مترجم: محمد اکرام

تزئین قیوم | متصادم نقل مکانی
اگست 2006 میں پاکستان سپریم کورٹ نے پاکستان سٹیل ملز کی نج کاری کو ایک تاریخی فیصلے کے ذریعے کالعدم قرار دے دیا حالانکہ بولی لگ چکی تھی اور معاہدہ فروخت طے پا چکا تھا۔ فیصلے کی وجہ سے میڈیا میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ اگرچہ اس بات پر کوئی اتفاق رائے نہیں تھی کہ آیا یہ عدالتی فیصلہ ایک خوش آئند قدم ہے یا نہیں، لیکن ہرسماج کے مختلف حصوں اور عالمانہ شعبوں سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگاراس بات پر متفق تھے کہ معاشی معاملات میں یہ عدالتی مداخلت نیو لبرل اصولوں سے منحرف قدم تھا۔ میرے مطابق یہ تجزیہ درست نہیں۔
پاکستان سٹیل ملز کارپوریشن ایک نجی لمیٹڈ کمپنی ہے جس کی ملکیت حکومت پاکستان کے پاس ہے۔ اسے 1968 میں تشکیل دیا گیا لیکن 1981 اور 1984 کے دوران پیداوار شروع ہوئی۔ پاکستان میں سٹیل بنانے والی یہ سب سے بڑی مل ہے اور چپٹی اور لمبی سلاخیں اور چادریں بنانے والی واحد مل ہے۔ اس کے کل اثاثوں میں شامل ہے 30 مربع میل کی زمین جس میں سے پلانٹ اور مشینری 7 مربع میل پر پھیلا ہوا ہے۔ سالانہ پیداواری صلاحیت 11 لاکھ ٹن ہے۔ جب مل نے تسلی بخش منافع دینا بند کردیا تو حکومت پاکستان نے 1997 میں اسے نج کار کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن جب افسر شاہی اور سیاسی وجوہات کی بنا پر ایسا ممکن نہ ہوسکا تو حکومت نے مل کی ساخت دوپار ترتیب دینے کا فیصلہ کیا اور اس سے منافع کمانے میں کامیابی ہوئی۔
مارچ 2005 میں حکومت نے ملز کی نج کاری کی دوبارہ کوشش کی۔ مقامی اور قومی حکومتی کمشین کی منظوری کے بعد کارورائی شروع ہوئی، لیکن اس بار حکومت مفادات مشترکہ کونسل (سی سی آئی) سے مشاورت میں ناکام رہی۔ یہ کونسل سارے صوبوں کے نمائندوں پر مشتمل ہے۔ آئین کی دفعہ 154 کے تحت سی سی آئی کی منظوری ضروری ہے۔ نج کاری کا عمل شروع ہوا اورتین بین الاقوامی گروپ، یعنی عارف حبیب گروپ آف کمپنیز، التوقیر گروپ آف کمپنیز، اور روس کی میگنیٹوگورسک آئرن اینڈ سٹیل ورکس پر مشتمل انجمن نے بولی جیت لی۔ نج کاری کا عمل شروع ہوا تو ایک سال کے اندر ہی “پاکستان سٹیل پیپلز ورکرز یونین” یا سی- بی- اے نے نج کاری کے جاری عمل کو صوبے کے سب سے بڑے عدالتی ادارے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔ ہائی کورٹ نے یہ دلیل دیتے ہوئے کیس خارج کردیا کہ اگرچہ دفعہ 154 لازمی ہےلیکن عدالت اس کیس پر سماعت اس لیے نہیں کر سکتی کیونکہ وزیر اعلٰی سندھ مفادات مشترکہ کونسل کے رکن ہیں اور انہوں نے اپنی ایگزیکٹو حیثیت میں اس عمل کی منظوری دے دی ہے۔ سی بی اے اور اس کے ساتھ ساتھ وفاق پاکستان نے سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف علیحدہ علیحدہ اپیل دائر کردی۔ ساتھ ہی ایک چھوٹی سیاسی جماعت وطن پارٹی کہ راہنما بیرسٹر ظفراللہ خان نے سپریم کورٹ میں اس نج کاری کے عمل کی آئینی حیثیت اور بولی کی جیت کو چیلنج کردیا۔ تینوں درخواستیں ایک دوسرے میں ضم کر کے 9 اگست 2006 کو سپریم کورٹ نے نج کاری کے عمل کو منسوخ کرتے ہوئے اپنا حتمی فیصلہ سنایا۔ جج صاحبان نے فیصلے میں لکھا کہ:۔
۔”پاکستان سٹیل ملز کارپوریشن کی نج کاری کا عمل کچھ خاص ریاستی عناصر کی جانب سے کمیشن اور کٹوتیاں کے عمل کی وجہ سے ناقص قرار ہے کیونکہ یہ قانون کی ضروری دفعات اور ان کے تحت موجود اصولوں کی خلاف ورزی ہے”۔
———————————————————————————————————————————
وقف نہیں۔ خیرات نہیں۔ باہری امداد نہیں۔ صرف آپکی مدد درکار ہے۔
———————————————————————————————————————————
عدالت کا فیصلہ تین قانونی نکات پر مبنی تھا۔ پہلا نکتہ: عدالتی منطق کے مطابق نج کاری کے عمل کیلئے سی سی آئی کی منظوری واقعی ضروری ہے اور اگرچہ ۱۹۹۸ 1997 میں نج کاری کے پہلی کوشش کے دوران سی سی آئی سے مشاورت کرنے کے باعث یہ قانونی ضرورت پوری ہو گئی تھی، لیکن سیاسی پیچیدگیوں سے بچنے کیلئے مشاورت دوبارہ کرنا ضروری تھی۔ دوسرا نکتہ: عدالت نے نج کاری کمیشن آرڈیننس 2000کو آئینی قراردیا جو حکومت کو ریاستی ملکیتی انٹرپرائز کی نج کاری کی اجازت دیتا ہے اور اس مقصد کیلئے اصول بھی بیان کرتا ہے۔ اس بنیاد پر عدالت کی دلیل یہ تھی کہ ریاستی اہلکاروں نے نج کاری کے عمل کیلئے آئین اور آرڈیننس میں موجود ضروری قانونی دفعات کی صحیح پیروی نہیں کی چناچہ سٹیل ملز کی نج کاری کو منسوخ کیا جاتا ہے۔
اس فیصلے کے جائزے کیلئے عدالت کی جانب سے دی گئی وجوہات کو قانون اور معیشت کے تعلق کے وسیع تناظر میں سمجھنا ضروری ہے۔ شکاگو سکول سے منسلک دانشوری رجحان یعنی تحریکِ قانون ومعیشت میں ابھار آنے کے بعد سے علم قانون کو مطالباتِ معیشت کے تابع کیا جا رہا ہے۔ بلاشبہ شکاگو سکول کی معیشیتی سوچ نے نیو لبرل نظریے کو پہلے امریکہ میں مقبول بنایا۔ پھر وظیفوں اوراپنی سوچ سے مطابقت رکھنے والی بین الاقوامی مالی اداروں کی پالیسیوں کے ذریعے نیولبرل نظریہ کو پوری دنیا میں پھیلا دیا۔ تحریکِ قانون ومعیشت نے درسِ قانون کو بھی متاثر کیا۔ انہیں خیالات کے تحت کچھ بااثرسکالروں نے قانون کے اصولی خدشات کو “نان سنس” یا بکواس کہ کر رد کرنا شروع کردیا کیونکہ ان کے نزدیک یہ خدشات معیشت “لین دین کے اخراجات” کا بھارڈالتے ہیں۔ جیسے جیسے مطالبہ معیشت حاوہ ہوتا گیا ان سکالروں نے “کارکردگی” بہتر کرنے کے لیے قانونی اور اصولی خدشات کو پس پشت ڈالنا شروع کردیا۔ بلا شب سٹیل ملز کی نج کاری کے فیصلے پر تنقید کرنے والے زیادہ تر تبصرہ نگاروں نے یہی منطق استعمال کی ہے۔ توجہ طلب بات تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ بھی اس مسئلہ کو سمجھنے اور فیصلے تک پہنچنے کیلئے اسی منطقی ڈھانچے کو استعمال کرتی ہے۔
قانون کس طرح حکمرانی کرتا ہے

پڑھیے: وہ شخص جو کر سکتا تھا | عمر فاروق
عوامی مباحث میں اکثر یہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ قانون کا معیشت سے جامدی تعلق ہے۔ قانونی ماہرین کرٹس جے مِلہاپٹ اور کیتھرائن پسٹور بیان کرتے ہیں عام تصور میں قانون ” وقف کیے ہوئے جامد سرمایے کی طرح ہے جوکسی فرم کی معاشی سرگرمی کیلئے مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے” (صفحہ ۵)۔ اپنی کتاب ‘قانوں اور سرمایہ داری’ (لاء اینڈ کیپیٹلزم) میں مِلہاپٹ اور پسٹور اس تخفیفی ڈھانچے کے متعلق سوال اٹھاتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ درحقیقت کوئی بھی قانونی نظام مسسل تبدیلی کے عمل سے گزرتے ہوئے افراد اور اداروں کی جانب سے چلایا اور لاگو کیا جاتا ہے۔ ان کی دلیل ہے کہ اگر قانون کی ابتداء سیاسی ہے (نوآبادیاتی عمل، انگلستان میں صنعتی انقلاب، یورپ کے دیگر علاقوں میں بادشاہتی نظام کا خاتمہ)، تو کوئی وجہ نہیں کہ قانون سیاسی طور پر جامد وتعدیل تصور کیا جائے۔ مزید یہ کہ قانون کی بالادستی کا اصول ہر جگہ ایک ہی انداز میں معیشت کی خدمت نہیں کرتا۔ اس کی برعکس، یہ لکھتے ہیں، کہ قانون قانون کو “مقامی روایات پر پورا اترنا چاہئیے اور اسی لئے معاشی، سماجی اور سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ارتقاء کرنا چاہئیے” (صفحہ ۲۲)۔ مختصر یہ کے قانون کی حکمرانی کا طریقہ کوئی یکساں عالمگیری طریقہ نہیں بلکہ مقامی حالات کے مطابق ہوتا ہے اور بعض اوقات انچاہے اثرات بھی ڈالتا ہے۔ لیکن اب صورتحال کچھ ایسی ہے کہ دو متضاد تصورات یکساں مقبول ہو چکے ہیں۔ پہلو تصور یہ کہ قانون ایک عالمگیر، جامد سماجی بنیاد ہے، یعنی قانون بالادست ہے اور دوسرا یہ کی قانونی ضوابط “نا اہل” حتی کہ بکواس ہیں۔ یہ نیو لبرل حکومتی طریقہ کار کا ہال مارک ہے۔ مفکر ڈیوڈ ہاروی نے یہ واضع کر دیا ہے کہ ریاست کی ضرورت ختم کرنے کے بجائے نیو لبرل سوچ رکھنے والوں نے ریاست کا مفہوم ہی بدل دیا ہے۔ ہاروی لکھتا ہے کہ “حکومت کیلئے ایگزیکٹو آرڈر اور قانونی فیصلوں کو جمہوری اور پالیمینٹری فیصلہ سازی پر ترجیح دی جاتی ہے”(صفحہ 66)۔ اس لئے نیو لبرلزم تنازعوں کے حل کے لیے عدالت پر زیادہ انحصار کرتا ہے۔
مشہور بھارتی قانونی سکالر اوپندرا بخشی اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ نیولبرل ریاست بیک وقت قانون کی اہمیت کا دعوٰی بھی کرتی ہے اور قانون کا تمسخر بھی اڑاتی ہے ۔ بعد از نوآبادیاتی تناظر میں لکھتے ہوئے بخشی اس بات پر زور ڈالتے ہیں کہ قانون اور سرمایہ دارانہ معیشت کا تعلق بہت پیچیدہ ہے جس میں قانونی ضوابط کی بھرمار کے باوجود بارہا عوام اور مزدوروں کے حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔
بکشی کا مشاہدہ ہے کہ اگرچہ بھارت کی تاریخ میں عدلیہ ہمیشہ سیاسی طور پرسرگرم رہی ہے لیکن مختلف طریقے استعمال کرکے عدلیہ کے اس کردار کو محدود کر دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر عدالتی جائزے کی حدود کے متعلق عام بحث کی وجہ سے جج صاحبان کچھ خاص سیاسی روایات سے زیادہ دور نہیں جا سکتے۔ قانونی مسطور اور آئین کی تشریح کیلئے جو طریقہ ہائے کار وضع کئے گئے ہیں وہ انصاف کی انتہائی ممکنات کو محدود کر دیتے ہیں ۔ نتیجتاً پیچیدہ سیاسی سوالوں کے حل کے بجائے تمام توجہ یاں تو بھارتی پارلیمان کے آئینی ترمیم کے اختیار تک محدود ہو جاتی ہے، یا پھرعدالتی جائزے کی حدود کے سوال تک۔
بخشی یہ نشاندہی کرتا ہے کہ بھارتی قانونی روایت میں یہ ممکن نہیں رہا کہ میلا فائڈ کا قانونی تصور، یعنی دھوکا دینے کی نیت سے عمل پیراہونا، افراد کی بجائے حکومت کی قانون ساز یا ایگزیکٹو برانچ پر مجموعی طور پرلاگو ہوسکتا ہے۔ یعنی ریاست کے قانون ساز یا ایگزیکٹو بازو کے کسی بھی اقدام کے لیے ان دھڑوں کو مجموعی طور پر قانون کے مطابق موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتا چاہے ان اقدام کا نتیجہ کچھ بھی ہو۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ ایسے قوانین موجود ہیں جن کے ذریعے متاثرین کو بعد از نقصان ریلیف فراہم کیا جا سکتا ہے یا مزید نقصان سے کسی حد تک بچایا جا سکتا ہے، لیکن قانونی طور پر ممکن نہیں کہ ریاست کی طاقت کے بے جا استعمال کو روکا جا سکے۔ اور کیونکہ قانون ہمیشہ مقامی اور قائم شدہ سماجی ساخت کے ذریعے کام کرتا ہےاس لیے ضابطی ڈھانچے اور عدلیہ کی مداخلت سے سرمایہ دارانہ طبقے کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ اپنا اثرورسوغ استعمال کر کے اپنے مفادات کا تحفظ کر لیتے ہیں۔ چنانچہ بخشی یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ قانونی قواعد وضوابط کی تکثیر حققیتاً “طے شدہ بے ضابطگی کی حققیت” کو چھپا دیتی ہے۔ یہ طاقت کے استعمال کو بھی قانونی حیثیت دیتی ہے کیونکہ قانونی اصولوں کے بڑھتی ہوئی تعداد اس بات کی نشاندہی مشکل بنا دیتی ہے کہ نظام کے اندر بے ضابطگی کیسے گھسائی جاتی ہے۔
اور میرے مطابق پاکستان سٹیل ملز کے مقدمے میں یہی ہوا کی قانون نے سرمایہ دارانہ مفادات کے ساتھ اپنا انکہا معاہدہ برقرار رکھا حالانکہ بظاہر یہ اس کے خلاف تھا۔
عدالت کے فیصلے کا جائزہ
عدالت کے فیصلے کی تحریر نو ججوں کے ایک بنچ نے لکھی جس میں چیف جسٹس افتخار محمد چوھدری بھی شامل تھے۔ فیصلہ میں نج کاری کی پالیسی اور عمل میں فرق کیا گیا ہے۔ نج کاری پالیسی کو “اقتصادی ڈومین” کا حصہ قرار دے کر اسے ایگزیکٹو کا خاص استحقاق قرار دیا گیا ہے۔ نہ صرف فیصلے میں یہ بیان کیا گیا ہے بلکہ عدالت نے تفصیلاً وضاحت کی ہے کہ یہ طے شدہ معیار ہے کہ عدالت پالیسی کے فیصلوں کی پڑتال نہیں کرسکتی، یا اقتصادی معاملات پر سرکاری پالیسیوں کے مدِمقابل اپنی رائے نہیں پیش نہیں کر سکتی۔ فیصلہ میں لکھا ہے کہ “عدالت اپنی عدالتی جائزے کی طاقت استعمال کرتے ہوئے کثیرالمرکز مسائل جن کیلئے تکنیکی مہارت اور خاص علم کی ضرورت ہے ان میں اپنی رائے نہیں دے گی۔”
بھارتی سپریم کورٹ کے ایک مقدمے1 کو استعمال کرتے ہوئے، پاکستانی ججوں نے کہا کہ کیونکہ معاشی معاملات بہت پیچیدہ ہیں اس لئے ان میں دخل اندازی مناسب نہیں۔ وہ ایگزیکٹو کو پالیسی فیصلے کرتے وقت آزادی دیتے ہیں اور یہ بیان کرتے ہیں کہ ریاست کے پاس “حق ہے کہ “سعی و خطا” کرے جب تک سعی و خطا صاف نیت اور اختیارکی حدود کے اندر ہوں۔” جیسا کہ بخشی کی جانب سے واضح کیا گیا ہے، سوال اب عوامی بھلائی کا نہیں بلکہ عدالتی جائزے کے دستاویز کی تکنیکی حدود کا ہے۔

اجلال نقوی کا انگریزی مضمون پرائیوٹ انوسٹر، پبلک ڈیزاسٹر پڑھیے۔
عدالت پھر ایک برطانوی مقدمے کی جانب پلٹتی ہے (ایسوسی پرونشیل پکچر ہاؤسس لمیٹڈ وی۔ ویڈنزبری کارپوریشن (1947)) جس نے انگلستاں میں اس روایت کو قائم کیا کہ عدالت کب سرکاری فیصلے میں مداخلت کرسکتی ہے۔ اس کیس میں بیان کیا گيا ہے کہ عدالت کا معاشی معاملات میں مداخلت “عدالتی مقتدرہ” ہے جس کا کام صرف یہ دیکھنا ہے کہ کیا مقامی سرکار نے “پارلیمان کی دی ہوئی طاقت کے استعمال سے تجاوز کرکے قانونی کی خلاف ورزی تو نہیں کی ہے۔” اسی لئے عدالت کو ان پالیسی معاملات پر رائے دینے کا اختیار نہیں ہے جن کیلئے تکنیکی مہارت کی ضرورت ہے۔ “تکنیکی مہارت” اور “خاص علم” کی اصطلاحات حقیقت میں قانونِ عمومی کی لغت میں نئی نہیں ہے۔ قانونی نظام ہمشیہ یہ فرق برقرار رکھتا ہے کہ کونسے ایگزیکٹو فیصلوں پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے اور کونسے فیصلوں پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔ نئی بات تو یہ کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے (مغربی ممالک کی عدالتوں کی طرح) ایک خاص ڈومین یعنی نیو لبرل اقتصادی سرگرمیوں کے وسیع میدان اوار خاص طور پر نج کاری کو اپنے دائرہ اختیار سے باہر قرار دے دیا ہے۔ یہ اس خاص تناظر میں زیادہ دلچسپی کا باعث ہے جس میں عدالت نج کاری کے عمل پر اعتراض اٹھا رہی ہے۔ پاکستانی ججون نے بنیادی طور پر سٹیل ملز کی نج کاری کو غیر قانونی قرار دیا لیکن ان خدشات کی وجہ سے نہیں جو نج کاری پالیسی کی وجہ سے پیدا ہورہے ہیں (مثلاً عوام کی بھلائی اور نج کاری کے اثرات کے بارے میں خدشات) بلکہ عمل کے اندر شفافیت نہ ہونے کی وجہ سے۔ جیسا کہ فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ ” ہم مسئلے کی کثیرالمرکزیت کی وجہ سے نہیں بلکہ نج کاری کے زیر غور منصوبے کے عمل کی قانونیت، معقولیت اور شفافیت کی وجہ سے پریشان ہیں”۔
حقیقت تو یہ ہے کہ عدالت کے نزدیک “قانونیت، معقولیت اور شفافیت” کا سوال تب کھڑا نہیں ہوتا جب ایک ایسے منافع بخش انٹرپرائز کو نج کاری کے لیے منتخب کیا گیا ہے جس میں حال ہی میں حکومت نے بھاری سرمایہ کاری کر کہ ایک نئی روح پھونکی ہے۔ اس کی بجائے عدالت یہ واضح کرتی ہے کہ یہ سوالات صرف نج کاری عمل کے حوالے سے قابل غور ہیں۔ اس حققیت پر نظر ڈالنے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اس فیصلے میں نج کاری کمیشن آرڈیننس 2000 کو آئین کے مطابق قرار دیا گیا ہے حالانکہ یہ آمرانہ جنرل اور صدر پرویز مشرف ایگزیکٹو فرمان کے ذریعے پاس ہوا تھا۔ یہ آرڈیننس ایگزیکٹو کو غیر ضابطگی، نج کاری، ملازمت میں کمی اور مزدور قوانین میں ترمیم کی اجازت دیتا ہے قطع نظر کہ یہ ایسی پالیساں مناسب بھی ہیں یا نہیں۔ لیکن اس حققیت پر عدالت نے کوئی بات نہیں کی۔ بخشی کے اصطلاح میں عدالت کے گمان میں بھی نہ ہوگا کہ پارلیمان، ایگزیکٹو اور دوسرے قانون ساز مقتدرہ اجتماعی طور پر منافع بخش ریاستی ادارے بری نیت سے بیچ رہے ہوں اور اس عمل میں مزدوروں کو حاصل حقوق غصب ہورہے ہوں۔
سٹیل ملز کی نج کاری کی تنسیخ کی وجوہات بیان کرتے ہوئے عدالت نے اس عمل میں موجود کئی خرابیوں کی نشاندہی کی۔ اول یہ کہ مل کے ساتھ فروخت کی جانے والی زمین صحیح کا تخمینہ صحیح طور پر نا لگایی گیا۔ دوم یہ کہ خریدنے والوں کے ایک رکن عارف حبیب گروپ فراڈ سے متعلقہ کئی مقدمات میں ملزم ہے اور اس وجہ سے بولی لگانے کا اہل نہیں۔ اور سوئم یہ کہ کئی ترامیم فروخت مکمل ہونے کے بعد کی گئیں جس کی وجہ سے حکومت کو ملازمین کو پیش کی جانے والی ایک “رضاکارانہ علیحدگی سکیم” کی مد میں 15 ارب روپے کی ادائیگی کرنی پڑی۔ عدالت کے نزدیک ان تمام خرابیوں کا مجموعی اثر یہ ہے کہ ان شرائط پر فروخت کی وجہ سے حکومت مل کے ساتھ ساتھ رقم سے بھی ہاتھ دھو رہی تھی۔
———————————————————————————————————————————
پاکستان کی کہانی سنانے میں ہماری مدد کیجیے۔ آزاد میڈیا کی تشکیل کے لیے ہماری مدد کیجیے۔
———————————————————————————————————————————
مندرجہ بالا تجزیے سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ عدالت نے نج کاری کے عمل کے من مانے طریقے کا نوٹس لیا لیکن عدالت کی کسی بھی دلیل کو نیو لبرل نظریے کے پر براہ راست حملہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مقابلے اور مارکیٹ کی جائز قیمتوں کا مطالبہ کر کے عدالت نے حقیقت میں نیو لبرل ازم کی زیادہ راسخ العقیدہ شکل رائج کرنے کی وکالت کی ہے۔ یہ اپنے آپ کو قانون کی حکمرانی، بہتر حکومت اور کرپشن مخالف بیان بازی کے فریم ورک میں رکھنے میں بھی کامیاب رہی۔ عدالت کا نکتہ نظر یہ ہے کہ نج کاری کے صحیح عمل کے لیے قانون کی بالادستی ضروری ہے لیکن قانون کو نج کاری پالیسی کے متعلق بنیادی سوالات اٹھانے اور اس کے عوام کی بھلائی سے متعلق نتائج کی تفتیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ کورٹ نے اسے اپنی تکنیکی مہارت سے باہر قرار دے کر یہ کہا کہ اس قسم کے سوالات کی وجہ سے معیشت میں تذبذب اور نااہلیت پیدا ہونے کا امکان ہے۔ یہ ہر لحاظ سے عملاً نیو لبرل ازم ہے۔ اس سے عدالتی سیاسی سرگرمی کے بارے میں ، اور خاص طور پر چیف جسٹس افتخار محمد چوھدری کے بارے میں نئے سرے سے سوچنےکی ضرورت ہے۔ اگرچہ یہ فیصلہ مشہور اور مقبول بھی ہوا لیکن یہ کسی بھی طرح سے نیا یا طاقت کے خلاف نہیں تھا۔ اور اب جب حکومت سٹیل ملز میں نقصان کی وجہ سے دوبارہ نج کاری کی طرف جارہی ہے تو اس فیصلے کی میراث اب واضح ہے۔
اس فیصلے نے قطعی طور پر جس بات کو کھول کر سامنے رکھ دیا ہے وہ یہ ہے کہ قانون اور سرمایہ داری کے درمیان تعلق کی سادہ تشریح سے آگے بڑھا جائے۔ نیو لبرل قوانین نے معیشت سے لے کر انسانیت پسندی تک کے شعبوں کو اپنے ماتحت کرلیا ہے اور اگر ہمیں نیو لبرل ازم کی ماہیت کو سمجھنا ہے تو زیادہ ذہانت سے کام لینا ہوگا۔ یہ مضمون پاکستان میں قانون اور نیو لبرل ازم کے درمیان جڑ پکڑتے ہوئے پیچیدہ تعلق کے بارے میں کچھ سوال اٹھاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عدالتوں کے مختلف فیصلوں اور اس کے ساتھ ساتھ نئے قوانین اور پالیسی فریم ورک کا تفصیلی جائزہ لیا جائے۔ ایسا مطالعہ ہمیں بعد از نوآبادیات حالات کے متعلق بہت کچھ بتا سکتا ہے۔
***
سونیہ قادر ایک وکیل اور سیاسی کارکن ہیں۔ وہ نیو یارک شہر کے دا نیو سکول آف سوشل ریسرچ سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر رہی ہیں۔
- بالکو ایمپلائز (رجسٹرڈ) بمقابلہ یونین آف انڈیا (2002 [↩]
[…] سیلاب اور امدادی کاموں میں رکاوٹ کے بارے میں لکھا ہے۔ سونیا قادر سپریم کورٹ کے سٹیل مل کیس میں دئیے فیصلے کو پڑھتی ہیں […]