجازت نہیں مل سکی تھی۔ یہ خلا جماعۃ دعوۃ، جیش محمد کے الرحمت ٹرسٹ اور دیگر جہادی فکر رکھنے والی تنظیموں نے پورا کیا تھا۔

انسانی حقوق کمیشن کے رضاکار اسد بٹ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں الشمس اور البدر کی طرز پر تنظیمیں کام کر رہی ہیں جو عام لوگوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ کمیشن کے مشن میں یہ شکایت عام تھیں اور انہیں کوئی روکنا والا نہیں ہے۔
پوری دنیا میں بلوچستان اس وقت انسانی حقوق کی تنظیموں کے ریڈار پر نمودار ہوا تھا جب رواں سال جنوری میں خضدار کے علاقے توتک سے اجتماعی قبر دریافت ہوئی تھی۔ حکومت کا موقف ہے کہ اجتماعی قبر سے سترہ لاشیں مل تھیں، جبکہ ایشین ہیومن رائٹس کا دعویٰ ہے کہ یہ تعداد 150 ہے۔ اسی طرح بلوچ یکہجتی کؤنسل کے رہنما وہاب بلوچ کا دعویٰ ہے کہ صرف ایک قبر سے 169 لاشیں ملی تھیں اور یہ اس وقت کہ ڈپٹی کمشنر کا موقف تھا۔ بعد میں دباؤ میں آکر وہ اپنے موقف سے دستبردار ہوگئے تھے۔ تاہم بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک اس کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی تک صرف ایک ہی قبر برآمد ہوئی ہے۔

اجتماعی قبر سے برآمد ہونے والی لاشوں میں سے صرف نصیر اور ان کے کزن قادر بخش قلندرانی کی شناخت ہوئی تھی جبکہ دیگر کی شناخت بھی ہونا باقی ہے۔

نصیر اور قادر بخش آوران کے گاؤں پیراندر کے رہائشی تھے۔ نصیر زلزلے کے کچھ دنوں بعد گاؤں سے آواران جاتے ہوئے لاپتہ ہوگئے تھے۔ تعلیم سے محروم 23 سالہ نصیر ابوظہبی میں چرواہے کا کام کرتے تھے، جس کا ثبوت ان کے پاسپورٹ پر درج تھا ۔ جبری گمشدگی سے چند ماہ پہلے وطن واپس آ کر انہوں نے گاؤں میں پرچون کی چھوٹی دکان کھولی تھی۔ ان کی دکان یا گھر سے کسی کا بھی کوئی سیاسی تعلق نہیں رہا تھا۔
نصیر قلندرانی کے بڑے بھائی زباد میڈیکل ٹیکنیشن ہیں لیکن علاقے میں لوگوں کا علاج معالجہ بھی کرتے ہیں اس لیے ڈاکٹر کے طور مشہور ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بلوچی نیوز چینل پر بھائی کا نام دیکھ کر کزن نے انہیں موبائیل فون پر آگاہ کیا، جس کے بعد وہ راتو رات سفر کرکے خضدار ہپستال پہنچے۔
انہوں نے بتایا کہ لاشیں برآمد ہونے اور ہپستال منتقل ہونے کے باوجود ان کے ہاتھ اور آنکھیں بندھی ہوئی تھیں۔ انہوں نے 12 لاشیں دیکھی تھیں جن میں سے نصیر کی لاش کی شناخت کی۔ انہیں اس وجہ سے آسانی ہوئی تھی کہ جب وہ لاپتہ ہوئے تھے تو ان کے کپڑوں کا رنگ انھیں یاد تھا حالانکہ نصیر کا چہرہ بہت مسخ تھا لیکن اس کے باوجود پہچان لیا۔

توتک کے جس علاقے سے اجتماعی قبر ملی، وہاں قلندرانی قبیلہ آباد ہے۔ زباد کہتے ہیں کہ ان کا تعلق تو قلندرانی قبیلے سے ضرور ہے لیکن توتک سے ان کا کبھی کوئی واسطہ نہیں رہا۔

———————————————————————————————————————————

پاکستان کی کہانی سنانے کے لیے آزاد میڈیا کی تشکیل میں ہماری مدد کیجیے۔

سبسکرائب کیجیے یا چندہ دیجیے

———————————————————————————————————————————

بلوچستان حکومت نے لاپتہ افراد کے لواحقین اور ہلاک ہونے والوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کا اعلان کیا تھا، لیکن تاحال اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے، جس نے انسانی حقوق کی تنظیموں اور لواحقین کے ذہنوں میں شکوک و شبہات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

روزنامہ ڈان سے منسلک سحر بلوچ واحد صحافی تھیں جو توتک پہنچنے میں کامیاب ہوئی تھیں۔ انہوں نے اپنی رپورٹ میں ایک اہلکار کے حوالے سے تحریر کیا تھا کہ اس قسم کی کئی اور لاشیں منتظر ہیں کہ انہیں بھی دریافت کیا جائے۔

ان قبروں کی دریافت کے بعد خاص طور پر خضدار میں سرگرم مسلح دفاع بلوچستان نامی گروہ کا کافی چرچا رہا اور وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے بالاخر یہ کہہ دیا کہ کچھ غیر ریاستی عناصر حکومت کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ مقامی حالات اور دباؤ کے بعد یہ گروہ پس منظر میں دیکھا گیا۔

ایف سی کا سرچ آپریشن دیگر علاقوں سے ہوتا ہوا خضدار پہنچ گیا۔ مینگل سردار اور سینئر سیاست دان سردار عطااللہ مینگل کے گاؤں وڈھ میں بھی کارروایاں کی گئیں۔ ایف سی نے وہاں سے لشکر بلوچستان کے عسکریت پسندوں کی گرفتاری ظاہر کی۔ لشکر بلوچستان کے سربراہ جاوید مینگل ہیں جو سردار عطااللہ کے فرزند ہیں۔

بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ میڈیا میں سیلف سینسر شپ کا شکار ہوجاتا ہے۔ حضدار میں صحافیوں کے قتل کے واقعات کے بعد پریس کلب بند کردیا گیا، کوئٹہ میں صحافی ارشاد مستوئی دو ساتھیوں سمیت ہلاک ہوئے۔ اس صورتحال میں بلوچ تنظیموں نے کراچی پریس کلب کا سہارا لیا لیکن حامد میر پر قاتلانہ حملے نے کئی اداروں اور صحافیوں کے لیے غیر اعلانیہ وارننگ جاری کردی۔

کراچی میں پنجاب کے مقبول انگریزی روزنامے سے منسلک صحافی رمضان چانڈیو نے جب وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا مارچ کور کیا تو ان کے لیے کئی لوگوں نے مشکلات پیدا کردیں۔ وہ کہتے ہیں کراچی میں جیئے سندھ قومی محاذ کے فریڈم مارچ کی کوریج پر بھی انہیں باز رہنے کے پیغامات موصول ہوئے۔

میڈیا کی خود کو محفوظ رکھو اور دور رہو کی پالیسی نے ریاستی اداروں کو ایسا موقعہ فراہم کردیا ہے، جس میں ان سے اب کوئی سوال کرنے والا نہیں رہا۔ گزشتہ حکومت کے برعکس موجودہ حکومت میں تمام سیاسی جماعتیں بھی خاموش ہیں۔ صوبائی اسمبلی، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی بلوچستان سے لاتعلقی کا اظہار واضح ہے۔ جس وجہ سے بلوچستان آئسولیشن کا شکار ہے۔

پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے حملے اور بچوں کی ہلاکت کے بعد بظاہر پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے اپنی حکمت عملیاں تبدیلی کی ہیں، اب ملزمان کو سزائیں دلوانے کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی جارہی ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ کسی بھی سیاسی کارکن کا ان عدالتوں میں ٹرائیل نہیں کیا جائے گا۔ بی ایس او آزاد سمیت کئی بلوچ تنظیموں کو پہلے ہی حکومت پابندی عائد کرچکی ہے۔ اس صورتحال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ سال بلوچوں کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں لائے گا۔

ریاض سہیل بی بی اردو کے رپورٹر ہیں۔

Tags: , , , ,

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *