مہاتما جی اور نیتا جی:مقبول سیاست بمقابلہ لیفٹ؟

Gandhi and Subhas Chandra Bose

گاندھی اور ’’نیتا جی‘‘ سبھاش چندرا بوس

اخباری تجزیوں کی حد تک تو لگتا ہے کہ ہماری سیا ست میں بائیں بازو کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ اپنے اپنےانداز میں دانشور بائیں بازو/ترقی پسند/سوشلسٹ سیاست کے فائدے گنوارہے ہیں۔ عاصم سجاداختر نے این ایس ایف کا حوالہ دیتے ہوۓ یونیورسٹیوں میں  پھر سے ابھرتی  لیفٹ کی سرگرمیوں کو خوش آئند  قرار دیا ہے۔ انہیں نے اس عالمی رحجان کا بھی ذکر کیا جس کے تحت  سیاست کو  سرمایا دارانہ اثر کے تحت  دائیں اور بائیں بازو کی تفریق کی بجائے  صحیح اور غلط  کی سمت میں دکھیلا جا رہا ہے۔ یاسر لطیف ہمدانی نے ڈیلی ٹائمزمیں لکھتے ہوئے لیفٹ ، لبرل  اور سیکولر حلقوں کو ایک مشترکہ ایجنڈہ تشکیل دینے کا مشورہ دیا ہے۔ لال خاناورسعیداظہراپنے کالموں میں بلاو ل بھٹو زرداری کو پیپلز پارٹی کے مردہ  گھوڑے میں جان ڈالنے کے لئےاس کی سوشلسٹ بنیادیں یاد کرواتے رہتے ہیں۔

اتنی تمہید باندھنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی  کیونکے  آجکل سیاست بھی فلموں کی طرح ہٹ یا فلاپ  کے خانوں میں بٹی ہے۔ پیچیدہ اور مشکل  مسائل کے نیم دلانہ ، روایتی اور  یک رخے حل پیش کرنے کا رحجان بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ایسے میں خیال آتا ہے کہ  ماضی میں بائیں بازو اور  مقبول سیاست کے تصادم سے کیا امکانات ابھرے ہیں؟ ماضی  قریب میں اس سلسلے کی ایک دلچسپ مثال ہمیں غیر منقسم ہندوستان  کی دو قدآور  سیاسی شخصیات کے باہمی تعلقات  میں دکھائی دیتی ہے۔

سگاتا بوس  ہارورڈ یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر ہیں۔’نیتا جی’ سبھاش چندرا بوس انکےداداسرت چندرابوس کے چھوٹے بھائی  تھے۔ سگاتا بوس کی کتاب ‘ہز مجسٹیز اپپونینٹ ‘1 نے نیتا جی کی  سیاسی علمی اور ذاتی زندگی کا زبردست احاطہ کیا ہے۔ خاندانی  معلومات ، نیتا جی ریسرچ بیورو  (جسے  سگاتا بوس کے والد سیسر کمار بوس نے بڑی جانفشانی سے ایک ادارے  کی شکل دی تھی ) تک رسائی اور جا بجا  حوالہ جات نے کتاب کو  کافی معتبر بنا دیا ہے۔

مہاتماگاندھی اور سبھاش چندرا بوس کی ٹسل کتاب کے مرکزی موضوعات میں سےایک ہے۔ ایک لحاظ سےاس کشمکش میں مقبولیت کی سیاست کا سوشلزم سے مقابلہ دکھائی دیتا ہے۔ بقول مصنف ،١٩٢٠ کے بعد سے اپنی موت تک  گاندھی جی ہندوستان کے مقبول ترین سیاسی رہنما تھے۔ فلسفہ عدم تشددانکے لئے بہت اہم تھا۔ ہندوستان کی آزادی کا واحد قابل عمل راستہ  انکے نزدیک عدم تشدد کے اصولوں پر مبنی احتجاجی  تحریک تھی۔ انڈین نیشنل کانگریس میں ایک  بااثردھڑے  پر انکا کنٹرول تھا جو پارٹی کی کوئی بھی کاروائی گاندھی جی کی مرضی کے بغیر نہیں ہونے دیتا تھا۔ گاندھی جی کے زیر اثر کانگریسی  گروپ برطانوی  دولت مشترکہ کے اندر ایک خودمختار ہندوستانی  ریاست کے قیام  پرمذاکرات کے حق میں تھا۔ اس کے برعکس سبھاش چندرا بوس١٩٢١میں گاندھی جی سے پہلی  بار ملنے کے بعد سے ہی آزادی ہند بارے انکے پلان سے متفق نہیں تھے۔ سبھاش ہندوستان کی مکمل آزادی کے داعی  تھے اور اسکے لئے پر امن یا  مسلح  ہر طرح  کی عوامی مزاحمت  کا آپشن کھلا رکھنا چاہتے تھے۔ پھر آزادی کے بعد سبھاش ہندوستان کی سوشلسٹ تعمیر نو  پر یقین رکھتےتھے جب کہ گاندھی جی کا موقف اس بارے میں مبہم تھا۔ لیکن مقبولیت کے اعتبار سے کسی بھی جمہوری نظام میں گاندھی جی کا پلڑا بھاری رہنے کا امکان تھا۔

Gandhi and Subhas Chandra Bose with other members of the Indian National Congress

گاندھی جی اور سبھاش چندر بوز کانگرس کے دیگر ممبران کے ساتھ

نو آبادیاتی راج کے خلاف غیر لچک دار  مخالفت نے  سبھاش چندرا بوس  کا سیاسی سفر جلاوطنی اور قید تنہائی سے عبارت رکھا۔ اس دوران وہ بنگال کے اہم ترین کانگریسی لیڈر بن کر ابھرے۔ کسانو ں اور مزدوروں کو اپنے بیانات میں ہندوستان کا مستقبل قرار دینے کی وجہ سے وہ مسلمانوں اورنچلے  طبقات میں بھی مقبول تھے۔ ١٩٣٨ میں سبھاش انڈین نیشنل کانگریس کے صدر چنے گئے۔ ہری پورہ  میں اپنے صدارتی خطاب میں سبھاش  نے  ہندوستان میں مختلف قومیتوں کو ہندوستان کا حسن قرار دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ  پر امن بقائے باہمی کی منزل ہندوستان میں ابھی دور ہے۔ لیکن ان کا ماننا تھا کہ ہندوستانیوں کا متحدہ محاذ  برطانوی راج کا موثر مقابلہ کر سکتا ہے۔  جہاں  گاندھی ہندوستان کی آزادی  کے بعد  کانگریس  کو ختم  کر دینے کےقائل  تھے۔ وہاں  نیتا جی نے پارٹی کے اندر جمہوریت کو مضبوط کرنے پر  زور دیا   کہ اس سے آزادی کے بعد بھی پارٹی  آمریت کا راستہ روکنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی تھی۔ ایک اور چیز جو کانگریس کے کچھ بڑوں کو (صنعتی قربت کی وجہ سے ) پسند   نہیں آئی  وہ  سبھاش کی یہ تجویز تھی کہ کانگریس کو مزدوروں اور کسانوں کی تنظیموں  کو اجتماعی  رکن بنا لینا چاہیے۔ بہرحال  اگلا سال نیتا جی نے بہ حیثیت  کانگریس  صدر ہری پورہ  میں پیش کردہ اپنے ایجنڈے کو آگے  بڑھانے میں  لگایا۔

گاندھی جی اور سبھاش  کے تعلقات میں سب سے اہم موڑ ١٩٣٩ میں کانگریسی صدارتی الیکشن میں آیا۔  بائیں بازو کے کسی مناسب امیدوار  کی عدم موجودگی نے سبھاش چندر بوس کو قائل کر لیا تھا کہ وہ خود  دوبارہ  صدر کے الیکشن میں حصّہ لیں۔  دائیں  بازو کے کانگریسی لیڈران  کی پہلی پسند ابولکلام آزاد تھے لیکن  آزاد نے عقل مندی سے کام لیتے ہوئے سبھاش کے خلاف لڑنے سے معذرت کر لی۔ اس پر گاندھی جی کی مرضی  سے  آندھرا سے لیڈر پتا بھی  ستارا مییا کو اتارا گیا۔ الیکشن سے پہلے تک ماحول میں  کافی تناؤ رہا۔ گاندھی جی کے  کیمپ سے  سبھاش پر غیر جمہوری اور فاشسٹ ہونے کے الزام لگائے  گئے۔ سردار پٹیل نے تو سبھاش کے بڑےبھائی (اور مصنف کے دادا)  کو تحریری طور پر لکھ بھیجا کہ نیتا جی کا دوبارہ چناؤ ہندوستان کے لئے نقصان کا سبب بنے گا۔ پہلی دفعہ کانگریس میں گاندھی جی کے اثر کو عوامی فورم پر للکارا گیا تھا  لہذا دائیں بازو کا ردعمل بھی شدید تھا۔

اس سب کے باوجود ١٩٣٩ کے کانگریسی صدارتی الیکشن میں سبھاش  چندر ا بوس کامیاب ہوئے۔ انھیں ١٥٣٠جبکہ انکے مقابل   پتا بھی  ستارا مییا  کو ١٣٧٥ ووٹ ملے۔ سبھاش چندرا  بوس کو  بنگال کے علاوہ  پنجاب، یونائیٹڈ پروونس، کرناٹکا، کیرالہ  اور تامل ناڈو سے  کامیابی ملی۔ جبکہ  متوقع طور پر گجرات اور آندھرا  سے وہ شکست کھا گئے۔  گاندھی کی مخالفت  کے باوجود سبھاش ملک کے  بڑے حصے سے کانگریسی نمائندوں کا اعتبار حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔

گاندھی جی الیکشن کے نتائج سے سخت مایوس تھے۔ انہوں نے اس ہار کو اپنی ذاتی شکست ما نا کیونکہ ستارا مییا کا نام گاندھی جی ہی نے تجویز کیا  تھا۔ الیکشن کے بعد شکست تسلیم کرتے ہوئے مہاتما  نے ایک معنی خیزبیان داغا کہ ’’سبھاش ملک کا  دشمن تو نہیں اسنے ہندوستان کے لئے بہت تکالیف برداشت کی ہیں‘‘۔

اگرچہ کہ صدر منتخب ہونے کے بعد سبھاش نے گاندھی جی  سے اختلافات ختم کرنے کی اپیل کی لیکن یہ  صاف ظاہر تھا کہ کانگریسی صدر پارٹی معاملات نہیں چلا پائے گا کیونکہ گاندھی جی کا حلقہ اثر اس کے ساتھ کام کرنے کو بالکل تیار نہیں۔ ان حالات میں سبھاش نے دوسری بار کانگریس  کا صدر منتخب ہونے کے چار ماہ بعد استعفیٰ دے دیا۔ وہ خود تو  انڈین  نیشنل کانگریس نہیں  چھوڑنا چاہتے تھے لہٰذا  انہوں نے کانگریس میں ایک ’’فارورڈ بلاک‘‘ کی بنیاد رکھی  جس کا مقصد کانگریسی ممبران کو  ’’انقلابی‘‘ نظریات کی طرف مائل کرنا تھا-  کچھ ہی  مدت بعد پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے پر سبھاش چندرا بوس پر کسی قسم کا پارٹی عھدہ رکھنے پر پاپندی لگا دی گئی۔   خراب صحت کے باوجود دو سال کے اندر  سبھاش  آزاد ہند فوج کھڑی کرنے  براستہ افغانستان جرمنی اور پھر جاپان  فرار ہو گئے۔

مولانا آزاد نے اپنی کتاب2 میں ایک مزیدار بات کا ذکر کیا ہے۔ انکے مطابق سبھاش کے فرار اور دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں  نے مہاتما گاندھی کو عجیب ذہنی خلفشار میں مبتلا کر دیا  تھا- ایک طرف تو وہ برطانوی سرکار اور عوام  کو جرمنی سے نہ لڑنے کا مشورہ دے رہے تھے۔  لیکن ١٩٤٢  میں سبھاش کی موت کی جھوٹی خبر شائع  ہو ئی  تو گاندھی جی نے اسکی تصدیق کیے بغیر   سبھاش کی والدہ کو افسوس کا خط لکھا جس میں نیتا جی کو  شاندار لفظوں میں خراج تحسین پیش کیا گیا۔ مولانا  کہتے ہیں کہ  اس خط نے  گاندھی جی کو بڑی خفت میں مبتلا کر دیا کیوں کہ انگریزمیڈیا کا کہنا تھا کہ مہاتما ہمیں عدم تشدد کا درس دے رہے ہیں جبکہ سبھاش جو جرمنی کی مدد سے ہندوستان پر لشکر کشی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اسکی عظمت کے گن گاتے  ہیں! ۔

بادی النظر  میں نیتا اور مہاتما کی کشمکش کا فائدہ نہ گاندھی جی کو ہوا اور نہ ہی سبھاش چندرا بوس کو۔  لیکن ایک تاثر  ابھرتا ہے کہ استعماری  قوتوں کے مقابلے میں  مقبولیت یا انقلابی سیاست کے  تصادم سے  بہتر  حکمت عملی شاید متحدہ مزاحمت ہوتی۔

  1. Sugata Bose, ‘His Majesty’s Opponent’ Penguin Books India 2011 []
  2. Abul Kalam Azad, ‘India wins freedom’ Orient BlackSwan 2010 []

One Response to

مہاتما جی اور نیتا جی:مقبول سیاست بمقابلہ لیفٹ؟

Leave a Reply to zafarnaqvi5 Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *