پاکستانی سینما میں یادوں کی پرچھائی

 ۷ شمارہ 

مترجم : شیبا بھٹی اور حافظ صوفی

Still from film: Ramchand Pakistaniرامچند پاکستانی سے تصویر

رومی کی ایک مشہور حکایت اندھیرے میں ٹٹول کر ہاتھی پہچاننے والے دیہاتیوں کے بارے میں ہے – خاموش پانی (2003) اور رام چند پاکستانی (2008) بھی اس ہاتھی کی مانندناظرین کےلئے چھونے اور تھامنےکی بہت سے ہموار اور کھردری سطح رکھتی ہیں۔ ماضی کے ادراک کے بغیر ، دیکھنے والوں کے لئے یہ فلمیں ہیجان آمیزی ،سرحدیت ، مابعد نوآبادیات، بین الثقافتی، حقوق نسواں یا انتشار آبادی میں سے کسی صنف کی فلم بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔ تاہم پاکستانی سیاسی ثقافت کے تناظر میں ایسے عجیب الخلقت حیوانوں کا نئے میدانوں کی تلاش میں، پہلے کی نسبت کہیں زیادہ اور مسلسل سامنے آنا سب سے زیادہ متاثر کن پہلوہے۔ تقسیم کے تقریباً ساٹھ سال بعد بنائی جانے والی یہ فلمیں اس سے قبل تقسیم کے موضوع پر بنائے جانے والی ایک درجن کے لگ بھگ پاکستانی فلموںسے بالکل مختلف ہیں ۔یہ فلمیں بٹوارے کے بعدکے علاقوں میں تقسیم سے متاثرہ نسل اور ان کی اولاد کے آپسی تعلق پر غور کرتی دکھائی دیتی ہیں – ان فلموں میں والدین اور بچوں کے تعلقات میں تقسیم کے واقعات کی آج تک سنائی دینے والی باز گشت کی عکاسی کرتی ہیں۔

پاکستان میں بنگلہ دیش اور ہندوستان کی نسبت تقسیم پر بنائی جانے والی اور نمائش کے لئے پیش کی جانے والی فلموں کی تعداد کم ہے۔ خاموش پانی کی نمائش سے آزاد پاکستانی سینما کی نئی لہر نے پچاس سے ستر کی دہائیوں کے سنہرے دور کےبعد سے قریب المرگ اردو سینما میں جان ڈال دی ہے ۔ پاکستان میں بنائے جانے والی یہ فلمیں بامعنی کہانیوں، علاقائی مناظر اور زبانوں، متوسط اور محنت کش طبقہ کے داخلی معاملات، مضبوط کردار سازی، مشہور فلمی اداکاروں بسااوقات سرحد پار کے ہندوستانی اداکار اور نسبتاً غیر معروف مقامی فلم اور ٹی وی اداکاروں کے اشتراک پر توجہ دیتی ہیں ، جو اکثرو بیشترصنفی و جنسی شناخت، طبقہ، مذہب، ذات اور عمر کی بنیاد پر پسماندہ رہ جانے والے طبقات کے بیانیہ پر توجہ مرکوز کرتی دکھائی دیتی ہیں۔  یہ فلمیں ہندی آرٹ سینما میں 1950 سے 1980 کے دوران پروان چڑھنے والی “مسلم سماج ” فلموں کی ذیلی صنف کی تکنیک اور مشمولات سے متاثر معلوم ہوتی ہیں تاہم پاکستانی تناظر میں انہیں “علاقائی ،اقلیتی اور سماجی” فلمیں قرار دیاجا سکتا ہے۔

یہ سینما جاتی بیانیہ اور اظہاریہ قبل ازیں ان موضوعات پر روا رکھی جانے والی خاموشی اور اس خاموشی میں طربیہ رومان اور خون خرابہ 3سے بھرپور کبھی کبھار آنے والے وقفوں سے متعلق کیا موقف رکھتے ہیں؟یہ محض اتفاق نہیں کہ خاموش پانی استرداد میں دفنائے گئے خاندانی ماضی کی جبکہ رام چند پاکستانی خاندان میں انبساط، ہجرت اور ہیجان کے باوجود زندگی کے تسلسل کو برقرار رکھنے کی کہانی ہے۔

۔1947 کے کم سن اکیسویں صدی کے آغاز میں بزرگی کو جا پہنچے ہیں۔ یہ فلمیں تقسیم سے متعلق نہ صرف اندوہ ناک بلکہ خوشگوار یادوں کے انتقال سے متعلق ہیں جن میں کہیں نہ کہیں بیٹے سے بچھڑ نے والی کوئی نہ کوئی ماں 4 ضرور ہے۔ یہودی قتل عام پر بننے والی فلموں کی طرح ان فلمیں بھی گہرے دکھ، ماضی اور ثقافتی انحطاط کے اظہار کے لئے بچھڑی ہوئی ماں کے ڈرامائی عنصر پر انحصار کرتی ہیں؛ جیسے خاموش پانی میں عائشہ کا اپنے مسلم بیٹے سلیم سے بچھڑنا اور چمپا کے اپنے بیٹے رام چند سے جدائی ۔ان دونوں فلموں میں ماں کی مثالی شفقت اپنے آبائی وطن کے علاقائی رسوم و رواج ا ور وہاں کے بصری اور لسانی اثاثہ سے وابستگی کا استعارہ ہے ۔ تقسیم کے نقصانات کسی حد تک علاقائی ہیں اور انہیں صنف نازک کے ذریعہ یاد کیا گیا ہے۔

یہ فلمیں ماضی کی بازیافت یادداشت ،قرب و بعد کے کھچاواور اسے کے بعد پیش آنے والے حالات کے تحت زندگی گزارنے سے متعلق ہیں۔

خاموش پانی:داستان فرقت

کیمرہ فجر کی اذان کے وقت ایک فرضی پنجابی گاوں کی چھتوں پرسے ہوتا ہوا مرکزی کردار عائشہ پر ٹھہرتا ہےجو اپنی چھت پر اپنی سہیلی شبو کے ساتھ ہے۔ بغیر دوپٹہ لئےننگے سردونوں شبو کی لڑکی کے ملبوس کادھلا ہوا سرخ کپڑا تھامے کھڑی ہیں،جسے دونوں مل کر سیئں گی۔ دنوں کپڑے کے اس ٹکڑے کو پھیلائے سکھانے کو جھلا رہی ہیں جب شبو سے کپڑے اک کونہ چھوٹ جاتا ہے۔ دونوں کھلکھلا کے ہنستی ہیں جبکہ شبو چھوٹ جانے والے سرے کو پکڑنے کو بھاگتی ہے، دونوں سہیلیاں کام کرتے ہوئے پنجابی میں گپ شپ جاری رکھتی ہیں۔

———————————————————————————————————————————

وقف نہیں۔ خیرات نہیں۔ باہری امداد نہیں۔ صرف آپکی مدد درکار ہے۔

چندہ دیجیے

———————————————————————————————————————————

یہ تمثیلی منظر 2003 میں پاکستانی حقوق نسواں کی علمبردار ہدایتکارہ صبیحہ ثمر کی سماجی حقیقت نگاری کے تحت بننے والی فلم خاموش پانی کے باقی ماندہ واقعات کی پیش بینی کرتا ہے۔ ادھیڑ عمربیوہ ماں عائشہ  جس کا کردار کرن کھیرنے ادا کیا 1947کے پر تشدد واقعات کے دوران باپ کے حکم پر اپنی ماں اور بہن کی طرح جنسی زیادتی کرنے والوں سے عزت بچانے کے لئے کنوئیں میں چھلانگ لگانے سے انکار کرنا،بعدازاں اسلام قبول کرنے اور اپنے اغواکنندہ کے ساتھ شادی کا فیصلہ ایک کھلا راز ہے۔ افتتاحی منظر میں دوپٹہ کے ایک کونہ کا چھوٹ جانا آنے والے واقعات کی جانب  اشارہ کرتا ہے:کہ عائشہ کے زندگی کے تسلسل کر برقرار رکھنے والے گہرے اور قریبی ناتے ٹوٹ جائیں گے۔افتتاحی منظر میں ایک بیٹی کی زندگی کے اہم ترین موقع )شادی(کے لئےکپڑے کے ایک ٹکڑے پر جسے عائشہ اور اس کی سہیلی نے مل کر تھام رکھا ہے پر مل کر کام کرنااور سینا محض اتفاق نہیں۔ہمسایوں، دوستوں یہاں تک کہ اولاد اور والدین کے بیچ تعلق بھی جذباتی سرمایہ سے بھرپور طبعی اور ثقافتی رواجوں کے ذریعے ظاہر کئے گئے ہیں۔جیسے ہی ان لمحات/ واقعات کو جوڑنے والا سماجی سیاسی تانہ بانہ ادھڑتا ہے لوگ عائشہ سے لاتعلق ہو جاتے ہیں اور اس کا مرتبہ غیر ضروری ہو کر گھٹ جاتاہے۔

عائشہ اور شبو کا تھاما ہوا دوپٹہ بڑی باریک بینی سے فلم بننے سے کچھ عرصہ قبل سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی تاریخ پر ہونے والی اس تحقیق کی جانب بھی اشارہ کرتاہے جس کے مطابق تقسیم کے دوران بیٹیوں، بہنوں اور بیویوں کو ان کے بھائیوں اور بیٹوں نے گلے میں دوپٹہ ڈال کر گلا گھونٹ کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ یہ خاندنی ٹوٹ پھوٹ اور شدید انتشار کی کہانیاں ہیں۔ خاموش پانی منظم اور فروعی تشدد کے باعث ماںباپ ، بہن بھائی، ماں بیٹے ہمسایوں اور دوستوں جیسے نازک رشتوں میں جدائی، دہائیوں تک اس جدائی کی بازگشت اور خاندانوں کے بکھرنے کے تسلسل کی کہانی ہے۔یہ خاندانی رشتوں کے ذریعہ فراق و وصال ، قربت اور دوری کے موضوعات کا ڈرامائی اظہار ہے۔
70کی دہائی کے اواخر میں نفاذ اسلام کے زور پکڑنے کے بعد عائشہ کا اپنے نوجوان اور بیروزگار بیٹے سلیم سے اس کے شدت پسند ہوجانے کے باعث ناطہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اس کے سماجی روابط کمزور پڑھ جاتے ہیں،وہ گاوں کے اسی کنویں سے جس میں اس کی ماں اور بہن نے کود کر جان دی تھی ، پانی بھر کر لانے پر مجبور ہوجاتی ہے، اور اس کی تکلیف دہ یادوں کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کی تنہائی میں اضافہ کے ساتھ اسے دوسروں سے کٹا ہوا، بے کار،خاموش اور جامد فلمبند کیا گیا ہے۔ بالآخر وہ اسی کنویں میں کود کر خود کشی کر لیتی ہے جس میں چھلانگ لگانے کا حکم اس کے باپ نے دیا تھا۔

ثُمرخاموش پانی کے بیانیہ کو ماضی کی ایک دوسرے سے جڑی کہانیوںکو سلسلہ وار 2002 کی حالیہ کہانی تک لے آتی ہے جہاں لائن آف کنٹرول پر کیمیائی ہتھیاروں سے لیس ہندوستان اور پاکستان کو آمنے سامنے کھڑے دوبرس ہو چکے ہیں۔ پس منظر کی کہانی کے زیادہ تر واقعات 1979 میں ملک کے مقبول اور ناعاقبت اندیش رہنما کو فوجی آمر ضیاء الحق کے دور میں پھانسی دیے جانے کے عرصہ کے ہیں۔ 1979 کے پس منظر میں 1947 کی خونی یادیں ہیں جو حالیہ بحران کا تعلق بڑی کامیابی کے ساتھ تاریخ سے جوڑتی ہے۔تاریخ سے یہ تعلق والدین اور اولاد کےمابین تعلق کی طرح ہے 2001-2002 میں فوجوں کے آمنے سامنے ہونے کے آخری منظر کو بھرپور بنانے کے لئے ایک المناک پیش خیمہ تشکیل دیا جاتا ہے ۔

جہاں ٹی وی پر سلیم ایک مذہبی مبلغ بطور پاکستانی تاریخ کی ایک مسخ شدہ صورت پیش کر رہا ہوتا ہے – جس میں اس کے سکھ آباو اجداداور اس کی اپنی ماں کا کوئی تذکرہ نہیں۔ کہانی کی اخلاقی اور جذباتی طاقت ہمیں اس افسردہ غلط بیانی کا سامنا سلیم کی سابق محبوبہ زبیدہ کی آنکھوں سے کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ یہ لمحہ پوری فلم کی جان ہے جس میں اپنے اجداد، تاریخ اور وجود کو چھپانے والے جھوٹ کو پہچاننے کی ہمدردانہ جوابی اپیل کی گئی ہے۔

رام چند پاکستانی : ‘بعد’ کی زندگی

رام چند پاکستانی ٹی وی پروڈیوسر سے فلم کارکا سفر طے کرنے والی مہرین جبار کی فلم ہے جو تقسیم کے تقریباًپچاس برس بعد 2001-02 کے تشویش ناک ہندوپاک فوجی تناؤ کے تناظر میں اپنے اظہاریہ کا تعین کرتی ہے۔اس فلم میں زمان و مکان کواس طرح استعما ل کیا گیا ہے کہ ایک ہی مقام پر وقت کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کی بجائے ایک ہی وقت میں مختلف مقامات پر پیش آنے والے واقعات کو سامنے لایا گیا ہے۔ فلم رام چند کے بستر سے نکل کر صحن عبور کرنے ، گھر سے باہر گاوں میں نکلنےکے مختصر واقعاتی تسلسل سے شروع ہو کر بالآخر گھر اور ہندوستانی قید خانہ میں پیش آنے والے واقعات کے دھاروں میں بٹ جاتی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کی سرحد سے چند میل دور تھر پارکر سندھ کے گاوں بھمرہ کے قرب و جوار میں پیش آنےو الے واقعات پر مبنی فلم رام چند پاکستانی ایک بے زمین دلت/کولی خاندان کی پانچ سالہ جدائی کی کہانی بیان کرتی ہے۔ بغاوت پسند آٹھ سالہ رام چند اپنی ماں چمپا) جس کا کردار نندیتا داس نے ادا کیا ہے( سے اپنے باپ کو زیادہ چائے دینے پر جھگڑ کر غیر ارادی طورپر سرحد پار کرجاتا ہے – پریشان باپ اس کا پیچھا کرتے سرحد کے اس پار چلا جاتا ہے۔ سرحد پارکی انتظامیہ کے ہتھے چڑھنے کے بعد شنکر کو قید خانہ میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اس ناگہانی آفت کے دوران ایذارسانی، مارپیٹ اور قید تنہائی میں ڈالے جاناشنکر کے لئے اس کے پدرانہ کردارکی ادائیگی میں رکاوٹ بنتے ہیں تاہم مقدور بھر اپنی ذمہ داری نبھانے کی کوشش کرنا ان حالات میں مزاحمت ہی کی ایک صورت ہے۔قید خانہ کے صحن میں ہاتھ سے کپڑے دھوتے ہوئے تھکن سے چور شنکر کسی نہ کسی طرح رام چند کو اس کی بے چینی پر قابو پانے اور اس کی کسی حد تک درشت،ظالمانہ اور سرپرستانہ دیکھ بھال کرنے والی خاتون افسر “میڈم” کو خداحافظ کہنے کی صورت نکال لیتا ہے۔ یہ جدائی کے بعد زندگی کے ساتھ چلتے رہنے کے خدوخال ہیں۔

اسی طرح چمپا اپنے شوہر اور بیٹے کے ساتھ پیش آنے والے واقعات سے لاعلم ہے – وہ اپنے شوہر کے قرض اتارنے کے لئے ایک جاگیردار کے ہاں جبری مشقت شروع کردیتی ہے۔ ایک جوتشی اسے اس کے شوہر کے مرنے کی خبر دیتا ہے ، فلم میں اسے ایک اور مرد کی محبت میں مبتلا ہوتے ہوئے بھی دکھایا جاتا ہے تاہم اس کا مالک اور خاندان اسے ایسا کرنے سے باز رکھتے ہیں۔گو رام چند پاکستانی کا اختتام خوش گوار ہے لیکن یہ کئی رونگٹے کھڑے کر دینے والے اچانک واقعات کےدوران ناگزیرعزم و استقلال کے مظاہرے کے ذریعہ سامنے آتا ہے۔ خاندان کا یہ ملاپ جزوی اور رام چند کے بچپن کے گزر جانے کے بعدہی ممکن ہوتا ہے۔ آخری مناظر میں رام چند اور چمپا آمنے سامنے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ رام چند اب ایک اکھڑ،سگریٹ نوش، پتلون قمیص پہننے اور فلمی گیت گانے والا لڑکا ہے، مگر جب سکرین سیاہ ہوتی ہے تب رام چند کو ہولے ہولے پکارتی انتظار کی ماری ایک ماں کی کمزو، ٹوٹی پھوٹی آوازکے کچھ اور سنائی نہیں دیتا۔

کھلونوں کی قیمت

دانشور اور نقاد میرین ہرش ایسی نسل کے تخلیقی کام پر مہارت رکھتی ہیں جو کسی مخصوص تاریخی حادثہ سے براہ راست دوچار نہ ہوئی ہو۔ وہ پیدائش سے بھی قبل وقوع پذیر ہونے والے کسی تاریخی سانحہ سے متعلق دوسری اور تیسری نسل کے تجربات جو بہت گہرائی کے ساتھ ان تک منتقل کئے جاتے ہیں کو پس یاد (Post Memory) قرار دیتی ہیں۔ پس یاد محض لغوی معنوں میں یاداشت نہیں بلکہ ماضی کے ایک حصے کو نہ بھولنے کی ایک جذباتی اور مؤثر کاوش ہے ۔ یادداشت کے ماہرین اجتماعی تاریخی سانحات، جلاوطنی اور ہجرت سے متعلق کسی معاشرہ یا خاندان کی یادداشت کی منتقلی کے تسلسل میں انقطاع کے اثرات بارے مختلف آراء رکھتے ہیں۔ ایسی صورت ہائے حال میں لوگ یاداشت سے زیادہ جذباتیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وقت گزرنے اور نسلی تسلسل کے ساتھ پس یاد تصوراتی خاندانوں کے ذریعہ کہانیوں کی تشکیل کرتا ہے جو بڑے پیمانے پرمختلف طبقات میں ان داستانوں تک رسائی کا باعث بنتے ہیں۔ اس طرح جہاں کئی نسلوں میں ان داستانوں تک رسائی ممکن ہوتی ہے وہیں اجتماعیت اور خسارہ کے پوشیدہ عالمی سٹیریو ٹائپ بھی تشکیل پاتے ہیں۔

دونوں فلموں میں یاداشت تک رسائی کی مختلف صورتیں ہمارے مشاہدے میں آتی ہیں۔ خاموش پانی میں عائشہ کی یادیں ساکت مگر زندہ ہیں، ہر رات وہ ایک ٹرنک کھول کر گورونانک کی تصویر، ایک چشمہ اور اپنے ماضی سے جڑی چیزوں کو دیکھتی ہے۔ یہ سب اس کے اندر دبا ہوا نہیں ہے لیکن یہ سب کچھ بالکل خاموش ہے۔ اس کی وفات کے بعد اس کا بیٹاا س کے صندوق سے چیزیں نکال کر ندی میں بہا دیتا ہے۔ زبیدہ جو اس منظرکو )مسلسل ایک گواہ کی طرح(دیکھتی ہے کہ ندی کا پانی جو ہم سب میں یادوں کے تسلسل کی روانی کا استعارہ ہے کنویں کے پانی کی طرح ساکت اور جامد نہیں۔ وہ اور ہم ایک گواہ کے طور پر طلب کئے جاتے ہیں جب سلیم 2001-2002 میں سرحدی تنازعہ کے دوران اپنے اسلامی موقف کو پیش کرتے ہوئے ان یادوں سے انکار کرتا ہے۔

———————————————————————————————————————————

پاکستان کی کہانی سنانے میں ہماری مدد کیجیے۔ پاکستان میں ایک آزاد میڈیا کی تشکیل میں ہماری مدد کیجیے۔

چندہ دیجیے

———————————————————————————————————————————

رام چند پاکستانی کا کوئی کردار تقسیم سے براہ راست متاثر نہیں ہوالیکن تقسیم کے نتیجے میں بننے والی سرحد ان کی زندگیوں میں ایک زندہ، لایعنی حقیقت ہے جو کئی طرح سے ان کی زندگی کو تکلیف دہ اور اندوہناک بنا رہی ہے۔ اچانک اور بلا جواز نقصان چمپا کو پہلے تو پوری طرح توڑ پھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ تقسیم کے متاثرین کی طرح چمپا بھی یادوں، بصری و سمعی واہموں اور ایسے لمحات جب قریبی رفیق بھی حریف لگتے ہیں جیسی صدماتی کیفیات سے گزرتی ہے۔ اگرچہ اس کا بطور ماں اور بیوی کردار بحران کی نظر ہو چکا ہے مگر وہ زندگی میں آگے بڑھنےکے قابل ہو جاتی ہے۔ ہدایت کار چمپا اور اس کے وجودی برزخ میں متمکن یادوں کو اس کشمکش میں دکھاتی ہیں کہ وہ اپنی سہاگ کی علامت چوڑیوں کو توڑنے اور زیور اتارنے کے شش و پنج میں مبتلا ہے۔ پانچ برس بعد رام چند کی رہائی سے قبل باپ اسے چمپا کو سرمہ لا دینے کی ہدایت دیتا ہے اور اور رام چند اس کی قیمت ایک سو تیس روپے یاد رکھتا ہے۔ ہرش کے موقف کے مطابق یاداشت کا لُغویات صنف خصوصاً عورت اور اس کے صنفی لوازم ہیں لیکن اس فلم میں یاداشت کا اظہار چیزوں کی قیمتوں سے بھی ہوتا ہے۔

آخر میں یہ ممتا کی علاقائی صنفی خصوصیت ہیں جوہمیں پردہ سکرین پر، یادوں کی شکل میں ، ناقابل برداشت مناظر سے بچاتی ہیں ۔

گزرے زمانے کو پلٹ

کچھ فرق کے باوجود دونوں فلمیں حادثاتی لمحات سے پہلے کی ممکنہ مثالی یاداشتو ں کو پردہ پر پیش کرنے کی اہل ہیں۔ دونوں فلمیں دھرتی پر اجتماعیت کے مثالی منظر سے شروع ہوتی ہیں۔ دونوں خاندان سحر خیز ہیں جہاں ایک ماں کودیہاتی گھر کے صحن میں چولہے پر اپنے بیٹے کے لئے ناشتہ بناتے دکھایا جاتا ہے۔ ایک خاندان کی زندگی گاوں کے سماجی اور معاشی پس منظر میں داستان گوئی اور بصری و صوتی تکنیک کے ذریعہ بھی دکھائی جاتی ہے۔ جیسے خواتین کھاناپکاتی ہیں ان کے پسِ منظر میں گاؤں کے ماحول،مویشیوں اور ٹھیلے والوں والوں کی سنائی دینے والی آوازیں ان کے آپسی تعلق اور ثقافت کی تشکیل میں عورت کی مرکزی حیثیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ عائشہ گلی میں سبزیوں کا بھاؤ تاؤ کرتی ہے ،مہنگائی کو لتاڑتی ہے اور گھر میں سلیم پر صفائی ستھرائی کے لئے چلاتی ہے اور پھر پراٹھے تلنے میں مشغول ہو جاتی ہے اور پراٹھے تلتے اس کے ہاتھو ں کے کلوز اپ شاٹ کے ساتھ ہمیں گاؤں سے آنے والی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ فلم رام چند پاکستانی نجی اور عمومی زندگی کی بنت کو مچھلی کی جلد پر موجود چھلکوں کی مانند ایک دوسرے سے مربوط دکھاتی ہے:یہاں رام چند جسے عائشہ ہی کی طرح ہجرت کا دکھ برداشت کرنا ہے اپنے بستر سے صحن، پھر گلی اور گاؤں تک ایک کھلونا ٹرک کا معائنہ کرتا پہنچ جاتا ہے۔حتی کہ ایک بچہ بھی گھر اور زندگی میں فعال دکھایاگیا ہے۔

ایک ماں کے گرد گھومتے مخصو ص علاقائی خاندانی ربط کے ان ابتدائی مناظر کے بعد دونوں فلمیں جدائی، صدمہ اور فراق کی کیفیات میں آگے بڑھتی ہیں۔ خاموش پانی میں عائشہ ہجرت کئے بغیر اپنے گھر سے محروم ہو جاتی ہے جب کہ رام چند خاک اڑاتے خوابیدہ عالم میں سرحد پار کر نے سے اپنے گھر سے بچھڑ جا تا ہے۔ دونوں فلمیں انفرادی جدائی سے بصری، صوتی اور لسانی ہئیت کدہ کے کھوجانے کا اظہار ہیں۔تقسیم کے صدمات بہت حد تک علاقائی ہیں۔ یہ بے حد متاثر کن ہے کہ خاموش پانی اردو کی بجائے پنجابی میں ہے اور روام چند پاکستانی مقامی لباس اور ہئیت ارضی کا بہت حد تک احاطہ کرتی ہے۔دونوں فلموں ہمیں پنجاب اور سندھ کے محنت کش اور متوسط طبقہ کے بہت سے معمولات دکھاتی ہیں۔ ہاتھوں کے کلوز اپ مناظر، کرداروں کو لانگ شاٹ کے ذریعہ ان کے زرعی پس منظر میں پیش کرنے اور نجی مقامات سے عمومی مقامات تک ایک کردار کےسفر کے ٹریکنگ شاٹس کے ذریعہ ماضی اور دھرتی سے وابستہ اس زمان و مکان کی بہت سی تفصیلات کو محفوظ کیا گیا ہے) خوراک اور کھلونوں کی قیمتوں جیسی تفاصیل کے ذریعہ (۔ان تفاصیل کا مشاہدہ کرنے پرماں سے بچھڑجانے کی فرضی کہانیوں کے ذریعہ بطور ناظر ہمیں ان مقامات سے جذباتی لگاؤ پیدا کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کے بغیر اور کس طرح ہم ان کہانیوں کوسمجھ سکتے ہیں؟ کس طرح دکھاۓ گئے مقامات سے جذباتی لگاؤ پیدا کرسکتے ہیں؟

دونوں فلموں میں خوفناک واقعات کی کڑیوں کو معمولات میں اس طرح پھیلا دیا جاتا ہے، کہ جب زندگی صدمہ کے باوجود آگے بڑھتی ہے تواس کا انحصار لوگوں کے مابین بیتتے لمحات پر ہوتا ہے ۔ اس حقیقت نگاری کے باوجود دونوں فلمیں ایک مثالی ماں، ایک سہانی صبح ، صحن میں جلتی آگ پر ایک روایتی مزیدار ناشتہ کے ذریعہ سانحہ سے قبل کی دلکشی کی منظر کشی کرتی ہیں۔تقسیم سے متعلق فلموں کی یہ متاثر کن اور رواں تشکیل جدائی کے ایک جامد اور محدود نقطہ نظر کی نفی کرتا ہے۔ سلیم کا نقطہ نظر حذف کئے جانے کی ایک انتہا ہے جب کہ رام چند مثالیت پسندی کی ۔

رومی کی حکایت کا ہاتھی ابھی ہمارے ساتھ بہت دیر تک رہے گا۔ تقسیم کے ساٹھ برس بعد ہم صدمہ اور یاداشت کی بین النسل انتقال پر زیادہ بہتر گفتگو کر سکتے ہیں۔ سب سے اہم تو یہ سوال ہے کہ کیا بزرگ نسل سے ہمدردی کے لئے انہیں کامل حیثیت دینا یا پھر حذف کردیدنا ضروری ہے؟ کیا ہم ایک مثالی سے کم تر ماں یا باپ کو یاد کر سکتے ہیں اور بچھڑنے کے دکھ کا ایک بچے پر کیا اثر پڑتا ہے؟کیا مظلوم ہونے کے لئے کامل انسان ہونا ضروری ہے؟ اگر ہم تاریخ کو جتنا چاہیں کھوج لیں ، لسانیات کی گہرائی کو پورا کھنگال لیں یا ارضیاتی پھیلائو کا جائزہ لے لیں لیکن پھر بھی کوئی تسکین بخش

خانگی یا علاقائی مسرت سرے سے موجود ہی نہ ہو تو کیا ؟ پھر ہم ہجرت اور جدائی کی یہ کہانیاں کیسے بیان کریں گے؟کیسے کریں گے ؟ کر بھی پائیں گے یا نہیں ؟

***

رابعہ مرتضی گریٹر ٹورنٹو ایریا میں مقیم استاد، شاعرہ اور مصنفہ ہیں۔

Tags: , , ,

One Response to

پاکستانی سینما میں یادوں کی پرچھائی

  1. […] سکالر پاکستانی سینما کے بارے ایک مطالعہ پیش کرتے ہیں: رابعہ مرتضی پاکستانی سینما میں یادداشت اور ماں کے بارے، اور حرا ا […]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *