سانحہ پشاور: تنقید کا بیان

 شمارہ ۸ │ Issue 8

ایشیا ٹائپ نسخ یا نستعلیق فونٹ میں پڑھنے کے لیے ان ہدایات پر عمل کریں۔

PESHAWAR

فوٹو گرافی: رائٹرز پاکستان

۱۶ دسمبر ۲۰۱۴ء کو پشاور کے آرمی پبلک سکول میں۱۳۲ معصوم بچوں اور ۹ افراد کا سفاکانہ قتلِ عام پاکستان کی نا قابل رشک  حالیہ تاریخ کا  ایک  گھناؤنا اور تاریک باب ہے۔ کچھ اور  کہنے سے پہلے ہم ان معصوم بچوں کے والدین، دوستوں اور عزیز اقارب کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا چاھتے  ہیں۔  سچ تو یہ ہے کہ ہم  آپ کے دکھ درد اور اسکی شدت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔  ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے  الفاظ اس صدمے کا مداوا تو کجا اسے مناسب طور سے بیان کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔

ہم اس بربریت اور ناقابل یقین ظلم و ستم  پر تحریکِ طالبان اور مذہب کے نام پر قتل و غارت کرنے والی تمام تنظیموں اور گروہوں کی شدید مذ مت کرتے ہے۔ ہم مذ مت کرتے ہیں ریاست کی غیر موجودگی، ناا ہلی  اور تشدد پسند انسان دشمن پالیسیوں کی، حکمران اور بالادست طبقات کے بے حس اور جابرانہ رویے کی،  اور عام عوام کی مقفل سوچ کی جو اسلام اور نظریہ پاکستان کے نام پر اپنی اور حکمرانوں کی سنگین غلطیوں اور خامیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے غیر ملکی عناصر یا غیر مسلموں  کو دوش دے کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔

اب اس بات کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ جس ملک میں معصوم بچوں کو نظریات، سیاست اور مذہب کے نام پر سفاکانہ انداز میں قتل کیا جائے تو وہاں مسئلہ کی نوعیت بہت بنیادی ہے۔  ان بچوں، بلکہ ظلم و تشدد کا نشانہ بنتے رہے تمام بچوں، اور آنے والی نسلوں کے سامنے واشگاف لفظوں میں اعتراف کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے انسانی جانوں کو سستا سمجھ کر ریاستی نظریات، مخصوص مذہبی تشریحات اور حکمران طبقات کے مالی و ذاتی مفادات کو قیمتی تصور کر لیا ہے۔ کسی انسانی معاشرے  میں ایسے  رویے کی گنجائش نہیں ہو سکتی۔

ہمارے  نزدیک یہ ہیبتناک واقعہ جنگ و تشدد کے ایک ایسے سلسلے کی کڑی ہے جس کے پیچھے کئی لوگوں اور گروہوں کا ہاتھ ہے۔ اس میں اسلام کے نام پر ڈنڈہ، تیزاب، بم اور گولی کی سیاست کرنے والے تحریک طالبان اوردیگر شرپسند، فرقہ پرست اور جہادی گروہ شامل ہیں جنہوں نے اسلام کے نام پر معصوم بچوں، مذہبی اقلیتوں، سیاسی کارکنان، ہزارہ شیعہ اور دیگر سنی و شیعہ قوموں اور عام عوام میں قتل و غارت کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ اور اس بازار میں انسان دشمن ترجیحات کی بنیاد پر سامراجی قوتوں اور فوج و ریاست کے لین دین سے ان گروہوں کو پروان چڑھنے کا موقع بھی ملا۔ ساتھ ہی ساتھ جہاد کشمیر، غزوہ ہند، افغان جہاد اور امریکہ، انڈیا یا اسرائیل پر الزام لگانے والی سوچ کو پروان دینے والی فوج، میڈیا، مذہبی شخصیات، نام نہاد دانشوروں کا بھی کردار ہے۔

عوام میں رجعت پسندی اور تشدد کی حمایت کو پروان دینے میں مذہبی گروہوں کے علاوہ ریاستِ پاکستان اور فوج کا بہت اہم کردار ہے جس نے حکمران طبقہ کے مفادات، اپنی زمینوں اور کاروباروں کو تحفظ دینے کے لیے عوام کی آنکھوں میں نظریہ پاکستان اور اسلام کی سربلندی  کی دھول بھی جھونکی ہے۔ ہماری فوج ایک طرف کچھ شر پسند گروہوں کی پشت پناہی کرتی ہے، کچھ  دوسرے گروہوں (جن میں طالبان کے کئی دھڑے بھی شامل ہیں) کی طرف آنکھیں بند کئے  رکھتی ہے۔ اور دوسری طرف ضرب عضب جیسے فوجی آپریشن چلا کر وزیرستان اور دیگر علاقوں میں طاقت کا بے دریغ استعمال کرتی  ہے۔ ہمارے نمائندوں نے  جنگ زدہ علاقوں  کی رپورٹنگ کے دوران  وہاں  کے عام شہریوں کی جان و مال کو ہونے والے نقصانات کی نشاندھی کی ہے جس میں فوجی آپریشن  میں  معصوم بچوں  کی ہلاکت بھی شامل ہے۔ اندرونی نقل مکانی سے متاثر شدہ لوگوں کی حالت زار تو سب کے سامنے ہے۔

فوج کی اسی دوغلی اور ناکام پالیسی کی وجہ سے یہ ادارہ اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔ جرنیلوں کی نا اہلی کا اس سے بڑا  کیا ثبوت ہو گا کہ وہ سپاہیوں اورنچلے افسران کی جانوں کو  تزویراتی گہرائی  جیسے خیالوں پر تو  قربان کیے دیتے ہیں جبکہ ان کے بچوں کے سکول کو تحفظ دینے میں بھی کامیاب نہیں۔

فوج کے علاوہ حکمران طبقات اور سامراجی قوتوں نے پشتون علاقوں میں گزشتہ تیس پینتیس سالوں سے جنگ کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اس جنگ میں سب سے زیادہ جانیں پشتون قوم کو گنوانا پڑیں۔ سعودی عرب، امارات اور ایران کے علاوہ پنجاب اور ملک کے دیگر علاقوں سے مختلف دہشت گرد عناصر کی مالی و جانی امداد کی جاتی ہے اور فوج اور سیاست دان ان گروہوں کی سرپرستی اور پشت پناہی بھی کرتے ہیں۔ لیکن فوج، ریاست، اور سیاستدان اس مسئلہ کے حل کے لیے ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر سیاسی اور عملی کاروائی کرنے کے بجائے صرف پشتون قبائلی علاقوں کواپنی بندوقوں اورتوپوں کی زد میں لائے ہوئے ہیں۔

ان فوجی آپریشنوں  میں  شفافیت  کا عنصر  عنقا ہے۔  تنقید کی تحقیق کے مطابق میڈیا کو ان علاقوں میں آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت نہ ہونے کے باعث  مین سٹریم میڈیا نےمعلومات کے لیے زیادہ تر فوجی یا سرکاری ذرائع کا سہارا لیا ہے۔ اس سے آپریشن کی کامیابی یا ناکامی کا تعین کرنا تو دور کی بات، اس میں کی جانے والی کاروائی پر کوئی آزادانہ رائے رکھنا ممکن نہیں۔ اگرفوجی کاروائیوں میں دہشت گرد مارے جاتے ہیں تو انکے کوائف اور خاندانی تعلقات کو منظر عام میں لانے پر کیا تامل؟ ان کاروائیوں میں صرف دہشت گرد مارے جانے کی رپورٹیں کیوں ملتی ہیں اور کیا عام لوگ اس کی زد میں نہیں؟

اب تک  دہشت گردی کے خلاف  جو ریاستی حکمت عملی  سامنے  آئی  ہے اس میں  پھانسی سزائوں کی فوری  بحالی اور  فوج کی  سربراہی میں  خصوصی  عدالتوں کا قیام  شامل ہے۔ جن  مجرموں کو  ترجیحی بنیادوں پر پھانسی دی جا رہی ہے  وہ زیادہ تر فوجی جرنیلوں اور تنصیبات پر حملوں میں ملوث ہیں ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا سزائے موت ان دہشت گردوں کو ڈرا سکتی ہیں جن کا مقصد ہی موت پھیلانا ہے؟ کیا ہم بدلہ یا انتقام لینا چاہتے ہیں یا دیر پا حل کی تلاش میں ہیں؟

ہمیں یہ خدشہ بھی  ہے کہ پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی لانے کی بجائے، فوج و حکومت کا احتساب کرنے کی بجاۓ سانحہ  پشاور  کے ردعمل  میں فوج کو مزید کھلی چھوٹ دی جا رہی ہے جس سے ملک میں تشدد کے چکر کو مزید طقویت ملے گی۔ اس بات کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ انسداد دہشت گردی کے قوانین اور اختیارات کااستعمال سیاسی کارکنان اور قوم پرست تحریکوں کے خلاف بھی کیا جاتا رہاہے اور آئندہ بھی متوقع ہے۔  جیسا کہ گزشتہ سال بلوچستان میں فوجی آپریشن میں اضافہ ہوا ہے جس سے وہاں کے حالات آئے دن بگڑتے جا رہے ہیں۔ بلوچ نوجوانوں، بچوں، عورتوں، بوڑھوں پر گن شپ ہیلی کاپٹروں سے آپریشن کیا جا رہا ہے۔   چند روز پہلے بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشوں کی طرز پر سندھ میں قوم پرستوں کی لاشیں بھی ملی ہیں۔   یہ ریاستی دہشت گردی کی بدترین مثالیں ہیں۔ اسی طرح کئی سیاسی کارکنان ، یونین رہنما، اور مزدور رہنما بھی انسداد دہشت گردی عدالتوں میں سزا پا کر جیل بھگت رہے ہیں۔

سماجی، ریاستی اور غیر ریاستی تشدد کی یہ مختلف شکلیں ہیں اور ان کا استعمال پھانسی کے پھندے، گولہ باری، یا انتقام کے نعرے لگانے سے ہرگز نہیں ہوگا، بلکہ ایسا کرنے سےحالات مزید بگڑ جانا یقینی ہے۔

ہمارے  نزدیک اس مسئلے کے حل کے لیے سب سے پہلے ریاست اور فوج کو اپنی دو ہری پالیسی تبدیل کرنا پڑے گی۔ بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کی بجائے تمام تشدد پسند گروہوں کی  مالی و جانی امداد کرنے والوں کو روکنا پڑے گا۔ اسلام کے نام پر لوگوں کا قتل عام کرنے والے تمام عناصر، چاہے وہ طالبان ہوں، فرقہ وارانہ تنظیمیں ہوں، عیسائیوں، ہندو و ں یا دیگر اقلیتوں کو نشانہ بنانے والے مذہبی شر پسند ہوں، ان تمام گروہوں پر پابندی لگا کر ریاستی ڈھانچے اور اس سے جڑے بیانیہ کو نئے سرے سے تشکیل دینا ہو گی۔ پشتون علاقوں میں بمباری کرنے کے بجائے مقامی سیاسی عناصر کو تحفظ فراہم کرنے کی پالیسی تشکیل دینا ضروری ہے۔ غیر ریاستی عناصر کا مساجد پر قبضہ اور پھر ان مساجد سے نفرت انگیز  پراپیگنڈہ بند ہونا چاہیے۔

لیکن شاید ریاست اور فوج سے اس مسئلے کے حل کی توقع رکھنا کم عقلی کی نشانی ہے۔ جس ملک کی ریاست اور سماج میں جنگ وتشدد کا سلسلہ کئی سالوں سے چلا آ رہا ہو وہاں سانحہ پشاور جیساالمناک واقع نہ تو انوکھا  ہے اور نہ  ہی غیر متوقع۔ کئی برسوں سے اس دھرتی میں جھوٹے خداووں پر اپنی نئی نسلیں قربان کرنے کا رواج قائم ہے۔  کبھی مذہب اور اسلام کے نام پر طالبان جیسی فاسطی اور رجعتی تنظیمیں ان  بچوں کو سکولوں میں مار دیتی ہیں تو کبھی اسکولوں کو دھماکوں سے اڑا دیتی ہیں۔ کبھی فرقہ کی بنیاد پر شیعہ اور ہزارہ شیعہ نوجوانوں کا قتل عام کیا جاتا ہے۔ کہیں احمدی، ہندو، عیسائی اور دیگر مذاہب  کے بچوں کو زندہ جلا یا جا رہا ہے، زبردستی اسلام قبول کروایا جا رہا ہے،  توہین رسالت یا قرآن کی بے حرمتی کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ کہیں فوجی آپریشنوں میں گولہ باری سے بچے مر رہے ہیں تو کہیں نقل مکانی کرتے ہوئے معصوم بھوک اور تھکن سے جاں بحق ہو رہے ہیں۔ کہیں غداری اور ملک دشمنی کا لیبل لگانے کے بعد بلوچ اور اب سندھی نوجوانوں اور بچوں کی تشدد شدہ گولیوں سے بھنی ہوئی لاشیں خونی سڑکوں پر پھینکی جا رہی ہیں۔ کہیں  کراچی جیسے بڑے شہر میں نسلی اور قو میتی بنیادوں پر خانہ جنگی کا سما ہے۔  کہیں امریکی ڈرون حملوں میں بچے مر رہے ہیں۔  اور بھوک سے سسک سسک کر مرنے والے بچوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔

ہم تنقید کے پلیٹ فارم پر ان مسائل پر مضامین اور تبصرہ شایع کرنے کی سعی جاری رکھیں گے۔ لیکن ہم سب کو مزید کام کرنا ہو گااور سماجمی میں عملی اور سیاسی روابط بڑھانے پڑیں گے۔ اسی لیے ہم اسلام آباد اور پھر دوسرے شہروں میں  طالبان ہمدردوں کے خلاف خودرو عوامی مزاحمت کے آغاز کو ایک خوش آئند  پیش رفت سمجھتے  ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ طلباء، محنت کشوں اور خواتین کی نمائندہ تنظیمیں بھی  اس  تحریک کا حصہ بنیں تا کہ دہشت گردی اور مذہبی منافرت کے خلاف ایک  وسیع تر متحدہ عوامی محاذ  تشکیل پا سکے۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی ترقی پسند سیاسی جماعتوں، پراگریسو قومی تحاریک،  بائیں بازو کی پارٹیوں اور تنظیموں اور دیگر حلقوں کو ریاست یا فوج سے امید لگانے کے بجائے آپس کے روابط بڑھا کر طویل مدتی جدو جہد کرنے کی ضرورت ہے۔

 

مدیران تنقید

دسمبر ۲۰۱۴ء

Tags: , , , , , ,

3 Responses to

سانحہ پشاور: تنقید کا بیان

  1. وقار علی روغانی on Jan 2015 at 3:27 AM

    مدیران تنقید نے مجھے زبان دی ہے ۔ کم و بیش یہی رائے میری بھی ہے ۔ لیکن مجھے آپ سے اس بات پر کہ “عوام میں رجعت پسندی اور تشدد کی حمایت کو پروان دینے میں مذہبی گروہوں کے علاوہ ریاستِ پاکستان اور فوج کا بہت اہم کردار ہے – See more at: http://www.tanqeed.org/2014/12/peshawar-statement-urdu/#sthash.YdBuPCt4.dpuf” پر اختلاف ہے ۔ اس جملے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جہادی کلچر کو پروان چڑھانے کے اصل ذمہ دار مذہبی گروہ ہیں حالانکہ ایسا نہیں یہ گروہ صدیوں سے یہی سوچ کے حامل رہے ہیں لیکن یہ خطرناک تب بنے جب انہیں ریاست پاکستان اور افواج پاکستان کی شہہ اور بھرپور مدد ملی ۔ اس لئے جہادی کلچر کی بنیادی ذمہ داری ریاست پاکستان اور افواج پاکستان کے سر ہے ۔ پختون قوم کو پہلے جہاد کے نام پر اور اب دہشت گردی کے نام پر قتل کیا جارہا ہے ؛ ہمیں سمجھ نہیں آرہی کہ ہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *