مترجم : پلوشہ مشتاق اور تیمور شاہد

مصور: تزئین قیوم | تمناؤوں میں گم
۱۰جنوری ۲۰۱۳ء کو علمدار روڈ ،کوئٹہ میں واقع سنوکر ہال میں ہونے والے دو بم دھماکوں میں رخسانہ بی بی نے اپنے تین بیٹے کھو دیے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ اُس دن زیارات کے لیے وہ ایران میں تھیں لیکن میتوں کی تدفین سے پہلے ان کے خاندان والوں نے ان کا انتظار کیا۔رخسانہ بی بی کو واپس کوئٹہ پہنچنے میں دو دن لگے اور کوئٹہ پہنچنے پر انہوں نے اپنے تینوں بیٹوں کی میت کو علمدار روڈ پر رکھا پایا۔
علمدار روڈ ،مہر آباد کی اقتصادی شہ رگ ہے جو کوئٹہ کے قریب ہزارہ اکثریت کا ایک علاقہ ہے۔عام دنوں میں علمدار روڈ پر ہزارہ برادری کے نوجوان موٹر سائیکل سواروں،غیر ہزاروی رکشے والوں اور مہر آباد سے گزرنے والی شاہراہ پر دو کلومیٹر لمبی دکانوں کی قطار پر جوان اور بوڑھے مردوں اور عورتوں کا رش دکھائی دیتا ہے،البتہ اُس دن رخسانہ بی بی نے علمدار روڈ پر اپنے جوان بیٹوں خادم،ناصر اور امداد کی لاشیں پڑی دیکھیں جو بم دھماکے کے ملبے سے نکالی جانے والی دیگر سو لاشوں کے ساتھ موجود تھیں۔ زیادہ تر لاشوں کے کچھ نہ کچھ اعضا غائب تھے۔
ہزاروں عورتیں،مرد اور بچے اپنے مرنے والے پیاروں کی لاشوں کے ساتھ احتجاج کر رہے تھے اور رخسانہ بی بی احتجاج کے تیسرے روز اس میں شامل ہوئیں۔ان کے لئے احتجاج میں بیٹھنا کسی پیارے کی اسپتال میں عیادت کرنے جیساتھا۔وہ صبح وہاں جاتی،اپنے مردہ بیٹوں کا بوسہ لیتی اور پھر ان کے ساتھ احتجاج میں بیٹھ جاتی۔پھر وہ غم سے نڈھال ہو کربے ہوش ہو جاتی۔اس کے گھر والے اسے گھر لے جاتے لیکن جیسے ہی اسے ہوش آتا تو وہ فوراٌ علمدار روڈ کی طرف بھاگتی، کبھی کبھی بغیر چادر اور جوتوں کے۔اپنے بیٹوں کو اکیلا چھوڑنا اسے گوارا نہ ہوتا۔اسے پروا نہیں تھی کہ اس کے چادر کے بغیر ہونے پر آدمی کے اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔اس نے تین بیٹے گنوائے تھے۔چوتھے روز جب احتجاج ختم ہوا اور لاشوں کو دفنانے کا وقت آیا تو اس نے آدمیوں کی مدد لینے سے انکار کر دیا اور اپنے تینوں بیٹوں کو اپنے ہاتھوں سے دفن کیا۔
کوئٹہ میں مظاہرین سے بات چیت کرتے ہوئے مجھے یہ احساس ہوا کہ جب احتجاج شروع ہوا تو کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ علمدار روڈ پر اُن کا دھرنا پاکستان کے کئی شہروں میں پھیل جائے گا ،ان دھرنوں سے ملک کی کئی بڑی سڑکوں کے نظام بند ہو جائیں گے،ان کی بین الاقوامی میڈیا پر تشہیر ہوگی اور یہاں تک کہ یہ مظاہرے دنیا کے کئی بڑے شہروں تک پھیل جائیں گے،یا یہ کہ پاکستانی حکومت اُن کے ساتھ مذاکرات کرے گی اور اُن کے زیادہ تر مطالبات بھی پورا کرے گی۔
یہ مضمون ان مظاہروں کو سمجھنے کے لئے لکھا گیا ہے ، عوام میں ان مظاہروں کی کشش و مقبولیت،اس خاص لمحہ جس میں ان کی تشکیل ہوئی اور تشدد کے خلاف اجتماعی مجسم عملی کاروائی کی اس مخصوص ہیت کا تجزیہ کرنے کے لئے۔یہ جنوری اور فروری ۲۰۱۳ء میں کراچی میں ہونے والے احتجاجوں کے مشاہدے،اگست ۲۰۱۳ء میں مہرآباد اورہزارہ ٹاؤن کوئٹہ میں مظاہرین سے گفتگو اور ستمبر ۲۰۱۳ء میں لندن میں سماجی کارکنوں سے بات چیت کرنے کے بعد لکھا گیا۔
احتجاج کا لمحہ:۔
اپنے انٹرویو میں زیادہ تر مظاہرین نے کہا کہ علمدار روڈ پر احتجاج عورتوں ،یعنی شہیدوں کی ماؤں،بہنوں اور بیویوں نے شروع کیا۔یہ احتجاج علمدار روڈ پر واقع ہزارہ ناچاری امام بارگاہ میں شروع ہوا جہاں تدفین سے پہلے لاشوں کو لایا گیا تھا۔متاثرہ خاندانوں کو سہارا دینے اور سیاسی حکمت عملی پر بات چیت کرنے کے لیے وہاں پریشان حال خاندان،اراکینِ برادری اور مذہبی و سیاسی رہ نما جمع ہوئے تھے۔یہ غیر واضح ہے کہ احتجاجاٌ میّتوں کی تدفین نہ کرنے کی تجویزکس نے دی تھی،سواے اس کے کہ وہ ایک مرد کی تجویزتھی لیکن عورتوں نے اس خیال کی حمایت کی تھی۔سو غیرمدفن لاشوں کی ذمّے داری کے سلسلے میں انتظامی مشکلات کے پیشِ نظر امام اور عمائدینِ برادری نے اس تجویز کی مخالفت کی جس کے جواب میں خواتین نے بھرپور جواب دیتے ہوے کہا کہ آپ ہماری چوڑیاں پہن لیں۔ہم تب تک علمدار روڈ پر لاشوں کے ساتھ بیٹھے رہے گے جب تک حکومت کے ساتھ ہمارے مذاکرات نہ ہو جائیں۔اپنی مردانگی کی اس توہین پر عمائدین نے ہار مان لی اور جلد ہی متاثرہ خاندان علمدار روڈ پر لاشیں لے کر پہنچ گئے جو مہر آباد کی واحد اتنی بڑی جگہ ہے کہ جہاں انھیں رکھا جا سکتا تھا۔
جب عورتوں نے علمدار روڈ پر ڈیرے ڈال دیے تو برادری میں سے مزید ہزاروں لوگ اُن کے ساتھ شامل ہو گئے۔ لوگوں نے مظاہرین کے لیے اپنے گھر،بیت الخلا اور باورچی خانے کھول دیے اور احتجاج کے موقع و محل گھریلو ماحول دے کردر حقیقت ایک خود کفیل اوربرادری کااحساس پیدا کیا۔
جیسے ہی احتجاج نے زور پکڑا تو سیاسی،سماجی اور مذہبی جماعتوں اور برادری کے قبائلی عمائدین کے ایک مشتر کہ ا تحاد قومی یکجہتی کونسل (کیو وائے سی) نے سارے انتظامات سنھبال لیے۔ ایک پرانی اور معترف تنظیم کی حیثیت سے کیووائے سی کا مقصدہزارہ اور غیر ہزارہ برادریوں کے درمیان تنازعات کو حل کرانااور دہشت گردحملوں اور ہزارہ برادری کے خلاف ٹارگٹ کلنگ کے خاتمے کے لیے عدم تشددپرمبنی اقدامات عمل میں لانا ہے۔اس وجہ سے برادری میں کیووائے سی کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ احتجاج میں ہزارہ برادری کے ساتھ حکومت سے مذاکرات کا مطالبہ کیا گیا تھا اور کیو وائے سی نے ہزارہ برادری کی جانب سے مذاکرات کارکاکردار آسانی سے سنبھال لیا۔
———————————————————————————————————————————
وقف نہیں۔ خیرات نہیں۔ باہری امداد نہیں۔ صرف آپکی مدد درکار ہے۔
———————————————————————————————————————————
مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے کیو۔وائے۔ سی نے مطالبات کی ایک فہرست تیار کی۔تاہم کوئٹہ مظاہرین میں سے زیادہ تر نے انٹرویو میں کہا کہ کیو۔وائے۔سی نے اُن سے مشورہ کئے بغیر احتجاجیوں کے مطالبات تیا ر کر لیے۔بہر حال، تنظیم نے اپنے مطالبات، جن میں بلوچستان میں گورنر راج کا نفاذ ،ہزارہ برادری پر حملے میں ملوث دہشت گرد گروہوں کے خلاف فوجی آپریشن اور کوئٹہ میں مارشل لانافذ کرنا شامل تھے، پاکستانی حکومتی نمائندوں کے سامنے پیش کیے۔۱۴ جنوری ۲۰۱۳ء کو حکومت نے زیادہ تر مطالبات پورے کر دیے ،سوائے شہر کا کنڑول سنھبالنے کے لیے فوج کوبلانے کے ایک بڑے مطالبے کے۔
مظاہرین کے ساتھ انٹرویو کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ اُنھوں نے صرف ایک، مقبول اورعوامی مطالبے کے لیے احتجاج کیا تھا: ’ ’ہمارا قتل بند کر و!‘ تاہم کیو۔وائے۔سی کے لیے یہ مطالبہ حکومت سے مذاکرات کے طریقہ کار پر پورا نہیں اترتا تھا۔’ہمارا قتل بند کر و‘ کے مطالبے کو دوسری شکل دینی پڑی، خاص طور پر ایسی جس پر حکومت مذاکرات کر سکے اور مطالبہ مان بھی سکے،لیکن اس مطالبے کی وہ شکل جو مندرجہ بالا مطالبات کی صورت میں اُبھری، اُس نے اس مقبول اورفوری مطالبے کے سماجی اور سیاسی امکانات کو ختم کر دیا۔یہ مطالبہ ممکنہ طور پر نظم و نسق میں باضابطہ اور بنیادی انتظامی و ساختی اصلاحات اور شہری حقوق کے تخفظ کے لیے ایک آواز بن سکتا تھا،تاہم کیو۔وائے۔سی نے اسے احتیاطی خفاظتی انتظامات کی فہرست کی شکل دے دی۔
متحجج جسم :۔
کوئٹہ سکیچ کلب کے فنون لطیفہ کے ایک طالب علم نے بتایا:۔
عام حالات میں آپ صرف شرعی حکم کے مطابق تدفین کی مذہبی رسومات پر عمل کر سکتے ہیں۔ شریعت غیر معمولی حالات میں لاگو نہیں ہوتی۔اس صورت حال میں سب سے اہم یہ ہے کہ ایسے اقدامات کئے جائیں جن کی بدولت حالات معمول پر آسکیں۔
اس طالب علم کے مطابق نسلی و فرقہ ورانہ نسل کشی ایک غیر معمولی صورت حال ہے جو کہ شریعت کے روزمرہ کے مطالبات کوباطل کر دیتی ہے۔جب ہزارہ برادری نے بطور شیعہ اپنی مذہبی شناخت کے تخفظ کی اپیل کی اور شریعت کے برعکس ،جس میں فوری طور پر مردے کو دفن کرنے کا حکم ہوتا ہے، لاشوں کو دفنانے سے انکار کیا تو انھوں نے عمل اور نظریے کے درمیان کوئی تفاوت محسوس نہیں کیا۔اگرچہ ان کا یہ اقدام عقیدے سے ہم آہنگ نہیں تھامگر اس کا مقصد روز مرہ زندگی کے اس تجربے کو بحال کرانا تھا، جس میں عقیدے کے اصول دوبارہ لاگو ہو سکیں۔ اس طرح کا بنیاد پرستانہ احتجاج معمول کو بحال کرانے کاایک راستہ تھا، شایدواحدراستہ ۔ان غیر معمولی حالات کو معمول پر لانے کے لیے جسم کا، ہنجاری اور مذہبی رویوں کے خلاف جا کر، انتشار انگیز منظر پیش کرنا ضروری ہو گیا تھا ۔
اپنے پیاروں کی لاشوں کے ساتھ دھرنے دینے سے ہزارہ برادری نے اپنی نسلی ہزارہ شناخت کو ایسے ناظرین کے لیے مجسم بنایاجنھوں نے اسے کبھی دیکھا نہیں تھا۔ہزارہ سیاسی قیادت نے اس ہزارہ جسم کو فرقہ واریت کے تشدد کے ایک نظر سے نہ چھپنے والے عوامی نشان کے طور پرمتعارف کرا کے پاکستانیوں کودکھایا۔ہزارہ جسم ایک یادگار سماجی شیعہ جسم بن گیا۔اس احتجاج سے کچھ سال پہلے ہزارہ برادری نے پاکستان کی شیعہ اقلیت کے ساتھ ایک قوی سیاسی اتحاد کیاتھا۔ سیاسی حکمت عملی کے طور پر ہزارہ برادری نے یہ روایتی موقف اختیار کیا کہ ان کی قتل و غارت دراصل پاکستان میں بڑے پیمانے پر ہونے والے شیعوں کے قتل و غارت کا حصہ ہے(گو کہ اس مضمون کی طویل تر شکل میں ہزارہ شیعہ سیاسی اتہادکا تفصیل سے مطالعہ کیا گیا ہے، جس میں ہزارہ قتل و غارت گری اور ان کی افغانستان سے ہجرت کا تاریخی پس منظر بھی شامل ہے، یہ مضمون صرف اس احتجاج کے تجزیے پر مرکووز و محدود ہے۔ )۔دہشت گرد تنظیموں اور میڈیا نے بھی ہزارہ برادری پر ہونے والے حملوں کی تشہیر شیعوں پر فرقہ ورانہ حملوں کے طور پر کی۔
جیسے کہ اسٹیفن ڈیڈیلس بٹر ہاروسٹ’’سیکٹیرین ازم ان بلوچستان‘‘ میں دعوا کرتے ہیں کہ شاید ہزارہ قیادت نے ہزارہ برادری کے قتل و غارت کو شیعہ قتل و غارت کے مترادف کہنے کا فیصلہ شیعہ قیادت کی التجا پر کیا۔ احتجاج میں شیعہ مجمعین کی اپنی تفریقی شناخت کو نمایاں سمجھنے کی خوب حوصلہ افزائی کی گئی جس سے وہ خود کو پاکستان میں بے گھر اور اقلیتی نسلی برادری تصور کرنے کی بجائے ایک بڑی شیعہ قوم کے طور پر دیکھ سکے۔ڈیڈیلس جیسے خیالات کااظہار کرتے ہوئے ہزارہ برادری کے بزرگ،ماہر تعلیم اور سماجی کارکن پروفیسر نذیر حسین نے آشورہ بم دھماکے کے بعدکی ایک نشست ، جہاں انھوں نے ہزارہ کے قبائلی عمائدین کو سیاسی فیصلہ کرنے کا مشورہ دیا تھا،کا ذکر کرتے ہوے بتایا کہ انہوں نے سب سے پوچھا ’آپ اپنے آپ کو شیعہ کہیں گے یا ہزارہ‘؟ اُنھوں نے مجھے بتایا کہ اس کا جواب ایک آسان سے حساب سے ملناچاہیے۔پاکستان میں کتنے لوگ ہزارہ برادری ،جو پاکستان کی آبادی کا ایک فیصدسے بھی کم حصہ ہے،کے مسئلہ کے بارے میں جانتے اوراس کو سمجھتے ہوں گے اور اس کی حمایت کریں گے؟ اور کتنے لوگ پاکستان میں شیعوں کے قتل و غارت کی حمایت کریں گے، جبکہ شیعہ افراد کاروباری اور سیاسی اشرفیہ میں شامل ہیں اور قومی اور بین الاقوامی سطح پر بھی نمایاں ہیں۔
اس بات سے قطع نظر کہ کس اقلیتی گروہ نے اس اتحاد میں پہل کی،۱۰ جنوری ۲۰۱۳ء کو ہونے والے احتجاج نے دونوں گرہوں کے مفادات کو خوب تقویت پہنچائی۔ایک ایسا ملک جہاں ہزارہ برادری،آبادی کاصرف چھوٹا سا حصہ ہیں، وہاں پاکستانیوں کو ہزارہ شیعوں کی حالت زار کی بابت آگہی ملی۔ علاوہ از ایں ایک ایسا ملک جوروز بروزاپنی قومی شناخت سُنّی اسلام کی غالب نظریاتی بحثوں کی روشنی میں تشکیل دیتا ہے، و ہاں پاکستانیوں نے شیعہ سیاسی جماعت مجلس وحدت المسلمین کو اس احتجاج کے پیچھے ایک مرکزی قوت کے طور پر اُبھرتے دیکھا۔ ایک ایسا کام جس نے احتجاج کے چند ماہ بعد اُنھیں کوئٹہ سے قومی اسمبلی کی پارلیمانی امیدواری دلوائی۔

ایک ماں اپنے مردہ بیٹے کی لاش — اس موضوع پر میتھیو گرین کا مضمون خدائی گورکن پڑھیے۔
یہ ایک شناخت(شیعہ) کی دوسری (ہزارہ) پر بالادستی حاصل کرنے کا سیدھا معاملہ نہیں تھا، بلکہ یہ دونوں شناختیں ہمہ وقت تشدد کے ذریعے پیدا اور پھر بیدا رکی گئیں۔ایلن فلڈ مین، فارمیشن آف وائلینس:’’ دی نیریٹو آف دی باڈی اینڈ پولیٹیکل ٹیرر ان نارتھن آئر لینڈ ‘‘میں بیان کرتے ہیں کہ’جسم کی نسل اس کے ٹوٹ کر بکھرنے اور اوراس کے مسخ ہونے کے عمل سے تشکیل پاتی ہے۔تشدد نسلی جسم کو فرقہ ورانہ سماجی فضا کے کنائے کے طور پر تشکیل دیتا ہے‘۔دوسرے الفاظ میں ہزارہ برادری پر دہشت گردانہ تشدد فرقہ ورانہ تشددکی ہیئت و اصطلاح میں کیاگیا تھااور دہشت گردانہ تشدد خاص طور پر شحض کی ظاہری شناختی نشانیوں کو تباہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، یاجیسا کہ اکثر دھماکوں کی صورت میں ہوتا ہے کہ جسم کو مکمل تباہ کر دیا جا تا ہے، تاکہ کسی کی جسمانی شناختی علامات نہ بچ سکیں۔بم دھماکے میں سیکڑوں جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں او روہ ٹکڑے ایک دوسرے کے خون اور جلد کے دوسرے ٹکڑوں میں مل جاتے ہیں اور پھر یہ لاشیں نئی ہیئت پیش کرتی ہیں جو صرف نشانہ بنائے گئے نسلی زمرے سے متعلق نہیں ہوتیں۔ سُنّی اور غیر ہزارہ بھی اکثر شیعہ اور غیرہزارہ لوگوں کے ساتھ مارے جاتے ہیں۔
۔۱۶ فروری ۲۰۱۳ء کو کوئٹہ کے بازار میں ہونے والے خود کش بم دھماکے میں فاروق نے اپنے دو بھائیوں کو کھو دیا۔اس نے اپنے بڑے بھائی کی شناخت اس کے کپڑوں سے کی لیکن اپنے چھوٹے بھائی کی شناخت کے لیے اسے امام بارگاہ کے ایک کونے میں پڑے ہوئے جسم کے حصوں کے ڈھیر کو چھاننا پڑا۔فاروق پہلے چھوٹی سے چھوٹی چوٹ کو بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا لیکن اس دن وہ جسم کے مختلف اعضا کو چھانتا رہا اوربالآخر اسے ایک دھڑ ملا جس کا ایک بازو غائب تھا۔وہ دھڑ اس کے بھائی کا تھا۔ وہ اسے صرف اس لیے پہچان سکا کہ اس کے بائیں سینے پر چیچک کا داغ تھا جس کے لیے اُسے اپنے بھائی کو ڈاکٹرکے پاس لے جانا یاد تھا۔
ایسے تشددکا مقصد کسی خاص نسلی شناخت کو نشانہ بنانا نہیں، بلکہ نسلی فر قہ ورایت کے لیے جگہ پیدا کرنا بھی ہے۔دہشت گرد انہ تشدد کے متواتر حملے ہدف بنائی گئی جگہ کو فرقہ ورانہ شناخت کے مطابق تشکیل دیتے ہیں، لہٰذا مہر آباد، کوئٹہ میں سُنّی عسکریت پسند دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے پُر تشدد حملوں کے سلسلے نے اس جگہ کو ہزارہ شیعہ کی جگہ کی پہچان دے دی ہے۔
یقیناً یہ دہشت گردانہ حملے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ ‘ میں بڑے پیمانے پر جغرافیائی و سیاسی نمائندگی کے دعووں کے لیے بھی کیے گئے تھے،تا ہم میری دلچسپی خاص طور پر سیاسی حکمت عملی کے اُن اثرات پر ہے جو ان طریقوں پر اثر انداز ہوتے ہیں جن کے ذریعے برادریاں تشدد کو یاد رکھتی اور اس کی مخالفت کرتی ہیں۔ جیسے یہ کہ کسی شخص کے لیے ٹکڑے ٹکڑے ہوا جسم، جس کو اسے دفنانااور صاف کرناہے، کیا حیثیت رکھتاہے؟ اسی طرح خاندان اور برادری ،جس نے اس جسم کا سوگ منانا ہے، کے لیے وہ یہ کیا معنی رکھتاہے؟
تقریباٌ ہر احتجاجی نے، جس کا میں نے کوئٹہ میں انٹر ویو کیا،اپنا احتجاج اور اپنے پیاروں کی یادیں بیان کیں۔عام طور پر ہر کہانی اس حالت کا استدلال ڈھونڈنے کی کوشش تھی جس میں پارہ پارہ جسم ملے تھے اور کچھ صورتوں میں شرمندگی، ہیبت،خوف اور اس تشدد پر مکمل بے یقنی بھی جو ان جسموں پر کیا گیا تھا۔ اکثر کہانیوں کا مرکز ی نقطہ اپنے پیاروں کی یاد اور ان کی پامال شدہ لاشوں کا تعارض ہوتا تھااور وہ تشدد اور خوشی کی معاندت سے بُنی ہوتی تھیں۔ کہانیاں کہنا جسموں کے بکھرے ہوے ٹکڑوں کو یاد کر کے اکھٹا کرنے کا طریقہ بن گیا، مرنے والوں کے جسموں پر اور مظاہرین کی زندگیوں میں ہونے والے تشدد اوراپنے پیاروں کی اچھی یادوں کو آپس میں بُننے کا بھی۔وہ یادیں صدمے کے لمحات کے گرد تشکیل پائیں اور بالآخر ریاست سے مراعات حاصل کرنے کے لیے ان ہی بکھرے ہوئے جسموں کے ساتھ دھرنے کی تحریک بنیں اور یہی یادیں مرحومین کے جانے سے روزمرہ میں بننے والی خلا کے بارے میں بات کرنے کا ذریعہ بھی بنیں۔
مکانِ احتجاج:۔
۔ ’ہر سیاسی عمل کو ظہور کی جگہ کی ضرورت ہوتی ہے‘ ، ہینا ارنٹ ، ’’ دی ہیومن کنڈیشن‘‘۔
جب ہزارہ برادری سے پوچھا گیا کہ کیا ان کا ان کے مُردوں کے ساتھ احتجاج کرنا غیر فطری ہے ؟ توحکومت کے ساتھ مذاکرات کی قیادت کرنے والے نمائندے ،چنگیزی نے کہا کہ ہمیں جس ظلم کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس کے سامنے یہ احتجاج کس طرح غیر فطری ہے؟ٹارگٹ کلنگ میں اپنے بھائی کو کھونے والی ایک بہن نے وضاحت کی کہ’ میں سمجھ سکتی ہوں کہ کیوں کئی خاندان اپنے پیاروں کی لاشوں کے ساتھ یخ موسم میں کئی دنوں تک بیٹھے رہے۔بات یہ نہیں ہے کہ سیکڑوں لوگ مارے گئے تھے، بلکہ اہم یہ ہے کہ وہ کس طرح مارے گئے تھے۔ اتنے وحشانہ طریقے سے کہ لوگ اسے برداشت نہیں کر سکے۔ مرنے والوں پر کیے گیے تشدد اور پچھلے چند برسوں میں قتل کیے گئے سیکڑوں لوگوں کے بارے میں بات کرنا ضروری ہو گیا تھا، اور یہ بھی کہ اس مسئلہ کو ایک ایسے نفاق انگیز عمل سے عیاں کیا جائے جو مُردوں کی تدفین کی مقدس رسومات کو پائمال کرے اور جس سے مُردوں کا روزمرہ کی زندگی میں ایک مستقل مادی حقیقت بننے کا خدشہ ہو، جب تک کہ ریاست حالات کواس طرح معمول پرنہ لے آئے ، جس میں مُردوں کو آخر کار دفنایا جا سکے۔
علمدار روڈ پر لاشوں کے ساتھ احتجاج نے عوام کو ہزارہ جسم کی پائمالی اور اسی طرح ہزارہ برادری کی پائمالی کا گواہ بنا دیا۔عوام کو گواہ بناکر مظاہرین نے ریاست کی ناکامی اور جبر کا ایک عوامی احتساب بھی کیا۔ یہ عوامی احتساب سڑک پر ہو رہا تھا، ایک ایسی جگہ جو عوامی سیاسی تحریک کے لیے قوی صلاحیت سے بھرپور جگہ ہونے کی لمبی تاریخ رکھتی ہے،بلکہ ماہر عمرانیات سسکیا ساسین نے یہ تعین کیا ہے کہ شاہراہ اور چوک کے بر عکس گلی کوچوں اور عام سڑکوں پر سیاسی امکانات کی زیادہ صلاحیت موجود ہے۔’گلی کوچہ تحریک کے اشارے بنتے ہیں اور شاہراہ و چوک صرف رسم کے‘۔
ہزارہ مظاہرین نے بھی پارک یا عوامی چوکوں جیسیے مختص عوامی مقامات استعمال نہیں کیے، کیونکہ ایسے مقامات میں حدود کا تعین مسلّم ہوتا ہے جس سے ان کا محاصرہ کرنا آسان ہو جاتا ہے اورجس سے ان مقامات میں سیاسی عمل کی صلاحیت باطل ہو سکتی اور ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف روزمرہ کے مقامات، جیسے گلی کوچوں میں نمایاں ہونے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ایسی جگہوں پر ہونے والے احتجاج رسمی سیاسی اجتماعات نہیں ہوتے ،بلکہ ایسے احتجاج روز مرہ کی زندگی میں رکاوٹ بنتے ہیں اور اس وجہ سے اس میں عوام پر اثرات اورعوام کو متوجہ کرنے کے صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔کوئٹہ اور کراچی میں ایسا ہی ہوا جہاں مختص عوامی جگہوں کی بجائے تجارتی جگہوں، سڑکوں اور روز مرہ کے مقامات، جیسے یادگاروں اور سرکاری مقامات پر احتجاجات کیے گئے تھے۔
ہر احتجاج کی جگہ، چاہے وہ کوئٹہ میں دو کلو میٹر لمبی تنگ علمدار روڈ ہو یا کراچی میں تین تلوار جیسا اہم چوراہا یا لاہور میں گورنر ہاؤس، تو ایسی جگہیں اجتماعی سیاسی اقدام اور نئے طرز کی برادریوں کے انشاء کے امکانات کی پناہ گاہیں بنتی ہیں۔اس طرح سے شاذونادر اتحاد ،جیسے شیعوں اور سنّیوں کا اقلیتوں کے ریاستی تحفظ کا اجتماعی مطالبہ اور اجتماعی عبادات بھی کچھ لمحوں کے لیے احتجاجوں میں دیکھنے کو ملے۔اس کے باوجود درجہ بندی کی سیاست بھی ان مقامات پر اکثر غالب رہی اور مساوی تحریک میں رکاوٹ کا باعث بنی۔ اسی وجہ سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ مقبولیت پسند احتجاج نہیں تھے۔ کوئٹہ میں کیو۔وائے۔سی اور دیگر مراکز میں شیعہ مذہبی سیاسی قیادت کے تحت یہ احتجاجات ایسی تقاریر ،نعروں اور طرز عمل سے غالب رہے جس نے ایک مخصوص سیاسی ایجنڈے کو فروغ دیا ۔ شہریوں کے اتحاد، جیسے لوگوں کی اسمبلی بنانے کے لیے کوئی لائحہ عمل فراہم نہیں کیا۔ اس طرح اجتماعی مقامات، جو ایک غیر روایتی سیاسی اور شہری امکانات کے ساتھ وجود میں آئے تھے، بعد میں کیو۔وائے۔سی اور شیعہ قیادت کی درجہ بندی اور غیر جمہوری تنظیم کی وجہ سے رسمی اور رواجی احتجاجی مقامات بن کے رہ گئے۔ اسی لیے جب کراچی میں ایک ہزارہ طالب علم کرار حسین نے ’ہزارہ نسل کشی بند کرو‘ کا پوسٹر اٹھایا تو بعد میں شیعہ امام نے مظاہرین سے خطاب کے دوران اسے ڈانٹا اور سب کو یہ یاد دلایا کہ یہ احتجاج ہزارہ برادری کے حقوق کے لیے نہیں بلکہ تمام شیعوں کے حقوق کے لیے ہے۔کرار نے ایک خاص قسم کی یکجہتی کی سیاست کے دباؤ میں شیعہ امام سے کوئی بحث نہیں کی لیکن بعد میں اس بارے میں بات کرتے ہوئے اُس نے کہا کہ شیعہ حقوق کا نظریہ ہزار ہ برادری کے حقوق کے نظریہ کی بہت سی نسلی،جغرافیا ئی وسیاسی اور سماجی و اقتصادی پیچیدگیوں کی نمائندگی کرنے میں ناکام رہا ہے۔
———————————————————————————————————————————
پاکستان کی کہانی سنانے میں پماری مدد کیجیے۔ پاکستان میں ایک آزاد میڈیا کی تشکیل میں ہماری مدد کیجیے۔
———————————————————————————————————————————
عمائدین احتجاج، مظاہرین اور ریاست کے درمیان طاقت کی رسا کشی کا پہلو ہونے کے باوجود مُردوں کے ساتھ کئے جانے والے دھرنے، تشدد کی کاروائیوں کے خلاف مجسّم اجتماعی مزاحمت کے مثالی مظاہرے تھے۔ان احتجاجوں نے پاکستان میں ہزارہ برادری اور شاید دوسری ثانوی سمجھے جانی والی برادریوں کے مستقبل کی جدوجہد کے لیے تشخص کی نئی ہیئت اور شہری تشکیل کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا۔
تاہم یہ جدوجہد اپنے انجام سے بہت دور ہے۔ایک چھوٹا سا قصہ دہشت گردی کے تازہ خطرات میں گھرے ہزارہ برادری کے اس صدمے اور اپنے مرنے والوں کی یادکے ساتھ جاری جدوجہد کی عکاسی کرتاہے:۔
جب اسے فرنٹئیر کور (ایف۔سی) سیکیورٹی چیک پوسٹ سے فون آیا تو قیوم چنگیزی مجھے یہ بتا رہا تھا کہ اس کے بیٹے کی لاش قیمہ بن چکی تھی۔چنگیزی کوئٹہ یکجہتی کونسل کے نائب چیر مین ہیں جو کہ مظاہرین اور ریاست کے درمیان ایک فیصلہ سازی ادارہ اور ثالثی تنظیم بن گئی تھی۔دوسری لائن پر سیکیورٹی افسر نے انہیں بتایاکہ ابھی ابھی ایک لال جیپ تیزی سے چیک پوسٹ سے گزری ہے، اگر چہ ایف۔سی نے بار بار اس پر فائرنگ بھی کی ۔افسر کو شبہ تھا کہ جیپ دھماکہ خیز مواد سے بھری ہو سکتی ہے اور علمدار روڈ کی طرف رواں ہے۔اس نے چنگیزی کویہ تنبیہ کرنے کو کال کی تھی کی اگلے پانچ منٹ کے اندر اندر احتجاج کی جگہ خالی کردی جائے۔چنگیزی نے کچھ فون کالز کیں،ایک گہرا سانس لیا اور پھر سے اپنے بیٹے کی کہانی سنانے لگا۔اگلے دس منٹ تک ،جب چنگیزی رک رک کر اپنے بیٹے کی کہانی سنا رہا تھا تو مجھے اپنی زندگی کی فکر تھی۔چنگیزی کا بیٹا سنوکر گیمنگ ہال کے باہر ہونے والے دھماکے میں زخمیوں کی مدد کر رہا تھا کہ اتنے میں دھماکہ خیز مواد سے بھری ہوئی ایک ایدھی ایمبولینس اس کے سامنے آ کر رک گئی ۔سی سی ٹی وی فوٹیج میں چنگیزی نے اپنے بیٹے کو ایمبولینس کا دروازہ کھولنے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا مگر وہ اندر سے بند تھا ۔کچھ سیکینڈز بعد ہی دوسرا دھماکہ ہوا اور ان کا بیٹا جاں بحق ہو گیا۔اس دھماکے کے بعد صرف اسکے جوتے ملے اوربس وہی آج اسکی قبر میں دفن ہیں۔
اس دن سے چنگیزی کی بیوی مفلوج ہیں۔کہانی ختم کرنے کے جلدبعد ہی انہیں دوسری کال آئی۔ایف۔سی افسر نے لال جیپ اور اس کے شرابی ڈرائیور کو ڈھونڈ لیا تھا۔ ’پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے ‘ اس نے کہا۔
* * *
میں ذاکر تھاورصاحب ، کرار حسین صاحب، پروفیسر نذیر حسین اور نثار علی ناصرصاحب کی ممنون ہوں جنھوں نے اس کام میں میری بھر پور مدد اور حوصلہ افزائی کی۔اس مضمون کی ایک طویل تر شکل انڈس:آ جرنل آف آرٹ،کلچر اینڈ ڈیزائن کے پہلے شمارے میں شائع کی گئی تھی اور میں جریدے کے مدیران اعلی کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ انہوں نے اس مضمون کی تنقید میں اشاعت کی معاونت کی۔
مصنف کے لیے ترجمہ نگار: کرار حسین۔
عائشہ عمر ایک پرفارمنس آرٹسٹ ہیں اور این۔وائے۔یو کے میڈیا کلچر اور کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ میں ڈوکٹوریٹ کی امیدوار ہیں۔ان کا کام پاکستان میں عوامی تشکیلات،سیاسی مزاحمت،تشدد اور سماجی یادداشت کے مسائل پرمرکوز ہے۔
[…] کرنے میں حائل ہوتے ہیں کے بارے میں اپنی رائے پیش کی ہے ۔ عائشہ عمر ہزارہ کے دھرنوں کے دوران کئے گئے انٹرویو اور نسلی […]